آئی ایم ایف 30 محکموں کے ساتھ کارکردگی بہتر بنانے کیلئے مذاکرات کرے گا
اشاعت کی تاریخ: 5th, April 2025 GMT
ذرائع وزارت خزانہ کے مطابق آئی ایم ایف نے 2 ماہ میں پاکستان میں گورننس میں بہتری اور کرپشن کے خاتمے کیلئے دوسرا مشن بھیجا ہے۔ وزارت خزانہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ وفد گورننس، بدعنوانی کے تشخیصی جائزے کی تیاری کیلئے ابتدائی کام مکمل کرے گا۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان میں عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) مشن 30 محکموں کے ساتھ کارکردگی بہتر بنانے کیلئے مذاکرات کرے گا۔ ذرائع وزارت خزانہ کے مطابق آئی ایم ایف نے 2 ماہ میں پاکستان میں گورننس میں بہتری اور کرپشن کے خاتمے کیلئے دوسرا مشن بھیجا ہے۔ وزارت خزانہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ وفد گورننس، بدعنوانی کے تشخیصی جائزے کی تیاری کیلئے ابتدائی کام مکمل کرے گا، مشن کا مقصد 6 بنیادی ریاستی افعال میں گورننس، بدعنوانی کے خطرات کا ابتدائی جائزہ لینا ہے، مالیاتی شعبے کی نگرانی، مارکیٹ ضوابط، قانون کی حکمرانی اینٹی منی لانڈرنگ اقدامات شامل ہیں۔
ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف مشن تقریباً 30 محکموں کے ساتھ کارکردگی بہتر بنانے کیلئے مذاکرات کرے گا، وزارتِ خزانہ، سٹیٹ بینک، ایف بی آر، منصوبہ بندی کمیشن، نجکاری کمیشن، آڈیٹر جنرل، نیب، ایف آئی اے، اوگرا و دیگر حکام سے بھی مذاکرات ہوں گے۔ آئی ایم ایف کا وفد بینکنگ سیکٹر اور کنسٹرکشن کے شعبے میں مسابقت کا بھی جائزہ لے گا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: وزارت خزانہ کے آئی ایم ایف کرے گا
پڑھیں:
پاکستان کو جنگ نہیں بلکہ بات چیت کے ذریعے تعلقات بہتر بنانے چاہییں، پروفیسر محمد ابراہیم
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی: جماعتِ اسلامی پاکستان کے نائب امیر پروفیسر محمد ابراہیم نے کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام سے جماعت اسلامی کو خودبخود تقویت نہیں ملے گی، اگر جماعت اسلامی اپنے بیانیے کو طالبان حکومت کے ساتھ ہم آہنگ کرے تو اس سے فکری اور نظریاتی سطح پر ضرور فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔
جسارت کے اجتماعِ عام کے موقع پر شائع ہونے والے مجلے کے لیے اے اے سید کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں پروفیسر محمد ابراہیم نے کہا کہ طالبان کا پہلا دورِ حکومت 1996ء سے 2001ء اور دوسرا دور 2021ء سے اب تک جاری ہے، پہلے دور میں طالبان کی جماعتِ اسلامی کے ساتھ سخت مخالفت تھی لیکن اب ان کے رویّے میں نمایاں تبدیلی آئی ہے، پہلے وہ بہت تنگ نظر تھے مگر اب وہ افغانستان کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ امیرالمؤمنین ملا ہبت اللہ اور ان کے قریبی حلقے میں اب بھی ماضی کی کچھ سختیاں موجود ہیں، جس کی مثال انہوں نے انٹرنیٹ کی دو روزہ بندش کو قرار دیا، ستمبر کے آخر میں طالبان حکومت نے انٹرنیٹ اس بنیاد پر بند کیا کہ اس سے بے حیائی پھیل رہی ہےمگر دو دن بعد خود ہی فیصلہ واپس لے لیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اصلاح کی سمت بڑھ رہے ہیں۔
پروفیسر محمد ابراہیم نے کہا کہ موجودہ طالبان حکومت ایک بڑی تبدیلی کی علامت ہے، اور جماعت اسلامی کو اس سے فکری و نظریاتی سطح پر فائدہ پہنچ سکتا ہے، گزشتہ دہائی میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی نے گہرے منفی اثرات چھوڑے ہیں،
آج بھی دونوں طرف سے ایک دوسرے کے خلاف شدید پروپیگنڈا جاری ہے، اور ہمارے کچھ وفاقی وزراء اپنے بیانات سے حالات مزید خراب کر رہے ہیں ۔
انہوں نے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے بیانات کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی زبان کسی باشعور انسان کی نہیں لگتی، وزیرِ دفاع کا یہ کہنا کہ اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو جنگ ہوگی بے وقوفی کی انتہا ہے، خواجہ آصف ماضی میں یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ افغانستان ہمارا دشمن ہے اور محمود غزنوی کو لٹیرا قرار دے چکے ہیں جو تاریخ سے ناواقفیت کی علامت ہے۔
پروفیسر محمد ابراہیم نے مطالبہ کیا کہ حکومت وزیر دفاع کو فوری طور پر تبدیل کرے اور استنبول مذاکرات کے لیے کسی سمجھدار اور بردبار شخصیت کو مقرر کرے، پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے لیے لازم ہے کہ پشتون وزراء کو مذاکرات میں شامل کیا جائے جو افغانوں کی نفسیات اور روایات کو سمجھتے ہیں۔
انہوں نے وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے بیان پر بھی ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ کہنا کہ ہم ان پر تورا بورا قائم کر دیں گے انتہائی ناسمجھی ہے، تورا بورا امریکی ظلم کی علامت تھا، اور طالبان آج اسی کے بعد دوبارہ اقتدار میں ہیں۔ ایسی باتیں بہادری نہیں، بلکہ نادانی ہیں۔
پروفیسر محمد ابراہیم نے زور دیا کہ پاکستان کو جنگ نہیں بلکہ احترام، بات چیت اور باہمی اعتماد کے ذریعے افغانستان سے تعلقات بہتر بنانے ہوں گے کیونکہ یہی خطے کے امن و استحکام کی واحد ضمانت ہے۔