موجودہ پی ٹی آئی قیادت کے ساتھ حکومت عمران خان کو جتنا چاہے قید رکھ سکتی ہے، فواد چوہدری
اشاعت کی تاریخ: 29th, March 2025 GMT
سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ موجودہ قیادت کے دور میں عمران خان کو حکومت جتنی دیر اندر رکھ سکی وہ رکھے گی کیونکہ عدالتوں کے ذریعے بانی پی ٹی آئی کو رہا نہیں کروایا جا سکتا۔
وی نیوز کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں فواد چوہدری نے پارٹی میں فارورڈ بلاک کا زمہ دار شبلی فراز اور سلمان اکرم راجا کو قرار دیا جنہوں نے عمران خان کو 23 موجودہ ارکان اسمبلی اور سینیٹ کی لسٹ دے کر انہیں نکالنے کی سفارش کی۔
’سلمان راجا جیسے بونے پی ٹی آئی چلائیں گے تو ایسا ہی ہوگا۔ جب آپ 23 ایم این ایز اور سینیٹرز کی لسٹ عمران خان کو دیں گے کہ ان کو پارٹی سے نکال دیں تو فارورڈ بلاک نہیں بنے گا تو کیا ہوگا؟۔
انہوں نے بتایا کہ پی ٹی آئی میں فارورڈ بلاک کی باتیں وہیں سے شروع ہوئیں جب شبلی فراز اور سلمان راجا جیسے نااہل لوگوں نے خان کو سیٹنگ ایم این ایز اور سنیٹرز کو نکالنے کا کہا۔
’پی ٹی آئی میں بدقسمتی سے یہ رواج ہے اوپر سے لیکر نیچے تک کہ جو لوگ ان کے ساتھ ہوتے ہیں ان کی تضحیک کی جائے۔ جب آپ اس طرح لوگوں کی بے عزتی کریں گے تو کون رہے گا؟‘
اڈیالہ میں موجودہ قیادت کی ملاقات کا ایک ہی ایجنڈا ہوتا ہے کہ کوئی آدمی پی ٹی آئی میں آ نہ جائے اور جو ہیں ان کو نکالنا کیسے ہے۔
عمران خان کی رہائی کے حوالے سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کو اگلے جتنی دیر اندر رکھ سکے وہ رکھیں گے۔ عدلیہ ہے نہیں۔ سب سے پہلے تو پی ٹی آئی کو اس مخمصے سے باہر آنا چاہیے کہ آپ عدالتوں کے ذریعے عمران خان کو باہر نکال سکتے ہیں۔ آپ نہیں نکال سکتے۔ اس کے لیے سیاسی حکمت عملی چاہیے۔
اگر عمران خان اور ان کی بہنیں خاص طور پر اس مخمصے سے باہر نہیں آ جاتیں کہ انہوں نے عدالتوں کے ذریعے باہر آنا ہے تو کیا ہو سکتا ہے؟
آپ اس پارٹی لیڈرشپ کی عقل پر کیا کہیں گے جنہوں نے ساٹھ ستر کروڑ روپیہ وکیلوں پر بانٹ دیا۔ اپنا میڈیا سیل بند کردیا کہ ہمارے پاس تنخواہیں نہیں ہیں۔ آپ کے پاس اے پی سی کروانے کے پیسے نہیں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت بیرسٹر گوہر اور علی ظفر، اسد قیصر کی کوئی حیثیت نہیں رہ گئی پارٹی میں اور پارٹی کو سلمان اکرم راجا چلا رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اصل پی ٹی آئی تو اب ختم ہوگئی ہے اسٹیبلشمنٹ نے ہم سب کو ٹھڈے مکے مار کر نکال دیا۔ سارے اہم لیڈر یا جیل میں ہیں یا پارٹی سے باہر۔
ابھی کی قیادت کا پی ٹی آئی سے کوئی تعلق نہیں۔ کل وقتی وکیل جز وقتی سیاستدان بن گئے۔ ان کی حتمی مدت دو 3 ماہ اور ہوگی پھر ان کو بدلا جائے گا۔
فواد چوہدری نے کہا کہ سلمان اکرم راجا اس بچے کی طرح ہیں جو ٹافیوں کے سٹور پر آجائے تو کہتا ہے ساری ٹافیاں ابھی کھا جاؤں۔
