رمضان المبارک میں چاروں صوبے عوام کو کیا ریلیف دیں گے؟
اشاعت کی تاریخ: 26th, February 2025 GMT
پاکستان میں رمضان المبارک کی آمد آمد ہے اور اس حوالے سے ملک میں خاص تیاری بھی کی جاتی ہے لیکن گزشتہ چند برسوں سے یہ تیاریاں مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ بڑھتی ہوئی مہنگائی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم غریب عوام کو رمضان پیکج میں کیا کیا ریلیف دیں گے؟
ہر حکومت بارہا یہ دعوے تو کرتی ہے کہ اس نے مہنگائی پر قابو پالیا ہے مگر حقیقت میں ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ اس بار بھی رمضان سے قبل ملک بھر میں حکومتی اجلاس جاری ہیں اور ہر طرف سے یہی خبریں آرہی ہیں کہ عوام کو جلد اچھی خبر ملے گی۔
یہی وجہ ہے کہ وی نیوز نے یہ جاننے کی کوشش کہ پاکستان کے چاروں صوبوں میں موجود حکومتیں اس حوالے سے کیا اقدامات کررہی ہیں؟ کیا وہاں کوئی خاص پیکج کا اعلان ہوا یا پھر قیمتوں میں کمی کے حوالے سے کوئی حکمت عملی ترتیب دی گئی ہے؟ تو آئیے اس حوالے سے ایک تفصیلی جائزہ لیتے ہیں۔
پنجاب حکومت عوام کو سہولت کی فراہمی کے لیے کیا کررہی ہے؟لاہور سے وی نیوز کے رپورٹر عارف ملک کے مطابق حکومت پنجاب ’نگہبان رمضان پروجیکٹ‘ کے لیے پاکستان پوسٹ کے ذریعے 30 لاکھ خاندانوں کو ریلیف دے گی۔
25 فروری سے نگہبان رمضان پروجیکٹ کے تحت مستحق خاندانوں کو 10 ہزار روپے دیے جائیں گے۔ اس رقم کی ادائیگی پے آرڈر کے ذریعے کی جائے گی۔
منصوبے کے تحت بینک آف پنجاب لاہور پاکستان پوسٹ آفس کو روزانہ 5 لاکھ پے آرڈرز انشورڈ لیٹرز کی صورت میں جاری کرے گا جو پاکستان پوسٹ صوبے بھر میں مستحقین تک پہنچائے گا۔
محکمہ ڈاک کے ڈائریکٹر جنرل سمیع اللہ خان کی ہدایت پر بکنگ، پراسیسنگ اور خصوصی ترسیل کے لیے تمام تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں۔
مزید پڑھیے: رمضان پیکج کی تقسیم آج سے شروع ہو کر 20 رمضان المبارک تک جاری رہےگی: وزیر اطلاعات پنجاب
پروجیکٹ کی تکمیل تک پنجاب کے ڈاکخانوں کے تمام عملے کی ہر طرح کی چھٹیوں اور تبادلوں پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ پروجیکٹ کے دوران ملازمین صبح ساڑھے 8 بجے سے کام شروع کریں گے تاہم چھٹی کا کوئی وقت مقرر نہیں ہوگا۔ تاحکم ثانی پنجاب پوسٹ کی ہفتہ اتوار سمیت تمام چھٹیاں بند کر دی گئی ہیں۔ پروجیکٹ کی تکمیل تک 24 گھنٹے کام ہو گا۔
قواعد کے مطابق حکومت پنجاب کے فوکل پرسن مکمل تیار شدہ لفافے پاکستان پوسٹ کے حوالے کریں گے۔ بینک آف پنجاب ان لفافوں پر پاکستان پوسٹ کے فراہم کردہ اسکین شدہ بارکوڈز لگائے گا۔ تیار شدہ لفافے مستحق افراد کی فہرست کے مطابق وقت پر دستیاب ہوں گے۔ ہر آرٹیکل کے لیے پروف آف ڈیلیوری (POD) حاصل کیا جائے گا۔ کوئی پوسٹ آفس اہلکار جعلی ترسیلی ریمارکس دے گا تو اس کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کی جائے گی۔ منصوبے میں کام کرنے والے افسران و اہلکاروں کو بہترین کارکردگی پر پرکشش اعزازیہ سے نوازا جائے گا۔
کچھ اضلاع اور تحصیلوں میں اس سال سے رمضان بازار لگائے جائیں گے۔ اس حوالے سے کیلے کی ایکسپورٹ کو روک دیا گیا ہے تاکہ اس کی قمیت نہ بڑھ سکے۔ واضح رہے کہ رمضان میں کیلے کا استعمال 5 گناہ بڑھ جاتا ہے۔
حکومت کی جانب سے اس دفعہ نگہبان رمضان پیکج کے تحت ہر ضرورت مند گھرانے کو 10 ہزار روپے دیے جائیں گے۔ صوبے کے 30 لاکھ لوگ اس پیکج سے مستفید ہوں گے۔
اس پروجیکٹ کے لیے 30 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ جن گھرانوں کو یہ پیسے ملیں گے ان کو وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کا خط بھی دیا جائے گا۔
بلوچستان حکومت عوام کو کیا ریلیف دے رہی ہے؟کوئٹہ سے وی نیوز کے رپورٹر غالب نہاد کے مطابق ملک کے دیگر صوبوں کی طرح بلوچستان حکومت نے بھی عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے اقدامات شروع کردیے ہیں۔
ان اقدامات کے تحت صوبے بھر کے تمام اضلاع میں ضلعی انتظامیہ کے زیر نگرانی سستے بازار لگائے جائیں گے۔
ڈپٹی کمشنر کوئٹہ سعد بن اسد کی زیر صدارت رمضان المبارک میں سستے بازار کا انعقاد اور بازار میں اشیائے خورونوش کی قیمتوں کے تعین کے حوالے سے اجلاس منعقد ہوا جس میں تمام سب ڈویژنز کے اسسٹنٹ کمشنرز، محکمہ انڈسٹری،ایگریکلچرمارکیٹ کمیٹی، محکمہ لیبر و دیگر محکموں کے نمائندوں اور انجمن تاجران کے نمائندگان نے شرکت کی۔
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ کوئٹہ میں 3 مقامات پر سستے بازار لگائیں جائیں گے۔ مین سستا بازار جوائنٹ روڈ پر لگے گا جس میں تمام اشیائے خورونوش بالخصوص، دودھ، دہی، گوشت، چکن، دالیں، گھی، چاول اور سبزیاں سستےداموں فروخت کی جائیں گی۔
اس کے علاوہ ایک سستا بازار نواں کلی اور دوسرا میزان چوک پر لگایا جائے گا جہاں رمضان المبارک میں روزانہ کی بنیاد پر مارکیٹ ریٹ سے کم قیمت پر سستا آٹا اور چینی کوفروخت کی جائے گی۔
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ملک شاپس مالکان کوئٹہ کی مختلف دکانوں اور شاہراوں پر روانہ کی بنیاد پر سستے دودھ کےاسٹال لگائیں گے جس میں سرکاری نرخوں سے بھی کم پر دودھ اور دہی فروخت کیا جائے گا۔
ڈپٹی کمشنر نے گوشت ایسوسی ایشن کو سخت وارننگ جاری کرتے ہوے کہا کہ جن قصاب خانوں پر مہنگا گوشت فروخت ہوگا وہاں کے قصابوں کو ایک ماہ کے لیے پابند سلاسل کیا جائے گا اور ان کی دکانوں کو سیل کر دیاجائے گا۔
