Daily Ausaf:
2025-04-25@02:53:03 GMT

چند اصول ارتقائے ذات کے

اشاعت کی تاریخ: 16th, April 2025 GMT

ہماری منزل مقصود یہ نہیں ہونی چایئے کہ ہم دوسروں سے برتر انسان بن جائیں، بلکہ ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہم خود کو پہلے سے بہتر انسان بنا لیں۔
جب لوگ اپنی صلاحیتوں کو نکھارنے یا اپنی ذات کی تعمیر کا بلاوجہ دعویٰ کرتے ہیں، تو دراصل وہ خود کو بہتر بنانے والی توانائی کو بلاضرورت خرچ کرتے ہیں۔ اس سے ایک تو کچھ نیا سیکھنے اور خود کو بہتر بنانے کا جذبہ کم پڑ جاتا ہے یا پھر اس جانب ان کی ترقی کا سفر رک جاتا ہے۔ دوسرا ان کے اندر تفاخر اور غرور پیدا ہونے کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے جو تعمیر ذات کے لئے زہر قاتل کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ جیسے نیکی پر غرور نیکی کو تباہ کر دیتا ہے اسی طرح سیکھنے کا دکھاوا سیکھنے کے عمل کو برباد کر دیتا ہے۔ اس لئے کوئی بھی آدمی خاموشی اور عاجزی کو اختیار کیے بغیر پہلے سے زیادہ اچھا انسان نہیں بن سکتا یے۔ ہماری اصلاح کا تعلق ہمارے اندر کی ذات سے ہوتا ہے۔ لہٰذا ڈھنڈورا پیٹ کر ہم کچھ نیا سیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی خود کو سنوارنے کا سفر بخوبی طے کر سکتے ہیں۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کو صرف اپنے شخصی ارتقا پر توجہ دینی چایئے۔ دوسروں کے لئے درس و تدریس کا کام کرنا اور ان کی اصلاح کی ذمہ داری اٹھانے کے کام دو الگ الگ سمتیں ہیں۔ اگر ہم کچھ سیکھ رہے ہیں اور ہمارے اندر بہتری آ رہی ہے تو ہمارے اعمال یہ ثابت کرنے اور انہیں تحریک دینے کے لئے کافی ہیں کہ اس سے دوسرے انسانوں کے اندر بھی بہتری آنا شروع ہو جاتی ہے۔ ویسے بھی لوگ جتنا آپ کے تعمیری اور مثبت اعمال اور سیرت و کردار سے متاثر ہوتے ہیں وہ اتنا آپ کی تبلیغ سے نہیں ہو سکتے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ علم و آگاہی، تعلیم و تربیت اور تبلیغ وغیرہ کے سب سے زیادہ حق دار ہم خود ہوتے ہیں۔ اگر ہم کسی کو وعظ کرتے ہیں اور اس کا ہم خود عملی نمونہ پیش نہیں کرتے ہیں تو اس کے دوسروں پر کوئی مثبت اور تعمیری اثرات مرتب نہیں ہوتے ہیں۔ بلکہ ایسی کسی صورت میں دوسروں پر الٹا اس کے منفی اثرات پڑتے ہیں۔ اس میں نہ صرف ہمارا وقت ضائع ہوتا ہے بلکہ اس سے دوسروں کے ذہن میں ہمارا شخصی تصور بھی کمزور پڑ جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ سمندر جتنا گہرا ہوتا ہے وہ اتنا ہی زیادہ خاموش ہوتا ہے حالانکہ اس کے نیچے ایک ہنگامہ خیز قسم کی دنیا آباد ہوتی ہے۔ خود کو سنوارنے کا بہترین عملی معیار اور طریقہ بھی یہی ہے کہ کسی سے اپنا مقابلہ یا موازنہ ہرگز نہ کیا جائے اور دھیرے دھیرے مگر خاموشی کے ساتھ اپنی ہی شخصی تعمیر پر توجہ مرکوز رکھی جائے۔ ہر ایک انسان قدرت کی ایک انمول اور بے مثل تخلیق ہے۔ کسی کا کسی سے موازنہ یا مقابلہ کرنا ان کی ذات کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ اگر آپ کو دوسروں کی تعمیر کرنا بھی مقصود ہو اور جو کسی حد تک ہونی بھی چایئے تو اس کا احسن طریقہ یہ ہے کہ ان کے سامنے اپنی سیرت و کردار کا اعلیٰ عملی نمونہ پیش کیا جائے۔ جتنے ہمارے اعمال دوسروں کو متاثر کرتے ہیں اتنی ہماری نصیحتیں نہیں کر سکتی ہیں۔ ہمیں، ’’اوروں کو نصیحت اور خود میاں فصیحت‘‘ قسم کا انسان نہیں بننا چایئے۔ اس قسم کا رویہ انسان کے اندر سطحیت اور کھوکھلا پن پیدا کرتا ہے۔ اگر آپ کے اردگرد کے دوسرے لوگ آپ کی شخصیت سے متاثر ہو کر کچھ سیکھ رہے ہیں تو یہ اچھی بات ہے مگر اس پر ہمیں زیادہ فخر کرنے اور غرور میں مبتلا ہونے کی بجائے شکر بجا لانا چاہیے، کیونکہ احساس تشکر انسانی ذات کی بہت بڑی طاقت ہے جو انسان کے اندر عاجزی اور انکساری پیدا کرتی ہے۔انسان اس قابل نہیں ہے کہ وہ دوسروں کے سیرت و کردار کو سنوارے یا اس پر کوئی دبائو ڈالنے کی کوشش کرے۔ ’’دین میں جبر نہیں ہے۔‘‘ ہر انسان اسی صورت میں بہتر طور پر سیکھ سکتا ہے جب اسے سوچنے کی آزادی ہو اور وہ اپنے حصے کا کام کسی دبائو کے بغیر خود کرے۔ ہم جن کو سیکھانے یا سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں، ممکن ہے کہ خدا کی نظر میں اپنی کچھ خوبیوں کی وجہ سے وہ ہم سے بہتر انسان ہوں۔ دوسروں کی ذات سے ہم اگر بہتر بھی ہوں تو جو ان کے پاس ہوتا ہے وہ ہمارے پاس نہیں ہوتا ہے۔ اس لئے کوشش یہ کرنی چاہیے کہ، ’’کچھ لو اور کچھ دو‘‘ کی بنیاد پر ایک دوسرے سے فطری انداز میں سیکھنے کی کی جدوجہد کرنی چاہیے۔
ہمارا عقیدہ جیسا بھی ہو لوگ ہمارے کردار سے متاثر ہوتے ہیں، اور ہمارا کردار وہی ہوتا ہے جو کچھ ہم سوچتے ہیں۔ ایک حدیث شریف ﷺ کا مفہوم ہے کہ مومن کا آنے والا کل اس کے ہر گزرے ہوئے کل سے بہتر ہوتا ہے یعنی ہر انسان کو اپنی شخصیت سازی کے لئے روزانہ کی بنیاد پر کچھ نئی چیزیں سیکھنا پڑتی ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ بہتر انسان بننے کے لئے ہم روزانہ کچھ نیا سیکھنے پر خود کو مجبور کریں۔
بے شک انسان خطا کا پتلا ہے اور غلطیاں کرنا اس کی فطرت میں ہے مگر جو انسان غلطیوں سے سیکھنے پر مائل ہو جاتا ہے وہ اپنی غلطیوں کو ہی اپنی بہتری کے لئے استعمال کرتا ہے اور خود کو ہر آئے دن مضبوط سے مضبوط تر کر لیتا ہے۔ سیکھنے پر مائل آدمی کم بولتا ہے مگر سنتا زیادہ ہے، اور وہ مشاہدہ زیادہ کرتا ہے مگر ردعمل کم ظاہر کرتا ہے۔ ایک بار کوئی خود کو سیکھنے کے لئے تیار کرلے تو وہ علم اور تجربے کے قطرے قطرے کو بھی جذب کرے تو وہ سمندر بننے کے راستے پر چڑھ جاتا ہے۔ زندگی میں زیادہ تجربے، دانش اور علم و بصیرت کا حصول ہی انسان کو بہتر سے بہترین بناتا ہے۔ جس طرح امیر بننے کے لئے پہلے ذہنی طور پر امیر بننا پڑتا ہے اسی طرح وافر مقدار میں علم کا حصول تبھی ممکن ہوتا ہے جب ہم سیکھنے اور بہترین انسان بننے کے لئے خود کو ذہنی طور پر تیار کر لیتے ہیں۔ہم اگر اپنی ذہنی صحت کو ترجیح بنا لیں تو ہمارے سیکھنے، تجربہ حاصل کرنے اور اپنی شخصی تعمیر کرنے کے امکانات مزید بڑھ جاتے ہیں۔ ہمارے دماغ میں اعلیٰ، مثبت اور تعمیری خیالات اسی صورت میں آتے ہیں جب ہم دماغ سے منفی اور غیر تعمیری خیالات کو نکال کر اس میں خالی جگہ پیدا کرتے ہیں۔ ہم اگر اپنے صحن ذہن میں پھولوں بھرا خوشبودار باغ اگائیں گے تو ہمیں خوبصورت تتلیوں کو پکڑنے کے لئے باہر نہیں جانا پڑے گا، وہ رس چوسنے کیلئے خودبخود ہمارے پاس آئیں گی۔
شخصی تعمیر کے لئے اساتذہ، کتب اور مطالعہ و ماحول ضرور اثرانداز ہوتے ہیں مگر روزانہ کی بنیاد پر کچھ وقت کے لئے تنہائی میں رہنا اور غوروفکر کرنے کو معمول بنا لیا جائے تو سیکھنے اور خود کو بہتر بنانے کے عمل کو مہمیز لگ جاتی یے۔ لھذا تنہا رہنے سے خوفزدہ مت ہوں کیونکہ بہتر انسان بننے کے مقاصد کا حصول ذاتی طور پر ہی ممکن ہو سکتا ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: بہتر انسان ہوتے ہیں کرتے ہیں کرتا ہے ہوتا ہے بننے کے اور خود نہیں ہو کو بہتر سے بہتر کے اندر جاتا ہے خود کو ہے مگر کے لئے

