سلامتی کونسل نے امریکا کی روس اور یوکرین جنگ کے خاتمے سے متعلق قرارداد منظور کرلی
اشاعت کی تاریخ: 25th, February 2025 GMT
نیویارک(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔25 فروری ۔2025 )اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے امریکی حکومت کی جانب سے روس اور یوکرین جنگ کے خاتمے سے متعلق قرارداد منظور کرلی ہے امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق امریکا نے یوکرین کے بارے میں اقوام متحدہ کی 2 قراردادوں پر ووٹنگ میں روس کا ساتھ دیا ہے.
(جاری ہے)
قرارداد میں روس کو جارح قرار دینے یا یوکرین کی علاقائی سالمیت کو تسلیم کرنے سے گریز کیا گیا ہے امریکا کے ساتھ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل نشستیں رکھنے والے برطانیہ اور فرانس کے علاوہ روس اور چین نے دوسری رائے شماری میں حصہ نہیں لیا اسی طرح غیر مستقل ارکان ڈنمارک، یونان اور سلووینیا نے بھی ایسا ہی کیا. یوکرین پر روس کے حملے کی تیسرے سال کے موقع پر ہونے والی یہ ووٹنگ ایک بار پھر مغربی اتحادیوں کے درمیان گہری تقسیم کی عکاسی کرتی ہے کیوں کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرین کے لیے امریکی حمایت کو ختم کر دیا ہے جو دیرینہ خارجہ پالیسی سے انحراف کا اشارہ ہے. ٹرمپ انتظامیہ نے کیف اور یورپ کو ایک طرف کر دیا ہے کیوں کہ امریکا نے ممکنہ امن معاہدے پر ماسکو کے ساتھ بات چیت شروع کر دی ہے یورپی حمایت یافتہ قرار داد کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 93 ووٹوں سے منظور کیا گیا تھاجس میں روسی فیڈریشن کی جانب سے یوکرین پر جاری مکمل حملے پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا یوکرین، علاقائی استحکام اور عالمی سلامتی کے لیے اس کے تباہ کن اور دیرپا نتائج پر روشنی ڈالی گئی تھی. جنرل اسمبلی میں یورپی قرارداد میں یوکرین کی سرزمین سے روس کے مکمل اور غیر مشروط انخلا کا مطالبہ کرتے ہوئے کشیدگی میں کمی، فوری جنگ بندی اور تنازع کے پرامن حل کا مطالبہ کیا گیا تھاامریکا کی جانب سے پیش کی جانے والی قرارداد میں روسی جارحیت یا یوکرین کی علاقائی سالمیت کا حوالہ شامل نہیں کیا گیا بیان میں تنازع کے فوری خاتمے پر زور دیا گیا اور بین الاقوامی امن و سلامتی برقرار رکھنے میں اقوام متحدہ کے کردار پر زور دیا گیا. امریکی چارج ڈی افیئرز ڈوروتھی شیا نے قرارداد کی منظوری کو تنازع کے خاتمے کی جانب اہم پہلا قدم قرار دیا یوکرین کی نائب وزیر خارجہ ماریانا بیتسا نے کہا کہ ہمیں اس بات کی دوبارہ تصدیق کرنے کی ضرورت ہے کہ جارحیت کی مذمت کی جانی چاہیے ناں کہ انعام دیا جانا چاہیے دوسری جانب فرانس کے صدر ایمانول میکرون نے خبردار کیا ہے کہ امن کا مطلب یوکرین کے ہتھیار ڈالنا نہیں ہو سکتا تاہم ان کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ مذاکرات نے بحر اوقیانوس میں دراڑ پڑنے کے خدشے کے باوجود آگے بڑھنے کا راستہ دکھایا ہے.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اقوام متحدہ کی کی جانب سے یوکرین کی تنازع کے کیا گیا
پڑھیں:
عراقچی کی تقریر منسوخ کردی گئی: اقوام متحدہ میں ایران کے مشن کی وضاحت
یہ اعلان کہ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی ایک کارنیگی انڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس کانفرنس میں تقریر کریں گے بہت سے ان لوگوں کے لیے حیران کن تھا جو ایرانی معاملے پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ خاص طورپر ایران سے متعلق حالیہ پیش رفت کے تناظر میں تو یہ اعلان زیادہ تعجب خیز تھا۔ تاہم پھر اچانک عباس عراقچی کی تقریر کو منسوخ کردیا گیا۔
اقوام متحدہ میں ایرانی مشن نے واضح کیا ہے کہ وزیر خارجہ کی تقریر جو پیر کو کارنیگی انڈومنٹ کانفرنس میں ویڈیو لنک کے ذریعے پیش کی جانی تھی، تبدیلیوں کے بعد منسوخ کر دی گئی۔
تقریر مباحثہ میں تبدیل
ایرانی مشن نے پلیٹ فارم ’’ایکس‘‘ پر اپنی ایک پوسٹ میں کہا کہ یہ منسوخی اس وقت ہوئی جب آرگنائزنگ باڈی نے تقریر کی شکل کو بحث میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ ایرانی مشن نے منتظمین کے اس فیصلے پر افسوس کا اظہار بھی کیا اور عندیہ دیا کہ عراقچی کی تقریر کا مکمل متن مناسب وقت پر شائع کیا جائے گا۔
اس سے قبل اپنی پریس کانفرنس کے دوران وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام بین الاقوامی ایٹمی پالیسی کانفرنس میں عباس عراقچی کی شرکت کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیا اور کہا کہ وزیر خارجہ کو دعوت پہلے ہی دی جا چکی ہے۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ مجھے یقین ہے کہ سیشن آج سہ پہر 4 سے 5 بجے کے درمیان مقامی وقت کے مطابق ہوگا۔۔ انہوں نے امید ظاہر کی تھی کہ وزیر کا شیڈول انہیں شرکت کرنے اور آن لائن تقریر کرنے کی اجازت دے گا۔ عراقچی جو امریکی فریق کے ساتھ اپنے ملک کے مذاکرات کی قیادت کر رہے ہیں کو مذاکرات کا ماسٹر قرار دیا جا رہا ہے۔ وہ تجربہ کار سیاست دان ہیں اور ان کے پاس برسوں کا سفارتی تجربہ بھی ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سال ایرانی صدر مسعود پیزشکیان نے انہیں وزیر خارجہ کا عہدہ قبول کرنے پر مجبور کیا تھا۔ عراقچی ملنسار آدمی ہیں اور مشکل مذاکرات کے ماہر کے طور پر شہرت رکھتے ہیں۔ انہوں نے ان مذاکرات میں کلیدی کردار ادا کیا تھا جس کی وجہ سے ایران اور مغرب کے درمیان 2015 کے جوہری معاہدے پر عمل درآمد ہوا تھا۔
Post Views: 2