سماج کے کمزور طبقات اور جینڈر بجٹنگ
اشاعت کی تاریخ: 2nd, March 2025 GMT
اسپتال کے کوریڈور کے ننگے فرش پر ببلی کی آڑھی ترچھی لاش پڑی تھی۔ اس کے لمبے بال جگہ جگہ سے منڈھے اور کُترے ہوئے تھےـ چہرے کے نین نقش تشدد کے باعث بگڑ چکے تھے اور اعضا خون سے لتھڑے ہوئےـ کپڑوں کی جگہ دھجیاں اور چھتڑے اس کے جسم کو ڈھانپنے کی ناکام کوشش کررہے تھےـ 2گھنٹے قبل اس کی سانس چل رہی تھی، لیکن کسی اسپتال کے وارڈ میں ببلی کو اس لیے بستر نصیب نہ ہوا کہ نہ وہ مرد تھا اور نہ عورت کیونکہ ہمارے سماج میں فقط انسان ہونا کافی نہیں۔ ببلی کو بچانے کی خاطر کئی گھنٹوں سے ادھر ادھر بھٹکتے سارے خواجہ سرا اب سر جوڑے بیٹھے تھے کہ اگلا مرحلہ تو مزید کٹھن ہے کہ ایک خواجہ سرا کی نماز جنازہ پڑھائے گا کون اور اسے دفنائیں گے کہاں؟
افضل مسیح
راولپنڈی کے نالہ لئی سے متصل علاقے کے ایک کمرے اور چھوٹے سے صحن پر مشتمل کوارٹر میں افضل مسیح اپنی بیوی اور 4بچوں سمیت رہائش پذیر ہےـ پچھلے کئی سال سے مون سون کی سیلابی بارشوں کا پانی اس کے گھر داخل ہوجاتا تو کاڑھ کباڑھ کی طرز کا معمولی سامان تہس نہس ہو کر رہ جاتاـ افضل کی خواہش کے باوجود اس کی بچیاں اسکول جانے سے قاصر ہیں کیونکہ اس کے پاس نہ تو یونیفارم ، کتابیں، بستہ خریدنے کے پیسے ہیں اور نہ پڑھانے کے لیے ذرائع ـ دوسری جانب اسکول کی انتظامیہ کے رویے بھی جانبدار اور ہتک آمیز الگ۔ وہیں زندگی مزید مشکل ہوجاتی جب ناگہانی موسمیاتی آفات ہرسال اسے نقصان پہچانے آجاتی اور وہ نئے سرے سے قرضے کی دلدل میں اترتا چلا جاتاـ غریب کے ساتھ اقلیت کا ٹھپہ لگا ہو تو ہمارا سماج اسے جانور سے بھی بدتر مقام پر رکھتا ہےـ
خوش بخت بی بی
آواران کی خوش بخت بی بی کے نام کے علاوہ اس کی زندگی میں کچھ بھی خوش بختی کی علامت نہ تھاـ وہ بلوچستان کی ان ہزاروں بیواؤں میں سے ایک ہے جن کے باپ بھائی بیٹوں یا شوہر کو کسی جواز یا بلاجواز غائب کر دیا گیا اور پھر ان کی مسخ شدہ بچی کچھی لاشیں کسی دور دراز مقام یا پہاڑیوں سے برآمد ہوئیں۔ بخت بی بی نِری ان پڑھ ہے لیکن کم عقل یا جاہل ہرگز نہیں۔ اس کی تمام عمر گھر کی چار دیواری میں گھرداری یا بچے پالنے میں ہی گزری۔ بخت بی بی کا شوہر اور اس کا اکلوتا بیٹا دونوں مارے جا چکے ہیں۔ گھر میں کوئی مرد نہیں جو گھر کی گاڑی کو دوبارہ چلانے کی ذمہ داری اٹھا سکے۔ بخت بی بی اور اس کی چار جوان بیٹیاں اس آس میں بیٹھی ہیں کہ کوئی ایسا روزگار ملے جس سے وہ گھر بیٹھے عزت سے کچھ پیسے کما سکیں۔
اللہ رکھی
دادو کے ایک پسماندہ گاؤں کی اللہ رکھی جب بیاہ کر منظور کے گھر آئی تو اس کی ماہواری شروع ہوئے صرف 2ماہ ہی ہوئے تھے۔ اللہ رکھی نہ حفظان صحت کے اصولوں سے واقف تھی اور نہ ہی مخصوص ایام میں صفائی ستھرائی رکھنے سے آگاہ۔
خاص دن ابھی بے ترتیبی کا شکار ہی تھے کہ وہ پیٹ سے ہوگئی۔ بچپنے کی شادی، غذائیت کی کمی اور کم سنی میں ماں بننے کے مراحل اللہ رکھی کی صحت پر برے اثرات ڈال رہے تھے۔ ایک طرف سسرال والوں کا حاملہ سے گھر کے تمام کام کروانے کے باوجود جلی کٹی سنانا معمول تھا تو دوسری جانب ایسی حالت میں شوہر کا پرتشدد رویہ اس کی زندگی کو روز بروز جہنم بنا رہا تھا۔ اللہ رکھی کا ساتواں مہینہ چل رہا تھا لیکن اسے یہ محسوس ہو رہا تھا کہ یہ اسکی زندگی کا آخری ماہ ہےـ
