Islam Times:
2025-04-25@03:19:31 GMT

حضرت امام علیؑ کی شہادت کے سیاسی محرکات۔۔۔

اشاعت کی تاریخ: 18th, March 2025 GMT

حضرت امام علیؑ کی شہادت کے سیاسی محرکات۔۔۔

اسلام ٹائمز: کیا خاتم النبیین ؐ یہ بتا کر نہیں گئے کہ تھے کہ میرے بعد میرا خلیفہ کون ہے۔؟ میرے بعد کتنے علی ہونگے اور آخری علیؑ کی نشانیاں کیا ہونگی۔؟ مطمئن رہیں کہ جب بھی ہم ماضی کی سیاسی وابستگیوں سے ہٹ کر اس سوال کا جواب ڈھونڈیں گے تو ہمیں اپنے زمانے کے علیؑ کا سُراغ مل جائے گا۔ اپنے زمانے کے علی ؑ کو تلاش کیجئے، لیکن یہ جان لیجئے کہ علی کے سر کے زخم اور علی کے دل کے دُکھ دونوں کا درد برابر ہے۔ ابنِ ملجم کے خنجر کے لگائے ہوئے زخم پر رونا اور علی کے دل کے زخموں کا احساس نہ کرنا یہ علی ؑ کو نہ پہچاننے کی نشانی ہے۔ اس لئے کہ ظاہری زخم تو غیروں کو بھی نظر آتے ہیں، لیکن دل کے زخموں کو فقط جاننے والے ہی جانتے ہیں۔ کیا ہم میں سے ہے کوئی جو علی ؑ کے دل کے دکھوں کو جانتا ہے۔؟ علی ؑ کے دِل کا ایک گہرا دکھ "علی ؑ کے چاہنے والوں کا علیؑ کے دشمنوں کی سیاست کو نہ سمجھنا ہے۔" تحریر: ڈاکٹر نذر حافی

کیا خوارج کا ظہور خواہ مخواہ ہوگیا تھا؟ کیا وہ قوتیں جو خوارج کی تشکیل میں ملوث تھیں اور جنہوں نے ان سے مسلسل سیاسی اور نظریاتی فائدہ اٹھایا، وہ امام علیؑ کے قتل سے لا عِلم تھیں۔؟ کیا قتلِ امام علیؑ کا الزام خوارج پر عائد کرنا اور اس کے سیاسی محرک کو بھول جانا دانشمندی ہے۔؟ کیا یہ جاننا ضروری نہیں کہ خوارج کا نظریہ اور ان کا ظہور کس سیاسی و تاریخی پس منظر میں ہوا؟ یہ سوالات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ہمیں صرف سطحی تجزیے پر اکتفا نہیں کرنا چاہیئے بلکہ گہرائی سے اس تمام معاملے کی تحلیل کرنی چاہیئے۔ یہ کہنا کہ خوارج کو صرف طالبان یا داعش کی طرح بدنام کیا گیا، یہ ایک معقول تجزیے کا نتیجہ نہیں۔ ہمیں اس بات کا بھی بغور جائزہ لینا ہوگا کہ ماضی میں ان گروپوں کے ظہور کے اسباب کیا تھے اور ان کے سیاسی و مذہبی بیانیے کو کس طرح مختلف حالات میں "بیانیہ سازی" (narrative building) کے لئے عوام کے سامنے پیش کیا گیا۔

خوارج کے سیاسی تناظر میں جب ہم نبی اکرمﷺ کے غزوات کا جائزہ لیتے ہیں، تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ عہدِ نبویؐ میں کفر کے نمائندہ قائدین میں سب سے نمایاں شخصیت ابو سفیان کی تھی۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ فتح مکہ کے روز ابو سفیان کے لیے سوائے بیعتِ رسولﷺ کے کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا تھا۔ اس بات کو "سیاسی ضروریات" (political necessities) کے دائرے میں سمجھا جا سکتا ہے، جہاں قریش کے ایک طاقتور مگر مغلوب سردار نے اسلام کے خلاف اپنی جدوجہد کی  بقا کے لیے بانی اسلامؐ کے ساتھ ایک "تاریخی مفاہمت" (historical compromise) کی۔ آگے چل کر تاریخ اسلام میں یہ مفاہمت مسلمانوں کے درمیان ایک سیاسی تبدیلی کا تسلسل ثابت ہوئی۔ معتبر منابع کے مطابق خلیفہ اوّل کے دور میں ابو سفیان نے امام علیؑ کو بغاوت پر اُکسانے کی کوشش کی۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ قریش کے مغلوب شُدہ سردار کی طرف سے  اقتدارکے حصول کے لیے سازش اسی دور میں شروع ہوچکی تھی، جسے "سیاسی سازش" (political conspiracy)  کہا جاتا ہے۔

