انڈیاز گوٹ لیٹنٹ‘ تنازع کے بعد سمے رائنا کا ’ذہنی حالت‘ بگڑنے کا انکشاف ‘
اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT
بھارتی کامیڈین سمے رائنا نے انکشاف کیا ہے کہ ’انڈیاز گوٹ لیٹنٹ‘ تنازعے نے ان کی ذہنی صحت کو متاثر کیا ہے اور ان کے کینیڈا کے دورے کو بھی متاثر کیا ہے۔
اسٹینڈ اپ کامیڈین سمے رائنا، جو اپنے شو ’انڈیاز گوٹ لیٹنٹ‘ میں بھارتی یوٹیوبر رنویر الہ آبادیہ کے متنازع بیان سے متعلق تنازع کے فوراً بعد اپنے کینیڈا کے دورے کے لیے روانہ ہو گئے تھے، ممبئی واپس آ گئے ہیں اور آخر کار انہوں نے اس معاملے پر اپنا بیان ریکارڈ کروا دیا ہے۔
کئی سماعتوں کے بعد رائنا اپنا بیان ریکارڈ کرانے کے لیے مہاراشٹر سائبر پولیس کے سامنے پیش ہوئے جہاں انہوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے احساس ہے کہ میں نے جو کہا وہ غلط تھا‘۔
کامیڈین نے حکام کو بتایا کہ ’میں نے جو کچھ کہا اس پر مجھے گہرا افسوس ہے۔ یہ شو کے دوران ہوا، اور میرا ایسا کہنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا، میں محتاط رہوں گا کہ اگلی بار ایسا دوبارہ نہیں ہوگا‘۔
مزید برآں، سمے رائنا نے یہ بھی اعتراف کیا، اس پورے معاملے کی وجہ سے ان کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں ہے اور ان کا کینیڈا کا دورہ بھی اس معاملے کی وجہ سے متاثر ہوا ہے۔
یاد رہے کہ 10 فروری کو یہ تنازع شروع ہوا جب رنویر الہ آبادیہ عرف بیئر بائسپس نے رائنا کے یوٹیوب شو ’انڈیاز گوٹ لیٹنٹ‘ پر والدین سے متعلق فحش تبصرے کیے تھے۔
.
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
بھارتی دارالحکومت کے نواح میں ایک جعلی تھانے کا انکشاف
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 11 اگست 2025ء) گوتم بدھ نگر، نوئیڈا، کے ڈپٹی کمشنر آف پولیس شکتی موہن اوستھی نے بتایا کہ پولیس نے منظم دھوکہ دہی کی ایک کوشش کو کامیابی سے ناکام بنا دیا۔ انہوں نے بتایا کہ ملزمان نے نوئیڈا سیکٹر 70 میں ’انٹرنیشنل پولیس اینڈ کرائم انویسٹی گیشن بیورو‘ کے نام سے ایک جعلی دفتر قائم کیا تھا، جہاں پولیس جیسے نشان اور جعلی وزارتوں کے کاغذات استعمال کر کے عوام کو دھوکہ دینے اور پیسہ بٹورنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ چھاپے کے دوران چھ مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا اور وسیع شواہد قبضے میں لیے گئے، جن میں جعلی شناختی کارڈز، وزارتوں کے سرٹیفیکیٹس، چیک بکس، اے ٹی ایم کارڈز، وزٹنگ کارڈز، سائن بورڈز، موبائل فونز، اور 42,300 روپے نقد شامل ہیں۔
(جاری ہے)
تمام چھ ملزمان کو جوڈیشل حراست میں بھیج دیا گیا ہے اور تفتیش جاری ہے۔
اوستھی نے کہا کہ ملزمان نے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے دعویٰ کیا تھا کہ وہ انٹرپول، انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کمیشن، اور یوریشیا پول سے منسلک ہیں۔
انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ ان کا دفتر برطانیہ میں ہے۔پولیس نے مزید بتایا کہ اس گروہ نے حال ہی میں یہ جعلی دفتر قائم کیا تھا اور وہ تقریباً 10 دن سے کام کر رہا تھا۔ یہ جگہ چار جون کو کرائے پر لی گئی تھی۔ اوستھی نے کہا، ’’وہ پولیس کے متوازی نظام کے طور پر کام کرنے اور عوام کو دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے تھے۔‘‘
جعلی سفارت خانہ، جعلی عدالتیاد رہے کہ یوپی اسپیشل ٹاسک فورس نے 22 جولائی کو دہلی سے ملحق غازی آباد سے 47 سالہ ہرش وردھن جین نامی ایک شخص کو گرفتار کیا تھا، جو چار مائیکرونیشنز — ویسٹ آرکٹیکا، سیبورگا، پولبیا اور لیڈونیا — کے ’’سفارت خانے‘‘ کرائے کے ایک مکان سے چلا رہا تھا۔
خود کو ان ملکوں کا ’’سفیر‘‘ ظاہر کرنے والے جین کے پاس جعلی سفارتی نمبر پلیٹس، لگژری کاریں، اور سرکاری مہریں وغیرہ موجود تھیں۔ پولیس جین کے خلاف غیر ملکی ملازمت دلانے کے نام پر فراڈ، حوالہ اور خفیہ سرگرمیوں کی تفتیش کر رہی ہے۔
اس سے قبل گزشتہ سال اکتوبر میں گجرات میں ایک جعلی عدالت کا بھی انکشاف ہوا تھا۔
پولیس کے مطابق ملزم کی شناخت مورس سیموئل کرسچن کے طور پر ہوئی، جو 2019 سے خاص طور پر گاندھی نگر کے علاقے میں زمین کے سودوں میں جعلی فیصلے سنا رہا تھا۔
اس جعلی عدالت کا پتہ اس وقت چلا تھا، جب پولیس شکایت درج ہونے کے بعد ایک کیس کی سماعت کے لیے احمد آباد سٹی سول کورٹ میں پہنچی۔
گزشتہ سال نومبر میں گجرات میں ہی ایک جعلی ٹول پلازے کا بھی پتہ چلا تھا، جو پچھلے 12 برسوں سے کام کر رہا تھا اور جعل سازوں نے اس دوران لوگوں سے ٹول کے طور پر تقریباﹰ 75 کروڑ روپے وصول کیے تھے۔
ادارت: مقبول ملک