بچوں کے تحفظ، چائلڈ لیبر کیلیے مؤثر قانون سازی اور سخت اقدامات کی ضرورت ہے، مقررین
اشاعت کی تاریخ: 18th, March 2025 GMT
لاہور:
نیشنل کمیشن آن رائٹس آف چائلڈ (این سی آر سی) نے "اسٹیٹ آف دی چلڈرن ڈاٹ کام" کے نام سے ویب سائٹ بنائی ہے، جہاں بچوں کے حقوق، متعلقہ قوانین اور چائلڈ رائٹس ایشوز سے متعلق دستیاب ڈیٹا فراہم کیا جائے گا، اپریل کے آخر تک ایک سالانہ رپورٹ جاری کی جائے گی، جس میں بچوں پر تشدد، جیلوں میں قید بچوں کے اعداد و شمار، بچوں کی اسمگلنگ اور ٹریفکنگ سے متعلق تفصیلات شامل ہوں گی۔
اس حوالے سےلاہورمیں بچوں کے حقوق کے لئے سرگرم سرچ فارجسٹس،این سی آرسی اور کنڈرنوتھ ہلفے ای وی کے نمائندوں نے ان اداروں کے زیر اہتمام سیشن میں اظہارخیال اور ایکسپریس سے گفتگو کی۔
عائشہ رضا فاروق نےکہا کہ بچوں کے تحفظ، چائلڈ لیبر اور کم عمری کی شادی جیسے مسائل کے حل کے لیے مؤثر قانون سازی اور سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔ انہوں نے بچوں کی پیدائش کی رجسٹریشن کے سنگین مسئلے کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ جب ملک میں بچوں کی درست تعداد ہی معلوم نہ ہو تو صحت، تعلیم اور دیگر بنیادی سہولتوں کے لیے مؤثر پالیسی سازی ممکن نہیں ہوتی۔ برتھ سرٹیفکیٹ کے بغیر کم عمری کی شادیوں اور چائلڈ لیبر کو روکنے میں بھی مشکلات درپیش ہیں، کیونکہ عمر کے تعین کے لیے جعلی میڈیکل سرٹیفکیٹ بنوا لیے جاتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس مسئلے کے حل کے لیے نادرا سے بات چیت جاری ہے، تاکہ بے نامی بچوں کی پرورش کرنے والے ادارے اور این جی اوز خود کو نادرا کے ساتھ رجسٹر کروائیں اور ان بچوں کو حکومت کے ڈیٹا بیس میں شامل کیا جا سکے۔ ان بچوں کے سرپرست کے طور پر متعلقہ ادارے کے سربراہ کا نام لکھا جائے گا۔
انہوں نے واضح کیا کہ این سی آر سی کوئی ایگزیکٹو یا انفورسمنٹ اتھارٹی نہیں بلکہ حکومت کو سفارشات اور تجاویز دینے والا ادارہ ہے۔ کمیشن نے چائلڈ لیبر، کم عمری کی شادیوں اور کارپوریٹ پنشمنٹ جیسے مسائل کے حل کے لیے علما کرام، اقلیتی نمائندوں اور مختلف شعبوں کے ماہرین پر مشتمل ورکنگ گروپس تشکیل دیے ہیں، جو قابل عمل تجاویز مرتب کر کے حکومت کو پیش کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب میں "دھی رانی پروگرام" کے تحت دلہن کی کم از کم عمر 16 سال رکھی گئی ہے، جس پر کمیشن حکومت کو تجویز دے گا کہ اس عمر کو 18 سال مقرر کیا جائے۔ اسی طرح، بچوں کی اڈاپشن کے حوالے سے پنجاب میں گارڈین اینڈ وارڈز ایکٹ کے ساتھ ساتھ پنجاب ڈیسٹیٹیوٹ اینڈ نگلیٹڈ چلڈرن ایکٹ بھی لاگو ہے، جس پر مزید قابل عمل سفارشات تیار کی جا رہی ہیں۔
سرچ فارجسٹس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر افتخار مبارک نے پنجاب میں بچوں کے تحفظ کے سنگین مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ چائلڈ لیبر قوانین پر سختی سے عمل درآمد کروانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ان قوانین کے تحت بنائے گئے قواعد و ضوابط کی جلد از جلد نوٹیفکیشن کی جائے، تاکہ بچوں سے جبری مشقت کا مکمل خاتمہ یقینی بنایا جا سکے۔
