اسلام ٹائمز: اس سے پہلے کہ لوگ خطرناک ’را‘ کا نام لیں، ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ ابتدائی سالوں میں ٹی ٹی پی کو بھی بھارتی خفیہ ایجنسی کی پشت پناہی حاصل تھی۔ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری سے کئی سال پہلے افغانستان میں بھارتی قونصل خانوں کے پاکستان میں تشدد میں کردار کے حوالے سے مسلسل بات چیت ہوتی رہی ہے۔ ایک آف دی ریکارڈ گفتگو میں کہا گیا کہ ٹی ٹی پی اور دیگر تنظیموں کی بہت سی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے سرپستی کی ہے۔ دی گریٹ گیم جاری ہے جس میں پاکستان بنیادی ہدف ہے۔ تحریر: عارفہ نور

کال کا وقت بالکل مناسب نہ تھا۔ افطار میں صرف آدھا گھنٹہ باقی تھا۔ میں پہلے ہی تھکاوٹ محسوس کر رہی تھی جبکہ میں ایک اہم کام میں مصروف تھی، کریم چیز کی فراسٹنگ ٹھیک سے مکس نہیں ہورہی تھی لیکن جب عظیمہ نے ’ہیلو‘ کے بعد ’بلوچستان‘ کہا تو میں نے اپنے ہاتھ میں پکڑی چھڑی نیچے رکھ دی کیونکہ یہ گفتگو مختصر نہیں ہونے والی تھی لیکن کیا میں ایسے وقت میں توجہ مرکوز کر پاؤں گی؟ یہ وہ وقت ہوتا ہے کہ جب توجہ سیاست کی طرف نہیں بلکہ پکوڑوں کی طرف ہوتی ہے۔ مگر کال کی دوسری طرف جو موجود تھی، اسے اس کی کوئی پروا نہیں تھی۔ عظیمہ میں یہ خوبی ہے کہ وہ سخت سوالات پوچھتی ہیں کہ دماغی تھکاوٹ کے باوجود آپ توجہ دینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ وہ جاننا چاہتی تھیں کہ آیا ریاست نے کبھی ناراض بلوچوں کو منانے کی کوشش کی ہے؟ ’ظاہر ہے کی ہے‘، میں نے سمجھایا۔ یہ مسلم لیگ (ن) کے گزشتہ دورِ حکومت میں ہوا تھا کہ جب عبدالمالک بلوچ وزیراعلیٰ بلوچستان تھے۔ انہیں جلا وطن بلوچوں سے بات چیت کا کام سونپا گیا تھا اور وہ کئی بار یہ کہتے نظر آئے کہ اس حوالے سے مثبت پیش رفت ہوئی ہے جبکہ ناراض بلوچ عوام نے کچھ ایسے مطالبات رکھے ہیں جن پر کام کیا جاسکتا ہے اور عبدالمالک کی نظر میں ان میں سے کچھ مطالبات کو پورا بھی کیا جاسکتا تھا لیکن اسٹیبلشمنٹ نے واضح کردیا تھا کہ وہ نہ مطالبات پورے کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور نہ ہی وہ مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھنا چاہتے ہیں۔

عظیمہ نے جواباً کہا مگر وہ براہِ راست مذاکرات نہیں تھے‘۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی طرح جہاں جنگ بندی کے لیے مذاکرات ہوئے تھے مگر یہ جنگ بندی کم وقت ہی قائم رہ پائی تھی لیکن بلوچ عوام کے ساتھ کبھی ایسا نہیں ہوا۔ عظیمہ نے جس بات کی نشاندہی کی وہ بھی درست تھی اور جب موازنہ ٹی ٹی پی کے ساتھ کیا جائے تو فرق انتہائی واضح ہے۔ ایسے بہت سے مواقع آئے کہ جب ٹی ٹی پی کے ساتھ بات چیت کی گئی۔ پرویز مشرف کے دور میں معاہدے پر معاہدے ہوئے کیونکہ تب ریاست اصل خطرے کو بھانپ نہیں پائی تھی تو اس سے نمٹنے کے لیے بھی تیار نہیں تھی۔ ایک جنرل کی جانب سے نیک محمد کے گلے میں ہار پہنانے کی تصویر شاید اس دور کے حالات کی بھرپور عکاسی کرتی ہے لیکن بعد میں بھی جب اصل خطرہ واضح ہوچکا تھا تب بھی ان سے مذاکرات کے لیے کوششیں کی گئیں۔ اس کی مثال وہ معاہدہ ہے جس کے نتیجے سوات میں صوفی محمد کی رہائی عمل میں آئی۔

