اے آر رحمان نے دائرہ اسلام میں داخل ہوتے وقت خاندانی دباؤ کا سامنا کیا، بھارتی فلمساز کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 24th, March 2025 GMT
بھارت کے شہر چنئی میں پیدا ہونے والے دلیپ کمار( آج کےموسیقار اے آر رحمان) نے اپنے موسیقار والد شیکھر کی موت کے کئی برس بعد اسلام قبول کیا تھا جس کے بعد ان کا نام اللہ رکھا رحمان رکھا گیا۔بھارتی میڈیا کے مطابق عالمی شہرت یافتہ بھارتی موسیقار اے آر رحمان نے 23 سال کی عمر میں اسلام قبول کیا تھا۔اس حوالے سے بھارتی میڈیا کو سن 2000 میں دیے گئے انٹرویو میں اے آر رحمان نے بذات خو دبتایا تھا کہ انہوں نے روحانی راستے کی تلاش میں اسلام قبول کیا اور انہیں اس فیصلے سے بے حد سکون ملا۔حال ہی میں بھارت کے فلم ساز راجیو مینن نے اے آر رحمان کے اسلام قبول کرنے کے فیصلے سے متعلق بھارتی میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ ’ایک ایسا وقت بھی تھا جب وہ ( اے آر رحمان ) ہندی نہیں جانتے تھے اس لیے میں ان کا مترجم بن گیا، میں نے ان کی مذہب و عقیدے کی طرف منتقلی کا یہ دور دیکھا۔‘فلم ساز راجیو مینن نے بتایا کہ ’حتیٰ کہ میں نے اے آر رحمان کو ان کے خاندان کے اندر سے بہت زیادہ دباؤ کا سامنا کرتا پایا، خاص طور پر ان کی بہنوں کی شادیوں کے وقت لیکن موسیقی نےاسے اس طوفان کا مقابلہ کرنے میں مدد کی‘۔سنیماٹوگرافر نے مزید بتایا کہ’اے آر رحمان کے اس مشکل وقت میں موسیقی نے ان کی مدد کی جس کا اعتراف وہ خود بھی کرتے ہیں کہ موسیقی نے اسے بھولنے میں مدد کی، مزید یہ کہ اے آر رحمان کے اسلام قبول کرنے سے ہمیں ہندوستانی موسیقی اور قوالیوں کو دریافت کرنے میں مدد ملی.
ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: بھارتی میڈیا اے ا ر رحمان اسلام قبول
پڑھیں:
اسرائیلی فوج قبضہ کرنے کیلئے ٹینکوں کے ساتھ غزہ شہر کے وسط میں داخل
غزہ(انٹرنیشنل ڈیسک) کئی ہفتوں سے جاری فضائی بمباری اور اونچی عمارتیں تباہ کرنے کے بعد اسرائیلی فوج قبضہ کرنےکیلئے بلٓاخر ٹینکوں کے ساتھ غزہ شہر کے وسط میں داخل ہوگئی، ساتھ ہی طیاروں سے شہر پر بمباری کی جارہی ہے۔
اس صورتحال میں امریکی وزیرخارجہ نے اعتراف کیا ہے کہ غزہ جنگ کا سفارتی حل ممکن نظر نہیں آتا۔
مارکو روبیو سے پہلے صدر ٹرمپ نے امید ظاہر کی تھی کہ یرغمالیوں کی رہائی سے متعلق ڈیل بہت جلد ہونے کی امید ظاہر کی تھی۔
غزہ شہر میں اسرائیل کی پچھلے دو برسوں میں یہ پہلی کارروائی ہے، فضائی بمباری کے سبب غزہ شہر کے تین لاکھ مکین پہلے ہی جنوب کی جانب نقل مکانی پر مجبور ہوچکے ہیں۔
اسرائیلی حکام کا خیال تھا کہ رفاہ کی طرح یہ شہر بھی زیادہ تر خالی کرالیا جائے گا تاہم سات لاکھ سے زائد شہری اب بھی غزہ شہر میں مقیم ہیں۔
خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اب اس شہر میں بھی فلسطینیوں کی نسل کشی کی جائے گی۔
اسرائیلی فوج کے اس آپریشن کی مختلف ممالک نے شدید مذمت کی ہے اور خود اسرائیلی فوج کے چیف آف اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل ایال زامر بھی اس کی مخالفت کرچکے ہیں۔
انہوں نے خبردارکیا ہے کہ اس آپریشن سے یرغمالیوں کی زندگی کو خطرات لاحق ہوجائیں گے، اسرائیلی فوج کو بھاری جانی نقصان کاخدشہ ہے اور حماس کو ختم کرنے کی کوشش ناکام ہوسکتی ہے۔
امریکی صدر کے مطابق اس آپریشن کے جواب میں حماس نے تمام یرغمال اسرائیلیوں کو سرنگوں سے باہر نکال لیا ہے اور اب انہیں اسرائیل کی اس زمینی کارروائی کیخلاف ڈھال کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔
یرغمالیوں اور لاپتا اسرائیلییوں کے عزیزوں نے غزہ شہر پر اسرائیلی فوج کے حملے پر شدید تنقید کی ہے۔
انہوں نے اسرائیلی وزیراعظم کے گھر کے قریب مظاہرہ کیا اور کہا کہ اس آپریشن نے سات سو دس روز سے یرغمال افراد کے زندہ بچنے کی آخری امید بھی ختم کردی ہے اور اس پوری صورتحال کے ذمہ دار اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو ہیں۔
Post Views: 7