جب کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات ممکن ہیں تو ناراض بلوچوں سے کیوں نہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 19th, March 2025 GMT
اسلام ٹائمز: اس سے پہلے کہ لوگ خطرناک ’را‘ کا نام لیں، ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ ابتدائی سالوں میں ٹی ٹی پی کو بھی بھارتی خفیہ ایجنسی کی پشت پناہی حاصل تھی۔ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری سے کئی سال پہلے افغانستان میں بھارتی قونصل خانوں کے پاکستان میں تشدد میں کردار کے حوالے سے مسلسل بات چیت ہوتی رہی ہے۔ ایک آف دی ریکارڈ گفتگو میں کہا گیا کہ ٹی ٹی پی اور دیگر تنظیموں کی بہت سی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے سرپستی کی ہے۔ دی گریٹ گیم جاری ہے جس میں پاکستان بنیادی ہدف ہے۔ تحریر: عارفہ نور
کال کا وقت بالکل مناسب نہ تھا۔ افطار میں صرف آدھا گھنٹہ باقی تھا۔ میں پہلے ہی تھکاوٹ محسوس کر رہی تھی جبکہ میں ایک اہم کام میں مصروف تھی، کریم چیز کی فراسٹنگ ٹھیک سے مکس نہیں ہورہی تھی لیکن جب عظیمہ نے ’ہیلو‘ کے بعد ’بلوچستان‘ کہا تو میں نے اپنے ہاتھ میں پکڑی چھڑی نیچے رکھ دی کیونکہ یہ گفتگو مختصر نہیں ہونے والی تھی لیکن کیا میں ایسے وقت میں توجہ مرکوز کر پاؤں گی؟ یہ وہ وقت ہوتا ہے کہ جب توجہ سیاست کی طرف نہیں بلکہ پکوڑوں کی طرف ہوتی ہے۔ مگر کال کی دوسری طرف جو موجود تھی، اسے اس کی کوئی پروا نہیں تھی۔ عظیمہ میں یہ خوبی ہے کہ وہ سخت سوالات پوچھتی ہیں کہ دماغی تھکاوٹ کے باوجود آپ توجہ دینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ وہ جاننا چاہتی تھیں کہ آیا ریاست نے کبھی ناراض بلوچوں کو منانے کی کوشش کی ہے؟ ’ظاہر ہے کی ہے‘، میں نے سمجھایا۔ یہ مسلم لیگ (ن) کے گزشتہ دورِ حکومت میں ہوا تھا کہ جب عبدالمالک بلوچ وزیراعلیٰ بلوچستان تھے۔ انہیں جلا وطن بلوچوں سے بات چیت کا کام سونپا گیا تھا اور وہ کئی بار یہ کہتے نظر آئے کہ اس حوالے سے مثبت پیش رفت ہوئی ہے جبکہ ناراض بلوچ عوام نے کچھ ایسے مطالبات رکھے ہیں جن پر کام کیا جاسکتا ہے اور عبدالمالک کی نظر میں ان میں سے کچھ مطالبات کو پورا بھی کیا جاسکتا تھا لیکن اسٹیبلشمنٹ نے واضح کردیا تھا کہ وہ نہ مطالبات پورے کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور نہ ہی وہ مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھنا چاہتے ہیں۔
عظیمہ نے جواباً کہا مگر وہ براہِ راست مذاکرات نہیں تھے‘۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی طرح جہاں جنگ بندی کے لیے مذاکرات ہوئے تھے مگر یہ جنگ بندی کم وقت ہی قائم رہ پائی تھی لیکن بلوچ عوام کے ساتھ کبھی ایسا نہیں ہوا۔ عظیمہ نے جس بات کی نشاندہی کی وہ بھی درست تھی اور جب موازنہ ٹی ٹی پی کے ساتھ کیا جائے تو فرق انتہائی واضح ہے۔ ایسے بہت سے مواقع آئے کہ جب ٹی ٹی پی کے ساتھ بات چیت کی گئی۔ پرویز مشرف کے دور میں معاہدے پر معاہدے ہوئے کیونکہ تب ریاست اصل خطرے کو بھانپ نہیں پائی تھی تو اس سے نمٹنے کے لیے بھی تیار نہیں تھی۔ ایک جنرل کی جانب سے نیک محمد کے گلے میں ہار پہنانے کی تصویر شاید اس دور کے حالات کی بھرپور عکاسی کرتی ہے لیکن بعد میں بھی جب اصل خطرہ واضح ہوچکا تھا تب بھی ان سے مذاکرات کے لیے کوششیں کی گئیں۔ اس کی مثال وہ معاہدہ ہے جس کے نتیجے سوات میں صوفی محمد کی رہائی عمل میں آئی۔
