Express News:
2025-04-25@11:46:07 GMT

سندھ کی ترقی اور غربت

اشاعت کی تاریخ: 18th, March 2025 GMT

جے میتا Gemitaاور نیب زیپیک Nap Xepac انجکشن کینسر کے خطرناک مرض کو روکنے کے لیے مریض کو دی جاتی ہیں۔ یہ ادویات کیموتھراپی کے عمل کے ذریعے مریض کے جسم میں داخل کی جاتی ہیں۔

کینسر کے ماہر ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ کینسر کے مریض کے لیے کیموتھراپی لازمی ہوتی ہے اور جب کیموتھراپی کا عمل شروع ہو جاتا ہے تو اس میں وقفہ آجائے یا کیموتھراپی کو روک دیا جائے تو سارا عمل بے کار ثابت ہوجاتا ہے۔ بازار میں ان ادویات کی قیمت ایک لاکھ روپے کے قریب ہے، اگرکوئی مریض یا اس کے لواحقین کا رابطہ کسی طرح ان ادویات بنانے والی کمپنی کے کسی فرد سے ہوجائے توکینسر کا ڈاکٹر میزبانی کرے تو یہ ادویات 75 ہزار روپے میں دستیاب ہوتی ہیں اور کیموتھراپی کے کم سے کم 10سیشن ہوتے ہیں۔

 حکومت سندھ نے جب سے کراچی کے قدیم جناح اسپتال کو اپنی تحویل میں لیا ہے جناح اسپتال کا کینسر وارڈ صاحبِ ثروت افراد کے عطیات کی بناء پر اسٹیٹ آف آرٹ وارڈ میں تبدیل ہوگیا ہے۔ اس وارڈ میں علاج کے لیے جدید ترین مشینیں موجود ہیں مگر مریضوں کو کیموتھراپی کے لیے بازار سے ادویات خرید کر لانی پڑتی ہیں۔ سرکاری اسپتالوں میں عموماً نچلے اور نچلے متوسط طبقے کے افراد آتے ہیں۔ ان کے لیے یہ مہنگی ادویات خریدنا ایک بہت بڑا کا مسئلہ ہے۔

سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کی ایک سالہ کارکردگی پر ایک پریزنٹیشن دی گئی۔ یہ ایک اچھی کوشش ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق سندھ حکومت نے ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن کے ذریعے انفرا اسٹرکچر اور زراعت کے میدان میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے اپنی پریزنٹیشن میں ای سسٹم کے نفاذ سمیت صحت ، تعلیم، آئی ٹی، واٹر مینیجمنٹ، زراعت،گورننس اصلاحات کے حوالے سے اہم اقدامات پر روشنی ڈالی ہے۔

حکومت سندھ نے زراعت کے شعبے میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کو استعمال کرکے واٹر مینیجمنٹ کو بہتر کرنے کا دعویٰ کیا ہے مگر اخبارات کی فائلیں گواہ ہیں کہ ٹھٹھہ، بدین اور عمرکوٹ میں ٹیل کے زمینداروں کو مسلسل یہ شکایات ہیں کہ ان کے علاقے میں پانی پہنچتا نہیں ہے۔ جن زمینداروں کی زمینیں نہروں کے ابتدائی حصے میں واقع ہیں، ان کی زمینوں کو پانی مل جاتا ہے۔ یہ بھی رپورٹیں ہیں کہ دریائے سندھ کے قریب شہروں میں بھی پانی کی قلت ہے۔ اس کی ایک وجہ تو سندھ میں پانی کی کمی ہے تو دوسری طرف دریائے سندھ اور نہروں سے ہر سال مٹی نکالنے کا کام نہ ہونا بھی پانی کی کمی کی وجہ قرارد یا جاتا ہے۔

سندھ کی حکومت نے زراعت کے لیے پانی استعمال کرنے کے جدید ترین طریقوں کو رائج کرنے پر توجہ نہیں دی۔ اگر یہ جدید ترین طریقے رائج کیے جائیں تو پانی کی کمی کے باوجود بھی اچھی فصلیں پیدا ہوسکتی ہیں۔ چند ماہ قبل ایک انگریزی معاصر میں ایک ماہر زراعت نے سندھ میں پیدا ہونے والی فصلوں کی پیداوار سندھ کی سرحد سے منسلک بھارت کی ریاست راجھستان کی فصلوں کی پیداوار کی شرح کا موازنہ کیا ہے۔

اس موازنے سے ظاہر ہورہا ہے کہ گندم، چاول اور دوسری فصلوں کی سندھ میں فی ایکڑ پیداوار راجھستان میں سے کم ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ حکومت سندھ کا محکمہ زراعت ہاریوں اور زمینداروں کو جدید طریقوں سے مانوس کرانے میں ناکام ہے۔ اس رپورٹ میں شعبہ تعلیم میں کارکردگی کا جائزہ لیا گیا ہے مگر سندھ میں اب بھی 3.