بعد ازاں نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی اور انہیں ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے لیے بھیجا گیا۔ اس سلسلے کی تازہ ترین مثال وہ مذاکرات ہیں جو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے دور میں ہوئے تھے لیکن بلوچستان میں عبدالمالک بلوچ کی جانب سے بات چیت کے علاوہ کچھ نہیں کیا گیا جبکہ اس کا بھی کوئی خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ ریاست نے بڑھتی ہوئی بغاوت کو دبانے میں بہت کم توجہ دی۔ نواب اکبر بگٹی جن کے ساتھ بات چیت بھی ہوئی اور نکات پر اتفاق بھی ہوا لیکن پھر ایک آمر کی جانب سے ان کوششوں کو خراب کردیا گیا جس کی اقتدار پر گرفت کمزور ہورہی تھی۔ آمر پاکستان پیپلز پارٹی سے بات چیت کے لیے تیار تھے، ان کے جنرل ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے لیے راضی تھے مگر اکبر بگٹی سے بات چیت کے لیے ان کے پاس گنجائش نہ تھی۔ (اور جب سے قبائلی لیڈران کی جگہ متوسط طبقے کی قیادت نے صوبے کی کمان لی ہے تب سے مذاکرات سے انکار میں مزید اضافہ ہی دیکھنے میں آیا ہے۔)

ایک سے زائد مواقع پر ریاست نے ٹی ٹی پی کو ایک ایسے کردار کے طور پر دیکھا ہے جن سے بات چیت اور مذاکرات ہوسکتے ہیں حالانکہ ٹی ٹی پی جن علاقوں میں متحرک ہے وہاں اسے مقامی حمایت بھی حاصل نہیں لیکن بلوچستان میں شاذ و نادر ہی اس آپشن پر توجہ دی گئی جبکہ عمل در آمد تو بہت دور کی بات ہے۔ درحقیقت جیسے جیسے صوبے میں سیاسی انجینئرنگ میں اضافہ ہوا ہے تو مذاکرات کا خیال مزید ناقابلِ قبول ہوچکا ہے۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) مینگل جیسے حلقوں کے علاوہ چند بلوچ ’سیاستدانوں‘ نے صوبائی اور وفاقی اسمبلیوں میں مذاکرات کی حمایت کی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اقتدار میں بیٹھے چند لوگوں نے اس کے خلاف دلائل پیش کرنے میں اپنی تمام طاقت صرف کردی ہے کیونکہ شاید ان کا وجود اور اہمیت کا انحصار ناراض بلوچوں کے ناراض رہنے میں ہی ہے۔

اگر بلوچستان میں انتخابات کسی حد تک آزادانہ اور منصفانہ ہوتے تو ٹی وی اسکرینز پر نظر آنے والے زیادہ تر سیاستدانوں کو توجہ دی جاتی اور نہ انہیں سنجیدگی سے لیا جاتا۔ یہ خیبر پختونخوا سے مختلف صورت حال ہے جہاں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ساتھ کشیدہ تعلقات کے باوجود انتخابی نتائج میں اس طرح کی ہیرا پھیری نہیں ہوئی جیسی کہ ہم نے بلوچستان میں دیکھی۔ لیکن میں اصل موضوع سے بھٹک رہی ہوں۔ دونوں صوبوں کی شورشوں سے نمٹنے کے طریقہ کار میں یہ فرق اس وقت بھی موجود تھا کہ جب بلوچستان کی قیادت بدعنوان نہیں تھی یا اس کی قیادت پر سمجھوتہ نہیں کیا جارہا تھا۔ اس سے پہلے کہ لوگ خطرناک ’را‘ کا نام لیں، ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ ابتدائی سالوں میں ٹی ٹی پی کو بھی بھارتی خفیہ ایجنسی کی پشت پناہی حاصل تھی۔ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری سے کئی سال پہلے افغانستان میں بھارتی قونصل خانوں کے پاکستان میں تشدد میں کردار کے حوالے سے مسلسل بات چیت ہوتی رہی ہے۔

