کراچی میں کل کون کون سے راستے بند ہوں گے؟
اشاعت کی تاریخ: 21st, March 2025 GMT
کراچی(نیوز ڈیسک) یومِ علی ؓ کے مرکزی جلوس کے موقع پر شہریوں کی سہولت کے لئے ٹریفک پلان جاری کردیا گیا، کون کون سے راستے بند ہوں گے؟
تفصیلات کے مطابق کراچی میں یوم شہادت حضرت علیؓ کے موقع پر کل مرکزی جلوس کے پیش نظر ٹریفک پلان جاری کردیا گیا۔
ٹریفک پولیس نے بتایا کہ 22 مارچ 21 رمضان المبارک کو مرکزی مجلس نشتر پارک میں ہوگی، جس کے بعد مرکزی جلوس دوپہر ایک بجے نشتر پارک سے برآمد ہوگا، جو اپنے مقررہ راستوں سے ہوتا ہوا امام بارگاہ حسینہ ایرانیہ پر اختتام پذیر ہوگا، اس موقع پر سیکیورٹی کے فول پروف انتظامات کیے گئے ہیں۔
ٹریفک پولیس کا کہنا ہے کہ ایم اے جناح روڈ گرومندر سے ٹاور تک عام ٹریفک کےلیے بند کردی جائے گی ، جلوس نشتر پارک سے نمائش، ایم اے جناح روڈ، سی بریز سے صدر ایمپریس مارکیٹ پہنچے گا اور صدر ریگل سے گزرتے ہوئے تبت سینٹر پر ایک بار پھر ایم اے جناح روڈ پر آئے گا اور بولٹن مارکیٹ سے کھارادر حسینیہ امام بارگاہ پر اختتام کو پہنچے گا۔
پلان میں بتایا گیا یے کہ ناظم آباد سے آنے والے افراد لسبیلہ چوک سے نشتر روڈ کی جانب گارڈن سے اپنی منزل کی جانب جاسکیں گے جبکہ لیاقت آباد سے تین ہٹی سے لسبیلہ چوک اور بائیں جانب ٹرن کرکے سینٹرل جیل کی جانب جاسکتے ہیں۔
حسن اسکوائر سے پی پی چورنگی جانے والی ٹریفک کو کشمیر روڈ سے سوسائٹی لائٹ سگنل کی طرف بھیجا جائےگا، ٹریفک کو جیل فلائی اوور سے تین ہٹی سے نشتر روڈ (لسبیلہ چوک) کی طرف موڑ دیا جائے گا۔
شاہراہ قائدین سے نمائش جانے والے والے سوسائٹی لائٹ سگنل سے دائیں جانب کشمیر روڈ کا راستہ اختیار کریں گے جبکہ جمشید روڈ سے گرومندر کی جانب جانے والے بہاردر یار جنگ روڈ سولجر بازار سے اپنی منزل کی جانب جا سکتے ہیں۔
مزیدپڑھیں:عیدالفطر پر تعلیمی اداروں میں طویل چھٹیاں ! طلبا کے لیے بڑی خوشخبری
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کی جانب
پڑھیں:
شہر کی سڑکیں یا کھنڈر ،شہریوں نے 60ارب ٹیکس دیا، سفر آج بھی عذاب سے کم نہیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی ( تحقیقاتی رپورٹ: محمد علی فاروق )روشنیوں کا شہر آج گڑھوں، ٹوٹ پھوٹ اور ابلتے گٹروں میں ڈوبا ہوا ہے۔ وہی شہر جس کے شہریوں نے صرف گاڑیاں سڑک پر چلانے کے لیے گزشتہ پانچ سالوں میں تقریباً 60 ارب روپے موٹر وہیکل ٹیکس کی صورت میں ادا کیے، آج بنیادی سفری سہولیات سے محروم ہے۔اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2019-20 سے 2024-25 تک سندھ حکومت نے کراچی سمیت صوبے بھر سے موٹر وہیکل ٹیکس کی مد میں بھاری رقم اکٹھی کی۔ 