اجلاس میں بڑے گوشت، مٹن، چینی، آٹے اور دودھ کی قیمتوں کا تعین کیا گیا جس کے تحت سستا بازار میں بڑا گوشت 1050 روپے، مٹن 1900روپے فی کلو، چینی130روپے فی کلو، دودھ 170روپے فی کلو اور20 کلو آٹے کا تھیلا 1460 روپے میں فروخت کیا جائے گا۔
اس کے علاوہ محکمہ زراعت سستا بازار میں سبزی کے اسٹال لگائے گا جہاں تازہ سبزیاں کم قیمت پر دستیاب ہوں گی۔
ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ تمام جنرل اسٹوروں پر روزانہ کی بنیاد پر کڑی نظر رکھی جائے گی۔ رمضان المبارک میں تمام تر اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں کمی کی جائے گی۔
علاوہ ازیں کوئٹہ کے مختلف ڈیپارٹمنٹل اسٹورز بھی سستے بازار لگائیں گے۔
خیبر پختونخوا میں کیا بڑے فیصلے ہوئے؟پشاور سے وی نیوز کے رپورٹر سراج الدین کے مطابق خیبر پختونخوا حکومت ماہ رمضان میں صوبے کے عوام کو رمضان پیکیج دے رہی ہے جو مستحق خاندانوں کو نقد کی صورت میں دی جائے گی۔
مزید پڑھیں: خیبرپختونخوا حکومت کا رمضان پیکیج: مستحق خاندانوں کی نقد مالی امداد کا فیصلہ
رمضان پیکج کی منظوری صوبائی کابینہ نے دی ہے۔ جبکہ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین خان گنڈاپور نے ہدایت کی کہ رمضان المبارک کے مہینے میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے منتخب عوامی نمائندے اور مقامی انتظامیہ مل کر کام کریں۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے مطابق صوبائی حکومت اس رمضان میں مستحق خاندانوں کی بھر پور معاونت کرے گی۔ صوبائی حکومت کے رمضان پیکج کے تحت مستحق گھرانوں کو فی گھرانہ 10 ہزار روپے دیے جائیں گے۔
علی امین گنڈا پور کا کہنا تھا کہ رمضان پیکج کے تحت صوبائی اسمبلی کے ہر حلقے میں 5 ہزار مستحق گھرانوں کی معاونت کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ رمضان پیکج کی تقسیم صاف شفاف طریقہ کار کے تحت کی جائے گی۔
سندھ میں فیصلہ ابھی ہونا ہےکراچی سے وی نیوز کے رپورٹر وقاص خان کے مطابق رمضان المبارک سے متعلق اب تک تو سندھ حکومت نے کسی قسم کے رمضان پیکج کا اعلان نہیں کیا تاہم ذرائع کے مطابق چند روز میں وزیراعلیٰ سندھ اس حوالے سے پیکج کا اعلان کریں گے۔
یہ بھی پڑھیے: رمضان المبارک: سندھ میں ہر خاندان کو ملیں گے 5000 ہزار روپے، لیکن ایک شرط پر
یاد رہے کہ گزشتہ برس وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے 22.
توقع ہے کہ سندھ حکومت اس بار بھی گزشتہ برس کی طرح روایتی رمضان پیکج کا اعلان کرے گی جس کے لیے وزیر اعلیٰ سندھ کی زیر صدارت اعلیٰ سطح اجلاس اہم فیصلے کرے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
چاروں صوبوں کا رمضان پیکج پروگرام رمضان پیکج عوام کو ریلیفذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: رمضان پیکج عوام کو ریلیف سے وی نیوز کے رپورٹر رمضان المبارک میں پیکج کا اعلان پاکستان پوسٹ اس حوالے سے کیا جائے گا رمضان پیکج سستے بازار سستا بازار کی جائے گی ہزار روپے کی قیمتوں کہ رمضان فروخت کی جائیں گے کے مطابق عوام کو روپے فی کے لیے کے تحت