ایک آف دی ریکارڈ گفتگو میں کہا گیا کہ ٹی ٹی پی اور دیگر تنظیموں کی بہت سی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے سرپستی کی ہے۔ دی گریٹ گیم جاری ہے جس میں پاکستان بنیادی ہدف ہے۔ بعدازاں پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے اُبھرنے کو بھی ’بیرونی‘ حمایت کے کھاتے میں ڈال دیا گیا۔ لیکن اس سب کے باوجود ٹی ٹی پی کو بات چیت کے قابل سمجھا گیا۔ کبھی بھی شدید پُرتشدد واقعات کو وجہ بنا کر ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات ختم نہیں کیے گئے۔ بی بی سی کی ایک اسٹوری کے مطابق جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے فروری 2014ء میں ناراض بلوچوں کے لیے کمیٹی تشکیل دی تو گزشتہ ماہ 100 سے زائد افراد پُرتشدد واقعات میں اپنی جان گنوا چکے تھے۔ لیکن اب جب بلوچ عوام سے بات چیت کا خیال پیش کیا جاتا ہے تو ہمیں کہا جاتا ہے کہ ٹرین ہائی جیکنگ کے بعد سے ریاست اس معاملے میں کسی طرح کی کمزوری ظاہر کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ گویا جیسے اس واقعے سے پہلے ریاست کا مزاج مختلف تھا۔

بلوچستان میں، تشدد اور بیرونی مداخلت کو ایسی وجوہات کے طور پر دیکھا جاتا ہے کہ جس کے لیے ریاست کے پاس صرف طاقت کے استعمال کے علاوہ کوئی حل نہیں۔ اگرچہ ٹی ٹی پی کے برعکس بلوچستان میں باغیوں کو عوامی حمایت حاصل ہے لیکن ان سے بات چیت کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پاکستانی ریاست یا کوئی بھی ریاست تشدد کا جواب نہیں دے سکتی بلکہ زیادہ تر شورشوں میں حل بات چیت اور فوجی کارروائی کے امتزاج سے نکلتا ہے جیسا کہ عموماً ہم کہتے ہیں لیکن بلوچستان میں ہم نہ صرف عام فہم کی نفی کرتے ہیں بلکہ ملک کے دیگر علاقوں میں ہم جو روش اپناتے ہیں، بلوچستان کے لیے وہ بھی ناپید یا ناقابلِ عمل ہوتی ہے۔ لیکن ایسا کیوں ہے؟ عظیمہ کے پاس اس کا بہترین جواب ہے لیکن ان دنوں اپنی آرا کا عوامی سطح پر یوں اظہار کرنا اچھا خیال نہیں۔ تو میرے خیال میں سوال کے ساتھ ہی اس تحریر کو ختم کرنا بہتر رہے گا۔

اصل تحریر:
https://www.

dawn.com/news/1898649/no-talks-for-baloch

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: بلوچستان میں ٹی ٹی پی کو سے مذاکرات ناراض بلوچ ٹی ٹی پی کے بات چیت کے سے بات چیت لیکن بلوچ کی قیادت توجہ دی کے ساتھ نہیں کی کے لیے میں یہ

پڑھیں:

مولانا نے اتحاد کیوں نہیں بنایا

تحریک انصاف کو ایک اور سیاسی دھچکا ملا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن اور ان کی جماعت جے یو آئی (ف) نے فی الحال تحریک انصاف کے ساتھ کسی بھی قسم کا سیاسی اتحاد نہ بنانے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی تحریک انصاف اور بانی تحریک انصاف کا گرینڈ اپوزیشن الائنس بنانے کا خواب بھی ٹوٹ گیا۔ اگر دیکھا جائے تو مولانا کے انکار نے تحریک انصاف کی سیاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اس سے تحریک انصاف کے سیاسی وزن میں کمی ہوگی۔ اور ان کی سیاسی تنہائی میں اضافہ ہوگا۔

تحریک انصاف کے سیاسی نقصان پر بعد میں بات کرتے ہیں، پہلے اس پہلو پر غور کریں کہ اگر گرینڈا پوزیشن الائنس بن جاتا؟ تحریک انصاف اور جے یو آئی (ف) کا سیاسی اتحاد بن جاتا تو کیا ہوتا؟ یہ پاکستان کی سیاست میں ایک بڑی تبدیلی ہوتی۔ پی ٹی آئی کے سیاسی وزن میں بہت اضافہ ہوتا۔ حکومت کے مقابلہ میں اپوزیشن مضبوط ہوتی۔ میں ابھی احتجاجی سیاست کی بات نہیں کر رہا۔ یہ اتحا د نہ بننے سے تحریک انصاف کی پارلیمانی سیاست کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ اپوزیشن تقسیم رہے گی۔

