پاکستانی شہریوں کے اسرائیل جانے بارے کوئی معلومات نہیں: ترجمان دفتر خارجہ
اشاعت کی تاریخ: 20th, March 2025 GMT
پاکستانی شہریوں کے اسرائیل جانے بارے کوئی معلومات نہیں: ترجمان دفتر خارجہ WhatsAppFacebookTwitter 0 20 March, 2025 سب نیوز
اسلام آباد: (آئی پی ایس) ترجمان دفتر جارجہ شفقت علی خان نے کہا ہے کہ پاکستان کی اسرائیل بارے پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، پاکستانی شہریوں کے اسرائیل جانے بارے کوئی علم نہیں ہے۔
ہفتہ وار پریس بریفنگ میں ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان کا کہنا تھا کہ پاکستانیوں کے اسرائیل جانے سے متعلق خبروں بارے معلومات اکٹھی کر رہے ہیں، صورتحال واضح ہونے پر ہی تبصرہ کیا جا سکے گا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے میزائل اور دفاعی صلاحیتیں ملکی سلامتی اور استحکام کے لیے ہیں، پاکستان کا جوہری پروگرام مکمل طور پر محفوظ اور ناقابل تسخیر ہے، ہماری میزائلوں ٹیکنالوجی ملک کے دفاع کے لیے ہے اور یہ ڈیٹرینس کے ذریعے ہمارے دفاع کی حکمت عملی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا سفری ایڈوائزری کا جاری ہونا کسی بھی ملک کا اپنا معاملہ ہے تاہم امریکا کی پاکستانیوں پر پابندیوں کی اطلاعات میں کوئی سچائی نہیں ہے، امریکا میں داخلہ پابندیوں کی رپورٹس کی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے تردید کر دی ہے۔
افغان ناظم الامور کی طلبی سے متعلق سوال پر شفقت علی خان کا کا کہنا تھا افغان ناظم الامور کی طلبی معمول کا حصہ ہے، کل ویزا معاملات سے متعلق ہونے والا اجلاس معمول کے اجلاسوں کا حصہ تھا، کسی سفارت کار کی طلبی ایک معمول کا حصہ ہوتی ہے، طلبی میں کچھ بھی غیر معمولی نہیں ہوتا۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان مسلسل اپنے تحفظات سے افغانستان کو آگاہ کر رہا ہے اور تمام چینلزکے ذریعے مؤقف پہنچایا جا رہا ہے، عالمی برادری کو افغان سرزمین سے دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کے خاتمے کا کہتے ہیں، افغان مہاجرین کی ملک بدری کی ڈیڈ لائن برقرار ہے، اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔
شفقت علی خان نے بتایا کہ طورخم بارڈر گزشتہ روز کھولا گیا، پیدل مسافروں کو جمعہ سے سفر کی اجازت ہو گی، طورخم بارڈر 15 اپریل تک کھلا رہے گا اور مسئلے کا مستقل حل نکالا جائے گا، بارڈر پوسٹ کی تعمیر روکنا پاکستان کا بنیادی مطالبہ تھا جو تسلیم کر لیا گیا۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ دفتر خارجہ کے افسران انسانی سمگلنگ میں ملوث نہیں، ان قیاس آرائیوں میں کوئی حقیقت نہیں ہے، سوشل میڈیا رپورٹس پر تحقیقات کے لیے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی قائم کی جا رہی ہے۔
دفتر خارجہ کے ترجمان نے بتایا کہ وزیراعظم شہباز شریف اس وقت سعودی عرب کے سرکاری دورے پر ہیں، وزیراعظم کی سعودی ولی عہد سے ملاقات ہوئی، وزیراعظم نے سعودی عرب کی مسلسل حمایت پر سعودی ولی عہد کا شکریہ ادا کیا۔
سانحہ جعفر ایکسپریس کے حوالے سے ان کا کہنا تھا بھارت نے جعفر ایکسپریس ٹرین حملے کی ابھی تک مذمت نہیں کی، بھارت کا پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہونا واضح ہے۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: ترجمان دفتر خارجہ کے اسرائیل جانے شفقت علی خان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کوئی
