مردہ شخص کا شناختی کارڈ استعمال کر کے بیرون ملک فرار ہونے والا قاتل کیسے گرفتار ہوا؟
اشاعت کی تاریخ: 30th, October 2025 GMT
رات بھر بارش کے باعث موسم خوشگوار تھا، بادلوں نے آسمان کو گھیرا ہوا تھا، پرندے چہچہا رہے تھے، صبح ساڑھے 6 بجے کا وقت تھا اور اسلام آباد پولیس کے انسپیکٹر راجہ ظہور اقبال بھی ڈیوٹی پر جانے کے لیے اپنی گاڑی کے انتظار میں ایک دکان کے باہر چبوترے پر بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد پولیس کی بڑی کارروائی، چوریوں میں ملوث منظم گروہ کا اہم رکن گرفتار
دکان میں موجود ان کے خالہ زاد بھائی سہیل انجم نے تھوڑی دیر پہلے ہی دکان کھولی تھی اور چیزوں کو ترتیب دے رہے تھے کہ اچانک ایک سفید سوزوکی مہران آکر رکی جس میں سے 2 افراد نیچے اترے اور کہنے لگے کہ تمہیں سہیل وغیرہ کی مدد کرنے کا مزہ چکھاتے ہیں اور ساتھ ہی گاڑی سے کلاشنکوف نکال کر راجہ ظہور اقبال کو گولیوں سے چھلنی کردیا۔
سہیل انجم فائرنگ کی اواز سن کر سہم گئے تاہم اس دوران حملہ آوروں کی نظر پڑی اور انہوں نے دکان پر بھی گولیاں چلا دیں جس پر سہیل انجم پچھلے دروازے سے فصلوں کی جانب بھاگے اور اس طرح اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوگئے۔
راجہ ظہور اقبال پولیس اکیڈمی سہالہ میں انسپیکٹر تھے اور ان کا تعلق سہالہ میں موجود گاؤں جنڈالہ سے تھا۔ ان عمر تقریباً 59 برس تھی اور ریٹائرمنٹ کے قریب تھے۔ وہ روز ڈیوٹی پر جانے کے لیے صبح ساڑھے 6 بجے اپنے محلے کے باہراپنے خالہ زاد بھائی سہیل انجم کی دکان پر اپنی گاڑی کا انتظار کرتے تھے۔ وہ کبھی کسی گاؤں کے فرد کے ساتھ گپ شپ لگالیتے تو کبھی اخبار پڑھنے میں مشغول ہوجاتے۔
17 اگست 2010 کو بھی معمول کے مطابق راجہ ظہور اقبال ڈیوٹی پر جانے کے لیے گاڑی کے انتظار میں اخبار پڑھ رہے تھے کہ اس دوران سفید سوزوکی مہران جس کا نمبر FDM-686 تھا اور اس کو نا کا ہی ایک رشتہ دار عنصر محمود چلا رہا تھا جبکہ ناصر محمود اور اس کا بھتیجا تحسین بھی گاڑی میں موجود تھا۔
مزید پڑھیے: فرائض میں غفلت برتنے پر اسلام آباد پولیس کے 2 اہلکار نوکری سے فارغ، 12 ایس ایچ اوز کی سروس ضبط
ناصر محمود اور اس کے بھتیجے تحسین نے گاڑی سے کلاشنکوف نکال کر راجہ ظہور پر یہ کہتے ہوئے فائرنگ شروع کر دی کہ تمہیں مزہ چکھاتے ہیں، کلاشنکوف کا ایک برسٹ فائر ہونے کے بعد جب راجہ ظہور فائر کرنے والے ناصر محمود کی جانب بڑھے تو اس نے دوسرا برسٹ فائر کر دیا جس سے راجہ ظہور گر گئے اور چونکہ ان کو بہت زیادہ گولیاں لگ چکی تھی اس لیے ان کی موت وہیں واقع ہو گئی۔
فائرنگ کی آواز سن کر محلے کے لوگ دکان کی جانب آئے تو ناصر محمود اور تحسین گاڑی میں بیٹھ کر جاپان روڈ کی جانب گئے اور وہاں سے فرار ہو گئے۔
