WE News:
2025-11-04@04:12:13 GMT

زچگی کے عمل کا دوسرا فریق

اشاعت کی تاریخ: 22nd, February 2025 GMT

وجائنل ڈلیوری کو آئیڈیل مانتے اور سیزیرین زچگی پر لعنت بھیجتے ہوئے بیشتر لوگ ایک بات بھول جاتے ہیں کہ ڈیلیوری کے اہم ترین فریقین میں عورت، گھر والوں اور ڈاکٹر کے علاوہ ایک اہم ترین فریق اور بھی ہوتا ہے، یعنی بچہ!

زچگی کے عمل میں عورت اور بچہ ایک ایسا سفر طے کرتے ہیں جس کا ہر پیچ وخم  ایک اندھا موڑ ہے جس کے آگے کھائی ہے یا منزل، جاننا مشکل ہے۔ سو انہیں ایک ایسا رہبر چاہیے جو بروقت بھانپ سکے کہ کس وقت کیا ہونے والا ہے اور اب کیا کرنا چاہیے۔

احباب کو بہت شوق ہے یورپ اور امریکا میں زچگی کی مثالیں دینے کا سو وہیں کی بات کر لیتے ہیں۔ یورپ اور امریکا میں ہر زچگی تربیت یافتہ مڈوائف اور ڈاکٹر کی نگہداشت میں ہوتی ہے۔ بعض مڈوائفز تو بسا اوقات ڈاکٹر سے بھی زیادہ سمجھ دار ہوتی ہیں اور ڈیوٹی ڈاکٹر کے چھکے چھڑا دیتی ہیں۔

ہمیں سعودی عرب کے جس اسپتال میں کام کرنے کا موقع ملا وہاں سب مڈوائفز ساؤتھ افریقین تھیں۔ حد سے زیادہ ہوشیار اور کائیاں کہ ڈاکٹر کی معمولی سی لغزش بھی بھانپ لیتیں اور بااعتماد اس قدر کہ شکایت کرنے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ کے پاس پہنچ جاتیں۔ ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ کی مجال نہیں تھی کہ وہ ان کی بات کو نظر انداز کریں۔ سو سب ڈاکٹرز بہت محتاط رہ کر کام کرتے اور اگر مڈوائف کسی مسلے کی نشان دہی کرتیں، ڈاکٹر فورا اس پر کان دھرتے۔ ہم نے پہلی بار وہاں جانا کہ نرسنگ اسٹاف اور مڈوائف کی اتھارٹی اور رائے کی اہمیت کیا ہوتی ہے؟

یہ بھی پڑھیں: بچہ پیدا کرنے کے لیے ویجائنا کٹوائیں یا پیٹ؟

اسٹاف کے ساتھ ساتھ یورپ اور امریکا میں زچگی کے عمل کو مسلسل سی ٹی جی کی مدد سے مانیٹر کیا جاتا ہے اور بچے کے دل کی دھڑکن کا گراف پیپر مشین سے ریکارڈ ہو کر نکلتا رہتا ہے۔ ڈیلیوری کا عمل اگر طویل ہو جائے تو 200،100 میٹر گراف تو کہیں نہیں گیا۔

