Express News:
2025-11-05@00:43:00 GMT

جدید زراعت کے حصول علم کے لیے چین کا سفر

اشاعت کی تاریخ: 19th, April 2025 GMT

قربان جاؤں میں اپنے آقا نبی اکرم آخرالزماںؐ پر۔ حدیث مبارکہ کا مفہوم بیان کر رہا ہوں جو کچھ اس طرح سے ہے کہ’’ علم حاصل کرو، چاہے چین جانا پڑے۔‘‘ 300 جوان زراعت کی اعلیٰ ٹیکنالوجی کی تعلیم کے حصول کے لیے چین چلے گئے ہیں، مزید 700 جلد ہی رخت سفر باندھ لیں گے۔

ساڑھے چودہ سو سال بعد وہی پیغام ان نوجوانوں،کاشتکاروں کا شغف رکھنے والوں کے لیے زرعی ٹیکنالوجی، جدید مشینی زراعت، ڈیجیٹل فارمنگ کا علم اب روایتی علوم کے حصول کے علاوہ حدیث مبارکہ کی روشنی میں یہ نوجوان ایسے ملک میں جا پہنچے ہیں جو اب زرعی ترقی کی روشن مثال ہے اور آج ہمارے نوجوانوں اور زرعی کاشتکاروں کے لیے ایک نئی درسگاہ بن چکی ہے اور یہی نوجوان جب زرعی علوم و فنون و ٹیکنالوجی سے تربیت یافتہ ہو کر جدید زرعی علوم کی پیاس بجھا کر واپس آئیں گے تو زرعی انقلاب کے لیے متحرک ہو جائیں گے۔ اس طرح یہ جوان اپنے کھیتوں کے مستقبل کو ہی نہیں سنوارے گا بلکہ اپنی قوم کے مستقبل کو بھی زرخیز بنائے گا۔ زمین پر جب اناج کے ڈھیر لگیں گے، بھوک پیاس، افلاس، غربت مکاؤ کے لیے ان کی یہ کاوشیں رنگ لے آئیں گی۔ صرف اپنے ملک کے لیے نہیں بلکہ دنیا کو ایکسپورٹ کرنے کے لیے بھی زراعت کو جب ترقی دے لیں گے تو اسی کو فلاح انسانیت کا نام دیا جاتا ہے۔

لیکن یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں لاکھوں نوجوان کسی نہ کسی شکل میں زراعت سے وابستہ ہیں۔ زمین پر ہل چلانے کے عمل سے لے کر دودھ دوہنے کے عمل تک، ان کاموں کے کرنے کے لیے اگر نوجوان جدید ٹیکنالوجی، جدید سائنسی علوم، ڈرون ٹیکنالوجی، آرٹیفیشل انٹیلی جنس، ڈیجیٹل ایپلی کیشنز سے استفادہ کرکے پانی کے استعمال کو کم سے کم اور پیداوار زیادہ سے زیادہ حاصل کر لیتا ہے تو زراعت کا حصہ جی ڈی پی میں ڈبل بھی کر سکتا ہے۔

یعنی 40 فی صد پر پہنچ کر کھربوں روپے میں ٹیکس بھی حاصل ہو جائے گا۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ مختلف جائزوں کے مطابق کسی نے 65 لاکھ کہا، کسی نے 50 لاکھ سے زائد کہ اتنی بڑی تعداد میں نوجوان زراعت سے وابستہ ہیں۔ چلیے 50 لاکھ نوجوان مان لیتے ہیں تو ان کا دس فی صد 5 لاکھ بنتے ہیں حکومت کے پاس اتنے وسائل بھی نہیں ہوں گے لیکن حکومت کم ازکم ہر سال 50 ہزار سے زائد نوجوان کسان، زراعت سے منسلک، دودھ کی پیداوار، جانوروں کی افزائش سے منسلک افراد کے بیرون ملک مثلاً امریکا، آسٹریلیا، کینیڈا اور ڈنمارک اور دیگر صنعتی اور زرعی ترقی میں نامور ممالک کے ساتھ رابطہ کرے، معاہدہ کرے کہ ہمارے نوجوانوں کو زرعی ترقی، صنعتی ترقی کی تعلیم کے علاوہ دیگر شعبوں میں اور صنعتوں میں تربیت سے لیس کر کے واپس پاکستان بھجوایا جائے تو ایسی صورت میں کہیں زمین کی ہریالی سے فصلیں لہلہائیں گی تو ان فصلوں کو مشینوں کے کام لایا جاسکتا ہے۔

اس کے لیے ہمارے بے روزگار نوجوانوں کو اعلیٰ فنی صنعتی تعلیم سے لیس کرنے کے لیے بھی دیگر ترقی یافتہ ممالک جن میں یورپ کے کئی ممالک سرفہرست ہیں، ان سے معاہدے کیے جائیں۔ ہمارے بے روزگار نوجوانوں کو وہاں پر فنی تعلیم کے حصول، جدید ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے روانہ کیا جائے کیونکہ ایک طرف اگر تقریباً ہزاروں نوجوان زرعی ٹیکنالوجی سے لیس ہو کر آ جاتے ہیں اور زمین کی ہریالی میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں تو دوسری طرف انھی زرعی فصلوں کو سمیٹ کر زراعت پر مبنی صنعتوں کے پہیوں کی روانی بخشنے والے بھی منتظر ہوں گے۔ کیونکہ شاہراہ ترقی کا یہ سفر، فریقین مل کر ہم سفر جب بن جائیں گے تو پھر ملاحظہ فرمائیے ہوتا کیا ہے۔

کیونکہ جب ہریالی اگانے والے آجائیں گے، کھیتوں میں زرخیزی پیدا کرکے فصلوں کو بہار دینے والے، چین و دیگر ملکوں سے فنی زرعی تعلیم و تربیت سے لیس ہو کر آجائیں گے تو پھر ضرورت ہوگی کہ ان فصلوں سے، اس پیداوار سے فیکٹریاں چلائی جائیں، ملوں کے پہیوں کو رواں دواں کیا جائے تاکہ روزگار کے دیے جلتے رہیں اور بے روزگار برسر روزگار ہوتے رہیں۔

زمین جب زرخیز ہوتی ہے تو اس کی پیداوار سے فیکٹریاں چلتی ہیں اور آج کل صرف انھی فیکٹریوں کا مال ایکسپورٹ ہوتا ہے جو جدید ترین اعلیٰ ترین صنعتی ٹیکنالوجی سے مزید ہوں، جہاں وہ ہاتھ کام کر رہے ہوں جوکہ اعلیٰ ترین ترقی یافتہ صنعتی ممالک سے جدید ٹیکنالوجی اور جدید علوم و فنون سے تربیت پا کر ملک لوٹے ہوں۔

آج کا پاکستان اور اس کے بے شمار مسائل کے حل کے لیے ہمیں انھی باتوں میں حل تلاش کرنا ہوگا کہ ہم فریقین میں نوجوانوں میں ایسی ہم آہنگی پیدا کردیں کہ ایک طرف جدید زرعی علوم سے تربیت یافتہ نوجوان کھیتوں میں ٹیکنالوجی سے ہریالی لے کر آئے اور دوسری طرف جدید صنعتی علوم و فنون و ٹیکنالوجی سے لیس نوجوان اس خام مال کو فیکٹریوں میں سمیٹے تاکہ ان سے روزگار کے دیے سے دیا جلتا رہے۔ ایکسپورٹ کے لیے جہاز بھر بھر کر لادے جا رہے ہوں، ملک میں بیرون ملک سے تاجر آ رہے ہوں، کروڑوں، اربوں روپے کے سودے طے ہو رہے ہوں، کیونکہ زمین کی ہریالی سے جب فیکٹری کا پہیہ تیزی سے گھومتا ہے تو بے روزگاروں کی تمام تر کھیپ برسر روزگار ہو جاتی ہے۔ اسی کو کہتے ہیں ملک شاہراہ ترقی پرگامزن ہو چکا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ٹیکنالوجی سے بے روزگار جائیں گے کے حصول رہے ہوں کے لیے سے لیس

پڑھیں:

آزاد کشمیر و گلگت بلتستان میں ٹیکنالوجی انقلاب، 100 آئی ٹی سیٹ اپس کی تکمیل

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسپیشل کمیونیکیشن آرگنائزیشن (ایس سی او) نے اپنے ’’ویژن 2025‘‘ کے تحت آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان میں جدید ٹیکنالوجی کے فروغ کے لیے غیر معمولی اقدامات مکمل کرلیے ہیں۔

ادارے نے نوجوانوں کو ڈیجیٹل دنیا میں بااختیار بنانے کے لیے نہ صرف 100 جدید آئی ٹی سیٹ اپس قائم کیے ہیں بلکہ مقامی معیشت اور روزگار کے نئے دروازے بھی کھول دیے ہیں۔

ایس سی او کے مطابق یہ منصوبے دو برس کے مختصر ترین عرصے میں پایۂ تکمیل تک پہنچے، جن سے تقریباً 20 ملین ڈالر کے مساوی غیر ملکی زرمبادلہ حاصل ہوا۔ ادارے کے ڈائریکٹر جنرل نے بتایا کہ ان آئی ٹی پارکس کے ذریعے خطے کے نوجوانوں کے لیے تربیت، روزگار اور خود انحصاری کے مواقع پیدا کیے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایس سی او نہ صرف مواصلاتی ڈھانچے میں جدت لا رہا ہے بلکہ ڈیجیٹل پاکستان کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے بھی کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔

’’ویژن 2025‘‘ کے تحت ادارے نے 700 سے زائد افراد کو براہِ راست روزگار فراہم کیا، جب کہ 1500 سے زائد فری لانسرز کو جدید سہولتوں سے آراستہ کر کے انہیں عالمی مارکیٹ میں قدم رکھنے کے قابل بنایا۔

مظفرآباد میں خواتین کے لیے ملک کا پہلا ’’سافٹ ویئر ٹیکنالوجی پارک‘‘ بھی اسی وژن کا حصہ ہے، جو خواتین کو آئی ٹی کے شعبے میں خود مختار بنانے کی جانب اہم قدم سمجھا جا رہا ہے۔

علاوہ ازیں خصوصی افراد کے لیے خودمختار رہائشی مراکز کا قیام بھی ایس سی او کی سماجی شمولیت کی پالیسی کا حصہ ہے۔ ان اقدامات کے ذریعے ادارہ نہ صرف علاقے میں ڈیجیٹل تبدیلی کی راہ ہموار کر رہا ہے بلکہ خطے کو جدید معیشت کا حصہ بنانے کے عزم پر گامزن ہے۔

ایس سی او کے مطابق یہ منصوبے گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں ٹیکنالوجی کے نئے دور کا آغاز ہیں، جہاں نوجوان نسل کو نہ صرف جدید مہارتیں دی جا رہی ہیں بلکہ انہیں عالمی سطح پر مسابقت کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • سی پیک فیزٹو پاکستان کی صنعتی و زرعی خودمختاری کی بنیاد ہے،میاں زاہد حسین
  • گوگل ٹرانسلیٹ میں بڑا اپ ڈیٹ، اب زبانوں کا ترجمہ جدید اے آئی ٹیکنالوجی سے ہوگا
  • ہم نے ٹیکنالوجی میں بہت ترقی کی اور کر رہے ہیں: اسحاق ڈار
  • موجودہ دور میں جدید علوم کا حصول ناگزیر ہو چکا، ملک ڈیجیٹائزیشن کی راہ پر گامزن ہے، اسحاق ڈار
  • پاکستان کا آئی ایم ایف سے 1.2 ارب ڈالر قسط کے حصول کے لیے اہم اقدام
  • آزاد کشمیر و گلگت بلتستان میں ٹیکنالوجی انقلاب، 100 آئی ٹی سیٹ اپس کی تکمیل
  • گندم کی قیمت 4700 روپے فی من مقرر کی جائے،سندھ آبادگار بورڈ کا مطالبہ
  • مودی کی ناکام زرعی پالیسیاں
  • نادرونایاب تاریخ اردو نثر’’سیر المصنفین‘‘ اربابِ ذوق ِحصول کیلئے منظرعام پر
  • پاکستان اور کینیڈا کا ہائبرڈ بیج، لائیو اسٹاک کی افزائش میں تعاون بڑھانے پر غور