یہ مصائب ان 4کرداروں کے نہیں بلکہ یہ ہمارے سماج کے ان پچھڑے اور پسے ہوئے طبقات کے مسائل ہیں جن پر ہماری ریاست اور حکومتی عناصر کی نظر ہی نہیں پڑتی ـ
پاکستان میں غریب غرباء، اقلیتیں، ٹرانس جینڈرز اور خواتین کو صحت، تعلیم، روزگار اور سیاسی نمائندگی جیسے شعبوں میں کئی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے’اسلام آباد میں سینٹر فار ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ‘ نے جینڈر بجٹنگ کو ان مسائل کے حل کے لیے ایک مؤثر ذریعہ قرار دیا ہے۔
جینڈر بجٹنگ دراصل حکومت کے بجٹ میں خواتین، مردوں اور کمزور طبقات جن میں اقلیتیں اور ٹرانس جینڈرز شامل ہیں، کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک مخصوص بجٹ مختص کرنا ہے۔ اس کا مقصد وسائل کی ایسی منصفانہ تقسیم ہے جس سے صنفی اور مذہبی مساوات کو بھی فروغ ملے اور معاشرے کے ہر فرد کو یکساں مواقع اور سہولیات فراہم ہوں۔ جینڈر بجٹنگ کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ یہ صرف خواتین کے لیے مختص ہوگا بلکہ یہ پبلک فنڈز کو سماج کے کمزور طبقات کے درمیان منصفانہ استعمال کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہوگا۔
جینڈر بجٹنگ کے ذریعے لڑکیوں کو تعلیمی سرگرمیوں اور ٹرانسپورٹ جیسی سہولیات، زچہ و بچہ کی صحت کے مراکز، فیملی پلاننگ اور خواتین کی صحت سے متعلق آگاہی مہموں کے لیے بہتر فنڈنگ کو بروئے کار لایا جائے گا۔
جینڈر بجٹنگ کے ذریعے ویمن پولیس اسٹیشنز، گھریلو تشدد کے خلاف سیلز اور خواتین کے لیے شیلٹر ہومز قائم کرنے جیسے اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں، جہاں صنفی و مذہبی عدم مساوات ایک سنگین مسئلہ ہے، جینڈر بجٹنگ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس سے نہ صرف خواتین کو برابری کے مواقع ملیں گے بلکہ ملک کی مجموعی ترقی اور استحکام میں بھی اہم کردار ادا ہوگا۔
وقت کی اہم ضرورت ہے کہ وفاقی اور صوبائی سطح پر بجٹ کی تیاری میں محروم طبقات کو مدنظر رکھا جائے اور بجٹ کے صحیح اور مؤثر استعمال کو یقینی بنایا جائے۔ تبھی ہمارے سماج کے ان پسے ہوئے طبقات کی کچھ حد تک داد رسی کی جا سکتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
صنوبر ناظر ایک متحرک سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ تاریخ میں ماسٹرز کر رکھا ہے جبکہ خواتین کی فلاح اور مختلف تعلیمی پراجیکٹس پر کام کر چکی ہیں۔ کئی برس سے قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کے لیے باقاعدگی سے لکھتی ہیں۔
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: سماج کے اور اس کے لیے
پڑھیں:
عوام سے کوئی ایسا وعدہ نہیں کریں گے جو پورا نہ ہو، وزیراعلیٰ بلوچستان
وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ عوام کے اعتماد پر پورا اترنے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں، کوئی ایسا وعدہ نہیں کریں گے جو پورا نہ ہو۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق بلوچستان کے دور دراز اور پسماندہ علاقے سنجاوی میں اتوار کو اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ بلوچستان کے ہر کونے میں جانے کو تیار ہوں، وسائل کی کمی ہو تو پیدل بھی عوام تک پہنچوں گا.
