Express News:
2025-06-09@03:12:54 GMT

مہنگائی کی وجہ اور اس کے اثرات

اشاعت کی تاریخ: 15th, March 2025 GMT

دنیا کے کسی بھی ملک میں جب بھی کوئی نئی حکومت بنتی ہے تو وہاں کے عوام نئے حکومتی عہدیداروں اور اربابِ اختیار سے ایک اُمید وابستہ کر لیتے ہیں، کہ آنیوالے نئے وزراء اپنے فیصلے عوام کی اُمیدوں کو مدِنظر رکھ کر کرتے ہیں تا کہ عوام کو ریلیف ملے گا تو خود بہ خود اُنکے حکومت میں آنے کا مقصد پورا ہو گا۔

بیشک عوام انتخابات میں ایسے ہی لوگوں کا چُناؤ کرتے ہیں جس سے اُنھیں ملک کے حالات میں مزید بہتری کی اُمیدیں ہوں۔ ایسے ہی پاکستان میں بھی 2024 کے ہونیوالے انتخابات میں لوگوں کی اپنی آنیوالی حکومت سے بیش بہا اُمیدیں وابستہ تھیں کہ آنیوالی حکومت عوام کے لیے ریلیف فراہم کرے گی، دن بہ دن بڑھنے والی مہنگائی کی نہ صرف روک تھام کریگی بلکہ مہنگائی کے خاتمے کے لیے اقدامات بھی کریگی یا ملکی معیشت بہتر ہو گی، بے روزگاروں کو روزگار فراہم کریگی۔

جب کہ ایسے ہی کئی خواب دیکھتے ہوئے پاکستان کے عوام نے اپنی نئی حکومت اور نئے عُہدیداروں کا چناؤ کیا اور 2024کے ہونیوالے انتخابات میں عوام نے اپنے حکومتی اعلیٰ کاروں میں مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کو چن لیا، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ پاکستان میں نئی حکومت بننے سے پہلے بھی مہنگائی اپنے عروج پر تھی، اور نئی حکومت کے بننے کے بعد مزید مہنگائی میں اضافہ ہی دیکھنے میں آ رہا ہے۔

جیسا کہ پاکستان میں موجود ہر شخص کو ایک جیسے ہی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جس میں سرِ فہرست بجلی، گیس، پٹرول، بیروزگاری جیسے مسائل شامل ہیں۔ بجٹ بھی عوام کے لیے ریلیف لانے کے بجائے عوام کو خطرے کی گھنٹیاں سُناتا آتا ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ بجلی، گیس، پانی یا دیگر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں صرف بجٹ کے وقت ہی اضافہ کیا جاتا ہے بلکہ ان کے اداروں کے اربابِ اختیار لوگوں کا جب دل کرتا ہے عوام کو بجلی، پانی، گیس، پٹرول، سبزیاں اور دیگر مراعات کی قیمتوں میں اضافے کی بُری خبر سُنا دیتے ہیں۔جیسا کہ پاکستان میں مختلف شہروں میں مختلف بجلی کے ادارے موجود ہیں۔

کراچی میں KE کراچی الیکٹرک، لاہور میں LESCO، جب کہ اسلام آباد میں IESCO جیسے ادارے اپنے کردار نبھا رہے ہیں۔ جب کہ ان اداروں کو چلانیوالا ایک اور ادارہ جسے ہم NEPRA کے نام سے جانتے ہیں پاکستان میں وہ خاص ادارہ ہے جس نے پاکستانی عوام کو بجلی اور اس کے بلوں کے حوالے سے صرف کڑے امتحان میں ہی ڈالا ہے۔

یہاں تک کہ پاکستانی عوام اپنے استعمال کردہ بجلی کے یونٹس کے بل کی رقم سے زیادہ رقم بجلی کے بل میں موجودہ 9 قسم کے ٹیکسوں کی مد میں ادا کرتی ہے۔ بجلی کے بل میں لگ کر آنیوالے 9  ٹیکسز درجہ ذیل ہیں۔