بعد ازاں نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی اور انہیں ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے لیے بھیجا گیا۔ اس سلسلے کی تازہ ترین مثال وہ مذاکرات ہیں جو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے دور میں ہوئے تھے لیکن بلوچستان میں عبدالمالک بلوچ کی جانب سے بات چیت کے علاوہ کچھ نہیں کیا گیا جبکہ اس کا بھی کوئی خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ ریاست نے بڑھتی ہوئی بغاوت کو دبانے میں بہت کم توجہ دی۔ نواب اکبر بگٹی جن کے ساتھ بات چیت بھی ہوئی اور نکات پر اتفاق بھی ہوا لیکن پھر ایک آمر کی جانب سے ان کوششوں کو خراب کردیا گیا جس کی اقتدار پر گرفت کمزور ہورہی تھی۔ آمر پاکستان پیپلز پارٹی سے بات چیت کے لیے تیار تھے، ان کے جنرل ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے لیے راضی تھے مگر اکبر بگٹی سے بات چیت کے لیے ان کے پاس گنجائش نہ تھی۔ (اور جب سے قبائلی لیڈران کی جگہ متوسط طبقے کی قیادت نے صوبے کی کمان لی ہے تب سے مذاکرات سے انکار میں مزید اضافہ ہی دیکھنے میں آیا ہے۔)
ایک سے زائد مواقع پر ریاست نے ٹی ٹی پی کو ایک ایسے کردار کے طور پر دیکھا ہے جن سے بات چیت اور مذاکرات ہوسکتے ہیں حالانکہ ٹی ٹی پی جن علاقوں میں متحرک ہے وہاں اسے مقامی حمایت بھی حاصل نہیں لیکن بلوچستان میں شاذ و نادر ہی اس آپشن پر توجہ دی گئی جبکہ عمل در آمد تو بہت دور کی بات ہے۔ درحقیقت جیسے جیسے صوبے میں سیاسی انجینئرنگ میں اضافہ ہوا ہے تو مذاکرات کا خیال مزید ناقابلِ قبول ہوچکا ہے۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) مینگل جیسے حلقوں کے علاوہ چند بلوچ ’سیاستدانوں‘ نے صوبائی اور وفاقی اسمبلیوں میں مذاکرات کی حمایت کی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اقتدار میں بیٹھے چند لوگوں نے اس کے خلاف دلائل پیش کرنے میں اپنی تمام طاقت صرف کردی ہے کیونکہ شاید ان کا وجود اور اہمیت کا انحصار ناراض بلوچوں کے ناراض رہنے میں ہی ہے۔
اگر بلوچستان میں انتخابات کسی حد تک آزادانہ اور منصفانہ ہوتے تو ٹی وی اسکرینز پر نظر آنے والے زیادہ تر سیاستدانوں کو توجہ دی جاتی اور نہ انہیں سنجیدگی سے لیا جاتا۔ یہ خیبر پختونخوا سے مختلف صورت حال ہے جہاں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ساتھ کشیدہ تعلقات کے باوجود انتخابی نتائج میں اس طرح کی ہیرا پھیری نہیں ہوئی جیسی کہ ہم نے بلوچستان میں دیکھی۔ لیکن میں اصل موضوع سے بھٹک رہی ہوں۔ دونوں صوبوں کی شورشوں سے نمٹنے کے طریقہ کار میں یہ فرق اس وقت بھی موجود تھا کہ جب بلوچستان کی قیادت بدعنوان نہیں تھی یا اس کی قیادت پر سمجھوتہ نہیں کیا جارہا تھا۔ اس سے پہلے کہ لوگ خطرناک ’را‘ کا نام لیں، ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ ابتدائی سالوں میں ٹی ٹی پی کو بھی بھارتی خفیہ ایجنسی کی پشت پناہی حاصل تھی۔ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری سے کئی سال پہلے افغانستان میں بھارتی قونصل خانوں کے پاکستان میں تشدد میں کردار کے حوالے سے مسلسل بات چیت ہوتی رہی ہے۔