پڑھیں:
نئے صوبے تقسیم نہیں بلکہ تعمیرکا ذریعہ ہیں(آخری حصہ)
ریاست چترال کو 1969 میں پاکستان میں باقاعدہ طور پر ضم کر کے صوبہ خیبر پختونخوا کا حصہ بنایا گیا۔ چترال اپنی ثقافتی، لسانی، جغرافیائی اور نسلی انفرادیت کے باعث باقی صوبے سے کافی مختلف ہے، اس کے علاقوں میں چترال، اپر چترال، لوئر جب کہ اس سے ملحق وادی کیلاش اور بعض شمالی پہاڑی علاقے شامل ہیں۔
ان علاقوں میں بولی جانے والی زبانوں میں کھوار، کیلاشہ، یدغہ، اردو اور پشتو دفتری امور میں بولی جاتی ہے۔ ان کی الگ موسیقی، شاعری اور ثقافتی ورثے ہیں۔ ان کی زبان کالاشہ ہے، یہاں کی آبادی قدیم یونانی و ہندآرائی عقائد سے متاثر انفرادی دیو مالائی نظام، یہ لوگ بتوں، فطری عناصر، سورج، چاند اور موسموں کی پرستش کرتے ہیں۔ ان کی مذہبی رسومات میں مختلف تہوار بھی دنیا بھر میں مشہور ہیں جیسا کہ چاؤ مس، او چاؤ، پولی وغیرہ۔ وادیاں ماحولیاتی لحاظ سے حساس، مگر بے حد خوبصورت اور سیاحتی مرکز ہیں۔ الگ صوبہ یا خود مختار علاقہ بننے سے ان کے رسم و رواج، زبان اور تہذیب کو آئینی تحفظ دیا جا سکتا ہے۔
کالاش اقلیت کو زمین، مذہب اور تعلیم کے شعبے میں آئینی سطح پر خود اختیاری ملنی چاہیے۔ یونیسکو اور اقوام متحدہ نے بارہا پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کالاش ثقافت کے تحفظ کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے۔ فرانس، جرمنی، جاپان، اور کئی یورپی ملکوں نے بھی کالاش ثقافت کی مالی معاونت اور تحقیقی مدد پیش کی ہے۔
بلتستان کو ہی لے لیں، یہ پاکستان کے شمال میں واقع گلگت بلتستان کا ایک تاریخی، جغرافیائی اور ثقافتی خطہ ہے۔ اسے ’’ لٹل تبت‘‘ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں کے باسیوں کی زبان، مذہب، رسم و رواج اور ثقافت تبتی اور ایرانی اثرات لیے ہوئے ہیں۔ یہ خطہ اپنی قدرتی خوبصورتی، دنیا کی بلند ترین چوٹیاں گلیشیئرز، ثقافتی ورثے اور مہمان نوازی کے لیے عالمی شہرت رکھتا ہے۔
اس کے علاقے اسکردو، شگر،گانچھے (خپلو) وغیرہ شامل ہیں۔ یہاں بلتی زبان بولی جاتی ہے، اس کی ثقافت میں تبتی اور فارسی فن تعمیر، موسیقی اور لباس وغیرہ شامل ہیں۔ یہاں کے ٹو جیسے دنیا کے بلند ترین پہاڑ ہیں، اس کے علاوہ مشربرم، گاشر برم اور بیافو جیسے گلیشیر اس کے حسن کو چار چاند لگا رہے ہیں۔ دریائے سندھ کا آغاز بھی یہیں سے ہو رہا ہے۔