2019- اور 2020 میں 5.94 ارب روپے جبکہ 2020- اور2021: میں 9.52 ارب روپے اسی طرح 2021 اور 2022 میں 12.17 ارب روپے ، علاوہ ازیں 2022- اور 2023 میں 10.36 ارب روپے دریں اثناء 2023 اور-2024: میں 10.83 ارب روپے دیگر میں 2024 اور 2025: میں 13.60 ارب روپے ادا کئے جا چکے ہیں ۔یعنی محض ایک سال میں شہریوں نے 13 ارب 60 کروڑ روپے “سڑک پر گاڑی چلانے کے حق” کے نام پر ادا کیے ہیں مگر سوال وہی ہے کہ وہ سڑکیں کہاں ہیں۔کراچی کے بیشتر علاقوں میں سڑکیں کسی جنگ زدہ خطے کا منظر پیش کرتی ہیں۔کورنگی، نارتھ کراچی، ماڑی پور، اورنگی، اور شاہ فیصل کالونی کی مرکزی شاہراہوں پر گڑھوں، ملبے، اور بارش کے پانی کے باعث گاڑیاں نہیں، قسمتیں آزمائی جاتی ہیں۔جہاں کبھی ٹریفک بہتا تھا، آج وہاں پانی کے جوہڑ اور کچرے کے ڈھیر ہیں۔چالیس فیصد سے زائد سڑکیںانتہائی خستہ حال قرار دی جا چکی ہیں، جبکہ محکمہ بلدیات اور سندھ ایکسائز ڈیپارٹمنٹ کے درمیان ٹیکس سے حاصل شدہ رقم کے مصرف پر خاموشی نے شکوک کو مزید گہرا کر دیا ہے۔کراچی کے شہری ہر سال اربوں روپے اس امید پر ادا کرتے ہیں کہ بدلے میں حکومت انہیں بہتر روڈز، ٹریفک سگنلز، زیبرا کراسنگ، اور اوورہیڈ برج جیسی بنیادی سہولیات دے گی۔مگر حقیقت یہ ہے کہ شہر کی بیشتر سڑکوں پر اسٹریٹ لائٹس بند، سگنل ناکارہ، اور فٹ پاتھ غائب ہیں۔یونیورسٹی روڈ، سپر ہائی وے، نارتھ ناظم آباد، اور ایم اے جناح روڈ کے اطراف جگہ جگہ ٹوٹی لائنیں، غائب کیٹ آئیز، اور تباہ شدہ یو ٹرن شہریوں کی گاڑیوں کو روزانہ نقصان پہنچا رہے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ موٹر وہیکل ٹیکس سے حاصل ہونے والی رقم کا بڑا حصہ صوبائی خزانے میں نان ڈیولپمنٹ اخراجات میں ضم ہو جاتا ہے۔یعنی وہ رقم جو سڑکوں کی مرمت اور ٹریفک سسٹم کی بہتری پر خرچ ہونی تھی، وہ تنخواہوں، ایڈمن اخراجات، اور نئی گاڑیوں کی خریداری میں استعمال ہو رہی ہے۔ٹریفک ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ اگر یہ فنڈز شفاف طریقے سے صرف کراچی کی سڑکوں پر لگائے جائیں توصرف دو سال میں پورا شہر ازسرِنو تعمیر کیا جا سکتا ہے۔شہریوں نے سوشل میڈیا پر شدید ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ ہم ٹیکس دیتے ہیں، مگر بدلے میں ملتا ہے گڑھا، گرد، اور گندہ سیورج ملا پانی کیا یہی ترقی ہے۔ایک شہری کا کہناتھا کہ حکومت نے ٹریفک سگنل تو لگائے نہیں، البتہ گاڑی کے شاکس ضرور بدلوا دیے ہیں۔کراچی کا بنیادی ڈھانچہ اربوں روپے کے ٹیکس کے باوجود زبوں حالی کا شکار ہے۔ اگر اس رقم کے شفاف استعمال کا نظام نہ بنایا گیا تو کراچی صرف ٹریفک حادثوںکا نہیں بلکہ حکومتی بدانتظامی کا استعارہ بن جائے گا۔شہریوں کا مطالبہ صاف ہے کہ ٹیکس ہم نے دیا ، حساب تم دو، اور سڑک ہمیں دو۔