مقابلے کا امتحان … (دوسرا حصہ )
اشاعت کی تاریخ: 22nd, March 2025 GMT
خیر اب دوسرا مرحلہ شروع ہوا۔ جس کے متعلق مجھے کسی قسم کی کوئی معلومات نہیں تھیں۔ میڈیکل کالج کے نیو ہاسٹل میں اپنے کمرے میں خاموشی سے سی ایس ایس کا کتابچہ پڑھتا رہا۔ مگر ایک بھی مضمون نہیں تھا جس کے متعلق میری معلومات مناسب تھی ۔دراصل میڈیسن کی تعلیم بذات خود اتنی مشکل ہے کہ انسان پانچ سال تک کسی اور طرف دیکھنے کے قابل نہیں رہتا۔سلیبیس سے اندازہ ہوا کہ کچھ مضامین لازمی ہیں اور کچھ مضامین منتخب کرنے پڑتے ہیں۔ پورے کتابچے میں صرف Every Day Science کاسبجیکٹ مانوس معلوم ہوا تھا۔
وجہ صرف یہ کہ پوری زندگی سائنس کا طالب علم رہا تھا۔ اب کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھاکہ اس مشکل کا اصل نکتہ کیا ہے اور کہاں سے کام شروع کیا جائے۔ یہ ایسا نازک مرحلہ تھا جس کا فیصلہ صرف میں نے اور میں نے ہی کرنا تھا کیونکہ میرے اردگرد کوئی بھی ایسا شخص نہیں تھا جس نے سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا ہو۔ میری زندگی میں چند دن اتنے کٹھن تھے کہ واقعی رات کو سو نہیں پاتا تھا ۔ لازم ہے کہ مقابلے کے امتحان میں پڑھنے کے لیے میڈیکل کالج کو عملی طور پر چھوڑنا پڑتا تھا۔ اور یہ مدت کوئی دو چار ہفتوں کی نہیں بلکہ آٹھ سے نو مہینے تک کی تھی ۔ کیونکہ امتحان کے منعقد ہونے میں آٹھ مہینے رہتے تھے ۔
خود ہی چند مضامین منتخب کر لیے جس میں پولیٹیکل سائنس ‘ سائیکلوجی ‘جنرلزم اور دیگر دو سبجیکٹس تھے۔ ذہنی طور پر ہر درجے مشکل فیصلہ کیا کہ پورے آٹھ مہینے فائنل ایئر کی کوئی کلاس اٹینڈ نہیں کروں گا۔ اور اپنے ہاسٹل سے بھی باہر منتقل ہو جاؤں گا۔اس کی وجہ یہ کہ اگر میڈیکل کالج کے ہاسٹل میں رہوں گا اور میرے سارے کلاس فیلوز‘ کلاسیں اور وارڈ اٹینڈ کرتے رہیں گے تو میں شدید نقصان کے احساس میں تقابلی طور پر ڈوبا رہوں گا اور اتنے ذہنی دباؤ میں رہوں گا جو میری برداشت سے باہر ہو گا۔ یہ چند دن میری زندگی کے فکری طور پر مشکل دن تھے۔ مگر خدا نے مجھے اتنی ہمت دی کہ میں ڈولے بغیر امتحان کی تیاری کے راستے پر گامزن ہو گیا۔ لہٰذا تمام فیصلے بغیر کسی مشورے کے خود ہی کرنے شروع کر دیے ۔
شادمان مارکیٹ لاہور میں تیسری منزل پر ایک فلیٹ کرایہ پر لے لیا ۔ جس میں ایک میز‘ کرسی اور ایک سادہ سی چارپائی تھی ۔ کرایہ شاید ڈھائی سو یا تین سو روپے تھا۔ یہ 1983کا ذکر ہے ۔ ایک دن پنجاب یونیورسٹی کا رخ کیا اور پولیٹیکل سائنس کے ڈیپارٹمنٹ میں چلا گیا ۔ پنجاب یونیورسٹی کا نیو کیمپس میرے لیے حد درجہ اجنبی سی جگہ تھی۔ یقین فرمائیے کہ کسی قسم کے تعارف کے بغیراس شعبے کے ایک اسسٹنٹ پروفیسر کے کمرے میں چلا گیا ۔گزارش کی کہ میڈیکل کالج سے آیا ہوں ۔ سی ایس ایس کرنا چاہتا ہوں اور آپ سے رہنمائی کی درخواست کرنی ہے۔ اس فرشتہ سیرت اسسٹنٹ پروفیسر کا نام میں بھول چکا ہوں۔ لیکن ان کی شکل آج تک میرے ذہن میں محفوظ ہے۔ ان کے نام کے آخر میں شاہ کا لفظ آتا تھا اور وہ کسی غیر ملکی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھے ۔
