اسلام آباد:
فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کیس میں وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے جواب الجواب میں دلائل مکمل ہوگئے، آئندہ سماعت پر اٹارنی جنرل دلائل دیں گے۔

جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے خواجہ حارث کو آج دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کی۔

دوران سماعت، جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ پِک اینڈ چوز کس طرح سے کیا گیا؟

وکیل خواجہ حارث نے دلائل میں کہا کہ پِک اینڈ چوز والی بات نہیں ہے، جو جرم ہو اس کے مطابق دیکھا جاتا ہے، کیس نوعیت کے مطابق انسداد دہشتگردی عدالت یا ملٹری کورٹ میں بھیجا جاتا ہے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ کیا سویلین اس کے زمرے میں آتے ہیں، یہاں پر بات صرف فورسز کے ممبر کو ڈسپلن میں رکھنے کے لیے ہے، جہاں پر کلئیر ہو کہ یہ صرف ممبرز کے لیے وہاں پر مزید کیا ہونا ہے۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ اگر کوئی سویلین آرمی انسٹالیشنز پر حملہ کرتا ہے تو اس کا اس سے کیا تعلق ہے۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ یہ صرف ممبرز کے لیے ہے اور اگر آرمی ایکٹ میں سویلین کو لانا ہوتا تو پھر اس میں الگ سے لکھا جاتا، 1973 کے آئین میں بہت سی چیزیں پہلے والے دو آئین کی چیزیں ویسے کی ویسی آگئیں۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس میں کہا کہ مارشل لا ادوار میں 1973 کے آئین میں بہت سی چیزیں شامل کی گئیں، آئینی ترمیم کر کے مارشل لا ادوار کی چیزیں تبدیل کرکے 1973 کے آئین کو اصل شکل میں واپس لایا گیا لیکن اس میں بھی آرمی ایکٹ کے حوالے سے چیزوں کو نہیں چھیڑا گیا۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ملٹری کورٹ کارروائی کو آئین توثیق کرتا ہے اور کورٹ مارشل آئینی طور پر تسلیم شدہ ہے، کورٹ مارشل زمانہ جنگ نہیں زمانہ امن میں بھی ہوتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ خواجہ صاحب ایسا نہ ہو نمازیں بخشوانے آئے اور روزے گلے پڑ جائیں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ سیکشن 2ون ڈی ون 1967 میں شامل کیا گیا، یہ سیکشن 1962 کے آئین کے نیچے بنایا گیا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 202 کے تحت دو طرح کی عدالتیں ہیں، ہائیکورٹ اور ماتحت عدلیہ۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ملٹری کا قانون آئین سے ٹکراتا ہے، ہمارا 1973 کا آئین بڑا مضبوط ہے۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ فیئر ٹرائل کورٹ مارشل کارروائی میں بھی ہوتا ہے، پریذائیڈنگ افسران قانونی صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں۔

جسٹس حسن رضوی نے کہا کہ ملٹری کے 12 سے 13 تنصیات پر حملے ہوئے، ملٹری تنصیبات پر حملے سیکیورٹی کی ناکام تھی اور اس وقت ملٹری افسران کے خلاف کاروائی کی گئی تھی، کیا 9 مئی پر کسی ادارے نے احتساب کیا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے بتایا کہ اس سوال کا جواب اٹارنی جنرل دیں گے۔

عدالت نے دلائل مکمل ہونے پر خواجہ حارث کا شکریہ ادا کیا۔ فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت 28 اپریل تک ملتوی کر دی گئی۔

Post Views: 2.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: نے ریمارکس دیے کہ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ کے آئین

پڑھیں:

سپریم کورٹ نے عمران خان جسمانی ریمانڈ دینے سے انکار کر دیا

سپریم کورٹ آف پاکستان نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کے لیے دائر پنجاب حکومت کی اپیلیں نمٹا دیں۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ پنجاب حکومت چاہے تو ٹرائل کورٹ سے رجوع کر سکتی ہے۔ بانی پی ٹی آئی کے وکلا درخواست دائر ہونے پر مخالفت کرنے کا حق رکھتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:عمران خان کے شیر افضل مروت سے متعلق سخت ریمارکس، وکلا سے ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آگئی

سپریم کورٹ کے جسٹس ہاشم کاکڑ نے قرار دیا کہ ملزم کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا اب تو جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

اس موقع پر پراسیکیوٹر جنرل پنجاب کا مؤقف تھا کہ ملزم کے فوٹو گرامیٹک، پولی گرافک، وائس میچنگ ٹیسٹ کرانے ہیں، جس پر جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ درخواست میں استدعا ٹیسٹ کرانے کی نہیں جسمانی ریمانڈ کی تھی۔

جسٹس صلاح الدین پنور نے کیس سے متعلق ریمارکس دیے کہ کسی قتل اور زنا کے مقدمہ میں تو ایسے ٹیسٹ کبھی نہیں کرائے گئے، توقع ہے عام آدمی کے مقدمات میں بھی حکومت ایسے ہی ایفیشنسی دکھائے گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

پراسیکیوٹر جنرل پنجاب جسٹس صلاح الدین پنور جسٹس ہاشم کاکڑ جسمانی ریمانڈ سپریم کورٹ عمران خان

متعلقہ مضامین

  • عمران کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا، جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا: سپریم کورٹ
  • سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایسٹر کی تقریب، مسیحی برادری کی خدمات کا اعتراف
  • عمران خان کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا، اب تو جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، سپریم کورٹ
  • عمران خان کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا، اب جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، سپریم کورٹ 
  • عمر سرفراز چیمہ وہی ہیں جو گورنر تھے؟ سپریم کورٹ کا استفسار
  • ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں،سپریم کورٹ
  • عمران خان کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا ، جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، سپریم کورٹ
  • یہ عمر سرفراز چیمہ  وہ ہے جو گورنر رہے ہیں؟سپریم کورٹ کا استفسار
  • عمران خان کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال گزر چکا جسمانی ریمانڈ کا سوال پیدا نہیں ہوتا: عدالت
  • سپریم کورٹ نے عمران خان جسمانی ریمانڈ دینے سے انکار کر دیا