ہر مریضہ کے ساتھ ایک مڈوائف زچگی کے پورے عمل کے دوران موجود رہتی ہے جو نہ صرف اس کا حوصلہ بڑھاتی ہے بلکہ اس کا پیٹ سہلاتی، پانی پلاتی، پوزیشن بدلواتی، ڈرپ لگواتی اور پیشاب کرنے میں مدد دیتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ہر انہونی کی طرف نظر رکھتی ہے خاص طور پر سی ٹی جی مشین کی طرف۔ یاد رہے کہ سی ٹی جی گراف پڑھنے میں بھی وہ ہوشیار ہے سو جونہی شائبہ ہو کہ سی ٹی جی میں کچھ گڑبڑ ہے، مڈوائف ڈاکٹر کو کال کرتی ہے کہ آکر دیکھو۔ جونیئر ڈاکٹر اگر مصروف ہو تو وہ فوراً سینیئر ڈاکٹر کا فون ملا لیتی ہے۔ کسی ڈاکٹر کی مجال نہیں کہ اس کی بات نہ سنے یا اسے جھاڑ  دے۔ بخدا جب کبھی ہمیں مڈوائف کی کال آ جاتی کہ جونیئر دوسرے کمرے میں مصروف ہے، تم پہنچو۔ ہم اسپتال کے جس کونے میں بھی ہوتے وہاں سے دوڑ لگا دیتے کہ مڈوائف ڈاکٹر کے پہنچنے کاوقت بھی نوٹ کرتی ہے اور ڈاکٹر کو سی ٹی جی گراف پر اپنی مہر لگانی ہوتی ہے کہ اس مرحلے پر ڈاکٹر پہنچ گیا تھا۔ مڈوائف کی بات سن کر اور مریضہ پلس سی ٹی جی کا معائنہ کر کے فیصلہ ڈاکٹر کو کرنا ہوتا ہے کہ اب کیا کیا جائے؟

اگر سی ٹی جی ظاہر کرے کہ بچے کو آکسیجن ٹھیک طرح نہیں مل رہی اور بچے کی طبعیت خراب ہو رہی ہے تب اگلا قدم اس آبزرویشن کو کنفرم کرنا ہے۔

وجائنا میں ایک اوزار ڈال کر بچے کے سر پر بلیڈ سے ہلکا سا کٹ لگا کر خون کے 2، 3 قطرے لیے جاتے ہیں اور انہیں ایک مشین میں ڈال کر پی ایچ چیک کی جاتی ہے۔

انسانی خون کی پی ایچ 7 اعشاریہ 2 سے زیادہ ہوتی ہے۔ اگر بچے کے خون کی پی ایچ اس سے کم ہو مگر 7 اعشاریہ ایک سے زیادہ ہو تو اس کا مطلب ہے کہ کچھ دیر انتظار کیا جا سکتا ہے۔ اگر پی ایچ 7 اعشاریہ ایک سے کم نکلے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ بچہ فوراً پیدا کروایا جائے۔ فوراً کا مطلب فوراً۔

اب یہ ہے وہ فوراً جس پر پاکستانی عوام ڈاکٹرز پر چڑھ دوڑتے ہیں کہ ابھی تک تو سب ٹھیک تھا پھر ایک دم کیسے سب بدل گیا؟

یہاں یہ بات یاد رکھیں کہ پاکستان میں نہ تو بچے کے سر سے خون کے قطرے لے کر پی ایچ چیک کرنے والا سسٹم موجود ہے، نہ ایسی مڈوائفز جو’ون ٹو ون‘ کی بنیاد پر ہر مریض کے سرہانے بیٹھیں، نہ ہر مریض کے لیے علیحدہ سی ٹی جی مشین اور نہ ہی مشین میں 200،100 میٹر گراف پیپر۔

پاکستان میں ایک انار سو بیمار کے مصداق ڈھیروں مریضوں میں ایک 2 نرسیں، ایک آدھ سی ٹی جی مشین، گراف پیپر کی قلت اور ایک 2 ڈاکٹر۔ سرکاری اسپتال ہو تو معمولی تنخواہ میں کام کر کر کے بے حال اور پرائیویٹ اسپتال ہو تو ڈاکٹر کی مہارت مشکوک۔

کوئی بھی ڈیلیوری اس وقت تک محفوظ نہیں ہے جب تک مریضہ کے پاس ’ون ٹو ون‘ نرس یا مڈوائف، مسلسل چلتی سی ٹی جی مشین اور ماہر ڈاکٹر موجود نہ ہو۔

اسی لیے جب تقابل کیا جاتا ہے یورپ اور امریکا کے لیبر روم اور سہولیات سے جن کا عشر عشیر بھی ہمارے یہاں موجود نہیں تو ہم سر پیٹ لیتے ہیں۔