میری باتیں سن کر حیران ہو گئے اور پوچھنے لگے کہ آپ میرے پاس کس طرح پہنچے ہیں۔ میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔ میرا سپاٹ چہرہ دیکھ کر وہ مسکرائے اور کہا کہ میں ہر طریقے سے آپ کی مدد کروں گا۔ لیکن پولیٹیکل سائنس میں نمبر کم آتے ہیں ۔ اور سی ایس ایس کا امتحان صرف نمبروں کا امتحان ہے ۔
میرے ساتھ اٹھ کر وہ شعبے کی لائبریری میں آ گئے اور ایک ضخیم کتاب دکھائی کہ اسے پڑھوتاکہ کچھ چیزیں سمجھ آ سکیں ۔ یہ Sabine کی لکھی ہوئی کتاب تھی ۔ اگر میں نام غلط لے رہا ہوں تو یہ حافظے کی کمزوری ہے۔ کیونکہ یہ تقریباً چالیس سال پہلے کا واقعہ ہے ۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ یہ تو محض ایک مضمون تھا باقی کیا کیا جائے ۔ میرے سامنے مکمل اندھیرا تھا ۔سچی بات یہ ہے کہ خدا ‘ اندھیرے ہی میں سے روشنی برآمد کرتا ہے ۔ پنجاب یونیورسٹی ہی کے سائیکلوجی کے ڈیپارٹمنٹ میں گیا تو وہاں بھی ایک خاتون پروفیسر نے میری بہت مدد کی۔ اس اثناء میں تمام دوستوں کے حلقے میں یہ بات پھیل چکی تھی کہ میں نے امتحان کی تیاری شروع کر دی ہے۔
اس سے پہلے کہ میں آگے چلوں ایک چیز کا شدت سے احساس تھا کہ میڈیکل کالج میں انگریزی حد درجے ٹیکنیکل سطح کی ہے ۔ اور مجھے چار سال سے سائنسی انگریزی کا ادراک تو بخوبی ہے مگر عام فہم انگریزی لکھنا قدرے مشکل ہے ۔ کچھ سمجھ نہ آیا کہ کیا کروں اولڈ کیمپس گیا ۔ زاہد کو ساتھ لیا اور انگلش ڈیپارٹمنٹ میں چلے گئے۔ وہاں پروفیسر افتخار صاحب سے ملاقات ہوئی۔
موٹی سی عینک لگائے ہوئے حد درجہ زیرک انسان معلوم ہو رہے تھے ۔ عرض کی کہ امتحان کے لیے essay کی تیاری کے لیے آپ کو زحمت دینا چاہتا ہوں۔ اتنے باکمال انسان تھے کہ بڑی شفقت سے کہنے لگے کہ مضمون لکھ کر مجھے دے دیا کرو اور چیک کر کے تمہیں واپس کر دیا کروں گا ۔ پوچھنے لگے کہ کہاں رہتے ہو۔ انھیں شادمان کا بتایا ۔ تو کہا کہ بے شک تم شام کو میرے گھر آ کر اپنا انگری کا مضمون چیک کروا لیا کرو۔ ان کا گھر پنجاب یونیورسٹی کے اندر تھا ۔ ساتھ ہی یہ بھی حکم نامہ جاری ہوا کہ ایک اچھے انگلش کے اخبار کے ایڈیٹوریل کو اپنے لفظوں میں لکھنا شروع کر دو۔ خیر میں نے مسلم اخبار کا انتخاب کیا۔ اس کے ایڈیٹر اس زمانے میں مشاہد حسین صاحب تھے اور ان کی انگریزی کے ایڈیٹوریل حد درجے اعلیٰ ہوتے تھے ۔
ایک دن شکیل فلیٹ پر آیا اور مضامین کی سلیکشن کے متعلق پوچھا ۔جب میں نے پولیٹیکل سائنس اور سائیکلوجی کا ذکر کیا تو حکم نامہ جاری ہوا کہ اس میں شاید نمبر اچھے نہیں آئیں گے۔ میرے لیے یہ بھی خبر تھی مگر ذہن میں یہ سوال گونجنے لگا کہ اب کیا کیا جائے۔ اسی اثناء میں، میں اردو بازار لاہور سے سیاسیات اور نفسیات کی متعدد کتابیں خرید چکا تھا ۔ دوبارہ سی ایس ایس کے سلیبیس کو غور سے پڑھنا شروع کیا ۔ سوال کیا کہ اپنے علاقے کی پاک و ہند کی تاریخ کو کیوں نہ بطور مضمون منتخب کروں ۔ کیونکہ بہر حال یہ ہمارے اپنے خطے کی تاریخ ہے۔ اگر کوئی مجھ سے آج پوچھے کہ آپ نے برصغیر کی تاریخ ‘ کیوں سلیکٹ کی تو میرے پاس آج بھی اس کا کوئی معقول جواب نہیں ہے۔
