Express News:
2025-07-26@08:48:35 GMT

امریکا کی پالیسی کا پہلا شکار

اشاعت کی تاریخ: 4th, March 2025 GMT

صدر ٹرمپ کی عائد کردہ پابندیوں کا شکار سب سے پہلے سندھ کا ضلع جیکب آباد ہوا۔ اس شہرکا صاف پانی کا پروجیکٹ بند ہو رہا ہے۔ جیکب آباد سندھ کا تاریخی شہر ہے جو بلوچستان کی سرحد سے متصل ہے۔ جیکب آباد کا شمار ہمیشہ سے دنیا کے گرم ترین شہروں میں ہوتا ہے مگر جیکب آباد کلائیمنٹ چینج سے سب سے زیادہ متاثر شہر ہے ۔

جیکب آباد کی آبادی 2023 کی مردم شماری کے مطابق 219,315 ہے۔ جیکب آباد بنیادی طور پر بلوچ اور سندھی قبائل کا چھوٹا سا شہر تھا۔ برطانوی ہند حکومت نے جیکب آباد میں فوجی چھاؤنی تعمیرکی۔ 1878میں ریل کے ذریعے جیکب آباد کو منسلک ہوگیا۔ جیکب آباد کی فوجی چھاؤنی نے انگریز فوج کی بلوچستان اور افغانستان میں کامیابیوں میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ انگریز حکومت نے اس شہرکو جدید خطوط پر استوار کرنے والے برطانوی جنرل جیکب کے نام پر شہرکا نام جیکب آباد رکھ دیا۔ جیکب آباد ہمیشہ سے ہندوؤں اور مسلمانوں کی آبادی کا ملا جلا شہر رہا۔

ہندوستان کے بٹوارے کے بعد جب نیا ملک وجود میں آیا تو جیکب آباد اور اطراف کے علاقے میں زراعت نے نشوونما پائی اور کے ساتھ تجارتی سرگرمیاں بڑھ گئیں۔ جیکب آباد افغان جنگ میں بین الاقوامی میڈیا کی خبروں کا محور رہا۔ کلائیمنٹ چینج کے ساتھ جیکب آباد کا موسم مزید سخت ہوگیا اور اب جیکب آباد پھر بین الاقوامی میڈیا کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ جیکب آباد میں ہمیشہ سے صاف پینے کے پانی کی شدید کمی رہی۔ جیکب آباد کا دارو مدار بارش کے پانی یا بلوچستان یا دریائے سندھ سے آنے والے پانی کے ریلے پر رہا۔

نائن الیون کے بعد جیکب آباد ایئرپورٹ امریکا کے زیر استعمال بھی رہا۔ ان ایام میں جیکب آباد میں صاف پانی تقریباً نایاب ہوگیا تھا۔ امریکا کی حکومت نے صاف اور فلٹر شدہ پانی کا ایک بہت بڑا پروجیکٹ شروع کیا تھا۔ ایک غیر سرکاری تنظیم کو صاف پانی کے پروجیکٹ کو چلانے کا کام سونپا گیا۔ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دوبارہ اقتدار سنبھالا تو انھوں نے پوری دنیا میں یو ایس ایڈ کے تمام منصوبوں کے لیے امداد بند کرنے کا فیصلہ کیا ۔

وائٹ ہاؤس کے یو ایس ایڈ کی امداد بند کرنے سے جیکب آباد کا صاف پانی کا منصوبہ بھی شدید متاثر ہوا۔ فرانسیسی خبررساں ایجنسی AFP کی ایک رپورٹ کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا کی حکومت نے 2012میں صاف پانی کی فراہمی منصوبہ کے لیے 66 ملین ڈالر کی رقم مختص کی تھی۔ اس منصوبے کے تحت اندرونِ سندھ بلدیاتی سہولتوں خاص طور پر صاف پانی کی فراہمی کے منصوبوں کو مکمل کرنا تھی۔ اس پروگرام کے تحت جیکب آباد میں صاف پانی کے منصوبہ کے علاوہ سیوریج کی لائنوں کی تنصیب اور ایک جدید اسپتال کی تعمیر شامل تھی۔

یوں جیکب آباد کے شہریوں کو صاف پانی ملنے لگا۔ اس منصوبے پر کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیم کے افسران کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ نے 1.