راجہ ظہور اقبال کی نعش کو پوسٹ مارٹم کے لیے پمز اسپتال منتقل کیا گیا اور پوسٹ مارٹم رپورٹ میں سے معلوم ہوا کہ راجہ ظہور اقبال کے جسم کے ہر حصے پر گولیاں لگی ہیں۔
اس قتل کے 15 سال سے زائد عرصے کے بعد ناصر محمود کو انٹرپول کی مدد سے سعودی عرب سے ڈی پورٹ کروا کر پاکستان لایا گیا ہے اور وہ اس وقت اڈیالہ جیل میں پابند سلاسل ہے۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد پولیس کے خصوصی سیکیورٹی اقدامات، کوئیک ریسپانس ٹیمیں مستعد
ناصر محمود کے علاوہ بیرون ملک سے سنگین جرائم میں مطلوب 130 سے زائد دیگر ملزمان کو بھی پاکستان لایا گیا ہے۔ نیشنل سینٹرل بیورو کے مطابق مختلف ممالک فرار ہوجانے والے انٹرپول کی مدد سے گرفتار ہوئے جبکہ 36 ملزمان کو بیرون ملک آمد و رفت کے دوران حراست میں لیا گیا۔ گرفتار ملزمان میں پنجاب، خیبر پختونخوا اور اسلام آباد پولیس کو مطلوب افراد شامل ہیں۔
نیشنل سینٹرل بیورو کے مطابق یو اے ای میں 45، سعودی عرب میں 12 اور عمان میں 13 ملزمان پکڑے گئے ہیں۔ انٹرپول پاکستان نے بین الاقوامی اداروں کے تعاون سے کینیڈا، کویت، اٹلی، اسپین، آسٹریلیا، فرانس، ترکی، جاپان سمیت 11 ممالک سے 14 ملزمان کی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے۔
دوسری جانب اوورسیز پاکستانیز کی وزارت کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ سنہ 2022 سے سنہ 2025 کے دوران 18,533 پاکستانی قیدی مختلف ممالک سے وطن واپس لائے گئے ہیں جن میں سب سے زیادہ ملائیشیا سے 5 ہزار908، عمان 5 ہزار 435، عراق 3,570 اور سعودی عرب سے ایک ہزار 563 قیدی شامل ہیں۔؎
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق دنیا کے 76 ممالک میں 21,406 پاکستانی قید ہیں۔ سعودی عرب میں 10,423 اور متحدہ عرب امارات میں 5,297 پاکستانی جیلوں میں ہیں جو مجموعی قیدیوں کا 70 فیصد سے زائد بنتے ہیں۔
دیگر ممالک میں ترکی ایک ہزار 437، بھارت 738، چین 400، بحرین 450، قطر 338، عمان 309، ملائشیا 255 اور افغانستان 88 پاکستانی قیدی ہیں۔
وی نیوز نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ پولیس انسپیکٹر راجہ ظہور اقبال کے قتل میں ملوث ناصر محمود بیرون ملک کیسے فرار ہوا اور پولیس نے 15 سال بعد ملزم کو کیسے گرفتار کیا۔
یہ بھی پڑھیے: اسلام آباد پولیس کی کارروائی، منشیات فروشی میں ملوث میاں بیوی گرفتار
تھانہ سہالہ کے ایس ایچ او ذوالفقار علی نے وی نیوز کو بتایا کہ ملزم ناصر محمود نے سنہ 2010 میں انسپکٹر راجہ ظہور کو فائرنگ کر کے قتل کیا تھا جس کے بعد وہ روپوش ہو گیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ناصر محمود نے بیرون ملک فرار ہونے کے لیے ایک ملتان کا رخ کیا اور وہاں پر ایک مردہ شخص کا شناختی کارڈ استعمال کرتے ہوئے اپنی تصویر اور جعلی تفصیلات کے ساتھ نیا شناختی کارڈ بنوایا، اس شناختی کارڈ کی بنیاد پر ناصر محمود نے اپنی شناخت تبدیل کی اور پاسپورٹ حاصل کر کے سنہ 2011 میں بیرون ملک سعودی عرب کا ویزا حاصل کرکے فرار ہو گیا۔