باقی مضامین کے ساتھ کیا کیا جائے۔ میری بے بسی کا اندازہ لگائیے کہ میرے اردگرد ایک بھی ایسا شخص نہیں تھا جو مجھے اس مشکل سے باہر نکال سکے ۔ میں نے بذات خود جنرلزم ‘ پنجابی اور اسلامک لاء کا انتخاب کر لیا ۔ یعنی کہاں پولیٹیکل سائنس اور کہاں برصغیر کی تاریخ ۔ میں نے پولیٹیکل سائنس کا مضمون لینے کا فیصلہ خود ہی ختم کر دیا۔ جنرلزم کی کونسی کتابیں پڑھی جائیں۔ کس سے پوچھا جائے ۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔
ایک دن موٹر سائیکل اٹھائی اور پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ صحافت میں چلا گیا۔ وہاں ایک اسسٹنٹ پروفیسر صاحب کے دفتر کا دروازہ ہلکا سا کھلا ہوا تھا اور باہر سے ان کی جھلک نظر آ رہی تھی۔ اجازت لے کر اندر داخل ہوا اور ان سے پوچھا کہ مقابلے کے امتحان کے لیے کونسی کتابیں پڑھنی چاہئیں۔ کمال شفقت سے انھوںنے مجھے کرسی پر بٹھایا ۔ پوچھا کہاں سے آئے ہو ۔ میڈیکل کالج کا بتایا تو وہ بھی حیران رہ گئے کہ میں کیوں میڈیکل کو چھوڑ کر سی ایس ایس کرنا چاہتا ہوں۔یہ عظیم شخص شفیق جالندھری تھے۔ یقین فرمائیے۔ انھوں نے اس شعبے میں کتابوں کے حصول کے لیے مجھ پر اتنی مہربانی کی کہ اپنے گھر سے بھی کتابیں لا کر مجھے دیتے رہے ۔ ان کا یہ احسان میں مرتے دم تک نہیں بھول سکتا۔
(جاری ہے)
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پنجاب یونیورسٹی پولیٹیکل سائنس میڈیکل کالج سی ایس ایس کا امتحان نہیں تھا کیا جائے کی تاریخ کے لیے کہ میں
پڑھیں:
سیلاب سے متاثرہ طالب علم کی میٹرک کے امتحان میں پوزیشن، وزیراعظم نے ملاقات کیلئے بلالیا
سیلاب سے متاثرہ طالب عملم اکرام اللہ کاکڑ نے میٹرک کے امتحان میں راولپنڈی بورڈ میں تیسری پوزیشن حاصل کرلی جس کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے اسے ملاقات بلالیا۔
وزیر اعظم نے بلوچستان کے طالب علم اکرام اللہ کاکڑ کا وزیر اعظم ہاؤس میں خیرمقدم کیا۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ اکرام اللہ کاکڑ کا خاندان سیلاب سے شدید متاثر تھا ،2022 میں دورہ قلعہ سیف اللہ کے دوران اکرام اللہ سے امدادی خیمے میں ملاقات ہوئی تھی۔
ملاقات میں اکرام اللہ نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا اور ان کے تعلیمی اخراجات براداشت کرنے کا اعلان کیا تھا ، آج یہ دیکھ کر خوشی ہے کہ اکرام اللہ محنت سے اپنے اہداف کی طرف گامزن ہے۔
اس موقع پر اکرام اللہ نے کہا کہ پچھلی مرتبہ میں نے آپ سے پوزیشن حاصل کرنے کا وعدہ کیا تھا جو میں نے پورا کیا اور آپ سے ملاقات کیلئے آیا ہوں۔
اس موقع پر وزیر اعظم نے اکرام اللہ کو یاد دلایا کے گزشتہ ملاقات میں آپ نے سیاہ رنگ کی شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس دن بہت چمکتی دھوپ تھی اور آپ نے کہا تھا کہ ہمارے علاقہ میں کوئی اسکول نہیں، بچوں کو تعلیم کے حصول کیلئے بہت دور جانا پڑتا ہے، مجھے تعلیم حاصل کرنے کا بڑا شوق ہے ۔
وزیر اعظم نے کہا کہ پھر میں اکرام اللہ کو لارنس کالج لے آیا ۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز جب میں نے یہ خبر پڑھی کہ آپ نے تیسری پوزیشن حاصل کی ہے تو مجھے بہت فخر محسوس ہوا۔جس پر اکرام اللہ نے وزیر اعظم سے اظہار تشکر کیا۔
وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے کہاکہ آپ کے اساتذہ اور والدین کی دعائیں اور آپکی محنت رنگ لائی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کے یہ بہت خوشی کی بات ہے جس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ طالب علم اکرام اللہ نے وزیر اعظم سے اظہار تشکر کیا اور کہا کہ لوگ سیاست میں ہر کسی کیلئے کچھ نا کچھ کرتے ہیں لیکن آپ کا رویہ میرے ساتھ سیاست سے ہٹ کر تھا ، آپ نے بہت ہی پسماندہ علاقے سے ایک بچہ لیا اور اس کو لارنس کالج میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع دیا ۔
انہوں نے کہا کہ آپ نے مجھے ملک کے بہت بڑے تعلیمی ادارے میں پڑھنے کا موقع دیا۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے کالج میں ٹاپ تھری سٹوڈنٹس کو اسکالر شپ ملتی ہے لیکن میں نے فیصلہ کیا کہ میں ڈبل اسکالر شپ حاصل کروں گا، میں پہلے بھی اسکالر شپ پر پڑھ رہا تھا اور الحمد اللہ میں نے محنت کی اور مجھے یہ اسکالر شپ ملی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میری کامیابی آپ کی مرحون منت ہے، وزیر اعظم محمد نے طالب علم سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ یہ سب اللہ تعالیٰ کا کرم ہے، وہ انسانوں کو ذریعہ بنا دیتا ہے ، مجھے اللہ تعالیٰ نے توفیق دی اور آپ کیلئے ذریعہ بنایا۔
انہوں نے کہا کہ آج آپ ایک بہترین ادارے میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں جو اللہ تعالیٰ کاکرم ہے ۔ آپ نے بہت محنت کی ہے ، اس کالج نے بہت بڑے بڑے نام پیدا کئے ہیں۔
اکرام اللہ نے کہا کہ میرےملک کا مجھ پر بہت بڑا قرض ہے اور میں مزید محنت کرونگا اور اپنی استعداد سے بڑھ کر ملک و قوم کی خدمت کرونگا۔
وزیر اعظم نے مستقبل کے حوالے سے سوال کیاتو اکرام اللہ نے کہاکہ میں سی ایس ایس کرنا چاہتا ہوں اور انٹر میڈیٹ میں بھی محنت کر کے بیرون ملک اسکالر شپ حاصل کرنے کی کوشش کرونگا کیونکہ مجھے بچپن سے ہی آکسفورڈ جانے کا شوق ہے، انشاء اللہ میں ملک و قوم کا نام سربلند کرونگا۔
انہوں نے کہا کہ میں آپ کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرونگا کیونکہ آپ بھی ملک و قوم کیلئے بہت محنت کررہےہیں ۔ ہم سب طالبعلم یہ خواہش رکھتے ہیں آپ جیسا لیڈر ہمیں مستقبل میں بھی نصیب ہو۔
وزیر اعظم کے استفسار پر اکرام اللہ نے بتایا کہ میں کھیلوں کے ساتھ ساتھ تقریری مقابلوں میں بھی شرکت کرتا ہوں۔
اس موقع پر وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے طالبعلم اکرام اللہ کو خصوصی تحفہ بھی پیش کیا اور کہا کہ یہ تحفہ مستقبل میں آپ کی پڑھائی اور عملی زندگی میں بھی کام آئے گا۔
واضح رہے کہ بلوچستان کے دور دراز علاقے سےتعلق رکھنے والا طالبعلم اکرام اللہ کاکڑ وزیر اعظم محمد شہباز شریف کی جانب سے فراہم کردہ اسکالر شپ پر لارنس کالج میں تعلیم حاصل کر رہا ہے اور اس نے میٹرک کے امتحان میں راولپنڈی بورڈ میں تیسری پوزیشن حاصل کی ہے، جس پر وزیر اعظم نے ملاقات کیلئے اکرام اللہ کو مدعو کیا تھا۔
ملاقات میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ ، اکرام اللہ کے والدین اور اساتذہ بھی موجود تھے۔