چلڈرن ایڈووکیسی نیٹ ورک (سی اے این) پاکستان کی فوکل پرسن راشدہ قریشی نے 2025 میں ہونے والی مثبت پیش رفت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب فری اینڈ کمپلسری ایجوکیشن ایکٹ 2014 کے تحت قواعد کی نوٹیفکیشن اور چائلڈ لیبر کے معائنے سے متعلق احکامات خوش آئند ہیں۔ انہوں نے اس اقدام کو بھی سراہا کہ ہوم ڈیپارٹمنٹ پنجاب نے اسکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کو خط لکھ کر نصاب میں بچوں کو گڈ ٹچ اور بیڈ ٹچ کے بارے میں آگاہی شامل کرنے کی ہدایت کی ہے۔
مدثر احمد، چائلڈ انگیجمنٹ آفیسر نے بچوں کو تحفظ کے اقدامات میں شامل کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ بچے خود اپنے مسائل سے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں اور ان کے حل کے لیے بہترین تجاویز دے سکتے ہیں۔ انہوں نے اسکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب کی جانب سے تمام سرکاری اسکولوں میں اسٹوڈنٹ کونسلز کے قیام کو سراہا اور تجویز دی کہ بچوں کے حقوق پر کام کرنے والی تنظیموں کے ساتھ مل کر بچوں میں قیادت کے اوصاف پیدا کیے جائیں۔
کنڈرنوتھ ہلفے ای وی پاکستان کی کنٹری منیجر شہزادی کرن نے چائلڈ لیبر کے خاتمے اور بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے قانونی و پالیسی اقدامات کو مضبوط بنانے پر زور دیا۔ انہوں نے موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی معاشی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس کے باعث مزید بچے جبری مشقت کا شکار ہو رہے ہیں، لہٰذا بچوں کے تحفظ کو موسمیاتی تبدیلیوں کے مطابق حکمت عملی میں شامل کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔
سیشن میں شریک صحافیوں نے تجویزدی کہ پنجاب کے مختلف اضلاع میں چائلڈ رائٹس میڈیا نیٹ ورک قائم کیا جائے، تاکہ صحافیوں کے درمیان تعاون، رہنمائی اورعلم کے تبادلے کو فروغ دیا جا سکے۔ اس کے علاوہ، ایک چائلڈ رائٹس میڈیا فیلوشپ شروع کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا، تاکہ ان صحافیوں کو پیشہ ورانہ معاونت فراہم کی جا سکے جو بچوں کے حقوق کے مسائل پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔
فیصل آباد اور ملتان سے تعلق رکھنے والے صحافیوں نے بچوں کے تحفظ، جنسی تشدد اور صنفی بنیادوں پر تشدد کے کیسز پر حساس رپورٹنگ کے لیے علاقائی صحافیوں کی تربیت پر زور دیا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کرتے ہوئے کہا کہ بچوں کے تحفظ بچوں کے حقوق کے حل کے لیے چائلڈ لیبر کی ضرورت انہوں نے میں بچوں بچوں کی جا سکے کیا جا
پڑھیں:
تحفظ ماحول: سرسبز زمین کے لیے صاف نیلا سمندر ضروری