5ملین ڈالر کی خطیر رقوم کو اب منجمند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس تنظیم کے ایک افسر کا کہنا ہے کہ اس پروجیکٹ کے ذریعے 1.5 ملین گیلن صاف پانی روزانہ پانی کی پائپ لائنوں کے ذریعے گھروں کو فراہم کیا جاتا ہے۔ امریکا کی نئی انتظامیہ نے یو ایس ایڈ کے تحت ملنے والی 63 ممالک کی امداد بند کردی ہے جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ امریکی حکومت کے اس فیصلے کی بناء پر سب سے زیادہ غیر سرکاری تنظیمیں متاثر ہوں گی۔

جیکب آباد میں پانی منصوبے پر کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیم کے انتظامی سربراہ شیخ تنویر احمد کا کہنا ہے کہ امریکا کی امداد بند ہونے سے تنظیم کو اپنے افسروں کو واپس بلانے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں تھا۔47 کے قریب ٹیکنیکل افسروں کو واپس کراچی بھیج دیا گیا اور یہ پروجیکٹ بلدیاتی اداروں کے افسران کے سپرد کردیا گیا مگر ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ بلدیاتی اداروں کے پاس ماہر افراد کی شدید کمی ہے اور یہ پلانٹ کچھ دنوں میں مکمل طور پر بند ہوجائے گا اور پورے شہر میں پانی کی سپلائی معطل ہوجائے گی۔ جیکب آباد کے فرزند اور سماجی علوم کے ماہر ڈاکٹر ریاض احمد شیخ اس پلانٹ کے قیام کا پس منظر بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب امریکا کو جیکب آباد کا ایئربیس حوالہ کیا گیا تو امریکا کی حکومت نے اس علاقے میں اپنے امیج کو بہتر کرنے کے لیے کئی منصوبے شروع کیے تھے۔

اس منصوبے کے تحت صاف پانی کی فراہمی اور ہیپاٹائیٹس مرض کو قابو میں لانے کے لیے ایک جدید اسپتال کی تعمیر شروع ہوئی۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکی امداد سے صاف پانی کی لائنوں سے مسئلہ تو حل نہیں ہوا البتہ ایک اسپتال جیکب آباد انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس بنایا گیا۔ ڈاکٹر ریاض احمد شیخ کہتے ہیں کہ یہ جیکب آباد میں ایک اچھا اسپتال بن گیا مگر جیکب آباد کا قدیم سول اسپتال زبوں حالی کا شکار ہوگیا۔ ان کے مطابق نچلی سطح کے اختیار کا بلدیاتی نظام قائم نہ ہوا جس کی بناء پر امریکا سے ملنے والی امداد کا دیرپا فائدہ نہ ہوسکا۔ اب کلائیمینٹ چینج میں جیکب آباد میں گرمی کے سارے ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں اور گرمیوں میں درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔ اب اگر جیکب آباد کے شہری صاف پانی سے بھی محروم ہوگئے تو لوگ گندا پانی استعمال کرنے پر مجبور ہونگے، یوں ہیپا ٹائیٹس کا مرض مزید پھیلے گا۔

WHO نے اس وقت پاکستان میں سب سے زیادہ خطرناک مرض ہیپا ٹائیٹس کو قرار دیا ہے۔ ہیپاٹائیٹس کا مرض روکنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر شہری کو صاف پانی ملے۔ حکومتِ سندھ کو امریکی پلانٹ کو چلانے کے لیے خاطرخواہ رقم مختص کرنی چاہیے اور ایسے ماہرین کی خدمات حاصل کرنی چاہیے جو اس پلانٹ کو فعال رکھ سکیں۔ حکومتِ سندھ اب بھی اگر بلدیاتی اداروں کو مکمل طور پر با اختیارکرتی ہے اور ان اداروں کو معقول گرانٹ فراہم کرتی ہے تو پھر بلدیاتی قیادت ان بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے لیے عوام کے سامنے پابند ہوگی۔ جیکب آباد کے صحافیوں کا کہنا ہے کہ یہ ضلع پہلے ہی ڈاکوؤں کی سرگرمیوں کی وجہ سے شدید مسائل کا شکار ہے، اب صاف پانی کا منصوبہ بھی بند ہوا تو عوام اور حکومت کے درمیان فاصلے بڑھ جائیں گے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جیکب آباد میں کا کہنا ہے کہ جیکب آباد کے جیکب آباد کا صاف پانی کی کی فراہمی امریکا کی حکومت نے کی حکومت کی امداد پانی کا کے تحت کے لیے