ایسے حالات میں کوئی بھی درد دل رکھنے والی ڈاکٹر ماں اور بچے کی زندگی کی ذمہ داری کیسے اُٹھائے؟ اس سوال کا جواب سب کو ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیے: اگر بچہ وجائنا سے باہر نہ نکل سکے تو؟

زچگی کے عمل میں جب بچے دانی سکڑتی ہے تب بچے کو پہنچنے والی آکسیجن منقطع ہو جاتی ہے ۔ یہ وقفہ درد کا وقت ہوتا ہے یعنی یوں سمجھیے کہ ماں کو ہونے والے ہر درد میں بچے کو آکسیجن نہیں پہنچتی۔ ایک سے دوسرا درد آنے کے بیچ جو وقفہ ہوتا ہے اس میں آکسیجن کی سپلائی دوبارہ بحال ہوتی ہے۔ سو بچہ مسلسل آکسیجن کی سپلائی کی کمی اور بحالی کے عمل سے گزر رہا ہوتا ہے۔ یہ عمل سی ٹی جی مشین کے گراف پیپر پر ریکارڈ ہوتا رہتا ہے اگر سی ٹی جی مشین مسلسل چلتی رہے تو۔

ماہر ڈاکٹر اور مڈوائف آکسیجن کی کمی اور بحالی کے وقت پر نظر رکھتے ہیں۔ اگر انہیں لگے کہ آکسیجن کمی کا دورانیہ زیادہ ہو گیا ہے اور بحالی کا کم تب سوچا جاتا ہے کہ کیا کیا جائے؟

کیا بچہ ایسی جگہ پر ہے کہ اسے اوزار لگا کر نکالا جائے؟ یا ابھی وہ اس مرحلے سے دور ہے؟

اگر بچے اوزاری ڈیلیوری والی جگہ پر ابھی نہیں پہنچا اور بچے کی آکسیجن کمی کا وقت زیادہ ہوتا جا رہا ہے تب آپ بتائیے کیا کیا جائے؟

مزید پڑھیں: چھلاوہ حمل!

لیکن یاد رکھیے کہ زچگی کی اس سائنس پر مہارت ہونے کے لیے وہ سب عناصر درکار ہیں جن کا ہم نے ذکر کیا۔ یقین کیجیے یہ سب ہمیں ڈاکٹر بن کے بھی نہیں آتا تھا، اس کے پیچھے برسہا برس کی ریاضت اور بدیسی یاترا شامل ہے۔

اسی لیے تو ہمارے تصورمیں کروڑ پکا، کوٹ ادو، لیہ، قصور، احمد نگر چٹھہ ، ژوب، چترال ، اسکردو، زیارت، تھر اور ان کے آس پاس کے سب دیہاتوں میں بسنے والی عورتیں آتی ہیں کہ کیا کرتی ہوں گی وہ سب اور ان کے پیٹ میں موجود بچہ؟

آپ بھی سوچیے!

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

پی ایچ زچگی زچگی کا دوسرا فریق زچہ و بچہ سیزیرین ڈیلیوری مڈوائف مڈوائف کی اہمیت نارمل ڈیلیوری.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پی ایچ زچگی زچگی کا دوسرا فریق زچہ و بچہ سیزیرین ڈیلیوری مڈوائف نارمل ڈیلیوری یورپ اور امریکا سی ٹی جی مشین مڈوائف کی گراف پیپر زیادہ ہو ڈاکٹر کی ہوتی ہے ہوتا ہے اور بچے بچے کے ہے اور پی ایچ ہیں کہ کی بات کے لیے

پڑھیں:

رنگِ ادب کا اقبال عظیم نمبر

اُردو ادب کے ایسے شعرائے کرام جنھوں نے اپنی بساط و توفیق کے مطابق صنفِ نعت کو نئی نئی جہات سے دیکھا اور نئے نئے تجربات سے نکھارا، اُن میں پاکستان کے معروف نعت گو شاعر اقبال عظیم بھی شامل ہیں، جو آٹھ جولائی 1931 میرٹھ ، یوپی (ہندوستان) میں پیدا ہوئے، ان کا آبائی وطن قصبہ انبہٹہ، ضلع سہارن پور ہے۔

