برطانیہ کو فوری طور پر 2 لاکھ غیر ملکی کارکنوں کی ضرورت
اشاعت کی تاریخ: 15th, April 2025 GMT
برطانیہ گرین ہنر مند پیشہ ور افراد کی شدید کمی سے دوچار ہے اور اس کو خصوصاً تعمیراتی اور عمارتی ماحولیات کے شعبوں میں ایسے 2 لاکھ پرفیشنلز کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وہ چند ممالک جہاں غیر ملکی ملازمین کی تنخواہیں زیادہ ہیں
واضح رہے کہ گرین ہنر مند پیشہ ور افراد وہ ہوتے ہے جو ماحولیاتی اثرات کو کم کرنے اور پائیداری کو فروغ دینے کے طریقوں سے کام کرنے کے لیے ضروری علم، مہارت اور قابلیت رکھتے ہوں۔
یونیورسٹی کالج آف اسٹیٹ مینجمنٹ (UCEM) کی ایک نئی رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں اس وقت سبز سے متعلق کرداروں میں یہ کمی نہ صرف سنہ 2050 تک خالص صفر اخراج کو حاصل کرنے کے لیے برطانیہ کے قانونی طور پر پابند عہد کو خطرے میں ڈالتی ہے بلکہ سبز مہارت کے حامل بین الاقوامی پیشہ ور افراد کے لیے ایک اہم موقع بھی پیش کرتی ہے۔
پائیداری کے پیشہ ور افراد کی بڑھتی ہوئی مانگ
برطانیہ فعال طور پر غیر ملکی پیشہ ور افراد جیسے کاربن آڈیٹرز، سسٹین ایبلٹی مینیجرز، ESG کنسلٹنٹس، اور ریٹروفٹنگ انجینیئرز کی تلاش کر رہا ہے تاکہ اس کی سبز منتقلی کو آگے بڑھانے میں مدد ملے۔
گرین اسکلز کیا ہیں؟سبز مہارتیں ماحولیاتی پائیداری کی حمایت کے لیے درکار علم اور قابلیت کا حوالہ دیتی ہیں۔ ان میں تعمیرات، توانائی کی کارکردگی، فضلہ میں کمی اور آب و ہوا کی حکمت عملی کے پائیدار طریقے شامل ہیں – یہ سب کم کاربن اور وسائل سے موثر مستقبل کی تعمیر کے لیے اہم ہیں۔
مزید پڑھیے: جرمنی میں 4 لاکھ ملازمتیں، ویزا کیسے اپلائی کریں؟
برطانیہ کا بنایا ہوا ماحول تقریباً 40 فیصد قومی کاربن کے اخراج کے لیے ذمہ دار ہے جو اسے ڈیکاربنائزیشن کی کوششوں کے مرکز میں رکھتا ہے۔
اپنے اہداف کو پورا کرنے کے لیے برطانیہ کو تمام شعبوں میں 4 لاکھ سے زیادہ پیشہ ور افراد کی خدمات حاصل کرنی ہوں گی جیسے کہ پائیدار تعمیر، کاربن آڈیٹنگ، ماحولیاتی ڈیزائن، توانائی کی کارکردگی اور فضلہ اور وسائل کا انتظام۔
سنہ 2032 تک صرف تعمیراتی شعبہ 937،000 سے زیادہ نئے رولز اوپن کرے گا جس میں تقریباً 250،000 کو گرین اسکلز کی ضرورت ہوگی۔
برطانیہ میں 15 ان ڈیمانڈ گرین اسکلزکاربن فوٹ پرنٹنگ اور آڈیٹنگ، صنعتوں میں کاربن کے اخراج کی پیمائش اور انتظام۔
ریٹروفٹنگ اور گرین کنسٹرکشن، عمارتوں میں توانائی کی کارکردگی کو بڑھانا۔
ڈیجیٹل ڈیزائن ٹولز، انرجی ماڈلنگ، BIM، اور پیرامیٹرک ڈیزائن میں مہارت۔
پائیداری خواندگی اور ESG تعمیل ESG اور SDGs جیسے فریم ورک کو سمجھنا۔
ویسٹ مینجمنٹ سسٹمز، کچرے کے حل کو کم کرنا اور اختراع کرنا۔
توانائی کی کارکردگی کی ٹیکنالوجیز، قابل تجدید ذرائع اور سمارٹ انرجی سسٹمز کا علم۔
نگرانی اور اثرات کا تجزیہ، ڈیٹا کا استعمال کرتے ہوئے پائیداری کے نتائج کا اندازہ لگانا۔
جدید تعمیراتی تکنیک، ماڈیولر ڈیزائن اور سرکلر اکانومی کے اصولوں کو لاگو کرنا۔