ایس ایچ او ذوالفقار علی کے مطابق ناصر محمود گزشتہ 14 سالوں سے سعودی عرب میں موجود اپنے بھائی کے ساتھ رہائش پذیر تھا اور وہاں ٹرک ڈرائیور کی نوکری کرتا تھا۔
گزشتہ 14 سالوں میں ملزم ناصر محمود اپنی شناخت تبدیل کر کے سعودی عرب میں مختلف جگہوں پر رہائش پذیر رہا اور وہاں کام کرتا رہا۔
اسلام آباد پولیس ناصر محمود کے نام سے ملزم کو تلاش کرتی رہی اور گزشتہ سال معلوم ہوا کہ ناصر محمود ملتان چلا گیا تھا اس دوران پولیس کو خبر ملی کہ ناصر محمود نے مردہ شخص کے شناختی کارڈ کو استعمال کر کے جعلی شناختی کارڈ بنایا ہے اور اس کی بنیاد پر پاسپورٹ حاصل کر لیا ہے۔
پولیس نے جب اس پاسپورٹ کی تفصیلات حاصل کیں تو معلوم ہوا کہ نام اور دیگر تفصیلات کسی اور شخص کی ہیں البتہ تصویر ناصر محمود کی ہے جس پر ریکارڈ چیک کیا گیا تو معلوم ہوا کہ ناصر محمود اپنی شناخت تبدیل کر کے سنہ 2011 میں سعودی عرب روانہ ہو چکا ہے۔
پولیس نے متعلقہ فورم کے ذریعے سعودی عرب سے رابطہ کیا اور ملزم کے دونوں شناختی کارڈ اور تصاویر فراہم کیں جس پر اس کی شناخت کر لی گئی اور 4 ماہ قبل اسے گرفتار کر لیا گیا اور سعودی عرب کی جیل منتقل کر دیا گیا۔
ایس ایچ او ذوالفقار علی نے کہا کہ اس کے بعد انٹرپول کے ذریعے ہی پولیس کو آگاہ کیا گیا کہ آپ کا ملزم گرفتار کر لیا گیا ہے اور اسے ڈی پورٹ کیا جا رہا ہے۔
ناصر محمود کو سعودی پولیس اہلکار پاکستان میں اسلام آباد ایئرپورٹ تک چھوڑنے بھی آئے تھے۔ پولیس ٹیم نے اسلام آباد ایئرپورٹ پر ناصر محمود کو باضابطہ طور پر ایف آئی اے کے تعاون سے وصول کیا۔
ایس ایچ او ذوالفقار علی نے بتایا کہ تفتیش کے دوران انکشاف ہوا کہ قتل کا سبب خاندانی جھگڑا تھا۔ ملزم ناصر محمود نے اپنی بہن اور بہنوئی کے انتقال کے بعد اپنی 2 بھانجیوں کو پالا تھا اور ان میں سے ایک ثمینہ کا رشتہ اپنے بھتیجے تحسین کے ساتھ طے کر دیا تھا اور نکاح بھی کر دیا تھا البتہ رخصتی نہیں ہوئی تھی۔
بھانجی ثمینہ اس رشتے سے ناخوش تھی لہٰذا اس نے گھر سے فرار ہو کر دارالامان میں پناہ لے لی۔ بعد ازاں عدالت کے ذریعے تحسین سے خلع لینے کے بعد ثمینہ نے عدت پوری کی اور پھر سہیل انجم سے شادی کر لی۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد پولیس کی قانون شکنوں کیخلاف کارروائی، 36 افراد گرفتار