اپنے بھائی فیصل چوہدری کو نکالے جانے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فیصل چوہدری نے بطور وکیل 5 سو سے زائد لوگ چھڑوائے ہیں۔ وہ سال 2014 سے پارٹی کی خدمت کر رہا تھا۔
عمران خان سے ملاقات میں فواد چوہدری نے کیا مشورہ دیا؟جب میری عمران خان سے ملاقات ہوئی تو میں نے انہیں ان لوگوں کو پارٹی سے نکالنے سے روکا۔ میں نے کہا ان سب کو نکال دیں گے تو پارلیمانی پارٹی کیا بچے گی۔ ایک طرف آپ مخصوص نشتیں مانگ رہے ہیں دوسری طرف اپنی جماعت کے سرونگ ایم این ایز کو نکال رہے ہیں۔
گرینٖڈ اپوزیشن الائنس کا آئیڈیا میرا تھا۔ مذاکرات کے لیے پہلی کمیٹی میری درخواست پر بنی۔ میں نے کہا تھا کہ اس کے سوا کیا چارہ ہے۔
عمران خان کو اس وقت 3 چیزوں کی ضرورت ہے۔ ایک تو انہیں درست معلومات چاہیے جو نہیں پہنچ رہیں۔ دوسرا ان کو سیاسی مشاورت چاہیے وہ بھی نہیں مل رہی۔ تیسرا ان کے سیاسی پلان پر عمل درآمد کی حکمت عملی ہونی چاہیے۔
اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ راستہ نکالنا ہوگا؟فواد چوہدری نے کہا کہ حکومت بننے کے لیے کسی پارٹی کو ہم جیسے سیاسی رہنماؤں کے علاوہ ہانڈی میں اسٹیبلشمنٹ کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ 2018 میں بھی آپ کو ہانڈی میں یہ مصالحہ چاہیے تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ غلطیاں اسٹیبلشمنٹ سے بھی ہوئی ہیں مگریہ پاکستان کے نظام کی حقیقت ہے جسے تسلیم کرنا ہوگا۔
اگر خان سے اب ملاقات ہوئی تو کیا ایڈوائس دیں گے؟فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ میں نے پہلے بھی عمران خان سے ملاقات میں کہا تھا کہ ہم سیاستدان ہیں ہم بندوقیں لے کر پہاڑوں پر تو نہیں جا سکتے۔ ہم نے راستہ بنانا ہے۔
وہ علیحدہ بات ہے کہ جب آپ سیاستدانوں کو حد سے دبائیں گے تو پھر ان کے بدلے میں بندوق والے ہی آئیں گے یہ اسٹیبلشمنٹ نے سوچنا ہے۔ ہمارے سوچنے کی بات یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ بلیک اینڈ وائٹ میں سوچتی ہے سیاستدان نے گرے میں سوچنا ہوتا ہے اس لیے راستہ ہم نے بنا کر دینا ہے۔
راستہ میں کیا رکاوٹ ہے۔ پہلے تو ہمیں سوشل میڈیا پر جو اینٹی پاکستان اور اینٹی آرمی مہم چل رہی ہے ۔پی ٹی آئی نے اس مہم سے خود کو الگ کرنا ہے۔ جیسے عادل راجا اور دیگر لوگوں سے پی ٹی آئی کو الگ ہونا ہے۔ پی ٹی آئی کی اصل غلطی ہے کہ آفیشل سوشل میڈیا اس مہم سے الگ کرنے کی بھرپور کوشش نہیں کر رہا۔ شخصیات کے خلاف مہم سے پوری قوت سے علیحدہ ہونا ہوگا۔
مجھے خوشی کہ عمران خان کے کہنے پر آرمی چیف کی والدہ کی وفات پر تعزیت کا پیغام جاری کیا گیا۔ خان صاحب نے خاص طور پر اس کا کہنا تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو یہ باور کرانا ہے کہ ہم واپس آئیں گے تو تلخیاں دفن کرکے آئیں گے۔ اگر آپ نے مجھے گرایا ہوا ہے اور آپ کو یقین ہے کہ اٹھ کر میں آپ کو مار دوں گا تو آپ مجھے کبھی اٹھنے نہیں دیں گے۔