AI اور Data for Environmental Optimization وسائل کو مؤثر طریقے سے منظم کرنے کے لیے ڈیٹا سائنس کا استعمال۔
آب و ہوا کے بارے میں شعور رکھنے والی قیادت، پائیداری کی پہلی ذہنیت کے ساتھ سرکردہ ٹیمیں۔
قابل اطلاق سوچ اور مسئلہ حل کرنا، میراثی نظاموں کو گرین ماڈلز میں منتقل کرنا۔
گرین کمیونیکیشن اسٹریٹیجیز، موثر پائیدار پیغام رسانی کی فراہمی۔
ثقافتی تبدیلی کی سہولت فراہم کرنا، تنظیموں میں پائیدار رویے کی حوصلہ افزائی کرنا۔
مشترکہ احتسابی ماڈلنگ، سبز نتائج کے لیے اجتماعی ذمہ داری کی حوصلہ افزائی۔
پائیداری کے لیے تنقیدی سوچ، مجموعی اور اخلاقی ماحولیاتی حل تیار کرنا۔
یہ قابلیت متعدد پیشوں پر محیط ہے نہ کہ صرف انجیینئرنگ۔ مارکیٹنگ، HR، ڈیزائن، اور تجزیہ میں کردار بھی گرین اسکلز سے مستفید ہوتے ہیں۔
گرین اسکلز ہنر مند غیر ملکی کارکنوں کے لیے ویزا کے راستے
مزید پڑھیں: وہ یورپی ملک جہاں ملازمتیں بھی بیشمار اور ویزا لینا بھی آسان
ٹیلنٹ میں فرق بڑھنے کے ساتھ، برطانیہ غیر ملکی پیشہ ور افراد کے لیے پائیداری کی اسناد کے ساتھ امیگریشن کے کئی آپسنز پیش کرتا ہے جن میں ہنر مند ورکر ویزا، گلوبل ٹیلنٹ ویزا، ہیلتھ اینڈ کیئر ورکر ویزا، گریجویٹ ویزا، اسکیل اپ ویزا، اسٹارٹ اپ اور انوویٹر بانی ویزا شامل ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
برطانیہ برطانیہ میں اسامیاں برطانیہ میں ملازمتیں.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: برطانیہ برطانیہ میں اسامیاں برطانیہ میں ملازمتیں توانائی کی کارکردگی پیشہ ور افراد برطانیہ میں کرنے کے لیے گرین اسکلز غیر ملکی
پڑھیں:
ڈیجیٹل پردے کی اہمیت اور ضرورت
جدید دور میں ٹیکنالوجی نے انسانی زندگی کے ہر پہلو کو تبدیل کر دیا ہے۔ اسلامی نکتہ نظر سے جس طرح جسمانی طور پر لباس اور حجاب کا خیال رکھنا ضروری ہے ، اسی طرح ڈیجیٹل دنیا میں بھی پردے کے اصولوں کی پاسداری ضروری ہے۔ Digital Hijab یا Virtual Hijab اسلامی سماج کا ایک ایسا اہم اشو بن چکا ہے، جس پر غور و فکر کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان سائنسی ترقی کی معراج پر پہنچ چکا ہے۔ معلومات کی دنیا سمٹ کر ایک چھوٹی سی اسکرین میں قید ہو گئی ہے۔ موبائل فون، انٹرنیٹ، سوشل میڈیا، ویڈیو چیٹ، لائیو اسٹریم اور دیگر جدید ذرائع نے فاصلے مٹا دیے ہیں، مگر ان سہولیات کے ساتھ ساتھ ایک بہت بڑا اخلاقی و روحانی بحران بھی جنم لے چکا ہے اور وہ ہے ڈیجیٹل بے حیائی اور فحاشی کا طوفان بدتمیزی۔ ہم انسانی زندگی کے ایک ایسی تبدیلی کے دور سے گزر رہے ہیں جس کی رفتار بہت تیز ہے، مگر آواز بہت مدھم۔ یہ وہ انقلاب ہے جس نے انسان کے طرزِ زندگی، سوچنے کے انداز، حتیٰ کہ اس کی شرم و حیا کے پیمانے تک بدل ڈالے ہیں۔ پہلے بے حیائی کی طرف جانے کے لیے قدم اٹھانا پڑتا تھا، اب صرف کلک کرنا کافی ہے۔ پہلے گناہ چھپ کر کیا جاتا تھا، اب وہی گناہ فخر کے ساتھ شیئر کیے جاتے ہیں اور وہ بھی لائکس اور کمنٹس کی طلب کے ساتھ۔ سوشل میڈیا پر لڑکے لڑکیوں کی پروفائلز، فیشن شوٹ جیسی تصاویر، نازیبا ویڈیوز، غیر اخلاقی میمز، غیر محرموں سے دوستانہ گفتگو، لائیو سیشنز اور چیٹ رومز، یہ سب کچھ اب “نارمل” سمجھا جاتا ہے۔ اسے تفریح، آزادیٔ اظہار یا سوشل نیٹ ورکنگ کا نام دیا جاتا ہے۔ مگر درحقیقت یہ روحانی زوال اور اخلاقی انحطاط کا ایک ایسا گڑھا ہے جس میں پوری نسلِ نو دھکیلی جا رہی ہے۔ بحیثیت مسلمان قرآن و سنت کی روشنی میں ہم غور کریں تو اللہ تعالیٰ کا واضح حکم ہے:(سورۃ النور: 30)
مومن مردوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔ یہ حکم صرف بازاروں، دفاتر یا میل جول کی مجالس تک محدود نہیں، بلکہ جدید دنیا کے ہر پلیٹ فارم، ہر اسکرین اور ہر کلک پر لاگو ہوتا ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس وقت بھی ہمیں دیکھ رہے ہوتے ہیں جب ہم تنہائی میں موبائل یا کمپیوٹر کے سامنے ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حیا ایمان کا ایک شعبہ ہے۔ (صحیح بخاری) جب ایمان کا یہ شعبہ آنکھوں، الفاظ، خیالات اور کلکس کے ذریعے پامال ہونے لگے تو سمجھ لیجیے کہ ایمان کی بنیادوں میں دراڑ پڑ چکی ہے۔ ڈیجیٹل پردے کا مفہوم یہ ہے کہ پردہ صرف جسم کو کپڑوں سے ڈھانپنے کا نام نہیں، بلکہ نگاہوں، خیالات، الفاظ اور تعلقات کی حدود کے خیال رکھنے کا نام بھی ہے۔”ڈیجیٹل پردہ” ایک جامع تصور ہے جس کے بنیادیعناصریہ ہیں:1. آنکھوں کا پردہ: ناپسندیدہ اور حرام تصاویر، ویڈیوز، اور پوسٹس سے بچنا۔ 2. زبان و الفاظ کا پردہ: چیٹ، کمنٹس اور پوسٹس میں ادب، وقار اور شرم و حیا کا لحاظ۔ 3. تعلقات کا پردہ: غیر ضروری دوستیاں، تعلقات، فالو،میسج کلچر سے اجتناب۔ 4. پروفائل کا پردہ: اپنی پروفائل تصویر، پوسٹس، ویڈیوز اور بایو میں اسلامی اخلاق کا عکس ہونا۔ 5. بچوں کی نگرانی، انہیں چھوٹی عمر میں موبائل دینا، سوشل میڈیا اکاؤنٹس بنانے دینا، اور مکمل آزادی دینا دراصل ان کے اخلاق و کردار کا قتل ہے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ ایک طرف لوگ اسلامی پوسٹس، قرآنی آیات اور دینی اقوال شیئر کرتے ہیں، اور دوسری طرف وہی ہاتھ نیم عریاں تصاویر کو لائک کرتے ہیں، بے حیائی بھرے کلپس پر قہقہے لگاتے ہیں، اور غیروں کی زندگیوں کوفالو کرتے ہیں۔ یہ منافقت ہماری اجتماعی بربادی کا سبب بن رہی ہے۔
مسلمانوں کے اختیار و اقتدار کا کردار بھی افسوسناک حد تک مجرمانہ ہو چکا ہے۔ نیم برہنہ فلمیں اور ڈرامے فحاشی و عریانی کو معمول کا حصہ بنا چکے ہیں۔ اشتہارات میں بے حیائی کا عنصر اس قدر شامل ہو چکا ہے کہ اب شرم بھی شرما جائے۔ روز بروز ماحول اس قدر پراگندہ ہوتا جا رہا ہے کہ جس میں غیرت کا جنازہ نکل رہا ہے اور بات قتل و غارت گری تک آ پہنچی ہے۔۔اب وقت آ چکا ہے کہ ہم انفرادی، اجتماعی اور ریاستی سطح پر اس عریانی اور فحاشی کے خلاف ایک جامع اور قابل عمل حکمت عملی تشکیل دیں۔ انفرادی سطح پر ہم خود حیا و غیرت کے ضابطے اپنائیں، اپنی آن لائن شناخت کو اسلامی اقدار کے تابع بنائیں۔ اپنے گھروں میں ڈیجیٹل استعمال پر حدود و قیود مقرر کریں۔ اسی طرح علما، والدین، اساتذہ اور دانشوروں پر لازم ہے کہ وہ مسلسل اس موضوع پر قومی شعور بیدار کریں۔ مساجد کے جمعہ خطبات میں اس فتنہ کو موضوع سخن بنایا جائے۔ ریاستی و قانونی سطح پر میڈیا کے لیے ضابطہ اخلاق جاری کیا جائے۔ سوشل میڈیا پر فحاشی پھیلانے والے مواد کی باضابطہ مانیٹرنگ کا اہتمام ہو۔ تعلیمی اداروں میں اخلاقیات اور “ڈیجیٹل حیا” کی تعلیم کا بندوبست کیا جائے۔ اگر ہم کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے خاموش رہے کہ طوفان خود ہی تھم جائےگا، یہی کرتے کرتے اگر ہم نے اپنی نسلوں کو اس بے حیائی کے سپرد کر دیا، تو وہ دن دور نہیں جب ہماری نوجوان نسل صرف ٹرینڈنگ ویڈیوز کی پرستار رہ جائے گی اور ایمان، شرم و حیا اور غیرت صرف کتابوں میں باقی رہ جائے گی۔ مورخ ہماری بے حسی کو یوں رقم کرے گا کہ “یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے قرآن مجید، آخرت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے کے باوجود لائکس، ویوز اور شہرت کے چند لمحوں کی خاطر اپنی غیرت، حیا اور ایمان کا سودا کر دیا تھا، آج کے نوجوان انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے بغیر زندگی کا تصور نہیں کر سکتے، لیکن انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ڈیجیٹل زندگی بھی آخرت میں جواب دہی کا حصہ ہوگی۔ والدین اور اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کو ڈیجیٹل میڈیا کے بامقصد استعمال کے آداب سکھائیں اور انہیں بتائیں کہ جو کچھ آن لائن ڈالا جاتا ہے، وہ ہمیشہ کے لیے ریکارڈ ہو جاتا ہے۔ہر لائک، شیئر اور کمنٹ پر آخرت میں اللہ کے سامنے جواب دہ ہونا ہوگا۔غیر محرموں کے سامنے اپنی تصاویر یا ویڈیوز شیئر کرنا گویا اپنی عزت کو خطرے میں ڈالنا ہے۔ مرد و عورت کی آزادانہ بات چیت اور تصاویر کا تبادلہ فتنے کا باعث بن سکتا ہے۔ گھر کے اندرونی معاملات یا رشتوں کے جذبات کو سوشل میڈیا پر بیان کرنا شرعی اور اخلاقی دونوں لحاظ سے غلط ہے۔ بے مقصد چیٹنگ، ریئلز اور ویڈیوز میں وقت ضائع کرنا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اب تو اس کے بھیانک نتائج ہمارے سامنے آنے شروع ہو گئے ہیں۔ کبھی غیرت کے نام پر اور کبھی عشق و محبت کی آڑ میں کئی قتل ہوچکے۔ چند دن قبل ثنا یوسف نامی ایک بچی کا اسلام آباد میں افسوس ناک قتل ہوا۔ اس کی تفتیش اور قاتل تک پہنچنا اور اسے سزا دینا عدالتوں کا کام ہے۔ البتہ ہم کہیں گے کہ ثناء یوسف کا کنفرم قاتل “معاشرے کی بے راہ روی ہے اور مادر پدرآزادی ہے” یہ بھی یاد رہے کہ ڈیجیٹل پردہ کوئی نیا قانون نہیں، بلکہ اسلام کے قدیم اصولوں کا جدید اطلاق ہے۔ جس طرح بازار یا دفتر میں حجاب اور شرعی حدود کا خیال رکھنا ضروری ہے، اسی طرح ڈیجیٹل دنیا میں بھی حیا اور تقویٰ کو اپنانا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دین و دنیا کی بھلائی کی توفیق عطا فرمائے۔