پولیس کے مطابق ثمینہ اور سہیل انجم اس وقت بھی رشتہ ازدواج میں ہیں اور ان کے 3 بچے بھی ہیں۔ ثمینہ کے اس اقدام پر ناصر محمود کو بہت غصہ تھا کہ اس کے بھتیجے تحسین سے شادی ختم کر کے دور کے رشتے دار سے شادی کرلی اور اس سارے معاملے میں پولیس انسپیکٹر راجہ ظہور اقبال نے اس کی مدد کی۔ اس بنیاد پر ملزم ناصر محمود نے راجہ ظہور اقبال کو قتل کر دیا۔
مقتول انسپکٹر راجہ ظہور، جو دونوں فریقین کے رشتہ دار تھے، صلح و صفائی کی کوششوں میں مصروف تھے تاہم ملزم نے انہی کو نشانہ بنادیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسلام اباد اسلام آباد پولیس انٹرپول انسپیکٹر راجہ ظہور اقبال قتل کیس.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسلام اباد اسلام ا باد پولیس انٹرپول اسلام ا باد پولیس ناصر محمود کو کہ ناصر محمود معلوم ہوا کہ شناختی کارڈ اسلام آباد سہیل انجم بیرون ملک سے گرفتار پولیس کے کے مطابق اور وہاں کی جانب رہے تھے کے ساتھ فرار ہو تھا اور کی مدد کے بعد کے لیے کر دیا اور وہ اور ان اور اس
پڑھیں:
شناختی کارڈ مفت؟ نادرا کی بڑی خوشخبری
نادرا نے شہریوں کو پہلا شناختی کارڈ مفت فراہم کرنے کا اعلان کردیا۔نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) نے سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ حکومت کی جانب سے عوام کے لیے بڑی سہولت فراہم کی گئی اور شہری پہلا شناختی کارڈ (بغیر اسمارٹ چپ) بالکل مفت حاصل کرسکتے ہیں۔شناختی کارڈ بنوانے کے لیے شہری نادرا مرکز جائیں اور 15 دنوں میں بغیر کسی فیس کے پہلی مرتبہ بننے والا کارڈ حاصل کریں۔نادرا کے اس اقدام کو شہریوں کی جانب سے سراہا جارہا ہے اور درخواست کی جارہی ہے کہ یہ سہولت پاک آئی ڈی موبائل ایپ پر بھی دستیاب کی جائے۔
گزشتہ دنوں (نادرا) نے کراچی اور اندرون سندھ کے مختلف اضلاع میں 200 جونیئر ایگزیکٹیوز (ڈیٹا انٹری آپریٹرز) کی بھرتی کا اعلان کیا تھا. یہ اقدام نادرا کی خدمات کو بہتر بنانے اور شہریوں کی سہولت کے لیے کیا گیا۔واک ان انٹرویوز 3 نومبر 2025 سے شروع ہوں گے، بھرتی کا دائرہ کراچی کے پانچ اضلاع اور اندرون سندھ کے نو اضلاع پر محیط ہوگا، جن میں میرپورخاص، میرپور ساکرو، کوٹری، ماتھیری، چچرو، جھودو، میرپور تھارو، ٹنڈو اللہیار، جامشورو، ٹھٹہ اور سجاول شامل ہیں۔اہلیت کے معیار کے مطابق امیدوار کم از کم انٹرمیڈیٹ تعلیمی قابلیت کے حامل ہوں، اور زیادہ سے زیادہ عمر 25 سال ہونی چاہیے۔انتظامیہ نے بتایا کہ اس توسیعی منصوبے کا مقصد نیم شہری اور دیہی علاقوں میں نادرا کی رسائی کو بہتر بنانا، شہریوں کو تیز تر خدمات فراہم کرنا اور مقامی نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہے۔متعدد اضلاع میں نئے علاقائی دفاتر قائم کیے جائیں گے. جس کے لیے زمین خریدنے کا عمل جاری ہے۔