علی امین گنڈا پور ڈیل نہیں بنا سکےفواد چوہدری کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ علی امین گنڈا پور ایک سال سے رابطے کے باوجودہ ڈیل نہیں بنا سکے۔ یہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔ علی امین گنڈا پور کا اسٹیبلشمنٹ سے رابطے کا چینل ہے مگر وہ اسے مؤثر نہیں بنا سکے۔ وہ خان صاحب سے مخلص ہیں مگر ایک سال میں جو سیاسی ڈیل بنانی چاہیے تھی وہ نہیں بنا پائے۔
’مثلاً مجھے خود خان صاحب نے یہ بات کہی کہ یہ روز آجاتے ہیں کہ آپ بنی گالہ چلے جائیں یا فلاں جگہ چلے جائیں تو میں نے وہاں جا کر کیا کرنا ہے؟ یہ چھوٹی چیز ہے۔ دیکھیں عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ میں ایک ہی ڈسکشن ہے کہ نئے الیکشن کب ہونے ہیں۔ اب خان صاحب کہیں گے کہ فوراً کروا دیں۔ حکومت کہے کی گی 3 سال میں کروا دیں۔ اب یہ جو درمیان کا عرصہ ہے یہ مذاکرات ہیں۔ میرے خیال میں اصل مدعا پر بات نہیں ہوئی۔
عمران خان کی غلطیاںفواد چوہدری کا کہنا تھا کہ دوران حکومت خان صاحب سے ایسی کوئی غلطی نہیں ہوئی کہ اسٹیبلشمنٹ ناراض ہوتی۔ آرمی چیف کا آفس اتنا طاقتور ہے کہ وہ کوئی فیصلہ کرلے تو پھر بہت مشکل ہو جاتا ہے اس کو بدلنا۔ جنرل باجوہ نے فیصلہ کر لیا تھا کہ ایک ایکسٹینشن ہم سے لی ایک دوسری طرف سے لینی ہے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی سے غلطیاں حکومت جانے کے بعد ہوئیں۔ سب سے بڑی غلطی یہ ہوئی کہ خان صاحب نے ہمیں منع کر دیا کہ کوئی بندہ اسٹیبلشمنٹ سے رابطہ نہ کرے۔ تو ہم نے اپنے رابطے ختم کر دیے۔ اس سے بڑا نقصان ہوا۔ ذاتی طور پر بھی نقصان ہوا اور خان صاحب کو بھی نقصان ہوا، پارٹی کو بھی نقصان ہوا۔ اس سے خلا پیدا ہوا اور ہمارے مخالف جا کر کان بھرنا شروع ہو گئے۔
میری نظر میں اگر ہم رابطے رکھتے تو خود جنرل باجوہ صاحب کو احساس ہو گیا تھا کہ ان سے غلطی ہو گئی اور وہ پھر الیکشن کروانا چاہتے تھے۔
اس سوال پر کہ کیا 9 مئی بھی پی ٹی آئی کی غلطی تھی؟ فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہے کیونکہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ پی ٹی آئی نے 9 مئی کرنے کے لیے کوئی ایک میٹنگ یا ارادہ ظاہر کیا ہو۔
شہباز حکومت کی معاشی پالیسی پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اب لوگ ترقیاتی کاموں پر ووٹ نہیں دیتے بلکہ ان کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ شہباز شریف بری طرح فلاپ ہو گئے۔ آج امپورٹس رکی ہوئی ہیں آج کھول دیں تو ڈالر پھر اوپر چلا جائے گا۔ فیصل آباد میں ملز بند ہو رہی ہیں۔ بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔
مریم نواز کی ترقی کاغذوں پر ہے۔ جب تک مقامی حکومتوں کا نظام نہیں لاتے حقیقی ترقی نہیں ہوتی۔
قومی سلامتی کمیٹی میں پی ٹی آئی کی عدم شرکتاس حوالے سے سوال پر ن کا کہنا تھا کہ سلمان راجا، شبلی فراز اور گوہر اگر سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں چلے بھی جاتے تو اس کی کیا اہمیت تھی، کانفرنس ایوان صدر میں ہونی چاہیے تھی جس میں صرف 6 لوگ شامل ہوتے، صدر زرداری، نواز شریف، عمران خان، آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی اور مولانا فضل الرحمن ہو جاتے کیونکہ یہ 6 لوگ ہیں جن کے پاس اختیار بھی ہے اور سیاسی طاقت بھی۔