ان کو ننھیال اور ددھیال دونوں جانب سے ادبی ماحول وراثت ملا۔ ان کے نانا ادیب میرٹھی اپنے وقت کے معروف شاعر یزدانی میرٹھی کے شاگرد تھے۔ وہ صاحبِ دیوان غزل گو شاعر تھے۔ اقبال عظیم کے دادا سید فضل عظیم فضلؔ، اُردو اور فارسی زبان کے نعت گو شاعر تھے۔

اُن کے والد سید مقبول عظیم عرشؔ پولیس کے محکمے میں انسپکٹر تھے۔ وہ بھی اُردو کے بہترین غزل گو شاعر تھے۔ ان کے برادر بزرگ سید وقار عظیم برصغیر کے بلند مرتبہ تنقید نگار اور ماہرِ تعلیم اور درجنوں تصانیف کے مصنف تھے۔

اقبال عظیم کا نام علمی و ادبی دنیا میں اہم ہے۔ ادبی دنیا میں ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ انھوں نے نظم و نثر میں طبع آزمائی کی اور کئی فن پارے تخلیق کیے اب تک اُن کے کئی شعری مجموعے اور نثرکی کئی کتابیں منظرِ عام پر آ چکی ہیں، جن میں مشرقی بنگال میں اُردو ( لسانی وا دبی تذکرہ)، مضراب (غزلوں کا پہلا مجموعہ)، مضراب و رباب (غزلوں کا دوسرا مجموعہ)، لب کشا (نعتیں اور غزلیں)، نادیدہ (غزلیں)، چراغِ آخرِ شب، ماحصل ( کلیاتِ غزل)، اقبال عظیم (حیات و ادبی خدمات)، قاب قوسین ( نعتوں کا مجموعہ)، پیکرِ نور، زبورِ حرم قابلِ ذکر ہیں۔

ان کا تعلق شاعری کی کلاسیکی روایت سے تھا جب کہ انھوں نے نعت گوئی میں منفرد مقام حاصل کیا۔ وہ اپنی نعتوں میں عمدہ خیالات، حسین تراکیب، نادر الفاظ، نایاب تشبیہات اور اچھوتے استعارات کا بہترین استعمال کرتے۔ ان کی مشہورِ زمانہ نعت کے دو اشعار ملاحظہ کیجیے۔

مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ

جبیں افسردہ افسردہ، قدم لغزیدہ لغزیدہ

چلا ہوں ایک مجرم کی طرح میں جانبِ طیبہ

نظر شرمندہ شرمندہ، بدن لرزیدہ لرزیدہ

اقبال عظیم نعتیہ شاعری کی دنیا میں ایک خوشبو کی مانند تھے۔ انھوں نے اپنی نعتوں میں بہت سی احادیثِ مبارکہ کا مفہوم بھی بیان کیا ہے اور قرآنی تلمیحات کے پہلو بہ پہلو احادیث کے اشارے بھی ان کے نعتیہ کلام کا طرئہ امتیاز ہیں۔

اقبال عظیم اپنے عہد کے قادر الکلام شاعر تھے اور دنیائے غزل میں ایک مسلمہ حیثیت کے حامل بھی تھے لیکن نعت گوئی یعنی حضورؐ کی محبت ان سارے معاملات میں سبقت لے گئی اور وہ حضورؐ کی محبت میں سرشار و مخمور زندگی کے آخری ایام تک مدحتِ سرکارِ دور عالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ترانے گاتے رہے۔

’’ ماحصل‘‘ یہ اقبال عظیم کا ’’ کلیاتِ غزل‘‘ ہے، جس کے پہلے ایڈیشن میں حمد، مناجات ، قطعات، نعتیں اور غزلیں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ اس کلیات کو بزم خدام الاادب نئی دہلی سے شایع کیا گیا۔

