اسکولوں کی بحالی میں سب سے ضروری ماحولیاتی طور پر محفوظ عمارتیں ہیں، سید سردار علی شاہ
اشاعت کی تاریخ: 20th, March 2025 GMT
محکمہ تعلیم سندھ کے زیر اہتمام سیلاب سے متاثرہ اسکولز کی بحالی کے لیے منعقدہ ڈیولپمنٹ کانفرنس میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ سندھ میں اسکول انفرااسٹرکچر کو ماحولیاتی اثرات کو جھیلنے کے مطابق بنایا جائے جبکہ سیلاب کے سلسلے میں رسک منجمینٹ کے حوالے سے بھی طلباء کی تربیت کی جائے۔
کراچی کے مقامی ہوٹل میں منعقدہ کانفرنس کا عنوان ’ڈیولپمنٹ کانفرنس آن فلڈ افیکٹڈ اسکولز‘ تھا جسے ایشیائی ترقیاتی بینک کے اشتراک سے منعقد کیا گیا۔
اس موقع پر وزیر تعلیم سندھ سید سردار علی شاہ نے ڈیولپمنٹ کانفرنس میں بحیثیت مہمان خصوصی شرکت کی، جبکہ سیکریٹری اسکول ایجوکیشن سندھ زاہد علی عباسی، چیف پروگرام منیجر آر ایس یو ڈاکٹر جنید سموں، ڈی جی پی ڈی آر عبدالقدیر انصاری، یونیسیف کی ایجوکیشن منیجر ابیر مقبول کے علاوہ دیگر ڈونرز اور اسٹیک ہولڈرز کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔
کانفرنس کے موقع پر بتایا گیا کہ سندھ میں سیلاب کی وجہ 19808 اسکول متاثر ہوئے، جس میں سے 7503 اسکول مکمل تباہ ہوئے جبکہ 12305 اسکولوں کو جزوی نقصان پہنچا جبکہ کچھ جزوی متاثرہ اسکولز کی عمارتوں کو خطرناک بھی قرار دیا جا چکا ہے، عمارتیں متاثر ہونے سے مجموعی طور پر 2381275 طلباء کی تعلیم بھی متاثر ہوئی ہے۔
کانفرنس کو مزید بتایا گیا کہ سندھ حکومت نے مختلف ڈونرز اور اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر 5284 اسکولوں کے بحالی منصوبوں پر کام شروع کیا ہے، شروعاتی بحالی منصوبے سے 26 فیصد اسکول بحال ہو سکیں گے، جبکہ 74 فیصد اسکولز کو بحال کرنے کے لیے مزید فنڈز درکار ہوں گے۔
وزیر تعلیم سندھ سید سردار علی شاہ نے کہا کہ سیلاب نے بہت سی خامیوں کی نشاندہی بھی کی ہے۔ اسکولوں کی بحالی کے سفر میں سب سے ضروری ہے کہ عمارتوں کو ماحولیاتی تحفظ بھی دیا جائے، جبکہ اسکول میں بیٹھنے والے بچوں کے لیے محفوظ اور اچھی عمارتیں بنانی ہوں گی۔
انہوں نے کہا کہ اسکولوں کی بحالی کے عمل میں ماحولیاتی اثرات کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا۔ سید سردار علی شاہ نے کہا کہ ہمیں اب بھی 14,524 اسکولوں کو بنانے کے لیے 180.