اسی طرح، خلیفہ دوم کے قتل کی واردات میں ابو لولو فیروز کا کردار بھی اہم ہے۔ ابو لولو نامی شخص تو مغیرہ بن شعبہ کا غلام تھا اور مغیرہ بن شعبہ خود آلِ ابوسفیان کا ہم نوالہ و ہم پیالہ تھا۔ یہ شخص دراصل ایک "پراکسی" (proxy) تھا، جس کا استعمال خلیفہ دوّم کے خلاف سیاسی مفادات کے حصول کیلئے کیا گیا۔ اس کی کہانی میں ہمیں واضح طور پر "پولٹیکل گیمز" (political games) کی جھلک ملتی ہے۔ بظاہر وہ اپنے ذاتی مفادات کے تحت خلیفہ دوم پر حملہ کرتا ہے، لیکن اس کے پیچھے دراصل مغیرہ بن شعبہ اور بنو امیہ کے مفادات کارفرما تھے۔ صاحبانِ دانش بخوبی جانتے ہیں کہ اس وقت تو خلیفہ دوّم نے عجمی حضرات کے مدینے میں داخلے پر پابندی لگا رکھی تھی۔ پابندی کے اس دور میں ابو لولو کو مدینے میں رہنے کی خصوصی اجازت مغیرہ بن شعبہ کی سفارش پر ہی ملی تھی۔ اس قتل کو "پریکٹیکل اسٹرٹیجی" (practical strategy) کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، جس کے ذریعے اس وقت کی رائج خلافت میں تبدیلی لانے کی کوشش کی گئی۔

اسی طرح، خلیفہ سوم کے خلاف ہونے والی عوامی بغاوت کو ہم "سوشل ڈسکانٹینٹ" (social discontent) کے طور پر دیکھ سکتے ہیں، جو کہ ایک وسیع تر سیاسی عمل کا حصہ تھی۔ اس بغاوت میں مروان بن حکم اور بنو امیہ کے سیاسی مفادات نظر آتے ہیں، جو اسلامی خلافت کو اپنے قابو میں لانے کے خواہاں تھے۔ اس سلسلے میں امام علیؑ کے اقتدار کے آغاز کو اُس وقت کے "سیاسی جغرافیہ" (political geography) کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے، جہاں مختلف سیاسی طاقتوں کے مفادات آپس میں متصادم تھے۔ یہ تصادم واضح کرتا ہے کہ خلافت کا ملوکیت میں تبدیل ہونا ایک "باہدف حکمت عملی" (strategic agenda) تھا اور اس تبدیلی کے پیچھے کئی سالوں کی "منظم سیاسی تدابیر" (organized political maneuvering) کارفرما تھیں۔

جب امام علیؑ کو شہید کیا گیا تو ان کے قتل میں جو لوگ شامل تھے، وہ صرف خوارج یا ابن ملجم جیسے افراد تک محدود نہیں تھے۔ یہ ایک "سیاسی سازش" (political conspiracy) تھی، جس میں ماضی کی متصادم سیاسی طاقتوں کے مشترکہ  مفادات کا حصول شامل تھا۔ ان سب کا مشترکہ مقصد علی ابن ابیطالبؑ کو راستے سے ہٹانا تھا۔ منصوبہ ساز اپنے نقشے کے مطابق جانتے تھے کہ اس قتل کے بعد اسلامی حکومت درخت پر کسی پکے ہوئے پھل کی مانند کس کی گود میں گرے گی۔ اس کے بعد ہم اس بات کو "سیاسی تجزیہ" (political analysis) کے ذریعے سمجھ سکتے ہیں کہ خوارج یا ابن ملجم نے اسلامی حکومت کے درخت پر فقط کلہاڑا چلایا، لیکن اس کا پھل نہ انہوں نے چکھا اور نہ ہی نقشے کے مطابق اُنہیں اس پھل میں سے کچھ چکھایا جانا تھا۔ پس خلافت کو ملوکیت میں تبدیل کرنا کی ایک گہری حکمت عملی کا نتیجہ تھا۔

یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ امام علیؑ کے قتل کا نقشہ ابن ملجم اور خوارج کا تیار کردہ نہیں تھا بلکہ خوارج تو خود کسی اور کے نقشے کے مطابق وجود میں آئے تھے۔ خوارج نے تو اپنے وجود میں لائے جانے کے ہدف کو پورا کیا اور یوں شہادتِ امام علی ؑ کے بعد اصلی قاتل، اسلامی اقتدار پر قابض ہوگئے۔ اس بات کو "سیاسی تجزیہ" (political analysis) اور "تاریخی حقیقت" (historical truth) کے تناظر میں سمجھنا ضروری ہے۔ ان اصل قاتلوں کو بے نقاب کرنے کی اہمیت اس لیے ہے کہ اس کے ذریعے ہم نہ صرف امام علیؑ کے قتل کے محرکات کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں بلکہ اس سے جڑے وسیع تر سیاسی  مفادات اور اثرات کا آج بھی مشاہدہ  کرسکتے ہیں۔ امام علیؑ کے قتل کے بعد جو قوتیں اقتدار میں آئیں، ان کی سیاست اور حکمت عملی یہ بتاتی ہے کہ ان کی تدابیر نے عام افراد کیلئے اس قتل کو سمجھنا مزید سنگین اور مشکل بنا دیا۔ اس سلسلے کی ایک کڑی یہ ہے کہ ماضی کے خوارج ہوں یا آج کے خوارج جو کہ ہمیشہ  ایسی کاروائیوں کا الزام اپنے سر لیتے ہیں اور یہ دراصل طاقتور گروہوں کے آلہ کار ہوتے ہیں۔

کربلا کے میدان میں امام حسینؑ کے خطاب کو ہم "فلسفہ آزادی" (philosophy of freedom) کے طور پر دیکھ سکتے ہیں، جہاں امام حسینؑ نے ابو سفیان کے پیروکاروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: "اگر تم دین سے بے بہرہ ہو اور قیامت سے نہیں ڈرتے تو کم از کم اپنی دنیا میں آزاد رہو۔" اس جملے میں امام حسینؑ نے نہ صرف مذہبی آزادی کی بات کی، بلکہ انسانیت کے اس بنیادی اصول کو بھی اجاگر کیا، جو سیاسی اقتدار کے غلط استعمال کو چیلنج کرتا ہے۔ امام حسینؑ نے ایک "سیاسی تجزیہ" (political critique) پیش کیا، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح کچھ سیاسی حکام نے اسلامی تعلیمات کو اپنی طاقت کے لیے مسخ کر دیا ہے۔ حضرت زینبؑ کا خطاب بھی کربلا کے "سیاسی بیانیے" (political discourse) کا حصہ تھا، جس میں انہوں نے یزید کے دربار میں ابو سفیان اور اس کے خاندان کے منفی سیاسی کردار کو بے نقاب کیا۔

حضرت زینبؑ نے یزید کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: "اے ہمارے آزاد کردہ غلاموں کی اولاد! تم نے اپنی مستورات کو پردے میں بٹھا رکھا ہے، جبکہ رسول اللہ کی بیٹیوں کو بے پردہ در بدر پھرا رہے ہو۔" یہ جملے ایک "سیاسی تفصیل" (political exposition) کے متقاضی ہیں، جو نہ صرف فتح مکّہ کے روز ابو سفیان کی بیعت کی حقیقت کو اجاگر کرتے ہیں، بلکہ اس امر کو بھی ثابت کرتے ہیں کہ اس دور میں مذہب اور سیاست کو کس طرح گمراہ کن مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ ان تمام حقائق کو غیر جانبدار ہو کر جاننا ضروری ہے، تاکہ ہم یہ سمجھ سکیں کہ ان حقائق کو کسی اور نے نہیں بلکہ ماضی کی مقتدر نام نہاد اسلامی قوّتوں نے ہی نسل در نسل اقتدار کے مرکز پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کیلئے ایک منظم حکمت عملی کے ساتھ رعایا سے چھپایا ہے۔