پڑھیں:
اسرائیل کے بارے میں امریکیوں کے خیالات
اسلام ٹائمز: ان تمام خبروں کو ایک ساتھ رکھ کر ہم ایک نکتے پر پہنچیں گے اور وہ یہ ہے کہ امریکی معاشرہ بتدریج اس نتیجے پر پہنچ رہا ہے کہ انہیں اسرائیل کی وجہ سے جو قیمت چکانی پڑی ہے، وہ فائدہ مند نہیں۔ بہرحال سب سے اہم حکمت عملی وہ ہے، جس کی طرف رہبر انقلاب اسلامی ایران اور سید حسن نصراللہ جیسے رہنماؤں نے اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں امریکیوں کو اسرائیلی خطرات سے آگاہ کرنا چاہیئے، تاکہ انہیں اسرائیل کی حمایت کی قیمت ادا نہ کرنی پڑے۔ اس سے خطے میں اسرائیلی فلسفہ کے نابود ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ تحریر: علی مہدیان
امریکی معاشرہ اسرائیل کے بارے میں اپنے رویئے تیزی سے بدل رہا ہے۔ آیئے ایک ساتھ کچھ خبروں پر نظر ڈالتے ہیں: امریکہ میں ایک جلسہ عام میں ایک نوجوان نے اتفاق سے امریکہ کے نائب صدر سے پوچھا، "کیا ہم اسرائیل کے مقروض ہیں۔؟ اسرائیلی کیوں کہتے ہیں کہ وہ امریکہ کو چلا رہے ہیں۔؟" اس نوجوان کے سوال پر ہجوم تالیاں بجاتا ہے اور امریکہ کے نائب صدر کے پاس جواب نہیں ہوتا اور کہتے ہیں کہ موجودہ صدر ایسے نہیں ہیں اور۔۔۔۔ ماہر معاشیات اور کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر جیفری سیکس نے کہا کہ امریکہ اسرائیل کی جنگوں کی قیمت ادا کرتا ہے اور اس سے ہمارا معیار زندگی گر گیا ہے۔ امریکی خبروں اور تجزیات پر مبنی ویب سائٹ "دی نیشنل انٹرسٹ" نے لکھا ہے کہ اسرائیل کی مہم جوئی کی قیمت امریکہ کی جیب سے چکائی جاتی ہے۔
امریکہ میں میڈیا پریزینٹر اور ایکٹوسٹ اینا کاسپرین ایک ٹیلی ویژن شو میں کہتی ہیں کہ اگر اسرائیل جنگی جرائم کا ارتکاب کرنا چاہتا ہے تو اسے ہمارے پیسوں سے نہیں کرنا چاہیئے۔ امریکی شہری اس ملک میں بہتر زندگی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، لیکن ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ اسرائیلی حکومت اور فوج کو اربوں ڈالر دیں۔ سینیٹر ایڈم شیف کی قیادت میں چھیالیس امریکی سینیٹرز کی جانب سے ٹرمپ کو ایک خط لکھا گیا ہے، جس میں اسرائیل کی طرف سے مغربی کنارے کے الحاق کے فیصلے پر امریکہ کی جانب سے واضح موقف اپنانے پر تاکید کی گئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرمپ نے ڈیلی کولر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی امریکہ میں سب سے طاقتور لابی تھی، جسے انہوں نے تقریباً 15 سال پہلے دیکھا تھا اور اس وقت کانگریس پر صیہونیوں کا مکمل کنٹرول تھا، لیکن اب اسرائیل یہ اثر و رسوخ کھو چکا ہے۔
ان تمام خبروں کو ایک ساتھ رکھ کر ہم ایک نکتے پر پہنچیں گے اور وہ یہ ہے کہ امریکی معاشرہ بتدریج اس نتیجے پر پہنچ رہا ہے کہ انہیں اسرائیل کی وجہ سے جو قیمت چکانی پڑی ہے، وہ فائدہ مند نہیں۔ بہرحال سب سے اہم حکمت عملی وہ ہے، جس کی طرف رہبر انقلاب اسلامی ایران اور سید حسن نصراللہ جیسے رہنماؤں نے اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں امریکیوں کو اسرائیلی خطرات سے آگاہ کرنا چاہیئے، تاکہ انہیں اسرائیل کی حمایت کی قیمت ادا نہ کرنی پڑے۔ اس سے خطے میں اسرائیلی فلسفہ کے نابود ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