آپ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلا س کی مثال سامنے رکھ لیں۔ مولانا اجلا س میں پہنچ گئے۔ حکومت کے مطابق اپوزیشن کی نمائندگی موجود تھی۔ تحریک انصاف کے بائیکاٹ کا وہ اثر نہیں تھا۔ جو مشترکہ بائیکاٹ کا ہو سکتا تھا۔ اسی طرح 26ویں آئینی ترمیم کی ساکھ بھی تب بہتر ہوئی جب اس کو اپوزیشن نے بھی ووٹ ڈالے۔ چاہے مولانا نے ہی ڈالے۔ اس لیے میری رائے میں مولانا کے اتحاد نہ کرنے کے فیصلے کا تحریک انصاف کی پارلیمانی سیاست کو بھی کافی نقصان ہوگا۔

وہ بھی کمزور ہوگی۔ یہ الگ بات ہے کہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف تو پہلے ہی کئی دن سے اس اتحاد کے نہ بننے کا اعلان کر رہے ہیں۔ وہ بار بار بیان دے رہے تھے کہ اگر مولانا نے اتحاد نہیں کرنا تو نہ کریں، ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ایسے بیانات بنتے اتحاد کو بھی توڑ دیتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں تحریک انصاف کے اندر ایک دھڑا جہاں یہ اتحاد بنانے کی کوشش کر رہا تھا، وہاں تحریک انصاف کا ہی ایک اور دھڑا روز اس اتحاد کو بننے سے روکنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اگر اسد قیصر اتحاد بنانے کی کوشش کر رہے تھے تو گنڈا پور اور عمر ایوب اس کے حق میں نہیں تھے۔

جے یو آئی (ف) کے رہنما کامران مرتضیٰ کا بہت سادہ موقف سامنے آیا ہے۔ان کے مطابق اسد قیصر جو اس اتحاد کے لیے تحریک انصاف کی طرف سے فوکل پرسن مقرر ہو ئے تھے، وہ لندن چلے گئے اور سیاسی طو رپر بھی خاموش ہو گئے۔ جب اعظم سواتی نے اسٹبلشمنٹ سے بات چیت کے بیانات دیے تو کامران مرتضیٰ نے فوری بیان دیا کہ تحریک انصاف سے یہ بات طے ہوئی ہے کہ دونوں جماعتوں میں سے کوئی اکیلا اسٹبلشمنٹ سے بات نہیں کرے گا۔ جب بھی بات کی جائے مشترکہ بات کی جائے گی، آپ دیکھیں ابھی باقاعدہ اتحاد بنا ہی نہیں ہے اور تحریک انصاف کی طرف سے طے شدہ اصولوں سے انحراف شروع ہو گیا۔

جے یو آئی (ف) کے بیانات کہتے رہے اسد قیصر وضاحت کریں۔ ہم صرف ان کی وضاحت قبول کریں گے۔ کامران مرتضیٰ بیان دیتے رہے کہ وضاحت دیں ۔ لیکن اسد قیصر چپ رہے۔ ہ لندن سے واپس بھی نہیں آئے۔ ان کے علاوہ کسی نے (جے یو آئی ف )سے ملاقات کی کوشش بھی نہیں کی۔ ایسے میں آپ دیکھیں جے یو آئی (ف) کے پاس کیا آپشن رہ جاتے ہیں۔ وہ ایسے میں اتحاد نہ بنانے کا اعلان کرنے کے سوا کیا فیصلہ کر سکتے تھے۔

تحریک انصاف کا وہ دھڑا جو اسٹبلشمنٹ سے مفاہمت چاہتا ہے۔ وہ اس اتحاد کی راہ میں رکاوٹ نظر آرہا تھا۔ وہ دھڑا جو کے پی میں حکومت میں ہے، وہ اس اتحادکے حق میں نظر نہیں آرہا تھا۔ عمر ایوب بھی زیادہ پرجوش نہیں تھے۔ یہ سب سامنے نظر آرہا تھا۔

یہ اتحاد نہ بننے سے تحریک انصاف کا سڑکیں گرم کرنے کا خواب بھی چکنا چورہو گیا ہے۔ تحریک انصاف اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ اب اس میں سڑکیں گرم کرنے طاقت نہیں رہی ہے۔ پنجاب میں مزاحمتی طاقت ختم ہو گئی ہے۔