بلوچستان میں انتظامی اقدامات کرنے ہیں۔ پتا نہیں کس عقلمند نے 1970 میں یححی کو مشورہ دیا کہ سارے علاقے بلوچستان میں شامل کر دیں۔ بلوچستان کو واپس علاقوں میں تقسیم کریں، گوادر کو دبئی طرز پر تعمیر کریں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پی ٹی آئی سلمان اکرم راجا عمران خان فواد چوہدری فیصل چوہدری.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پی ٹی ا ئی سلمان اکرم راجا فواد چوہدری فیصل چوہدری ان کا کہنا تھا کہ سلمان اکرم راجا فواد چوہدری نے کہ اسٹیبلشمنٹ عمران خان کو نقصان ہوا پی ٹی ا ئی پی ٹی آئی نہیں بنا کو نکال کے ساتھ دیں گے نے کہا کے لیے
پڑھیں:
پاکستان جوہری طاقت ہے، خودمختاری پر حملہ ہوا تو ہر قیمت پر دفاع کریں گے، چاہے کوئی بھی ملک ہو، اسحاق ڈار
نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ پاکستان جوہری طاقت ہے، خودمختاری پر حملہ ہوا تو ہر قیمت پر دفاع کریں گے، چاہے کوئی بھی ملک ہو۔
قطری دارالحکومت دوحا میں عرب اسلامی ہنگامی سربراہ کانفرنس کے موقع پر عرب ٹی وی الجزیرہ کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں اسحاق ڈار نے قطر پر حالیہ اسرائیلی حملے کو بین الاقوامی قوانین، اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور مسلم دنیا کی خودمختاری کے خلاف سنگین اقدام قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر مسلم دنیا نے صرف بیانات پر اکتفا کیا تو 2 ارب مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والے ممالک اپنی عوام کی نظروں میں ناکام ٹھہریں گے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ اسرائیل ایک بے قابو ریاست بن چکی ہے جو ایک کے بعد دوسرے مسلم ملک کی خودمختاری کو چیلنج کر رہی ہے۔ آپ نے لبنان، شام، ایران اور اب قطر پر حملہ دیکھا۔ یہ روش ناقابلِ قبول ہے۔ انھوں نے واضح کیا کہ قطر اس حملے کے وقت امریکی اور مصری ثالثی کے ساتھ امن مذاکرات میں مصروف تھا اور اسی عمل کو سبوتاژ کرنے کے لیے یہ حملہ کیا گیا۔
اسحاق ڈار نے 57 رکنی اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف قراردادوں اور بیانات کا وقت نہیں ہے، اب ایک واضح لائحۂ عمل درکار ہے کہ اگر اسرائیل اپنی جارحیت نہ روکے تو کیا اقدامات کیے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے فوری طور پر صومالیہ اور الجزائر کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں خصوصی اجلاس طلب کروایا اور جنیوا میں انسانی حقوق کونسل کو بھی متحرک کیا ہے۔