پڑھیں:

غزہ کے بچوں کے نام

رات کے اندھیرے میں جب دنیا کے خوشحال اور پرامن شہروں میں نیند اپنی پُرکیف آغوش میں لوگوں کو سلاتی ہے تب غزہ میں مائیں اپنے بچوں کو ملبے تلے ڈھونڈ رہی ہوتی ہیں۔ نہ بجلی ہے نہ پانی نہ دوا نہ دلاسہ۔ ہر طرف خاک اُڑتی ہے اس مٹی میں بے گناہ فلسطینی دفن ہیں۔

 وہ بچی جو اسکول سے واپس آرہی تھی، آسمان سے برستی آگ کی ایک لکیر نے اس کا بستہ اس کی کاپی اس کا ننھا سا یونیفارم اور اس کا وجود ایک لمحے میں مٹا دیا۔ دنیا کی خاموشی نے اس معصوم کی موت کو محض ایک کولیٹرل ڈیمیج میں بدل دیا۔

غزہ اب کوئی جغرافیائی حقیقت نہیں۔ یہ اب ایک اجتماعی قبر ہے جہاں ہر دن نئی قبریں کھو دی جاتی ہیں مگرکوئی کتبہ نہیں لگتا۔ نہ نام، نہ تاریخ پیدائش، نہ تاریخِ وفات۔ بس ایک ہجوم ہے جو ماضی حال اور مستقبل کو اپنی آنکھوں کے سامنے دفن کرتا جا رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جنگیں حکومتیں لڑتی ہیں مگر مرتے عوام ہیں۔ غزہ میں تو حکومتیں بھی محصور ہوچکی ہیں اور عوام بھی۔ یہاں امن کا دروازہ کھلتا نظر نہیں آرہا اور لوگ بھرپور مزاحمت کر رہے ہیں۔ایک طرف بمبار طیارے ہیں اور دوسری طرف بچوں کی وہ تصویریں جوکبھی اسکول کے کارڈ پر لگی تھیں۔

یہ کون سا انصاف ہے کہ ایک پورا خطہ دنیا کی سب سے جدید ہتھیاروں سے لیس فوج کے نشانے پر ہو اور اس کی واحد طاقت اس کی مظلومیت ہو؟ یہ کون سا عالمی ضمیر ہے جو یوکرین کے لیے آنکھوں میں آنسو بھر لیتا ہے مگر فلسطین کے لیے اس کی زبان گُنگ اور قلم خشک ہوجاتا ہے؟

میں سوچتی ہوں اگر محمود درویش آج زندہ ہوتے توکیا لکھتے؟ کیا وہ پھر کہتے’’ ہم زندہ رہیں گے کیونکہ ہم مرنا نہیں چاہتے۔‘‘یا پھر خاموش ہو جاتے؟ جب مسلسل بمباری میں زندگی کی ہر صورت بکھر جائے تو شاعری بھی بے بس ہو جاتی ہے۔غزہ کے اسپتالوں میں زخمی بچوں کی تعداد دن بہ دن بڑھ رہی ہے۔ موت کا گہرا سایہ ہر وقت فلسطینیوں کے سر پہ منڈلاتا رہتا ہے۔ ایک بچہ جس کی دونوں ٹانگیں اُڑ چکی ہیں۔ اپنی ماں سے پوچھتا ہے’’ امی،کیا اب بھی میں اسکول جا سکوں گا؟‘‘ اور ماں اپنی چیخ اپنے سینے میں دفن کر لیتی ہے۔

اقوامِ متحدہ کی قراردادیں انسانی حقوق کے عالمی منشور انصاف کے دعوے دار بین الاقوامی ادارے سب غزہ میں ہونے والے ظلم کو روکنے سے قاصر ہیں۔ دنیا بھر میں لوگ غزہ میں ہونے والے مکروہ جرائم کے خلاف اپنی آواز بلند کررہے ہیں مگر اسرائیل اور امریکا کی حکومتوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہو رہا۔ مگر تاریخ اس ظلم و زیادتی کو نہ بھولے گی اور نہ معاف کرے گی۔