کے پی میں تقسیم بڑھتی جا رہی ہے۔ اس لیے اگر مولانا ساتھ مل جاتے اور احتجاجی تحریک شروع کی جاتی تواس میں زیادہ طاقت ہوتی۔ مولانا کا ورکر زیادہ طاقتور ہے۔ مولانا کی احتجاجی سیاست کی طاقت آج بھی تحریک انصاف سے زیادہ ہے۔ لیکن یہ بھی تو تسلیم کریں کہ مولانا نے اگر اپنا ورکر باہر نکالنا ہے تو تحریک انصاف سے کچھ طے ہونا ہے۔ جے یو آئی کا ورکرکوئی کرائے کا ورکر تو نہیں جو تحریک انصاف کو کرائے پر دے دیا جائے۔

میں سمجھتا ہوں شاید اسٹبلشمنٹ مولانا کو تو اس اتحاد بنانے سے نہیں روک سکتی تھی لیکن اس لیے تحریک انصاف ہی کو استعمال کر کے اس اتحاد کو بننے سے روکا گیا ہے۔ تحریک انصاف نے اس اتحاد کے خدو خال بھی واضح نہیں کیے تھے۔

تحریک انصاف نے اگر قائد حزب اختلاف کے عہدے اپنے پاس رکھنے تھے تو کم از کم اتحاد کی سربراہی کی پیشکش مولانا کو کی جانی چاہیے تھی۔ کیا تحریک انصاف چاہتی تھی کہ وہ اپوزیشن کو ملنے والے تمام عہدے بھی اپنے پاس رکھے اور مولانا سڑکیں بھی گرم کر دیں۔ مجھے لگتا ہے کہ تحریک انصاف میں لوگوں کو یہ خوف پڑ گیا کہ اگر مولانا آگئے تو ان کا عہدہ چلا جائے گا۔ کے پی خوف میں آگئے کہ مولانا کی جماعت کو اقتدار میں حصہ دینا ہوگا۔ قومی اسمبلی سینیٹ میں تحریک انصاف کی قیادت اپنے خوف میں پڑ گئی۔ اس لیے تحریک انصاف نے یہ اتحاد نہ بننے کی راہ خود ہموار کی۔

ایک اور بات جو جے یو آئی (ف) کے لیے شدید تشویش کی بات تھی کہ بانی تحریک انصاف نے ابھی تک اس اتحاد کو بنانے اور مولانا فضل الرحمٰن کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔ ان کی پالیسی اور سوچ واضح نہیں تھی۔

بانی تحریک انصاف مولانا کے بارے میں خاموش ہیں۔ وہ نہ حق میں بات کر رہے ہیں نہ خلاف بیان کر رہے ہیں۔ جے یو آئی چاہتی تھی کہ کم از کم اس اتحاد کو بنانے کے لیے بانی کا خط ہی آجائے کہ وہ مولانا کو اتحاد بنانے کی دعوت دیں۔ اس بات کی کیا گارنٹی تھی کل بانی تحریک انصاف کہہ دیں کہ میں نے تو اس اتحاد کی منظوری نہیں دی تھی۔ میں نہیں مانتا۔ ایسا کئی مواقع پر ہو بھی چکا ہے۔ لیکن تحریک انصاف بانی تحریک انصاف کا خط لانے میں بھی ناکام رہی۔ اسد قیصر باہر تھے۔ خط آیا نہیں، کوئی ملنے کو تیار نہیں تھا، پھر اتحاد کیسے بنتا۔

متعلقہ مضامین

  • اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز ٹرانسفر اور سنیارٹی سے متعلق اہم درخواست دائر
  • اردن: حزب اختلاف اخوان المسلمون کو کالعدم قرار دے دیا گیا
  • پاکستان کسان اتحاد کا گندم کی کاشت میں بہت بڑی کمی لانے کا اعلان
  • کوئٹہ، پریس کانفرنس سے پہلے ڈی سی سے اجازت کا حکم کالعدم قرار
  • وفاق نے معاملہ خراب کردیا، حکومت گرانا نہیں چاہتے لیکن گراسکتے ہیں، وزیراعلیٰ سندھ
  • چین کے ساتھ ٹیرف معاہدہ جلد ممکن ہے، امریکی صدر
  • عوام سے ناراض پرویز خٹک نے سیاسی سرگرمیاں کا آغاز کردیا، ’کسی کا کوئی کام نہیں کروں گا‘
  • مولانا نے اتحاد کیوں نہیں بنایا
  • اعظم سواتی کے اعتراف کے بعد پی ٹی آئی کیساتھ اتحاد ممکن نہیں رہا، کامران مرتضیٰ
  • بلوچستان ہائیکورٹ نے پریس کانفرنس کی پیشگی اجازت کا حکم کالعدم قرار دیدیا