انٹرویو میں اسحاق ڈار نے کہا کہ فوجی اقدام آخری راستہ ہوتا ہے جب کہ پاکستان کی ترجیح ہمیشہ امن، بات چیت اور سفارتکاری رہی ہے، تاہم اگر بات چیت ناکام ہو جائے اور جارحیت رکنے کا نام نہ لے تو پھر مؤثر عملی اقدامات ضروری ہوں گے ، جن میں اقتصادی پابندیاں، قانونی چارہ جوئی، یا علاقائی سیکورٹی فورس کی تشکیل بھی شامل ہو سکتی ہے۔
پاکستان کی جوہری طاقت کے تناظر میں سوال پر اسحاق ڈار نے کہا کہ ہماری جوہری طاقت محض دفاعی صلاحیت ہے، کبھی استعمال نہیں کی اور نہ ہی ارادہ رکھتے ہیں، لیکن اگر ہماری خودمختاری پر حملہ ہوا، تو ہم ہر قیمت پر دفاع کریں گے، چاہے وہ کوئی بھی ملک ہو۔
اسرائیل کی طرف سے قطر پر حملے کو بن لادن کے خلاف امریکی کارروائی سے تشبیہ دینے پر اسحاق ڈار نے اسے ایک توجہ ہٹانے کی ناکام کوشش قرار دیتے ہوئے کہا کہ دنیا جانتی ہے کہ وہ آپریشن کیا تھا۔ پاکستان خود دہشتگردی کا سب سے بڑا شکار اور سب سے بڑا فریق رہا ہے۔
بھارت سے متعلق گفتگو میں اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ کشمیر ایک تسلیم شدہ تنازع ہے جس پر اقوامِ متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں۔ بھارت کا آرٹیکل 370 کا خاتمہ اور جموں و کشمیر کو بھارت میں ضم کرنا جیسے متنازع اقدامات بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔ انڈس واٹر ٹریٹی سے انخلا کا کوئی اختیار بھارت کو حاصل نہیں ۔ اگر بھارت نے پانی کو ہتھیار بنایا تو یہ اعلانِ جنگ تصور کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اس معاملے کو قومی سلامتی کا مسئلہ سمجھتا ہے اور کوئی سمجھوتا نہیں کرے گا۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ 7 تا 10 مئی کے درمیان پاک بھارت جھڑپوں میں پاکستان نے واضح دفاعی برتری دکھائی اور بھارت کا خطے میں سکیورٹی نیٹ کا دعویٰ دفن ہو گیا۔
افغانستان کے ساتھ تعلقات پر گفتگو کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے بتایا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں بہتری آئی ہے۔ تجارت، معاہدوں اور ریلوے منصوبوں میں پیش رفت ہوئی ہے، لیکن افغانستان میں ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور مجید بریگیڈ جیسے عناصر کی موجودگی ناقابلِ قبول ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ یا تو ان دہشتگردوں کو پاکستان کے حوالے کیا جائے یا افغانستان سے نکالا جائے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ فلسطین اور کشمیر جیسے تنازعات کی عالمی قراردادوں پر عمل نہیں ہو رہا، اگر اقوام متحدہ کے فیصلے محض کاغذی بن کر رہ جائیں تو پھر عالمی ادارے کی ساکھ کہاں بچتی ہے؟ انہوں نے زور دیا کہ سلامتی کونسل میں اصلاحات اور ایسے ممالک کے خلاف سخت اقدامات ضروری ہیں جو اس کے فیصلے نظرانداز کرتے ہیں۔
انٹرویو کے اختتام پر وزیر خارجہ نے زور دیا کہ اس وقت سب سے اہم اور فوری اقدام غیر مشروط جنگ بندی اور غزہ میں انسانی امداد کی آزادانہ فراہمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ہر لمحہ قیمتی ہے، ہر جان کی حفاظت اولین ترجیح ہونی چاہیے۔