انہوں نے کہا کہ صوبے کے وسائل اور مسائل سب کے سامنے ہیں مگر صوبائی حکومت کی اولین ترجیح وسائل کے شفاف اور درست استعمال کو یقینی بنانا ہے, جو وعدہ کیا وہ پورا کیا ہے، کوئی ایسا وعدہ نہیں کریں گے جو پورا نہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ عوام کے اعتماد پر پورا اترنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ وزیراعلیٰ نے سنجاوی کو ترقی کے نقشے پر نمایاں کرنے کیلئے فوری طور پر کئی بڑے اعلانات کیے جو علاقے کی صحت، تعلیم، انفراسٹرکچر اور سیکیورٹی کو انقلابی تبدیلی دیں گے۔
انہوں نے تحصیل ہیڈکوارٹر اسپتال سنجاوی کو 20 بستروں پر مشتمل مثالی طبی ادارے میں تبدیل کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ اسپتال کو بیکڑ کی طرز پر پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت فعال بنایا جائے گا۔
اس موقع پر اسپتال کا دورہ کرتے ہوئے انہوں نے ڈاکٹرز اور عملے سے ملاقات کی اور مریضوں کی فوری سہولیات کیلئے ہدایات جاری کیں تعلیم کے شعبے میں سنجاوی کے بوائز اور گرلز کالجز کیلئے علیحدہ عمارتوں کی تعمیر اور دو بسوں کی فراہمی کا فیصلہ کیا گیا۔
وزیراعلیٰ نے کیڈٹ کالج زیارت میں سنجاوی کے طلبہ کیلئے دو نئے بلاکس اور چار بسوں کی فراہمی کا بھی اعلان کیا۔
انہوں نے بتایا کہ زیارت کے 14 غیر فعال اسکول موسم سرما کی تعطیلات کے بعد مکمل طور پر فعال ہوں گے جبکہ محکمہ تعلیم میں بھرتیاں سو فیصد میرٹ پر کی جا رہی ہیں۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ میرٹ کی خلاف ورزی کی نشاندہی کی جائے تو فوری کارروائی یقینی بنائی جائے گی ۔
سیکیورٹی اور انفراسٹرکچر کے حوالے سے وزیراعلیٰ نے عوامی مطالبے پر سنجاوی میں چار نئے پولیس اسٹیشنز قائم کرنے، بائی پاس اور نشاندہی کردہ 15 کلومیٹر نئی سڑک کی تعمیر کا اعلان کیا۔
انہوں نے افسران و اہلکاروں کیلئے نیا انتظامی کمپلیکس تعمیر کرنے کا بھی وعدہ کیا، لیویز کو پولیس میں ضم کرنے کے فیصلے کو بظاہر غیر مقبول مگر وقت کی ضرورت قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ دیرپا امن کیلئے ضروری ہے لینڈ سیٹلمنٹ کے عمل کا آغاز کرتے ہوئے۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ سنجاوی کیلئے یہ عمل فوری شروع ہوگا جبکہ بلوچستان بھر میں انتظامی حدود کا ازسرنو تعین کیا جا رہا ہے، زیارت میں نئے ضلع کے قیام پر اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے سنجیدہ غور جاری ہے ۔
اجتماع سے قبل وزیراعلیٰ نے استحکام پاکستان فٹ بال ٹورنامنٹ کے فائنل میچ میں شرکت کی اور کھلاڑیوں میں انعامات تقسیم کیے۔ انہوں نے نوجوانوں کی صلاحیتوں کو سراہتے ہوئے کھیلوں کے فروغ کیلئے مزید اقدامات کا وعدہ کیا۔
دورے کے دوران صوبائی وزیر حاجی نور محمد خان ڈمر، پارلیمانی سیکریٹری ولی محمد نورزئی، سردار کوہیار خان ڈومکی اور میر اصغر رند سمیت اعلیٰ حکام موجود تھے۔
وزیراعلیٰ ہیلی کاپٹر کے ذریعے سنجاوی پہنچے جہاں ڈپٹی کمشنر محمد ریاض خان داوڑ نے پرتپاک استقبال کیا عوام نے وزیراعلیٰ کے اعلانات پر زوردار نعرے بازی کی اور انہیں خراج تحسین پیش کیا۔