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 09 جون 2025ء) اقوام متحدہ کی کانفرنس برائے سمندر (یو این او سی 3) کے دوران یو این نیوز کے نمائندوں کو جنوب مشرقی فرانس کے سمندر (فرنچ راویرا) میں ناروے کے 111 سال پرانے بحری جہاز پر جانے کا موقع ملا جس پر سائنس کے 50 طلبہ، معلمین اور سائنس سے دلچسپی رکھنے والے شہری سوار تھے۔
اس مہم میں یورپی خلائی ادارے (ای ایس اے) کی سیٹلائٹ کے ذریعے فراہم کردہ معلومات کی روشنی میں ان لوگوں کے مشاہدات سمندروں کو لاحق خطرات کے بارے میں آگاہی حاصل کرنے اور انہیں تحفظ دینے کی ہنگامی ضرورت کو واضح کرتے ہیں۔
فرانس کے قدیم شہر نیس میں تین مستولوں والا 98 میٹر طویل یہ بحری جہاز گزشتہ ہفتے لیمپیا کی بندرگاہ پر پہنچا جہاں ان دنوں یہ کانفرنس جاری ہے۔
(جاری ہے)
1914 میں بنایا گیا یہ جہاز (سٹیٹسراڈ لیمخول) 1921 سے فرانس کی ملکیت ہے۔ جہاز کو یہ نام ناروے کے سابق وزیر کرسٹوفر لیمخول کے نام پر دیا گیا ہے اور اسے گزشتہ سال سمندری سائنس کے جدید ترین آلات سے مزین کر کے تیرتی یونیورسٹی میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔
ایک صدی سے بھی زیادہ عرصہ کے بعد یہ جہاز اب جدید ترین تحقیقی پلیٹ فارم بن گیا ہے جس کے ذریعے سائنس دان، طلبہ اور محققین سمندر کے اسرار کھولنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس جہاز کی دوسری سمندری مہم 11 اپریل کو ناروے کے ساحلی علاقے برگن سے شروع ہوئی تھی جس کا مقصد سمندری سائنس، تعلیم اور استحکام کو یکجا کرنا ہے۔ مہم کے ذریعے تمام لوگوں کے پائیدار مستقبل کے لیے سمندروں کے اہم کردار کے بارے میں آگاہی بیدار کرنے کے علاوہ متعلقہ علم کے تبادلہ کیا جانا ہے۔
متوقع طور پر یہ مہم ایک سال کے بعد برگن میں ہی ختم ہو گی۔یہ مہم سمندری سائنس کے ذریعے پائیدار ترقی کے لیے منائی جانے والی اقوام متحدہ کی دہائی کا حصہ ہے۔ یہ دہائی ایک ایسا عالمگیر اقدام ہے جس کے ذریعے سمندری صحت کو ہونے والے نقصان کا ازالہ کیا جانا ہے اور یہ مہم 'ای ایس اے' کے ایک جدید تربیتی کورس کی شراکت سے چلائی جا رہی ہے جس میں طویل فاصلے سے جدید آلات کے ذریعے سمندر کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اس شراکت کے تحت 28 ممالک کے طلبہ کو بھی مہم کا حصہ بنایا گیا ہے جو سیٹلائٹ کے ذریعے اور براہ راست سمندر سے حاصل کردہ معلومات کے موازنے میں مدد دیتے ہیں۔اس مہم کی قیادت کرنے والے 'ای ایس اے' کے سمندری سائنس دان کریگ ڈونلون کا کہنا ہے کہ سائنس، سمندری کھوج اور جہازرانی کی روایات کو یکجا کرنا سطح آب سے زیر سمندر جھانکنے کا بہترین طریقہ ہے۔ انہوں نے یو این نیوز کو بتایا کہ اس مہم میں سیٹلائٹ سے حاصل کردہ معلومات کی روشنی میں جہاز پر ہونے والی تحقیق میں مدد لی جاتی ہے اور طلبہ یہ جان سکتے ہیں کہ سمندر کے کون سے حصے میں مزید اور بہتر جانچ کی جا سکتی ہے۔
'ای ایس اے' خلا سے حاصل کردہ معلومات کو روزانہ جہاز تک بھیجتی ہے جن کا تجزیہ کرنے میں تقریباً ساڑھے تین گھنٹے صرف ہوتے ہیں۔ اس کے بعد جہاز کا کپتان اسے مطلوبہ مقام پر لے جاتا ہے۔