63 ملین بچے اسکول نہیں جاتے اور محض اسکول نہ جانے والے بچوں کی بڑی تعداد کا تعلق دیہی علاقوں سے ہے۔ ان اسکول نہ جانے والے بچوں میں اکثریت لڑکیوں کی ہے۔ عجیب بات ہے کہ اب بھی تعلیم کے لیے امداد دینے والے عالمی ادارے گھوسٹ اسکولوں کی موجودگی کا ضرور ذکرکرتے ہیں ۔

USAID کی مدد سے اندرونِ سندھ تعلیم کے کئی منصوبے بنے تھے۔ ایک امریکی سینیٹر نے صدر ٹرمپ کے یو ایس ایڈ کو بند کرنے کے فیصلہ کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ سندھ میں یو ایس ایڈ کے کروڑوں ڈالر خرچ ہونے کے باوجود گھوسٹ اسکولوں کی موجودگی کا مطلب کرپشن ہے۔ بہرحال سندھ کے تمام تعلیمی بورڈ جو میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات کا انعقاد کرتے ہیں، مسلسل اسکینڈلزکی زد میں رہتے ہیں۔ ابھی گزشتہ ماہ تک چھ بورڈز کے چیئرمین کا تقرر ایک سال کے قریب عرصہ سے رکا ہوا تھا۔ تعلیمی شعبے کی زبوں حالی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ صرف کراچی بورڈ کے انٹرمیڈیٹ کے امتحانات کے نتائج مشکوک ہوجاتے ہیں۔

گزشتہ سال انٹرمیڈیٹ کے امتحانات کے نتائج ایک سیاسی تنازع بن گیا ہے۔ اس معاملے کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی کی رپورٹ میں تو یہ انکشاف کیا گیا کہ فرسٹ ایئر کے مختلف مضامین کی خاصی امتحانی کاپیاں چیک نہیں کی گئی تھیں۔ اس رپورٹ میں اندرونِ سندھ ہونے والے صنعتی ترقی کا ذکر نہیں ہے۔

سندھ کی حکومت شعوری طور پر اندرونِ سندھ شہروں میں صنعتی ترقی کی اہمیت کو محسوس نہیں کرتی جس کے نتیجے میں بے روزگاری عام ہے اور اندرونِ سندھ شہروں کے نوجوان بڑے شہروں میں منتقل ہو کر ملازمتیں حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان نوجوانوں کا سارا زور سرکاری ملازمتوں کے حصول پر ہوتا ہے، اگر اندرونِ سندھ زرعی مصنوعات کے علاوہ دیگر بنیادی پروڈکٹ کے کارخانے لگائے جائیں تو ترقی کا عمل تیز تر ہوجائے گا۔

وزیر اعلیٰ کی اس پریزنٹیشن میں صحت کے لیے بھی بڑے پیمانہ پر اسپتالوں کو دی جانے والی گرانٹ کا ذکر کیا گیا ہے اور حکومت کا کہنا ہے کہ سندھ میں بین الاقوامی معیار کے 9 ایمرجنسی سینٹر اور 106 ٹیلی میڈیسن مراکز قائم کیے گئے ہیں اور حکومت کی کوششوں کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں اور صوبہ میں بچوں کی اموات کی شرح 5.4 فیصد سے کم ہو کر 2.9 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ حکومت سندھ کا یہ اہم کارنامہ ہے مگر لاڑکانہ ضلع کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ لاڑکانہ اور اطراف کے اضلاع میں ایڈز کا مرض تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اسی طرح ہیپاٹائیٹس Bاور C نے ایک خطرناک صورت اختیار کرلی ہے۔ ایڈز کے مرض پھیلنے کی وجہ ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر D.H.O کے ادارہ کا کمزور ہونا ہے، اگر ڈی ایچ او اپنے ضلع میں ڈاکٹروں ، نرسوں ، کمپوڈر اور حجام کی دکانوں وغیرہ کی سنجیدگی سے نگرانی کا فریضہ انجام دے تو یہ امراض رک سکتے ہیں۔

 سندھ میں کتے کے کاٹنے کا مرض خطرناک شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ دو ماہ میں کتے کے کاٹنے سے صرف کراچی کے تین اسپتالوں میں چھ مریض ہلاک ہوئے۔ اس رپورٹ میں مزید یہ بھی بتایا گیا ہے کہ صرف کراچی کے انڈس اسپتال میں گزشتہ سال کتے کے کاٹنے کے پندرہ ہزار مریض آئے تھے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اندرونِ سندھ اسپتالوں میں کتے کے کاٹنے کی ویکسین دستیاب نہیں ہے۔

 کراچی شہر کے آدھے سے زیادہ مکینوں کے گھروں میں نلوں سے پانی نہیں آتا۔ صاف پانی اور گندے پانی کی نکاس جیسے بنیادی اقدامات سے بہت سے امراض پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ اس رپورٹ میں سندھ میں غربت کی خط کے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد کا ذکر نہیں کیا گیا۔ خطِ غربت کے نیچے زندگی گزارنے کی سندھ میں شرح 40.3 فیصد ہے۔ جب تک غربت کم نہیں ہوتی، ترقی کا حقیقی مفہوم عملی شکل اختیار نہیں کرسکتا۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اس رپورٹ میں حکومت سندھ ہیں اور جاتا ہے پانی کی سندھ کی گیا ہے

پڑھیں:

سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا اعلان بے معنی؛ یہ معاہدہ کبھی جنگوں کے دوران بھی معطل نہیں ہوا

سٹی42: بھارت اعلان کر کے پاکستان کے ساتھ سندھ طاس معاہدے کو ختم  نہیں کر سکتا۔ بھارت کا آج شب کیا جانے والا اعلان عملاً بے معنی ہے کیونکہ بھارت نہ تو پاکستان کے دریاؤں کا پانی روک سکتا ہے نہ  کسی اور طرح کا نقصان پہنچا سکتا ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ آج سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد پاکستان بھارتی حکومت کے اقدامات کا منہ توڑ جواب دے گا۔

 بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں سیاحوں کے قتل کے فالس فلیگ آپریشن کے بعد  پاکستان کے ساتھ سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا جو اعلان کیا ہے اس کی کوئی عملی اہمیت نہیں۔ 

پی ایس ایل10؛ ملتان سلطانز کا ٹاس جیت کر بیٹنگ کا فیصلہ

بھارت نے سارک کے تحت پاکستانیوں کو دیے گئے ویزے منسوخ کرنے کا بھی اعلان کیا ہے اور بھارت میں موجود پاکستانیوں کو 48 گھنٹوں میں ملک چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔

سندھ طاس معاہدہ پاکستان اور بھارت کے درمیان دو طرفہ عالمی معاہدہ ہے جسے بھارت یک طرفہ طور پر ختم نہیں کر سکتا۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان   1960 میں سندھ طاس معاہدہ عالمی بینک کی ثالثی میں طے  ہوا تھا،  اس معاہدے میں کوئی تبدیلی دونوں ممالک کی رضامندی سے ہی ہو سکتی ہے۔پاکستان کے صدر جنرل ایوب خان ، بھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو اور عالمی بینک کے صدر کے درمیان سندھ طاس معاہدے پر 19 ستمبر 1960ء کو دستخط ہوئے تھے. 

زیلنسکی کا کریمیا پر روسی قبضہ ماننے سے انکار،  امریکہ کے نائب صدر کا یوکرین کو الٹی میٹم

ہمسایہ ملک کے ساتھ مستقبل میں دریاؤں کے پانی کے متعلق کسی بھی مسئلہ کو لے کر کشیدگی پیدا ہونے کا امکان ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کی ضرض سے پاکستان نے اپنے تین دیراؤں کے پانی کے استعمال کے بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حقوق بھارت کو دے کر ان کے بدلے میں دوسرے تین دیراؤں کا پانی مکمل طور پر خود استمعال کرنے کے حقوق حاصل کئے تھے۔ 

سندھ طاس معاہدے کے تحت ہمالیہ کے پہاروں سے آنے والے تین  دریا ؤں سندھ، چناب اور جہلم کا پانی مکمل طور پر  پاکستان کو  دیا گیا اور راوی، ستلج اور بیاس کا پانی مکمل طور پر بھارت کو  دے دیا گیا تھا۔ 

مکہ میں پرمٹ کے بغیر داخلے پر پابندی

اس معاہدہ کے بعد پاکستان نے تین دریاؤں ستلج، بیاس اور راوی کے نہری نظام کو برقرار رکھنے اور ان دریاؤں کے علاقوں کو آبپاشی کے لئے پانی کی فراہمی برقرار رکھنے کے لئے سندھ، چناب اور جہلم دریاؤں سے پانی نکال کر  ستلج، بیاس اور راوی دریاؤں کے نہری سسٹم میں ڈالنے کے لئے دنیا کا سب سے بڑا لنک کینالز کا سسٹم تعمیر کیا جس پر اس زمانہ میں اربوں روپے خرچ ہوئے ۔

بھارت کی طرف سے ماضی میں سندھ طاس معاہدہ کی خلاف ورزیاں کر کے دریائے چناب اور دریائے جہلم کے پانی کو جزوی طور پر استعمال کرنے کی کوششیں کی گئیں اور  پاکستانی دریاؤں پر پن بجلی منصوبے تعمیر کرکے پاکستان آنے والے پانی کو متاثر کیا گیا ۔  