’’رنگ ادب‘‘ کے اقبال عظیم نمبر میں اقبال عظیم بہ حیثیت غزل گو حصے میں اجازت طلبی، اجازت نامہ خطوط کے بعد پہلا مضمون پروفیسر نظیر صدیقی کا پڑھنے کو ملتا ہے، جس میں وہ اقبال عظیم کی غزل گوئی کے بارے میں کچھ اس طرح سے رقم طراز ہے کہ ’’ اقبال عظیم بنیادی طور پر غزل گو شاعر ہیں، وہ غزل اور شاعری کے فنی اور جمالیاتی مطالبات کو نہ صرف اچھی طرح سمجھتے ہیں بلکہ ان سے عہدہ برآ ہونے میں غیر معمولی طور پر کامیاب رہے ہیں۔ 

اپنی شاعری میں انھوں نے جس خلوص اور درد مندی کے ساتھ وطن کے المیے کو موضوعِ سخن بنایا ہے اور اس موضوع پر جتنے خوبصورت اور موثر شعر کہے ہیں، اس کی مثال موجودہ پاکستانی شاعری میں کم ملے گی اور مشکل سے ملے گی۔

غالباَ یہ کہنا مبالغہ نہ ہو گا کہ ’’مضراب‘‘ فکر وفن دونوں کے اعتبار سے اُردو شاعری کے سرمائے میں ایک اہم اور قابلِ قدر اضافہ ہے۔‘‘ جب کہ پروفیسر نظیر صدیقی، ڈاکٹر ابواللیث صدیقی، سید محمد ابو الخیرکشفی، ڈاکٹر محمد رضا کاظمی، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، سلیم احمد، جسٹس نور العارفین، ابوالبیان ظہور احمد فاتح، ڈاکٹر رانا خالد محمود قیصر، نسیمِ سحر، روبینہ شاد و دیگر اہلِ قلم کے مضامین شامل ہیں۔

ان کی غزلوں کے بہت سے اشعار میں متصوفانہ افکار کی جھلک بھی دیکھنے کو ملتی ہے جس سے اس بات کا دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ اقبال عظیم ایک صوفی شاعر تھے۔

رنگِ ادب کے اس خاص شمارے میں اقبال عظیم بہ حیثیت نعت گو حصے میں صفحہ نمبر ۱۳۵ پر اقبال عظیم کا مضمون ’’ سخن گسترانہ‘‘ پڑھنے کو ملتا ہے جب کہ دیگر قلم کاروں میں نا صر حیات، ابو الاثر حفیظ جالندھری، ڈاکٹر سید محمد ابوالخیرکشفی، احسان دانش، اے کے سومار، سید وقار احمد رضوی، ڈاکٹر اسلم فرخی، ڈاکٹر انور سدید، پروفیسر علی حیدر ملک، سید صبیح الدین صبیح رحمانی، اکرم کنجاہی، نسیمِ سحر، ڈاکٹر فہیم شناس کاظمی اور مجھ خاکسار سمیت بہت سے قلم کاروں کے مضامین پڑھنے کو ملتے ہیں۔

’’اقبال عظیم بہ حیثیت تخلیق کار‘‘ میں ڈاکٹر انور سدید کا مضمون بعنوان ’’ بینائی سے محروم اور بصیرت سے سرفراز شاعر اقبال عظیم‘‘ ، ابنِ انشاء کا ’’دخل در معقولات‘‘، مولانا ماہر القادری کا ’’ اقبال ہماری نظر میں‘‘ جس میں وہ صفحہ نمبر ۲۷۶ پر لکھتے ہیں کہ ’’ اقبال عظیم پر شعر کا نزول نہیں ہوتا یعنی جسے ’’آمد‘‘ کہتے ہیں وہ حالت طاری نہیں ہوتی بلکہ وہ انتظار کرتے رہتے ہیں کہ خیال، جذبہ یا احساس پہلے ان کے وجود کا مکمل جز بن جائے۔‘‘ محمد طفیل کی ’’کچھ باتیں اقبال عظیم کے بارے میں‘‘ یہ مضمون پڑھنے سے خاص تعلق رکھتا ہے۔

