کراچی؛ حوالہ ہنڈی میں ملوث ملزم گرفتار، کروڑوں مالیت کی ملکی وغیرملکی کرنسی برآمد
اشاعت کی تاریخ: 18th, February 2025 GMT
کراچی:
ایف آئی اے کارپوریٹ کرائم سرکل کراچی نےحوالہ ہنڈی اورغیر قانونی کرنسی ایکسچینج میں ملوث ملزم کوگرفتارکرکےکروڑوں مالیت کی ملکی وغیرملکی کرنسی برآمد کرلی۔
ترجمان ایف آئی اے کےمطابق ایف آئی اے کارپوریٹ کرائم سرکل کراچی نے کارروائی کے دوران حوالہ ہنڈی اورغیرقانونی کرنسی ایکسچینج میں ملوث نیٹ ورک کا اہم ملزم گرفتار کرلیا۔
ملزم کو چھاپہ مارکارروائی میں طارق روڈ پرواقع جیولری شاپ سےگرفتارکیا گیا، ملزم جیولری شاپ کی آڑ میں حوالہ ہنڈی کا کام کررہا تھا، گرفتارملزم کی شناخت باسط حسین کےنام سے ہوئی۔ چھاپہ مار کارروائی میں ملزم سے 60 لاکھ روپے اور 35 ہزارامریکی ڈالرزبرآمد ہوئے، چھاپہ مارکارروائی میں موبائل فون اورحوالہ ہنڈی سےمتعلق ریکارڈ بھی برآمد ہوا۔
ترجمان ایف آئی اے کے مطابق ملزم برآمد ہونے والی کرنسی کےحوالےسےحکام کومطمئن نہ کرسکا،چھاپہ مارکارروائی ڈائریکٹر کراچی زون کی ہدایت پر عمل میں لائی گئی،ملزم کے خلاف کارروائی خفیہ اطلاع پرعمل میں لائی گئی،اس حوالے سے تفتیش کا آغاز کردیا گیا، ہے، اوردیگرملزمان کی گرفتاری کےلیے چھاپےمارے جا رہے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ایف آئی اے
پڑھیں:
کراچی: فراڈ اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ’کال سینٹرز‘ کی تعداد میں اضافہ
---فائل فوٹو’ڈبے کے کاروبار‘ کی جڑیں کراچی میں بھی پھیلنے لگی ہیں، دن بہ دن فراڈ اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ان کال سینٹرز کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جنہیں عام زبان میں ’ڈبہ‘ کہا جاتا ہے۔
’جیو نیوز‘ کی جانب سے تیار کی گئی ایک تفصیلی رپورٹ کے مطابق یہ آن لائن اسکیمنگ کی وہ قسم ہے جس کے ذریعے غیرملکی شہریوں سے کروڑوں ڈالرز کا فراڈ کیا جا رہا ہے۔
ملک کو بدنام کرنے والا یہ غیرقانونی کام، کال سینٹرز کی آڑ میں کیا جا رہا ہے جس کے باعث قانونی طور پر کام کرنے والے کال سینٹرز اور سافٹ ویئر ہاؤسز بھی شک کے دائرے میں آ گئے ہیں۔
یہ آن لائن اسکیمنگ کی وہ قسم ہے جس کے ذریعے ڈارک ویب اور غیرملکی شہریوں سے آن لائن ڈیٹا خرید کر صارفین کے ساتھ کروڑوں ڈالرز کا فراڈ کیا جا رہا ہے۔
کراچی میں لڑکے اور لڑکیوں کو سافٹ ویئر ہاؤس یا کال سینٹر میں نوکری کا جھانسہ دے کر ’ڈبے کے کام‘ میں لگا دیا جاتا ہے اور وہ انجانے میں ان فراڈیوں کے آلۂ کار بن جاتے ہیں۔
پولیس، ایف آئی اے اور اے این ایف سمیت متعلقہ ادارے، اس دھندے کی روک تھام کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کر رہے۔