نواز شریف کا لندن سے فوری پاکستان واپس آنے کا فیصلہ

 تین سال سے بھارت کی موجودہ حکومت کی ہٹ دھرمی کے باعث پاکستان اور بھارت کے انڈس واٹر کمشنرز کا اجلاس نہیں ہو سکا، دونوں ملکوں کے درمیان انڈس واٹر کمشنرز کا آخری اجلاس 30 اور 31 مئی 2022کو نئی دہلی میں ہوا  تھا۔

سندھ طاس معاہدے کے تحت سال میں دونوں ملکوں کے کمشنرز کا اجلاس ایک بار ہو نا ضروری ہے۔پاکستان کے انڈس واٹر کمشنرکی طرف سے بھارتی ہم منصب کو اجلاس بلانے کے لیے متعدد بار خط لکھا گیا لیکن کوئی مناسب جواب نہیں ملا۔ 

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کے طریقہ کار کیخلاف درخواست گزار کے وکیل کومہلت

اب بھارت کے مقبوضہ کشمیر میں سیاحوں کے قتل کے واقعہ کی تحقیقات کر کے اپنے مجرموں کو پکڑنے کی بجائے نئی دہلی میں وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت نے پاکستان کے آبپاشی نظام پر حملہ کرنے کا نعرہ لگا دیا جس کا کوئی جواز نہیں۔

پاکستان کے سرکاری ذرائع نے کہا کہ سندھ طاس معاہدہ کی کسی ایک شق کو  بھی چھیڑنے کی گنجائش نہیں ۔ سندھ طاس معاہدہ کو ختم کرنا بھارت میں بعض لوگوں کا خواب تو ہو سکتا ہے لیکن اس پر عملددرآمد کرنا ممکن نہیں۔  پاکستان بھارت کی ایسی کسی بھی کوشش کو لے کر بین الاقوامی ثالثی کی طرف جائے گا تو بھارت کو   اپنے ہکطرفہ اقدام کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔

پاکستان کا ابتدائی ردعمل

ذمہ دار سرکاری ذرائع نے بتایا کہ بھارت کی یکا یک کشیدگی پیدا کرنے کی سازش کا پاکستان تحمل اور برداشت کے ساتھ مناسب جواب دے گا۔ آج اسلام آباد میں بھارتی اشتعال انگیزی کا فوری جائزہ لیا گیا لیکن کوئی فوری ردعمل نہیں دیا گیا۔

کل جمعرات کی صبح پہلے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان کی سینئیر ترین قیادت بھارت کو مناسب جواب دینے کا فیصلہ کرے گی۔ اس کے بعد امکان ہے کہ وزارت خارجہ کی جانب سے جلد بھارتی ناظم الامور کو بھی دفتر خارجہ طلب کیا جائے گا اور  پاکستان کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ کو یکطرفہ طور پر عمطل کرنے کے اعلان پر  سخت جواب دیا جاے گا۔

 سفارتی ذرائع نے بتایا کہ  بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو معطل کیا  ہی نہیں جا سکتا۔

سندھ طاس معاہدہ تو جنگوں کے دوران بھی کبھی معطل نہیں ہوا۔  اسمعاہدے کی ایک اہم  شق یہ ہے کہ بھارت اس معاہدے کو یک طرفہ معطل نہیں کر سکتا۔

Waseem Azmet

متعلقہ مضامین

  • بھارت پاکستان کے خلاف کیا کرسکتا ہے؟
  • متنازع کینالوں کے برعکس نیا پروجیکٹ، جس میں حکومت کو کوئی دلچسپی نہیں
  • کینالز سندھ کے پانی پر کیا اثر ڈالیں گی؟ وفاق آج تک واضح نہ کر سکا: شاہد خاقان
  • سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا اعلان بے معنی؛ یہ معاہدہ کبھی جنگوں کے دوران بھی معطل نہیں ہوا
  • اگر صوبے کو پانی میں حق نہیں ملتا تو ہم سندھ کے ساتھ ہیں، علی امین
  • وفاق نے معاملہ خراب کردیا، حکومت گرانا نہیں چاہتے لیکن گراسکتے ہیں، وزیراعلیٰ سندھ
  • ن لیگ والے ضیا الحق کے وارث تو ہو سکتے ہیں پنجاب کے نہیں: پی پی رہنما
  • نہری منصوبہ کسان دشمنی ہے، حکومت آئینی حدود سے تجاوز کر رہی ہے، پیپلز پارٹی
  • سندھ حکومت کینالز منصوبہ رکوانے میں کامیاب ہے، مراد علی شاہ
  •  کینالزتنازع:  نظرآرہاہے کہ معاملہ  جلد حل ہوجائے گا ،وزیراعلیٰ سندھ