’’اقبال عظیم بہ حیثیت تخلیق کار‘‘ میں پروفیسر آفاق صدیقی، ڈاکٹر ساجد امجد، پروفیسر ہارون الرشید، ڈاکٹر عنبر عابد، مولانا محی الدین انصاری ودیگر کے مضامین شاملِ اشاعت ہیں جب کہ ایس اے مینائی، انوار عنایت اللہ کے انگریزی مضامین پڑھنے کو ملتے ہیں۔

رنگِ ادب کے ’’اقبال عظیم نمبر‘‘ کے صفحہ نمبر337 پر خطوط اور پیغام کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جس میں کمال الدین ظفر، سعید صدیقی، حکیم محمد سعید، ڈاکٹر جمیل جالبی، فضل الرحمن، ابوالخیر کشفی اور سید ثروت ضحی کے خطوط اور پیغامات پڑھنے کو ملتے ہیں۔ اسی طرح منظوم خراجِ تحسین بھی اقبال عظیم کی خدمت میں پیش کیا گیا ہے۔ سہیل غازی پوری کے دواشعار:

نعت گوئی میں جو مشہور تھے اقبال عظیم

ہاں! غزل سے بھی کہاں دور تھے اقبال عظیم

ان کی آنکھوں میں بصارت کی کمی تھی لیکن

یہ بھی سچ ہے دلِ پُرنور تھے اقبال عظیم

’’رنگِ ادب‘‘ کے اس خاص اور تاریخی کارنامے میں ’’ اقبال عظیم کی نگارشات نثری اور شعری دونوں کو آخری چند صفحات میں شامل کیا گیا ہیں۔ رنگ ادب کا ’’اقبال عظیم نمبر‘‘ موجودہ اور آنیوالے صدیوں تک اقبال عظیم پر تخلیقی جہتوں سے سراب ہونیوالے اہلِ علم و ادب، شائقین وقارئینِ شعر و سخن، ناقدینِ فن اور مشاہیرِ اُردو ادب کے ساتھ ساتھ تشنگانِ علم اور طالبانِ ادب اور محققین کے بھی کام آتا رہے گا۔

’’رنگِ ادب کا اقبال عظیم نمبر ‘‘خوبصورت سر ورق کے ساتھ368 صفحات پر مشتمل ایک ضخیم جلد میں شاعر علی شاعر کو اپنے ادارے رنگِ ادب سے شایع کرنے کا اعزاز حاصل ہُوا ہے، ایسے بہت سے اعزازات کے وہ پہلے بھی حق دار قرار پا چکے ہیں۔

آخر میں جاتے ہوئے میں رنگِ ادب کی تمام ٹیم اور اقبال عظیم کے فرزند شاہین اقبال کو اس خوبصورت اشاعت پر ڈھیروں مبارکباد کے گلدستے پیش کرتا ہوں۔

متعلقہ مضامین

  •  پائیمک کا دوسرا ایڈیشن 3 سے 6 نومبر تک کراچی ایکسپو سینٹر میں منعقد ہوگا، وائس ایڈمرل محمد
  • گرین لائن کا دوسرا مرحلہ ایک سال میں مکمل کیا جائے گا، احسن اقبال
  • بھارتی ہواؤں سے پنجاب کی فضا مضر صحت، آلودہ ترین شہروں میں لاہور کا دوسرا نمبر
  • بھارتی ہواؤں سے پنجاب کی فضا مضر صحت، آلودہ ترین شہروں میں لاہور کا دوسرا نمبر
  • خرابات فرنگ
  • ترکیہ کے رنگ میں رنگا پاکستان
  • میرا لاہور شہربے مثال کے کچھ خوب صورت نظارے (دوسرا حصہ)
  • رنگِ ادب کا اقبال عظیم نمبر
  • کراچی: ٹرالر کی ٹکر سے بائیک سوار طالب علم بحق، دوسرا زخمی
  • کراچی: ٹرالر کی ٹکر سے موٹر سائیکل سوار طالب علم بحق، دوسرا زخمی