یہاں دیوسائی، شنگریلا، ستپارہ، شگر فورٹ، نبلوفورٹ جیسے سیاحتی مقامات عالمی اہمیت کے حامل ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ نہ یہاں کے باسیوں کو مکمل شہری حقوق حاصل ہیں، نہ ہی قومی اسمبلی یا سینیٹ میں نمائندگی ہے۔ حالیہ دہائیوں میں بلتستان کے باسیوں نے الگ شناخت، آئینی تحفظ اور اختیارات کی منتقلی کے مطالبات شدت سے اٹھائے ہیں۔ یہاں کی انتظامی بہتری کے لیے ضروری ہے کہ اس کو الگ صوبہ بنا دیا جائے تو مقامی نمائندگی اس کی مزید ترقی و عروج کے لیے کام کرے گی۔ اس علاقے کی دفاعی اہمیت بھی مسلم ہے چونکہ یہاں سیاچن، کارگل اور سرحدی علاقوں کا تحفظ ضروری ہے اور ان کی بلتستانی شناخت قومی سلامتی سے جڑی ہے تو ان کی احساس محرومی کا خاتمہ ہوگا سیاسی نظر اندازی کا تدارک ہو سکے گا۔
پاکستان کی ریاستی وحدت اور عوامی خوشحالی اس بات کی متقاضی ہے کہ ہم صرف لسانی بنیادوں ہی پر نہیں، بلکہ ثقافتی، جغرافیائی اور انتظامی بنیادوں پر بھی نئے صوبے تشکیل دیں۔ ان ہی اصولوں پر مبنی ایک اہم مطالبہ ’’ پوٹھوہار یا راولپنڈی صوبے‘‘ کے قیام کا ہے، جو برسوں سے زیر بحث ہے مگر عملی اقدام سے محروم ہے۔ اس کے علاقوں میں راولپنڈی، ٹیکسلا، اٹک، جہلم، چکوال، سرگودھا، خوشاب اور تلہ گنگ وغیرہ شامل ہیں۔
یہ علاقہ پنجاب کے دوسرے لسانی، ثقافتی اور مزاجی طور پر بالکل مختلف ہے۔ یہاں کی زبان پوٹھواری / پہاڑی ہے، جو پنجابی اور کشمیری کا سنگم سمجھی جاتی ہے۔ مع داستانیں (راجہ رسالو، سوہنی مہینوال)، روایتی گیت اور ہنر یہاں کی شناخت ہیں۔ راولپنڈی اور ارد گرد کے علاقوں کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے، جب کہ لاہور میں بیٹھ کر فیصلے کرنا مقامی مسائل کا حل نہیں۔ پوٹھوہاری زبان اور ثقافت بتدریج دب رہی ہے۔ صوبہ بننے سے یہ زبان اسکولوں، میڈیا اور سرکاری سطح پر فروغ پاسکتی ہے۔
پوٹھواری (علیحدہ شناخت، مکمل پنجابی نہ سرائیکی)، کئی یونیورسٹیاں، میڈیکل کالج، اسپتال موجود مگر بجٹ میں نظر انداز۔ راولپنڈی و پوٹھوہار کے عوام کو اپنی شناخت، اختیارات اور ترقیاتی فیصلوں میں خود مختاری حاصل ہوگی۔ چھوٹے اضلاع (جہلم، چکوال، اٹک) براہ راست مستفید ہوں گے۔ تعلیم، روزگار، ثقافت، زبان، سیاحت ہر پہلو میں نئی راہیں کھلیں گی۔ پوٹھو ہار صوبہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ یہ صرف انتظامی تقسیم نہیں بلکہ ثقافتی بقاء زبان کے تحفظ اور مقامی اختیارات کے لیے بنیاد بنے گا۔ راولپنڈی، چکوال، اٹک، جہلم سب کو وہ حیثیت ملے گی جس کے وہ برسوں سے منتظر ہیں۔ پاکستان کی ترقی چھوٹے صوبوں سے ہی جڑی ہے اور پوٹھو ہار اس سمت ایک اہم قدم ہو سکتا ہے۔
پاکستان ایک کثیر اللسانی اورکثیر الثقافتی ملک ہے جہاں ہر لسانی اکائی کی شناخت، ترقی اور خود مختاری کا احترام ریاست کی وحدت کو مزید مضبوط بناتا ہے۔ انھی اصولوں پر مبنی ایک پرانا اور مسلسل دہرایا جانے والا مطالبہ پشتونخوا بلوچستان یعنی پشتون بیلٹ کو ایک علیہ علیحدہ صوبہ بنانے کا ہے۔