انکا مزید کہنا کہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی کوششوں سے پاکستان میں ڈونرز کانفرنس کا انعقاد ہوا، دنیا نے بحالی منصوبوں کے سلسلے میں وعدے بھی کیے، جو ممالک کاربن کے اخراج کے ذمہ دار ہیں انہیں اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
سید سردار علی شاہ نے کہا کہ ہم اسکولوں کی بحالی کے ساتھ اسکولوں کو انتظامی حوالے سے بھی مضبوط کرنے جا رہے ہیں، اب فنڈز براہ راست اسکول کو دیے جائیں گے تا کہ اسکول ہیڈماسٹر مرمتی کام، صفائی اور سیکیورٹی کے انتظامات خود کروا سکیں۔
صوبائی وزیر تعلیم نے اس بات پر زور دیا کہ ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل بروقت ہونی چاہیے، منصوبوں میں تاخیر کے سبب فنڈز لیپس ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے ترقی کا عمل رک جاتا ہے، انہوں نے کہا کہ ہم نے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال اور مؤثر مانیٹرنگ کی مدد سے منصوبوں کی تکمیل کے مرحلے کو تیز کرنے کا نظام متعارف کروا لیا ہے۔ جس کے تحت محکمہ تعلیم کے تمام منصوبوں کی مانیٹرنگ اب ایک ڈیش بورڈ کے ذریعے کی جا سکے گی۔
انہوں نے کہا کہ ترقی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ منصوبوں کے لیے مختص رقم کو خرچ کیا جائے۔
تقریب کے موقع پر تعلیمی ماہرین نے اس بات پر زور دیا کہ ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے حوالے سے بچوں کو بذریعہ نصاب کے آگاہی دینے کے ساتھ ان کے اسکولوں میں واپسی کے وقت بھی کاؤنسلنگ ضروری ہے تا کہ بچوں کو تعلیم کی طرف واپس آنے میں درپیش مسائل کو ختم کرنے میں مدد مل سکے۔
اس موقع پر محکمہ تعلیم کے تمام منصوبوں کی مانیٹرنگ کے لیے بنائے گئے ڈیش بورڈ کا بھی افتتاح کیا گیا۔ ڈیش بورڈ کے ذریعے محکمہ تعلیم کے ترقیاتی منصوبوں کی سائٹ مانیٹرنگ سیٹلائیٹ سسٹم ’جی آئی ایس‘ سے ممکن ہو سکے گی۔
ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: سید سردار علی شاہ نے محکمہ تعلیم کی بحالی کے منصوبوں کی نے کہا کہ کے لیے
پڑھیں:
ضم شدہ اضلاع میں روزگار اور تعلیم کی فراہمی اور غربت کے خاتمے تک امن قائم نہیں ہوسکتا، چیئرمین سینیٹ
چیئرمین سینیٹ اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ جب تک ضم شدہ اضلاع میں روزگار اور تعلیم فراہم نہیں کی جائے گی، غربت ختم نہیں ہوگی، امن قائم نہیں ہوسکتا۔
چیئرمین سینیٹ اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے ضم شدہ اضلاع کے جرگے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب سویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو ہم نے کہا کہ اس کے خلاف جدوجہد جہاد ہے۔ اس وقت 35 لاکھ لوگ بے گھر ہوئے۔ پاکستان میں مقیم مہاجرین کی تعداد بھی 35 لاکھ ہے۔ دنیا افغان مہاجرین کو بھول چکی ہے حالانکہ وہ انہیں اپنے ممالک میں بسانے کے وعدے کرتے تھے۔ہماری قربانیاں بھی ان کو یاد نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کے کئی ملکوں کو اس وقت امن و امان کا مسئلہ درپیش ہے۔ دنیا کے بہت سے ممالک میں امن خراب کیا جارہا ہے۔ غزہ، فلسطین اور افغانستان کے حالات دیکھ لیں۔اس وقت دنیا میں کئی جگہوں پر جنگ چل رہی ہے۔ پاکستان دہشتگردی کا سب سے زیادہ شکار ہوا۔ پاکستان نے دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ افواج پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف کامیاب آپریشن کیے۔
سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ میں کئی برسوں سے امن کے لیے کام کر رہا ہوں۔ میں پوری دنیا میں منعقد ہونے والی عالمی کانفرنسز میں جاتا ہوں۔ حال ہی میں وینس میں امن کانفرنس میں شریک ہوا۔
انہوں نے کہا کہ میرے دور وزارت عظمیٰ میں سوات میں آپریشن کیا، یہ آپریشن تمام سیاسی جماعتوں، اسٹیبلشمنٹ کی مشاورت اور مشران کے تعاون کے ساتھ کیا گیا۔ اس دوران 25 لاکھ لوگ بے گھر ہوئے، ہم نے انہیں 90 روز کے اندر دوبارہ ان کے گھروں میں بسایا۔ دنیا کی تاریخ میں ایسی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔
چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ جنگ کا نہ ہونا امن نہیں ہے بلکہ انصاف کا ہونا امن ہے۔ اگر انصاف نہیں ہوگا تو امن نہیں آئے گا۔ حکومت وقت کا فرض ہے کہ وہ ملک میں امن قائم کرے۔اس وقت سب سے زیادہ مسائل افغانستان اور بھارت کی سرحد پر ہیں۔ جہاں دہشتگردی ہوتی ہے تو اس کی بنیاد دیکھنی چاہیے۔اس کی بنیاد غربت، افلاس، ناخواندگی اور پسماندگی ہے۔اس لیے جب تک آپ لوگوں کو روزگار فراہم نہیں ہوگا، تعلیم نہ دی، آپ کی غربت ختم نہ کی جائے، اس وقت تک امن قائم نہیں ہوسکتا۔
انہوں نے قبائلی عمائدین سے وعدہ کیا کہ وہ ان کے مطالبات صدر مملکت، وزیراعظم اور آرمی چیف کو پہنچائیں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں