ایمازون سے اینڈیز تک موسمیاتی بحران کی تباہ کاریوں سے لاکھوں افراد متاثر
اشاعت کی تاریخ: 28th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 28 مارچ 2025ء) موسمیاتی تبدیلی کے اثرات نے گزشتہ سال لاطینی امریکہ اور غرب الہند کو بڑے پیمانے پر متاثر کیا جہاں گلیشیئر ختم ہو رہے ہیں، بڑی تعداد میں شدید طوفان آ رہے ہیں اور خشک سالی و تباہ کن سیلاب زندگیوں کے لیے خطرہ بن گئے ہیں۔
عالمی ادارہ موسمیات (ڈبلیو ایم او) کی جاری کردہ ایک نئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے۔
2024 میں چلی کے سلسلہ کوہ اینڈیز سے لے کر برازیل میں ایمازون تک اور گنجان شہروں سے ساحلی علاقوں تک موسمیاتی مسائل نے لوگوں، معیشتوں اور ماحول کو شدید نقصان پہنچایا۔ Tweet URL'لاطینی امریکہ اور غرب الہند میں موسمیاتی صورتحال' کے عنوان سے شائع ہونے والی اس رپورٹ کے مطابق، گزشتہ سال اب تک کا گرم ترین یا دوسرا گرم ترین سال تھا۔
(جاری ہے)
بڑھتے درجہ حرارت کے نتیجے میں وینزویلا میں آخری گلیشیئر (ہمبولڈٹ) ختم ہو گیا۔ اس طرح وینزویلا یورپی ملک سلوینیہ کے بعد ایسا دوسرا ملک بن گیا ہے جہاں اب کوئی گلیشیئر باقی نیہں رہا۔'ڈبلیو ایم او' کی سیکرٹری جنرل سیلسٹ ساؤلو نے کہا ہے کہ خطے میں خشک سالی اور شدید گرمی سے جنگلات تباہ کن آگ کی لپیٹ میں آئے۔ علاوہ ازیں، غیرمعمولی بارشوں کے نتیجے میں خطے نے بڑے پیمانے پر سیلاب اور کیٹیگری 5 کے سمندری طوفان کا سامنا بھی کیا۔
رپورٹ میں تشویشناک صورتحال کے علاوہ مثبت پیش رفت کا تذکرہ بھی ہے جس میں قابل تجدید توانائی کا بڑھتا ہوا کردار اور زندگیوں کو تحفظ دینے کے لیے قدرتی آفات سے بروقت آگاہی کے نظام کا پھیلاؤ قابل ذکر ہیں۔
جنگلوں کی آگ اور تباہ کن سیلابسال کی پہلی ششماہی میں سمندری موسمی کیفیت ال نینو کے باعث بارشوں کے معمول میں تبدیلی آئی۔
مثال کے طور، برازیل کے علاقوں ایمازون اور پینٹینال میں بڑے پیمانے پر خشک سالی دیکھی گئی جبکہ بارشیں معمول سے 30 تا 40 فیصد کم رہیں۔برازیل کے علاوہ وسطی چلی، میکسیکو اور بیلیز سمیت بہت سے ممالک میں جنگلوں کی آگ نے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ چلی میں اس آگ نے 130 جانیں لیں جو 2010 کے زلزلے کے بعد ملک میں آنے والی بدترین قدرتی آفت تھی۔
جنوبی ریاست ریو گرینڈی ڈو سول میں شدید بارشوں کے نتیجے میں سیلاب آنے سے زرعی شعبے کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔
یہ برازیل میں اب تک کی بدترین موسمیاتی تباہی ہے۔'ڈبلیو ایم او' نے بتایا ہے کہ اگرچہ بروقت انتباہ اور انخلا کی بدولت اس سیلاب سے زیادہ جانی نقصان نہیں ہوا اور صرف 180 اموات ریکارڈ کی گئیں۔ تاہم اس سے حکام اور عوام کے لیے قدرتی آفات کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کے بارے میں سمجھ بوجھ بڑھانے کی ضرورت واضح ہوتی ہے۔
امید اور استحکامسیلیسٹ ساؤلو کا کہنا ہے کہ بری خبروں کے باوجود امید کی کرن بھی موجود ہے۔
لاطینی امریکہ اور غرب الہند میں قدرتی آفات سے بروقت آگاہی دینے کے نظام اور موسمیاتی خدمات میں بہتری آئی ہے جس کی بدولت زندگیوں کو تحفظ دینا اور بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنانا ممکن ہوا ہے۔ علاوہ ازیں، خطے میں استعمال ہونے والی توانائی میں اس کے قابل تجدید ذرائع کا حصہ 69 فیصد تک پہنچ گیا ہے اور 2023 کے مقابلے میں شمسی اور ہوائی توانائی کی استعداد اور پیداوار میں 30 فیصد اضافہ ہوا ہے۔(ڈبلیو ایم او) اور شراکت دار بھی خطے میں قابل تجدید توانائی کی پیداوار اور مصنوعی ذہانت کی بنیاد پر ہوائی صورتحال پرپیشگی اطلاعات کی فراہمی کے لیے موسمیاتی اور آبی خدمات میں مدد دے رہے ہیں۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ڈبلیو ایم او کے نتیجے میں کے لیے
پڑھیں:
آسٹریلیا : سطح سمندر بلند ہونے سے 15 لاکھ افراد خطرات کا شکار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250916-06-15
کینبرا (انٹرنیشنل ڈیسک) آسٹریلیا کی قومی موسمیاتی خطرات کی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے باعث سمندر کی سطح بلند ہونے اور سیلاب سے 2050 ء تک آسٹریلیا کے 15 لاکھ شہری متاثر ہوں گے۔ یہ رپورٹ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ملک رواں ہفتے زہریلی گیسوں کے اخراج میں کمی کے نئے اہداف جاری کرنے والا ہے۔ رپورٹ کے مطابق بڑھتا درجہ حرارت آسٹریلیا کی 2 کروڑ 70 لاکھ سے زائد آبادی پر مسلسل اور باہم جڑے ہوئے اثرات مرتب کرے گا۔ آسٹریلوی وزیر کرس باؤون نے کہا کہ ہم اب موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو دیکھ رہے ہیں۔ یہ کوئی پیش گوئی یا تخمینہ نہیں رہا، یہ ایک زندہ حقیقت ہے اور اب اس کے اثرات سے بچنا ممکن نہیں رہا۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ 2050 ء تک ساحلی علاقوں میں مقیم 15 لاکھ افراد براہ راست خطرے سے دوچار ہوں گے جبکہ 2090 ء تک یہ تعداد بڑھ کر 30 لاکھ ہو سکتی ہے۔ آسٹریلیا میں جائداد کی مالیت کو 2050 ء تک 611 ارب آسٹریلوی ڈالر (406 ارب امریکی ڈالر) کا نقصان پہنچنے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے جو 2090 ء تک 770 ارب ڈالر تک بڑھ سکتا ہے۔مزید یہ کہ اگر درجہ حرارت میں 3 ڈگری سینٹی گریڈ تک اضافہ ہوا تو صرف سڈنی میں گرمی سے اموات کی شرح میں 400 فیصد سے زائد اضافہ ہو سکتا ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے فوسل فیول برآمد کنندگان میں شمار ہونے والے آسٹریلیا پر طویل عرصے سے تنقید کی جا رہی ہے کہ اس نے موسمیاتی اقدامات کو سیاسی اور معاشی بوجھ سمجھا تاہم بائیں بازو کی لیبر حکومت نے حالیہ برسوں میں زہریلی گیسوں کے اخراج میں کمی اور قابل تجدید توانائی کے منصوبوں پر توجہ دی ہے۔ یہ رپورٹ پیر کو اس وقت سامنے آئی جب آسٹریلیا اپنے زہریلی گیسوں کے اخراج میں کمی کے نئے اہداف پیرس معاہدے کے تحت پیش کرنے کی تیاری کر رہا ہے اور ماہرین توقع کر رہے ہیں کہ اہداف پہلے سے زیادہ بلند ہوں گے۔