پڑھیں:

اسحاق ڈار کا دورہ امریکہ

اسلام ٹائمز: 5 مارچ 2017ء کو، امریکی کانگریس سے خطاب کے دوران، ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ انکا ملک پاکستان کیساتھ ملکر کابل ہوائی اڈے پر ہونیوالے مہلک حملے کے مرکزی مجرم کو تلاش کرنے کیلئے کام کر رہا ہے۔ اسوقت انکا کہنا تھا کہ داعش کے رکن کو پاکستان نے امریکا کے حوالے کیا تھا اور اس پر امریکا میں مقدمہ چلایا جانا تھا۔ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور حکومت میں اسلام آباد پر سنگین الزامات لگانے اور امریکہ کیساتھ قابل قبول تعاون نہ کرنے پر پاکستانی حکام کو تنقید کا نشانہ بنانے کے باوجود خاص طور پر پاکستانی حکومت کا شکریہ ادا کیا۔ اسلام آباد، جسے کبھی واشنگٹن کا "نان نیٹو اتحادی" کہا جاتا تھا، ٹرمپ کے پہلے دور حکومت میں امریکہ کیساتھ انتہائی کشیدہ اور غیر واضح تعلقات کا حامل رہا۔ ترتیب و تنظیم: علی واحدی
 
پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار، نیویارک کے چار روزہ دورے کے بعد ایک روزہ سرکاری دورے پر واشنگٹن پہنچے ہیں۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان کے مطابق اسحاق ڈار کی اس دورے کے دوران امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو سے باضابطہ ملاقات ہوگی۔ پاکستانی وزیر خارجہ اس کے بعد اٹلانٹک کونسل امریکن تھنک ٹینک میں تقریر کریں گے، جہاں وہ علاقائی اور عالمی مسائل پر پاکستان کے نقطہ نظر کے ساتھ ساتھ امریکہ کے ساتھ اپنے ملک کے تعلقات کے مستقبل کی وضاحت کریں گے۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے مطابق دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کی ملاقات میں پاکستان امریکہ تعلقات کے اہم پہلوؤں اور تجارت، سرمایہ کاری اور اقتصادی تعاون کے فروغ پر خصوصی توجہ کے ساتھ ان رابطوں کو مضبوط بنانے کے طریقوں اور ذرائع کا جائزہ لیا جائے گا۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسرے دور اقتدار کے آغاز کے بعد وزیراعظم شہباز شریف کی پاکستانی حکومت کے وزیر خارجہ کا یہ پہلا دورہ امریکہ ہے۔ اس سے قبل پاکستانی فوج کے کمانڈر فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے رواں سال 18 جون کو امریکہ کے سرکاری دورے پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی تھی۔ اسلام آباد حکومت کے اعلیٰ ترین سفارت کار کا دورہ امریکہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے، جب امریکہ کی حمایت اور مغربی ممالک کی ملی بھگت سے فلسطینیوں کے خلاف صیہونی حکومت کے جرائم جاری ہیں اور پاکستان نے غزہ میں نسل کشی اور اسلامی جمہوریہ ایران  کے خلاف صیہونی جارحیت کی متعدد بار مذمت کی ہے۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کل اسلام آباد میں اپنی ہفتہ وار پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ملک کے وزیر خارجہ اپنے امریکی ہم منصب کے ساتھ اہم علاقائی اور عالمی مسائل بالخصوص ایران کے خلاف اسرائیل کی جارحیت کے بعد کی حالیہ پیش رفت پر بات کریں گے۔