طلبہ کی کڑی محنت کا صلہڈونلون نے یو این نیوز کو بتایا کہ سمندری کھوج کے لیے استعمال ہونے والے جدید آلات کے ذریعے پانی کی حرکت ماپی جاتی ہے، زیرآب آوازوں کا تجزیہ کیا جاتا ہے اور اس پانی کی خصوصیات سے آگاہی حاصل کر کے خفیہ سمندری حرکیات کا پتا چلایا جاتا ہے۔
طلبہ اس طریقہ کار کے ذریعے طبعیات اور حیاتیات میں اپنی تحقیق کے نتائج کو یکجا کر کے دیکھتے اور فضائی۔سمندری تعامل کو مدنظر رکھے کر اپنی تحقیق کو آگے بڑھاتے ہیں۔ وہ یہ کام انفرادی طور پر یا مختلف مںصوبوں پر اجتماعی انداز میں کرتے ہیں۔ ان میں داخلی اور الگ تھلگ سمندری لہریں، پانی کے بہاؤ اور اس پر اثرانداز ہونے والے عوامل اور حیاتیاتی ماحولیاتی تنوع کے جائزے جیسے مںصوبے شامل ہیں۔
ڈونلون کہتے ہیں کہ یہ کام آسان نہیں ہوتا کیونکہ ان طلبہ اور محققین کو آٹھ گھنٹے جہاز کے عرشے پر رہنا پڑتا ہے اور باقی وقت وہ کھانا کھاتے اور سوتے ہیں۔ لیکن وہ اکٹھے کام کرنے کے طریقے بھی ڈھونڈ لیتے ہیں اور بہت بڑی تعداد میں چیزوں کی جانچ کرتے ہیں۔ اس مہم اب تک 15 ٹیرابائٹ معلومات جمع کی جا چکی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ یہ بہت قابل قدر کام ہے جس کی بدولت سائنسی شہادتوں کی بنیاد پر معلومات پر مبنی پالیسیاں بنائی جا سکتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ سمندر انسانوں کے لیے ہیں اور سبھی کو ان کے ساتھ ہم آہنگی سے رہنا سیکھنا ہو گا کیونکہ یہ خوبصورت ہونے کے ساتھ نہایت کمزور بھی ہیں۔ انہیں کوڑا کرکٹ تلف کرنے کی جگہ نہیں بنانا چاہیے۔جہاز پر موجود نوجوان محققین میں پبلو الواریز بھی شامل ہیں۔
وہ 'ای ایس اے' میں زیرتربیت خلاباز ہیں جنہوں نے 2030 سے پہلے بین الاقوامی خلائی سٹیشن پر جانا ہے۔ خلا کی وسعتوں کو کھوجنے سے پہلے وہ اس جہاز پر رہ کر اپنی صلاحیتوں کو مزید بہتر بنانا اور سمندروں کے اسرار بارے اپنے علم کو بڑھانا چاہتے ہیں۔وہ طویل فاصلے سے سمندری تہہ کو جانچنے کی مہارت رکھتے ہیں۔ سیٹلائٹ سے حاصل شدہ معلومات کے ذریعے وہ سمندر کی سطح، اس پر ہواؤں کی صورتحال اور سمندری حرکیات کے بارے میں کھوج لگاتے ہیں۔
اس طرح سائنس دانوں اور خلابازوں کو ایسی بیش قیمت معلومات ملتی ہیں جن سے سمندری پانی کی نقل و حرکت کے بارے میں پیش گوئی کرنا آسان ہو جاتا ہے۔الواریز کا کہنا ہے کہ اس مہم کے ذریعے سمندری اور زمینی نظام کی سائنس دونوں بارے انسانی علم میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کھوج لگانا اور اپنے ماحول اور کائنات کو سمجھنا سائنس سے وابستہ لوگوں کے ڈین این اے میں شامل ہے۔
سمندری سائنس اور خواتینجہاز پر موجود طلبہ میں جرمنی کی لینا شیفیلڈ بھی شامل ہیں جن کے لیے یہ مہم نہایت متاثر کن ہے۔ وہ یہ دیکھ کر خود کو بااختیار محسوس کرتی ہیں کہ یہاں خواتین طلبہ کی تعداد اپنے مرد ساتھیوں سے زیادہ ہے جسے اس شعبے میں غیرمعمولی اور بامعنی تبدیلی کہا جا سکتا ہے جہاں عام طور پر مردوں کا غلبہ رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ سائنس اور بالخصوص سمندری کے شعبے میں مزید بڑی تعداد میں خواتین کی ضرورت ہے۔