ایک آف دی ریکارڈ گفتگو میں کہا گیا کہ ٹی ٹی پی اور دیگر تنظیموں کی بہت سی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے سرپستی کی ہے۔ دی گریٹ گیم جاری ہے جس میں پاکستان بنیادی ہدف ہے۔ بعدازاں پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے اُبھرنے کو بھی ’بیرونی‘ حمایت کے کھاتے میں ڈال دیا گیا۔ لیکن اس سب کے باوجود ٹی ٹی پی کو بات چیت کے قابل سمجھا گیا۔ کبھی بھی شدید پُرتشدد واقعات کو وجہ بنا کر ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات ختم نہیں کیے گئے۔ بی بی سی کی ایک اسٹوری کے مطابق جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے فروری 2014ء میں ناراض بلوچوں کے لیے کمیٹی تشکیل دی تو گزشتہ ماہ 100 سے زائد افراد پُرتشدد واقعات میں اپنی جان گنوا چکے تھے۔ لیکن اب جب بلوچ عوام سے بات چیت کا خیال پیش کیا جاتا ہے تو ہمیں کہا جاتا ہے کہ ٹرین ہائی جیکنگ کے بعد سے ریاست اس معاملے میں کسی طرح کی کمزوری ظاہر کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ گویا جیسے اس واقعے سے پہلے ریاست کا مزاج مختلف تھا۔
بلوچستان میں، تشدد اور بیرونی مداخلت کو ایسی وجوہات کے طور پر دیکھا جاتا ہے کہ جس کے لیے ریاست کے پاس صرف طاقت کے استعمال کے علاوہ کوئی حل نہیں۔ اگرچہ ٹی ٹی پی کے برعکس بلوچستان میں باغیوں کو عوامی حمایت حاصل ہے لیکن ان سے بات چیت کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پاکستانی ریاست یا کوئی بھی ریاست تشدد کا جواب نہیں دے سکتی بلکہ زیادہ تر شورشوں میں حل بات چیت اور فوجی کارروائی کے امتزاج سے نکلتا ہے جیسا کہ عموماً ہم کہتے ہیں لیکن بلوچستان میں ہم نہ صرف عام فہم کی نفی کرتے ہیں بلکہ ملک کے دیگر علاقوں میں ہم جو روش اپناتے ہیں، بلوچستان کے لیے وہ بھی ناپید یا ناقابلِ عمل ہوتی ہے۔ لیکن ایسا کیوں ہے؟ عظیمہ کے پاس اس کا بہترین جواب ہے لیکن ان دنوں اپنی آرا کا عوامی سطح پر یوں اظہار کرنا اچھا خیال نہیں۔ تو میرے خیال میں سوال کے ساتھ ہی اس تحریر کو ختم کرنا بہتر رہے گا۔
اصل تحریر:
https://www.
dawn.com/news/1898649/no-talks-for-baloch
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: بلوچستان میں ٹی ٹی پی کو سے مذاکرات ناراض بلوچ ٹی ٹی پی کے بات چیت کے سے بات چیت لیکن بلوچ کی قیادت توجہ دی کے ساتھ نہیں کی کے لیے میں یہ
پڑھیں:
27 ویں ترمیم: اتنی جھنجھناہٹ کیوں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251119-03-5
’’سیلف میڈ بنو‘‘ کی نصیحت سنتے عمر گزاردی لیکن سوائے اپنی مٹی خراب کرنے، معلمی اور کالم لکھنے کے ٹوپی میں کوئی کلغی نہ سجا سکے۔ اگر کسی کو بزعم خود عہدوں کی فیکٹری لگاتے، عہدے تراشتے اور وصولتے دیکھا تو وہ فیلڈ مارشل عاصم منیر ہیں۔ پہلے اعزاز اور عہدے دعائوں کا نتیجہ ہوتے تھے اب ان کے لیے زور لگانا پڑتا ہے۔ آکاش دیوتا مہر ثبت نہ کرے تو پارلیمان کے ذریعے عطا کروانے کا اہتمام کرلیا جاتا ہے۔
جس طرح کھانے کی سب خرابیوں کی وجہ مرچ کی کمی اور زیادتی باور کرائی جاتی ہے اسی طرح جمہوریت کی خامیوں کو ایک لفظ میں بیان کیا جائے تو وہ ہے بے محابا، متواتر اور مسلسل ترامیم۔ لیکن یہی ترامیم حکومتوں اور جرنیلوں کے لیے چاندنی راتوں کا سماں پیدا کردیتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب آئین میں ترامیم ہوسکتی ہیں، ترامیم کی جاسکتی ہیں، تو کون ہے جو طاقت رکھتے ہوئے اس طرف منہ اٹھائے نہ چلا آئے؟؟ 27 ویں ترمیم نے فیلڈ مارشل عاصم منیرکے آنگن میں جو ستارے جگمگائے ہیں ان کی تفصیل میں کتنا ہی کسرِ نفسی سے کام لیا جائے پھر بھی شب بھر ایک ہی نام کا چرچا رہتا ہے۔ عاصم منیر
٭ فیلڈ مارشل… جنرل عاصم منیر۔۔ پانچ ستارہ عہدہ، جسے آئینی تحفظ حاصل ہے۔
٭ وہ پاک آرمی کے سربراہ ہوں گے جس سے مراد ہے چیف آف آرمی اسٹاف۔
٭ چیف آف ڈیفنس فورسز (CDF) یہ وہ نیا عہدہ ہے جو 27 ویں ترمیم کے تحت تشکیل دیا گیا ہے۔ چیف آف آرمی اسٹاف COAS کے عہدے کے ساتھ ساتھ وہ یہ عہدہ بھی سنبھالیں گے۔
٭ وہ تینوں افواج (بری، بحری اور فضا ئی) پر بھی آئینی کمانڈ رکھتے ہیں۔ وہ سب سے اعلیٰ آئینی کمانڈر ہوں گے۔ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ ختم کردیا گیا ہے۔
٭ ستائیسویں ترمیم کے تحت نیشنل اسٹرٹیجک کمانڈ کا ایک نیا ڈھانچہ قائم کیا گیا ہے اور چیف آف ڈیفنس فورسز یعنی فیلڈ مارشل عاصم منیر کو اس کمانڈ کی پالیسی، نگرانی اور متعلقہ اعلیٰ تقرریوں میں مشاورتی وسفارشاتی کردار حاصل ہے۔
٭ چیف آف ڈیفنس فورسز کی مدت 5 سال ہے۔ وہ 27 نومبر 2025 سے چارج سنبھالیں گے جو 27 نومبر 2030 کو ختم ہوگی جس میں مزید توسیع کا امکان موجود ہے بشرط یہ کہ حکومت اور قانون اس کی منظوری دیں۔
٭ وہ تا حیات قانونی استثنیٰ کے حقدار ہوں گے۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر کو عبوری یا عام عدالتوں میں مقدمات کا سامنا کرنے سے کافی حدتک تحفظ حاصل ہوگا۔
٭ انہیں عہدے سے ہٹانے کا طریقہ بھی پارلیمنٹ میں مواخذے کی طرز (impeachment-like) کی طرح ہوگا۔ یعنی انہیں اس عہدے سے ہٹانے کے لیے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں دوتہائی اکثریت درکار ہوگی۔
٭ بطور فیلڈ مارشل ان کا عہدہ، رینک، مراعات اور یونیفارم کے حقوق مستقل ہوں گے۔
٭ ان کو پوسٹ کمانڈ ڈیوٹیز دی جاسکیں گی یعنی کمانڈ ختم ہونے کے بعد بھی حکومت انہیں ریاستی مفاد کی ذمے داری دے سکتی ہے۔
٭ چونکہ وہ CDF اور نیشنل اسٹرٹیجک کمانڈ کی اعلیٰ سطحوں سے منسلک ہوں گے لہٰذا ان کے پاس نہ صرف فیصلہ سازی بلکہ اسٹرٹیجک نیو کلیئر اثاثوں کے حوالے سے بھی کلیدی کردار ہوگا۔
ان تفصیلات میں ’’تا حیات‘‘ پر سب کے بھٹّے لگے ہوئے ہیں حالانکہ پاکستان میں جب جب کوئی بھی جرنیل براہ راست نازل ہوا یا جمہوریت کے پہلو میں کہنیاں مارتا، اسے کنٹرول کرتا، تشریف فرما رہا اس نے شہر آرزو سے واپسی کے تالے کی چابی دریا برد کرنے کو اپنا حق سمجھا ہے۔ کبھی براہ راست اعلان کردیا کبھی اعلان نہیں کیا۔ فرق کچھ نہیں۔ پاکستان میں فوج کے سربراہ ہمیشہ ہی نظام کے سر پر چڑھ کے ناچتے رہے ہیں، جان محفل رہے ہیں۔ اب اگر فیلڈ مارشل اقتدار کے ایوانوں میں آئینی طور پر بہت زیادہ طاقت ور اور بااثر ہوگئے ہیں تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ فیلڈ مارشل کے آنریری اور اعزازی عہدے کو تاحیات اور باوردی کردیا گیا، ایک آئینی تحفظ فراہم کردیا گیا ہے، اس کی فنکشنل اور آپریشنل شکل اور ڈیوٹی بنادی گئی ہے، اس کو Love اور Hate کے تناظر میں دیکھنے کے بجائے حقائق کی نظرسے دیکھیے۔ مودی کا آپریشن سیندور ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ ماضی میں بھی حسب موقع جرنیلوں کو نوازا جاتا رہا ہے۔ فیلڈ مارشل عاصم منیرکی سربراہی میں پاک فوج نے وہ کرکے دکھایا ہے جو کسی کے گمان میں بھی نہیں تھا، دنیا حیران ہے اور تسلیم کررہی ہے۔
مئی کی پاک بھارت جنگ اگرچہ دورانیہ کے اعتبار سے مختصر تھی لیکن جنگی اعتبار سے یہ کثیرالجہت تھی۔ اس میں سائبر وارفیئر بھی شامل تھا، اسپیس وارفیئر، الیکٹرونک وار فیئر، میزائل وار فیئر، ڈرون وارفیئر اور انفارمیشن وارفیئر بھی تھا۔ بی بی سی کے ایک پروگرام میں فیلڈ مارشل عاصم منیر کا کہنا تھا کہ ’’ہم نے اس جنگ کی منصوبہ بندی مل کر کی تھی۔ دس تاریخ کو جب بھارت نے پاکستان پر میزائل حملہ کیا تو ہماری اس دن 97 مرتبہ باہمی مشاورت ہوئی تھی‘‘۔ یہ بات یقینی ہے کہ مستقبل کی پاک بھارت جنگ اس سے کہیں زیادہ شدید اور وسعت کی حامل ہوگی جس کے لیے موجودہ کمانڈ اینڈ کنٹرول اسٹرکچر کو مزید طاقتور اور مضبوط بنانے، اس کی تنظیم نو کرنے اور مربوط کرنے کی ضرورت تھی۔ آرٹیکل 243 کی ترمیم کے ذریعے تینوں افواج کے درمیان آپریشنل پلاننگ زبردست طریقے سے مربوط کی گئی ہے۔ بھارت کے جنگی ماہرین اس آرزو میں مرے جارہے ہیں ہمارے یہاں کیڑے نکالے جارہے ہیں۔
یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں فوجی جرنیل کی اصل طاقت آئین یا اس کی کسی شق میں نہیں ہے وہ اس کی فوج سے وابستگی، عہدے اور وردی میں ہے۔ 27 ویں ترمیم سے اس حقیقت میں کوئی بہت بڑی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ پہلے چیف آف آرمی اسٹاف ہی پاکستان کا اصل حاکم ہوتا تھا اور پاکستان کی تمام سیاست کو کنٹرول کرتا تھا۔ نیول چیف اور ائر چیف کی براہ راست طاقت کچھ نہیں ہوتی تھی تو اب ان سب کو باقاعدہ آئینی طور پرفیلڈ مارشل کے کنٹرول میں دے دیا گیا ہے یعنی اب تینوں مسلح افواج براہ راست ایک ہی کنٹرول میں آگئی ہیں۔ اب فیلڈ مارشل فضائیہ اور بحریہ کے بھی سربراہ ہوں گے۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر کو محض 27 ویں آئینی ترمیم سے طاقت حاصل نہیں ہوئی ہے۔ ایک سنگین معاشی بحران کے شکار ملک کے لیے انہوں نے بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے جس طرح بہتر تعاون حاصل کرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ بیرونی دنیا میں اپنی افواج کی طاقت کو جس موثر انداز میں پیش کیا ہے جس طرح امریکا کی حمایت انہیں حاصل ہوئی ہے، سعودی عرب سے دفاعی معاہدہ ہوا ہے اس کے بعد سب فوج سے ہی رابطے کررہے ہیں۔ پاکستان میں ہمیشہ ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ یہ عمران خان کے لوگ اور ان کا سوشل میڈیا سیل ہے جو سب سے بڑھ کر اس ترمیم پر شور کررہے ہیں۔ کیا عمران خان کے دور میں جنرل باجوہ کی ایسی مرکزی اہمیت اور حیثیت نہیں تھی؟ کیا انہیں توسیع نہیں دی گئی تھی؟؟