امریکہ اور اس کے یورپی شراکت داروں کے برعکس (جنہوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کے پرامن جوہری پروگرام کے حوالے سے اشتعال انگیز اور جارحانہ رویہ اپنایا ہے)، اسلام آباد، کسی بھی زبردستی کی مخالفت کرتے ہوئے، تہران کے جوہری مسئلے کے پرامن اور سفارتی حل پر زور دیتا ہے۔ اس سال جولائی کے اوائل میں پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ نے سفارت کاری کے ذریعے تنازعات کے حل کے لیے اسلامی جمہوریہ ایران کی حکمت اور تعمیری طرز عمل کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ حالیہ جنگ میں امریکہ اور اسرائیلی حکومت کے رویئے نے خطے کو ناقابل تصور نتائج سے دوچار کیا ہے اور اسے تباہی کے دہانے پر کھڑا کر دیا ہے۔ اسلام آباد نے صیہونی حکومت کی 12 روزہ جنگ کے بعد سے اسرائیل اور امریکہ کے حملوں کی بھی مذمت کی ہے اور جارحین کے خلاف اپنے دفاع کے اسلامی جمہوریہ ایران کے جائز حق کی حمایت بھی کی ہے۔

ٹرمپ کی طرف سے پاک ہند کارڈ کے استعمال کی کوشش
اسحاق ڈار کے دورہ واشنگٹن کے مقاصد کے حوالے سے پاکستانی سیاسی اور میڈیا کے حلقوں میں ایک اور موضوع جو خصوصی طور پر زیر بحث ہے، وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ 4 روزہ جنگ میں ٹرمپ کی طرف سے دو ایٹمی ہمسایوں کے درمیان جنگ بندی قائم کرنے کا دعویٰ ہے۔ اسلام آباد نے تو ٹرمپ کی نام نہاد کوششوں کو سراہا ہے، لیکن نئی دہلی اپنے مغربی پڑوسی کے ساتھ تنازع کے حل میں امریکی صدر کے کردار کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کے بعد ٹرمپ نے کئی بار ملکی اور غیر ملکی حلقوں میں خود کو فاتح قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ وہ اپنے تجارتی اقدامات سے اسلام آباد اور نئی دہلی کو جنگ کے پھیلاؤ سے دور رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان، بھارت کے ساتھ امریکی تعلقات کی نوعیت پر سوال اٹھاتا ہے اور واشنگٹن کی جانب سے چین کے ساتھ پاکستان کے اسٹریٹجک تعلقات پر اعتراض کیا جاتا ہے۔ پاکستانیوں کے مطابق چین کے ساتھ سرد جنگ کو بڑھاوا دے کر امریکہ بیجنگ کے ساتھ دوسرے ممالک کے آزاد اور مستحکم تعلقات کو خراب کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور چین مخالف مقاصد کے حصول کے لیے نئی دہلی کے ساتھ بڑے سکیورٹی اور فوجی تعاون کو بڑھا رہا ہے۔ پاکستانی وزیر خارجہ سے توقع ہے کہ وہ ہندوستان کے ساتھ موجودہ کشیدگی کے بارے میں اپنے ملک کے تحفظات کا اظہار کریں گے، جس میں ہندوستان کی جانب سے "سندھ  طاس معاہدہ" کے نام سے موجود مشترکہ آبی معاہدے کو معطل کرنے کا فیصلہ بھی شامل ہے۔ کیا امریکی نئی دہلی کو قائل کرنے کی کوشش کریں گے کہ وہ دو جنوبی ایشیائی ہمسایوں کے درمیان کشیدگی کو دوبارہ بڑھنے سے روکے۔