میں نے ایک بوڑھی فلسطینی عورت کی تصویر دیکھی جو اپنی بیٹی کی لاش پر بیٹھ کر کہہ رہی تھی ’’ یہ میری آخری امید تھی اب خدا ہی باقی ہے۔‘‘ اُس عورت کی آنکھوں میں وہ دکھ تھا جسے لفظوں میں نہیں سمویا جا سکتا۔ یہ دکھ کسی ایک ماں کا نہیں پورے مشرقِ وسطیٰ کا نوحہ ہے جو روز نئی لاشوں پر ماتم کرتا ہے۔

ظلم جہاں بھی ہو انسان کے اندرکی انسانیت اگر زندہ ہو تو خاموش نہیں رہ سکتا۔ تو پھر یہ عالمِ اسلام کیوں خاموش ہے؟ تمام مسلم ممالک فلسطینیوں کے لیے کیا کررہے ہیں؟ اس خاموشی کا حساب ایک نہ ایک دن دینا ہوگا۔ یہ وقت ہے کہ تمام ممالک ایک ہوکر فلسطینیوں کی آواز بنیں اور ان کا ساتھ دیں۔ کیسے ان بچوں سے منہ موڑا جاسکتا ہے جو اسرائیل کی درندگی کا شکار ہو رہی ہیں۔

کیا ہم صرف اس وقت جاگتے ہیں جب مظلوم ہماری زبان بولے ہمارا لباس پہنے یا ہمارے مفادات سے جُڑا ہو؟ اگر ظلم کو صرف قوم نسل یا مذہب کے ترازو میں تولا جائے تو انسانیت کہاں جائے گی۔میری آنکھوں کے سامنے غزہ کا ایک اور منظر آتا ہے ایک لڑکی جو اپنی چھوٹی بہن کو گود میں لیے کھڑی ہے، اس کے سر سے خون بہہ رہا ہے مگر وہ رو نہیں رہی۔ وہ بس خلا میں دیکھ رہی ہے جیسے سوال کر رہی ہو’’ کیا میرا قصور صرف یہ ہے کہ میں فلسطینی ہوں؟‘‘یہ سوال صرف اسرائیل سے نہیں ہم سب سے ہے۔جو لوگ غزہ کے ظلم پر خاموش ہیں وہ درحقیقت اس بچی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کے قابل نہیں۔کیونکہ وہاں صرف لہو نہیں ایک پوری نسل کی شکستہ امیدیں جھلک رہی ہیں۔

پاپائے روم فرینسس، نے کہا’’ یہ جنگ نہیں یہ نسل کشی ہے۔‘‘ مگر کیا یہ آواز عالمی عدالتوں کے کانوں تک پہنچی؟ یا پھر وہ عدالتیں صرف ان کے لیے کھلتی ہیں جو سفید فام ہوں یا جن کے پاس نیٹوکی چھتری ہو؟غزہ کی بربادی صرف اسرائیلی اور امریکی ریاستوں کی جارحیت کا شکار نہیں بلکہ وہ حکومتیں جو اس ظلم پر خاموش ہیں وہ سب اس گناہ میں شریک ہیں۔ جہاں حکومتیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں، وہیں دنیا بھر میں عام آدمی سڑکوں پہ فلسطین کے لیے اپنی آواز اٹھا رہا ہے۔

میں چاہتی ہوں کہ اس تحریرکے آخر میں کوئی امید کی بات لکھوں مگر جھوٹ نہیں لکھ سکتی۔ غزہ کے بچوں کی لاشوں پر امن کی کوئی داستان نہیں لکھی جا سکتی۔ ہاں اگرکچھ باقی ہے تو یہ ایک سوال جو ہر باشعور انسان کے دل میں جاگنا چاہیے۔ ’’ اگر ہم نے آج غزہ کے لیے آواز نہ اٹھائی تو کل جب ہمارے دروازے پر قیامت آئے گی تو کون ہمارے لیے بولے گا؟‘‘

متعلقہ مضامین

  • چین، شینزو-20 انسان بردار خلائی جہاز کی کامیاب لانچنگ
  • دعا کی طاقت… مذہبی، روحانی اور سائنسی نقطہ نظر
  • وہ ڈاکٹر اور یہ ڈاکٹر
  • کوچۂ سخن
  • پاکستانی خلابازوں کے انتخاب کا عمل جاری ہے، چائنہ انسان بردار خلائی ادارہ
  • کوہ قاف میں چند روز
  • غزہ کے بچوں کے نام
  • تین سنہرے اصول
  • چین نے بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے  کے تصور پر عمل کیا ہے، وزارت خارجہ
  • ہانیہ عامر کو دیکھ کر محسوس ہوا کہ انسان کو ایسا ہونا چاہیے: کومل میر