بھارت عالمی سطح پر منشیات اسمگلنگ میں ملوث نکلا
اشاعت کی تاریخ: 30th, March 2025 GMT
بھارت بین الاقوامی سطح پر وسطی افریقہ کو بھی غیر قانونی منشیات فراہم کرتا ہے
بھارت میکسیکو کے منشیات کارٹلز کو غیرقانونی فینٹینائل فراہم کررہا ہے ،انکشاف
امریکی انٹیلی جنس ایجنسی نے انکشاف کیا ہے کہ بھارت عالمی سطح پر منشیات فروشی میں ملوث ہے ۔میڈیارپورٹس کے مطابق امریکا کی نیشنل انٹیلی جنس کی ڈائریکٹر تلسی گبارڈ نے امریکی ہاؤس انٹیلی جنس کمیٹی کے اجلاس میں بھارت کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ تلسی گبارڈ نے ہاؤس میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ بھارت غیر قانونی فینٹینائل کا سب سے بڑاسپلائر ہے ۔امریکی انٹیلی جنس ڈائریکٹر کے مطابق بھارت میکسیکو کے منشیات کارٹلز کو غیرقانونی فینٹینائل پیشگی کیمیکل فراہم کرنے والا سرکردہ ملک ہے ۔ حال ہی میں بھارتی ریاست گجرات سے تعلق رکھنے والے 3 افراد ستیش کمار، ہریش سوتاریا اور یکتا آشیش کمار کو غیر قانونی طور پر ممنوعہ کیمیکل فینٹینائل کی برآمد میں ملوث پایا گیا۔بھارت بین الاقوامی سطح پر وسطی افریقہ کو بھی غیر قانونی منشیات فراہم کرتا ہے ۔ ناییجیریا میں 40 لاکھ سے زاید افراد بھارت سے اسمگل شدہ افیون استعمال کر رہے ہیں۔ بھارت میں بننے والی منشیات دیگر ممالک میں کروڑوں کا منافع کما کر ہزاروں زندگیاں برباد کر رہی ہیں۔ ان واقعات کے پیش نظربھارت اس وقت دنیا میں منشیات کی اسمگلنگ کے لحاظ سے سرفہرست ہے۔
.ذریعہ: Juraat
پڑھیں:
غزہ پر حملے کی قانونی حیثیت کیا ہے، اسرائیلی فوج کے وکلا سر پکڑ کے بیٹھ گئے
عالمی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی انٹیلی جنس نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیلی فوج کے وکلا کو اس بات پر بڑھتی ہوئی تشویش تھی کہ غزہ میں اسرائیل کی کارروائیاں ممکنہ طور پر جنگی جرائم کے زمرے میں آ سکتی ہیں۔
یہ معلومات جنگ کے پہلے سال کے دوران جمع کی گئیں اور اس کی تصدیق 5 سابق امریکی حکام نے کی۔
7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے میں تقریباً 1,200 افراد ہلاک ہوئے، جس کے بعد اسرائیل نے غزہ میں وسیع فوجی کارروائیاں شروع کیں۔ غزہ کے صحت حکام کے مطابق ان جوابی حملوں اور زمینی آپریشنز میں اب تک 68,000 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے فلسطینی قیدی پر تشدد کی ویڈیو لیک کرنے کے الزام میں اعلیٰ اسرائیلی فوجی افسر گرفتار
اقوامِ متحدہ کی ایک تحقیقاتی کمیشن نے اسرائیل پر نسل کشی جیسے اقدامات کا الزام عائد کیا ہے، اور اسرائیل کے خلاف 2 بین الاقوامی مقدمات زیرِ سماعت ہیں۔ ایک بین الاقوامی عدالتِ انصاف (ICJ) میں اور دوسرا بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) میں۔
رپورٹ کے مطابق، اسرائیلی فوج کے اندرونی قانونی ماہرین نے اپنی حکمتِ عملی کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھایا جو اسرائیلی حکومت کے سرکاری مؤقف کے بالکل برعکس تھا، جو مسلسل اپنی کارروائیوں کا دفاع کر رہی ہے۔
سابق امریکی عہدیداران کے مطابق، دسمبر 2024 میں امریکی کانگریس کے بریفنگ سے قبل امریکی انٹیلی جنس نے جو مواد اکٹھا کیا، وہ جنگ کے دوران اعلیٰ امریکی پالیسی سازوں کے لیے’سب سے حیران کن ‘ رپورٹس میں شمار ہوا۔
رائٹرز کے مطابق، ’تشویش تھی کہ اسرائیل شہریوں اور انسانی امدادی کارکنوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنا رہا ہے‘، تاہم رپورٹ میں مخصوص واقعات کی نشاندہی نہیں کی گئی۔
امریکی حکام اس بات سے بھی فکرمند تھے کہ بڑھتی ہوئی شہری ہلاکتیں بین الاقوامی قوانین کے تحت قابلِ قبول نقصان کی حد سے تجاوز کر رہی ہیں۔
اگرچہ امریکا نے عوامی سطح پر اسرائیل کا دفاع جاری رکھا، لیکن مئی 2024 میں بائیڈن انتظامیہ کی ایک رپورٹ میں اعتراف کیا گیا کہ ’یہ معقول خدشات موجود ہیں‘ کہ اسرائیل نے بین الاقوامی انسانی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ اگر امریکی حکومت باضابطہ طور پر اسرائیل کو جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیتی، تو اسے اسلحے کی فراہمی اور انٹیلی جنس تعاون معطل کرنا پڑتا۔
یہ بھی پڑھیے: فلسطینی قیدیوں پر تشدد کی ویڈیو کیوں لیک کی؟ اسرائیل نے فوجی افسر کو مستعفی ہونے پر مجبور کردیا
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکا نے ICC کے خلاف دباؤ مہم شروع کی تھی۔ دی انٹرسپٹ کے مطابق، واشنگٹن نے اسرائیل کے مبینہ جنگی جرائم کی دستاویزات کو دبانے کی ایک وسیع مہم کی سرپرستی کی، جس کے نتیجے میں سینکڑوں متعلقہ ویڈیوز یوٹیوب سے ہٹا دی گئیں۔
گزشتہ ماہ اسرائیلی فوج کی اعلیٰ قانونی افسر میجر جنرل یفات ٹومر یروشلمی نے ایک ویڈیو لیک کرنے کا اعتراف کیا جس میں اسرائیلی فوجی ایک فلسطینی قیدی کے ساتھ بدسلوکی کرتے دکھائے گئے تھے۔ رپورٹ کے مطابق، اس ویڈیو کے منظرِ عام پر آنے کے بعد ان پر تحقیقات روکنے کا دباؤ بڑھا، جس کے باعث انہوں نے استعفیٰ دے دیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل غزہ فلسطین