یہ اسی صدیوں پر محیط منظّم حکمت عملی کا نتیجہ ہے کہ آج پورے جہانِ اسلام میں مسلمانوں کے پاس کوئی ایک ایسی جامع  الشرائط شخصیت نہیں ہے کہ جس پر ساری دنیا کے مسلمان بطورِ ملت جمع ہونے کیلئے سوچیں۔ گویا 14 سو سال پہلے ہی حضرت امام علی ؑ کو شہید کرکے قیامت تک کے مسلمانوں کو منتشر کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ کیا ہم بھول گئے ہیں کہ خلیفہ سوّم کے قتل کے وقت بھی ایسا ہی انتشار وجود میں آیا تھا۔ اُس زمانے میں لوگوں نے اس خلا کو حضرت امام علی ؑ کی بیعت  کرکے پُر کیا تھا۔ عقلِ سلیم کا یہ فیصلہ ہے کہ چودہ سو سال پہلے کی طرح آج بھی اس خلا کو صرف اِس موجودہ زمانے کا علیؑ ہی پُر کرسکتا ہے۔ چودہ سو سال کے بعد بھی ۱۹ رمضان المبارک کی شب مسلمانوں کی عقل پر دستک دیتی ہے کہ مسلمانو! اس زمانے کا خلا پُر کرنے کیلئے اس دور کا علیؑ کون ہے۔؟

کیا خاتم النبیین ؐ یہ بتا کر نہیں گئے کہ تھے کہ میرے بعد میرا خلیفہ کون ہے۔؟ میرے بعد کتنے علی ہونگے اور آخری علیؑ کی نشانیاں کیا ہونگی۔؟ مطمئن رہیں کہ جب بھی ہم ماضی کی سیاسی وابستگیوں سے ہٹ کر اس سوال کا جواب ڈھونڈیں گے تو ہمیں اپنے زمانے کے علیؑ کا سُراغ مل جائے گا۔ اپنے زمانے کے علی ؑ کو تلاش کیجئے، لیکن یہ جان لیجئے کہ علی کے سر کے زخم اور علی کے دل کے دُکھ دونوں کا درد برابر ہے۔ ابنِ ملجم کے خنجر کے لگائے ہوئے زخم پر رونا اور علی کے دل کے زخموں کا احساس نہ کرنا یہ علی ؑ کو نہ پہچاننے کی نشانی ہے۔ اس لئے کہ ظاہری زخم تو غیروں کو بھی نظر آتے ہیں، لیکن دل کے زخموں کو فقط جاننے والے ہی جانتے ہیں۔ کیا ہم میں سے ہے کوئی جو علی ؑ کے دل کے دکھوں کو جانتا ہے۔؟ علی ؑ کے دِل کا ایک گہرا دکھ "علی ؑ کے چاہنے والوں کا علیؑ کے دشمنوں کی سیاست کو نہ سمجھنا ہے۔"

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: اپنے زمانے کے علی اور علی کے دل کے دل کے زخموں حکمت عملی ابو سفیان کے دل کے د کے سیاسی امام علی سکتے ہیں کے مطابق کہ خوارج ماضی کی کرتا ہے کیا گیا کے قتل اس بات ہیں کہ کے بعد قتل کے کے لیے کو بھی کا علی

پڑھیں:

JUI، PTIمیں دوریاں، اپوزیشن اتحادخارج ازامکان

اسلام آباد(طارق محمودسمیر) پاکستانی سیاست میں غیر متوقع اتحاد کوئی نئی بات نہیں مگر بعض خلیج تنی گہری ہوتی ہےکہ اسے پاٹنا ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ جے یو آئی (ف) اورپی ٹی آئی کے درمیان اتحاد بھی اسی زمرے میں آتا ہے، دونوں جماعتوں کی سیاسی حکمت عملی، نظریاتی بنیادیں اور گزشتہ چند برسوں میں تلخ سیاسی بیانات یہ واضح کرتے ہیں کہ ان کے درمیان کسی قسم کا اتحاد مستقبل قریب میں ممکن نہیں، ملکی سیاسی صورتحال کے تناظر میں بعض حلقوں کی جانب سے جے یو آئی ف اور پی ٹی آئی کے ممکنہ اتحاد کی قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں، تاہم جے یوآئی کوپی ٹی آئی کے بعض اقدامات پر شدیدتحفظات ہیں خاص طورپراسٹیبلشمنٹ کے معاملے پر تحفظات زیادہ ہیں دونوں جماعتوں میں طے ہواتھاکہ اسٹیبلشمنٹ سے رابطے نہیں کئے جائیں گے لیکن پی ٹی آئی کے اندرایک گروپ اسٹیبلشمنٹ سے رابطوں کا حامی ہے،چنانچہ جے یو آئی اس معاملے پر وضاحت چاہتی ہے لیکن پی ٹی آئی اس سے گریزاں ہیں یوں دونوں جماعتوں کے قریب آنے یاحکومت مخالف مضبوط اتحادکاکوئی امکان نظرنہیں آتا،ادھر  جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان سے ملاقات کی جس کے بعدپریس کانفرنس میں کہاگیاکہ اتحاد امت کے نام سے ایک نیا پلیٹ فارم قائم کیا جا رہا ہے، دونوں رہنماؤں نے فلسطین سے اظہارِ یکجہتی کیلئے 27 اپریل کو مینارِ پاکستان پرجلسے کا اعلان کر دیا، ان کاکہناہیکہ اتحاد کے نام پر ایک نیا پلیٹ فارم تشکیل دیا جا رہا ہے، ملک بھرمیں فلسطین کی صورت حال پر بیداری کی مہم چلائیں گے، اگر یہاں کوئی چھوٹی موٹی یہودی لابی ہے تو اس کی کوئی اہمیت نہیں،بلاشبہ اس ملاقات کوکوئی سیاست مقصدنہیں تھااہم فلسطین کے معاملے پر دونوں بڑی مذہبی جماعتوں کا ساتھ ملنابہت خوش آئندہے،علاوہ ازیں دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کے معاملے پروفا ق اورسندھ کے درمیان پیداہونیوالے تنازع کے حوالے سے ایک اہم اورمثبت پیشرفت سامنے آئی ،فریقین نے اس معاملے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے، جس سے یہ معاملہ خوش اسلوبی سے حل ہونے کی راہ ہموار ہوگئی ہے،یہ پیشرفت خاص طور پر ملک میں سیاسی استحکام برقراررکھنے کے حوالے خو ش آئندہے کیونکہ حکمراں اتحادمیں شامل اہم سیاسی جماعت پیپلزپارٹی کی طرف سے حکومت سے علیحدگی کاعندیہ بھی دیاجارہاتھااورایسی ممکنہ صورت حال سیاسی خلفشارکاباعث بن سکتی تھی جب کہ وفاق اورصوبہ سندھ کے درمیان دوریاںپیداہوتیں جو کسی صورت ملک کے مفاد میں نہیں، وزیراعظم کے مشیربرائے سیاسی اموررانا ثنا اللہ نے وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن سے دوبار ٹیلی فون پر رابطہ کیا جس میں انہوں نے کہا کہ نہروں کے معاملے پر سندھ سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں ۔

Post Views: 1

متعلقہ مضامین

  • فطری اور غیر فطری سیاسی اتحاد
  • گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری کی روضہ حضرت امام حسین علیہ السلام پر حاضری
  • گورنر سندھ کامران ٹیسوری کی روضۂ حضرت امام حسین رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ پر حاضری
  • امام جعفر صادق علیہ السلام کی علمی و سماجی خدمات
  • بانی پی ٹی آئی سیاسی داؤ پیچ میں صفر بٹا صفر ہیں، حفیظ اللہ نیازی
  • پہلگام فالس فلیگ حملےکے پیچھے چھپے بھارتی محرکات 24 گھنٹوں میں سامنے آگئے
  • عوام سے ناراض پرویز خٹک نے سیاسی سرگرمیاں کا آغاز کردیا، ’کسی کا کوئی کام نہیں کروں گا‘
  • جے یو آئی کسی سیاسی اتحاد کا حصہ نہیں بنے گی، حافظ حمداللّٰہ
  • ریاست کا حصہ ہیں، عقل کے اندھے آئین پڑھیں: عمر ایوب 
  • JUI، PTIمیں دوریاں، اپوزیشن اتحادخارج ازامکان