1۔الیکٹرک سٹی ڈیوٹ 2۔جنرل سیلز ٹیکس 3۔پی ٹی وی لائسنس فیس 4۔ فنانسنگ لاگت سر چاجز 5۔فیول پرائز ایڈجسٹمنٹ 6۔اضافی ٹیکس 7۔مزید ٹیکس 8۔انکم ٹیکس 9۔ اور سیلز ٹیکس۔ اس کے علاوہ بجلی کے اداروںمیں کام کرنیوالے ملازمین کے یونیفارم کے پیسے بھی بجلی کے بلوں میں لگا کر بھیجے جاتے ہیں۔

اسی طرح پاکستان میں گیس کی قلّت کی وجہ سے لوگوں کو مسائل کا سامنا ضرور تھا لیکن گیس کے بلوں کی طرف سے پاکستانی عوام کو یہ سکون تھا کہ پانچ سو یا بہت ہوا تو ہزار کے اندر اندر گیس کا بل آئیگا جسکی ادائیگی بھی عوام الناس پر بھاری نہیں تھی لیکن جیسے خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے ویسے ہی بجلی کے اداروں کو دیکھتے ہوئے سوئی گیس کی جانب سے بھی عوام پر خطرات منڈلانے لگے۔

گزشتہ دنوں میں گیس کے بلوں کے حوالے سے عوامی شکایات میں یہ خبر سننے میں آئی کہ چند سو میں آنیوالا گیس کا بل ایک لاکھ سے اوپر کا آ گیا ہے۔ جب کہ دیگر ذرایع کے مطابق دسمبر 2023 سے فروری 2024 تک گیس کمپنیوں نے گیس کے یونٹس میں دو 2 بار اضافہ کیا ہے۔ جسکی وجہ گیس کی کمپنیوں کی بدحالی اور قرضہ بتائی جا رہی ہے جب کہ حالات اس کے بر عکس ہیں۔

ذرایع کے مطابق گیس کی کمپنیوں کے افسران اور ملازمین کی مراعات اور دیگر اخراجات کی مد میں 34 ارب روپے، ملازمین کی تنخواہوں کے 22 ارب روپے، افسران کی کلب کی ممبر شپ کے 5 کروڑ، چائے کافی کے 4 کروڑ 50 لاکھ، ملازمین کو مفت کا پٹرول کی فراہمی کے لیے 15 کروڑ، ملازمین کو گیس کی مفت فراہمی کے 59 کروڑ جب کہ ملازمین کے بونس کے 1 ارب 13 کروڑ کے علاوہ ملازمین کے حج کے اخراجات بھی عوام کو ہی اُٹھانے ہوں گے۔

مطلب گیس کی کمپنیوں کے ملازمین کی عیاشیوں اور دیگرمراعات بھی اب عوام سے بلوں کی صورت میں لیے جائیں گے۔ گیس کے بلوں میں اضافے کی ایک وجہ حکومت کی جانب سے ملنے والی سبسڈی میں کمی اور درآمدی ضروریات پوری نہ ہونا بھی ہے۔

بجلی، گیس کے بعد اگر بات کی جائے پٹرولیم مصنوعات کی تو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں نے عوام کو کم امتحانات میں نہیں ڈالا، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے حوالے سے 2023 کا سال بھی عوام کے لیے بہت بُرا ثابت ہوا ہے، ذرایع کے مطابق 2023 میں 24.

45 فیصد پٹرول کی قیمت میں اضافہ دیکھنے میں آیا، جب کہ ابھی مزید پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کی امکانات باقی ہیں۔

بجلی، گیس اور پٹرول کے علاوہ پاکستان کی عوام کے اوپر دیگر اشیائے خورو نوش کی قیمتیں بھی برس پڑتی ہیں، آٹا، دال، چاول اور دیگر مصالحہ جات کے علاوہ سبزی فروش بھی قیمتوں کے حوالے سے اپنی من مانی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