ٹرمپ کے کئی ممالک کے خلاف ٹیرف اقدامات کے بعد پاکستان نے بھی واشنگٹن سے مذاکرات کا فیصلہ کیا۔ پاکستان کے وزیر خزانہ نے حال ہی میں واشنگٹن کا دورہ کیا اور وزیر خزانہ اور ٹرمپ کے نمائندہ خصوصی برائے تجارت سے ملاقاتیں کیں۔ اسلام آباد نے اعلان کیا ہے کہ ان مشاورت کے جلد مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔ افغانستان کی صورتحال اور افغانستان کے ساتھ مشترکہ سرحدوں پر دہشت گردی کا چیلنج بھی اسحاق ڈار اور مارکو روبیو کے درمیان بات چیت کے دیگر شعبوں میں متوقع موضوع ہے۔ غور طلب ہے کہ پاکستان میں آئی ایس آئی ایس کے ایک کارکن کی گرفتاری پر مارچ کے وسط میں امریکی صدر کی بات چیت انسداد دہشت گردی کے شعبے میں دو طرفہ تعاون میں نسبتاً بہتری کی نشاندہی کرتی ہے۔

5 مارچ 2017ء کو، امریکی کانگریس سے خطاب کے دوران، ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ ان کا ملک پاکستان کے ساتھ مل کر کابل ہوائی اڈے پر ہونے والے مہلک حملے کے مرکزی مجرم کو تلاش کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔ اس وقت ان کا کہنا تھا کہ داعش کے رکن کو پاکستان نے امریکا کے حوالے کیا تھا اور اس پر امریکا میں مقدمہ چلایا جانا تھا۔ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور حکومت میں اسلام آباد پر سنگین الزامات لگانے اور امریکہ کے ساتھ قابل قبول تعاون نہ کرنے پر پاکستانی حکام کو تنقید کا نشانہ بنانے کے باوجود خاص طور پر پاکستانی حکومت کا شکریہ ادا کیا۔ اسلام آباد، جسے کبھی واشنگٹن کا "نان نیٹو اتحادی" کہا جاتا تھا، ٹرمپ کے پہلے دور حکومت میں امریکہ کے ساتھ انتہائی کشیدہ اور غیر واضح تعلقات کا حامل رہا۔

جب امریکی صدر نے بیانات میں پاکستان پر جھوٹ اور فریب کا الزام لگایا تو انہوں نے دعویٰ تک کیا کہ ان کے ملک نے پاکستان کو دسیوں ارب ڈالر دینے کے باوجود انسداد دہشت گردی کے تعاون میں کوئی نتیجہ حاصل نہیں کیا۔ ٹرمپ کے ان ریمارکس پر پاکستان میں امریکہ کے خلاف مذمت کی لہر دوڑ گئی اور اسلام آباد میں اس وقت کی حکومت نے دونوں ممالک کے درمیان بداعتمادی کی مسلسل فضا کو تسلیم کرتے ہوئے واشنگٹن سے مطالبہ کیا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا احترام کرے۔

متعلقہ مضامین

  • اسلام آباد: باپ سمیت پانی میں بہہ جانے والی لڑکی تاحال لاپتا، 5ویں روز بھی تلاش جاری
  • اگست میں اسلام آباد میں پاک امریکا انسدادِ دہشتگردی مذاکرات ہوں گے، امریکی محکمہ خارجہ
  • اسحاق ڈار کا دورہ امریکہ
  • ایلون مسک کا اسٹار لنک عالمی سطح پر خرابی کا شکار، سروس بند
  • ملکی تاریخ میں پہلی بار  ’’فری انرجی مارکیٹ پالیسی‘‘کے نفاذکااعلان
  • 2 ماہ میں فری انرجی مارکیٹ پالیسی نافذ کرنے کا اعلان، حکومت کا بجلی خریداری کا سلسلہ ختم ہو جائے گا
  • چھبیس نومبر بغیر اجازت احتجاج کیس کا پہلا فیصلہ: عدالت نے 12 پی ٹی آئی کارکنان کو سزائیں سنا دیں
  • اسلام آباد کی ہاؤسنگ سوسائٹی میں بہنے والی گاڑی کا بونٹ اور دروازہ مل گیا، باپ بیٹی کی تلاش جاری
  • حکومتی یوٹرن، گرڈ کی کمزوریوں سے صاف توانائی منتقلی مشکلات کا شکار
  • بھارتی کرکٹ بورڈ کے لیے حکومت کی نئی اسپورٹس پالیسی درد سر، راجر بنی کی صدارت خطرے میں