شیفیلڈ کا کام سمندر میں پلاسٹک کے باریک ذرات کی بڑھتی ہوئی مقدار پر مرکوز ہے۔ انہوں نے یو این نیوز کو کو بتایا کہ اس سفر سے انہیں اپنی تعلیم میں بھی مدد ملی۔ مہم میں وہ مختلف سمندروں کا سفر کر رہے ہیں جس کا آغاز بحیرہ ناروے سے ہوا اور پھر بحیرہ منجمد شمالی سے ہوتے ہوئے وہ بحیرہ اوقیانوس کی جانب گئے اور اب بحیرہ روم میں آ گئے ہیں۔
اس تمام سفر میں انہیں سمندروں کے اندر پلاسٹک کی آلودگی کے بارے میں بہت سی اہم معلومات حاصل ہوئیں اور بحیرہ روم میں پلاسٹک کے ایسے نمونے ملے جنہیں زیرآب باآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پلاسٹک کے چھوٹے ذرات کا حجم 5 ملی میٹر سے کم ہوتا ہے اور ان میں بیشتر ننگی آنکھ سے دکھائی نہیں دیتے۔ شیفیلڈ کا کام ابھی شروع ہی ہوا ہے اور اس کے نتائج بارے اندازہ لگانا قبل از وقت ہو گا۔
وہ پلاسٹک کے نمونے جمع کر رہی ہیں اور سفر کے آخر میں خوردبینی تجزیے کے ذریعے جانیں گی کہ زیرآب دراصل کتنا پلاسٹک موجود ہے اور مختلف جگہوں پر پائے جانے والے ان ذرات کی جانچ سے یہ اندازہ بھی لگا سکیں گی کہ اس نے بڑے پیمانے پر سمندر کو کس قدر آلودہ کر رکھا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ پانی ہمیشہ حرکت میں رہتا ہے جس کی سطح پر موجود پلاسٹک بھی بہاؤ کے ساتھ حرکت کرتا رہتا ہے۔
اس مہم میں ایک خاص طریقے سے یہ اندازہ لگانے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے کہ یہ پلاسٹک کہاں سے آیا اور یہ نہایت دلچسپ عمل ہو گا۔'سٹیٹسراڈ لیمخول' پر سفر کرنے والے بہت سے طلبہ اس تربیتی کورس میں شمولیت پر بہت ممنون ہیں اور انہوں نے 'یو این او سی 3' کے حوالے سے اپنے خیالات اور تجربات کے تبادلے کا موقع ملنے پر خوشی کا اظہار کیا۔
ڈونلون کا کہنا ہے کہ انہوں نے طلبہ کو یہ کام سونپا ہے کہ وہ لوگوں کو سمندر کی جانب لائیں۔ انہوں نے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے برائے سمندر پیٹر تھامسن سے رابطہ کیا ہے جنہوں نے اس کورس کو چلانے کا اختیار دیا اور وہ اس سے کام لے رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ 'یو این او سی 3' ایسی جگہ ہے جہاں سبھی جمع ہو کر سمندروں کے تحفظ سے متعلقہ موضوعات پر بات چیت کرتے اور اس ضمن میں ملکی سطح پر پالیسیاں بنانے کا کام لیتے ہیں۔
یو این نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں اس کانفرنس میں سائنس کی بنیاد پر فیصلوں اور بات چیت سے زندگیوں اور معاشروں کو مضبوط بنانے میں مدد ملے گی اور اس کے ساتھ آنے والی نسلوں کے لیے ماحول کا تحفظ بھی ممکن ہو گا۔ پائیدار سمندر تعیش نہیں بلکہ لازمی ضرورت ہے۔ صاف نیلے سمندر کے بغیر سرسبز زمین کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