پیاز ٹماٹر، آلو، ہری مرچ، دھنیا پودینا جیسی روز مرہ کے کھانوں میں استعمال ہونے والی سبزیاں بھی ایک عام آدمی کی خرید سے باہر ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔پاکستان میں جیسے جیسے مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے ویسے ہی لوگوں کے حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں، بڑھتی مہنگائی نے نہ صرف لوگوں کو بھیک مانگنے پر مجبور کیا ہے بلکہ ڈکیتی، چوری اور دیگر وارداتوں میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے، مہنگائی کی وجہ سے اشیائے خورونوش ہوں یا ادویات، کپڑے ہوں یا مشینیں، بجلی، گیس، پٹرول ہو یا ٹرانسپورٹ کے کرائے ہر چیز مہنگی ہو گی تو عوام ہی پسے گی۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پٹرولیم مصنوعات کی پاکستان میں کے حوالے سے کہ پاکستان کی قیمتوں نئی حکومت کے علاوہ بھی عوام اور دیگر عوام کے عوام کو کے بلوں بجلی کے کے لیے رہا ہے گیس کے کی وجہ گیس کی

پڑھیں:

وفاقی بجٹ میں تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کی 4 تجاویز تیار

وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال 2025-26 کے بجٹ میں سرکاری ملازمین کو ریلیف دینے کے لیے تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کی مختلف تجاویز تیار کر لی ہیں، جن پر حتمی فیصلہ کابینہ اجلاس میں کیا جائے گا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق وزارت خزانہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ مہنگائی کے پیشِ نظر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 10 فیصد اضافے کی تجویز زیر غور ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ 2022 کے ایڈہاک الاؤنس کو بنیادی تنخواہ میں ضم کرنے کی بھی تجویز پیش کی گئی ہے۔

ذرائع کے مطابق گریڈ 1 سے 16 تک کے ملازمین کے لیے 30 فیصد ڈسپیئرٹی الاؤنس کی تجویز دی گئی ہے، جبکہ گریڈ 17 سے 22 کے افسران کی تنخواہوں میں 15 فیصد اضافے کی سفارش کی گئی ہے۔

مزید پڑھیں: تنخواہ دار طبقے کو 7 ماہ میں کتنے ارب روپے اضافی انکم ٹیکس ادا کرنے پر مجبور کیا گیا؟

اس کے علاوہ گزشتہ 2 ایڈہاک الاؤنسز میں سے ایک کو بنیادی تنخواہ میں شامل کرنے کی تجویز بھی زیر غور ہے، تاکہ تنخواہوں کے اسٹریکچر کو مزید منظم اور مربوط بنایا جا سکے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ آرمڈ فورسز کو کنٹری بیوٹری پنشن اسکیم سے مستثنیٰ رکھنے کی بھی تجویز دی گئی ہے۔ حکومت کو اس حوالے سے اپنے اتحادیوں کی طرف سے بھی سرکاری ملازمین کو ریلیف دینے کی سفارشات موصول ہوئی ہیں۔

واضح رہے کہ تنخواہوں اور پنشن میں اضافے سے متعلق حتمی فیصلہ آئندہ دنوں میں متوقع وفاقی کابینہ اجلاس میں کیا جائے گا، جس کے بعد یہ تجاویز بجٹ 2025-26 کا حصہ بنائی جائیں گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اضافہ بجٹ پنشن پینشن تنخواہ

متعلقہ مضامین

  • وزیراعظم نے قازقستان کے صدر اور عوام کو عیدالاضحیٰ کی مبارکباد پیش کی
  • وزیرِ اعظم کے اردن و بحرین کے بادشاہوں اور ازبک صدر سے ٹیلی فونک رابطے
  • معیشت کی بہتری، مہنگائی پرقابو پانے کے حکومتی دعوے ہوا میں تحلیل ہو رہے ہیں، امیر جماعت اسلامی
  • وفاقی حکومت نے اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کی تنخواہوں میں 500فیصد اضافہ کردیا
  • کراچی، عیدالاضحیٰ پر مصنوعی مہنگائی کی روایت برقرار، اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ
  • پاکستان نے بھارتی وزیراعظم کے گمراہ کن بیانات کو سختی سے مسترد کر دیا
  • کراچی؛ عید پر مصنوعی مہنگائی کی روایت برقرار، متعدد اشیا کی قیمتوں میں اضافہ
  • ملک میں مہنگائی کی شرح میں معمولی کمی کا رجحان
  • وفاقی بجٹ میں تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کی 4 تجاویز تیار
  • بجٹ 26-2025: فری لانسرز کے حکومت سے کیا مطالبات ہیں؟