یہ مجوزہ صوبہ بلوچستان کے شمالی و شمال مغربی علاقوں پر مشتمل ہو سکتا ہے جن میں کوئٹہ، پیشین، قلعہ عبداللہ، قلعہ سیف اللہ، ژوب، لورالائی، ڈکی، موسی خیل، شیرانی، بارکھان اور سی شامل ہیں۔ ان علاقوں کے پشتونوں کا ماننا ہے کہ کوئٹہ اور ارد گرد کا علاقہ زیادہ آبادی، زیادہ تعلیم اور وسائل کے باوجود صوبہ بلوچستان کے اندر سیاسی طور پر کمزور رکھا گیا ہے۔
پشتون بیلٹ کو صوبائی بجٹ، ترقیاتی منصوبوں اور انتظامی فیصلوں میں وہ اہمیت نہیں دی جاتی جو بلوچ اکثریتی علاقوں کو دی جاتی ہے۔ پشتون بیلٹ کے لوگوں کو اپنی زبان،کلچر، تعلیم اور وسائل کے تحفظ و فروغ کے لیے خود اپنا انتظامی ڈھانچہ چاہیے۔ محمود خان اچکزئی کی قیادت میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (PKMAP) برسوں سے یہ مطالبہ دہرا رہی ہے۔ ANP بھی اس کی حمایت کرچکی ہے۔ بلوچ قوم پرستوں میں کچھ اس کے مخالف ہیں،کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے بلوچستان کی وحدت کو چیلنج ہوگا۔
پاکستان کے سب سے بڑے مگرکم ترقی یافتہ صوبے بلوچستان کا ایک انتہائی اہم مگر نظر انداز شدہ علاقہ مکران ہے۔ جغرافیائی لحاظ سے بلوچستان کا جنوبی حصہ اور پاکستان کا ساحلی گھماؤ دارکنارہ مکران صرف جغرافیائی اہمیت نہیں رکھتا، بلکہ سی پیک،گوادر بندرگاہ، معدنی وسائل اور سمندری معیشت کے لحاظ سے بھی ایک قومی اثاثہ ہے، لیکن بد قسمتی سے یہ علاقہ سیاسی، معاشی اور انتظامی نظراندازی کا شکار ہے۔
اسی تناظر میں مکران کو ایک علیحدہ صوبہ بنانے کا مطالبہ اب صرف ایک نعرہ نہیں، بلکہ ایک قومی ضرورت بنتا جا رہا ہے۔ ان کے علاقوں میں گوادر، کیچ یعنی تربت، پنجگور، لسبیلہ، ہوشاب، پسنی، گوادر، جیوانی اور ماڑا جیسے ساحلی علاقے شامل ہیں۔ یہ خطہ پاکستان کا وہ حصہ ہے جہاں ساحل، معدنیات، تجارت اور ثقافت کا حسین امتزاج ہے۔ یہاں کی زبان بلوچی جس کا لہجہ مکرانی ہے اور براہوی ہے۔ ثقافتی لحاظ سے یہ علاقہ شمالی بلوچستان سے مختلف ہے۔ مکران کی روایتی موسیقی، بحری لوک داستانیں اور رقص اپنی ایک الگ پہچان رکھتے ہیں۔گوادر اور سی پیک کا مرکز مکران میں ہے، لیکن مقامی آبادی اس ترقی سے محروم ہیں۔ الگ صوبہ ہونے کی صورت میں مقامی نمائندگی اور شراکت داری ممکن ہوگی۔
میں آخر میں یہ ضرورکہوں گی کہ نئے صوبے پاکستان کوکمزور نہیں کریں گے، بلکہ اسے زیادہ مضبوط، متوازن اور یکساں ترقی یافتہ ملک بنائیں گے۔ ہمیں ان فیصلوں سے گریز نہیں کرنا چاہیے جن سے محرومیاں ختم ہوں، ہر پاکستانی خود کو اس ملک کا اہم اور برابرکا شہری محسوس کرے۔ اب وقت ہے کہ پاکستان کی ہر لسانی، تہذیبی اور جغرافیائی اکائی کو اس کا حق دیا جائے تاکہ ’’ ہم ایک قوم، ایک پاکستان‘‘ کو صرف نعرے کی بجائے ایک عملی حقیقت میں بدل سکیں۔