Express News:
2025-04-25@04:46:20 GMT

جدید زراعت کے حصول علم کے لیے چین کا سفر

اشاعت کی تاریخ: 19th, April 2025 GMT

قربان جاؤں میں اپنے آقا نبی اکرم آخرالزماںؐ پر۔ حدیث مبارکہ کا مفہوم بیان کر رہا ہوں جو کچھ اس طرح سے ہے کہ’’ علم حاصل کرو، چاہے چین جانا پڑے۔‘‘ 300 جوان زراعت کی اعلیٰ ٹیکنالوجی کی تعلیم کے حصول کے لیے چین چلے گئے ہیں، مزید 700 جلد ہی رخت سفر باندھ لیں گے۔

ساڑھے چودہ سو سال بعد وہی پیغام ان نوجوانوں،کاشتکاروں کا شغف رکھنے والوں کے لیے زرعی ٹیکنالوجی، جدید مشینی زراعت، ڈیجیٹل فارمنگ کا علم اب روایتی علوم کے حصول کے علاوہ حدیث مبارکہ کی روشنی میں یہ نوجوان ایسے ملک میں جا پہنچے ہیں جو اب زرعی ترقی کی روشن مثال ہے اور آج ہمارے نوجوانوں اور زرعی کاشتکاروں کے لیے ایک نئی درسگاہ بن چکی ہے اور یہی نوجوان جب زرعی علوم و فنون و ٹیکنالوجی سے تربیت یافتہ ہو کر جدید زرعی علوم کی پیاس بجھا کر واپس آئیں گے تو زرعی انقلاب کے لیے متحرک ہو جائیں گے۔ اس طرح یہ جوان اپنے کھیتوں کے مستقبل کو ہی نہیں سنوارے گا بلکہ اپنی قوم کے مستقبل کو بھی زرخیز بنائے گا۔ زمین پر جب اناج کے ڈھیر لگیں گے، بھوک پیاس، افلاس، غربت مکاؤ کے لیے ان کی یہ کاوشیں رنگ لے آئیں گی۔ صرف اپنے ملک کے لیے نہیں بلکہ دنیا کو ایکسپورٹ کرنے کے لیے بھی زراعت کو جب ترقی دے لیں گے تو اسی کو فلاح انسانیت کا نام دیا جاتا ہے۔

لیکن یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں لاکھوں نوجوان کسی نہ کسی شکل میں زراعت سے وابستہ ہیں۔ زمین پر ہل چلانے کے عمل سے لے کر دودھ دوہنے کے عمل تک، ان کاموں کے کرنے کے لیے اگر نوجوان جدید ٹیکنالوجی، جدید سائنسی علوم، ڈرون ٹیکنالوجی، آرٹیفیشل انٹیلی جنس، ڈیجیٹل ایپلی کیشنز سے استفادہ کرکے پانی کے استعمال کو کم سے کم اور پیداوار زیادہ سے زیادہ حاصل کر لیتا ہے تو زراعت کا حصہ جی ڈی پی میں ڈبل بھی کر سکتا ہے۔

یعنی 40 فی صد پر پہنچ کر کھربوں روپے میں ٹیکس بھی حاصل ہو جائے گا۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ مختلف جائزوں کے مطابق کسی نے 65 لاکھ کہا، کسی نے 50 لاکھ سے زائد کہ اتنی بڑی تعداد میں نوجوان زراعت سے وابستہ ہیں۔ چلیے 50 لاکھ نوجوان مان لیتے ہیں تو ان کا دس فی صد 5 لاکھ بنتے ہیں حکومت کے پاس اتنے وسائل بھی نہیں ہوں گے لیکن حکومت کم ازکم ہر سال 50 ہزار سے زائد نوجوان کسان، زراعت سے منسلک، دودھ کی پیداوار، جانوروں کی افزائش سے منسلک افراد کے بیرون ملک مثلاً امریکا، آسٹریلیا، کینیڈا اور ڈنمارک اور دیگر صنعتی اور زرعی ترقی میں نامور ممالک کے ساتھ رابطہ کرے، معاہدہ کرے کہ ہمارے نوجوانوں کو زرعی ترقی، صنعتی ترقی کی تعلیم کے علاوہ دیگر شعبوں میں اور صنعتوں میں تربیت سے لیس کر کے واپس پاکستان بھجوایا جائے تو ایسی صورت میں کہیں زمین کی ہریالی سے فصلیں لہلہائیں گی تو ان فصلوں کو مشینوں کے کام لایا جاسکتا ہے۔

اس کے لیے ہمارے بے روزگار نوجوانوں کو اعلیٰ فنی صنعتی تعلیم سے لیس کرنے کے لیے بھی دیگر ترقی یافتہ ممالک جن میں یورپ کے کئی ممالک سرفہرست ہیں، ان سے معاہدے کیے جائیں۔ ہمارے بے روزگار نوجوانوں کو وہاں پر فنی تعلیم کے حصول، جدید ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے روانہ کیا جائے کیونکہ ایک طرف اگر تقریباً ہزاروں نوجوان زرعی ٹیکنالوجی سے لیس ہو کر آ جاتے ہیں اور زمین کی ہریالی میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں تو دوسری طرف انھی زرعی فصلوں کو سمیٹ کر زراعت پر مبنی صنعتوں کے پہیوں کی روانی بخشنے والے بھی منتظر ہوں گے۔ کیونکہ شاہراہ ترقی کا یہ سفر، فریقین مل کر ہم سفر جب بن جائیں گے تو پھر ملاحظہ فرمائیے ہوتا کیا ہے۔

کیونکہ جب ہریالی اگانے والے آجائیں گے، کھیتوں میں زرخیزی پیدا کرکے فصلوں کو بہار دینے والے، چین و دیگر ملکوں سے فنی زرعی تعلیم و تربیت سے لیس ہو کر آجائیں گے تو پھر ضرورت ہوگی کہ ان فصلوں سے، اس پیداوار سے فیکٹریاں چلائی جائیں، ملوں کے پہیوں کو رواں دواں کیا جائے تاکہ روزگار کے دیے جلتے رہیں اور بے روزگار برسر روزگار ہوتے رہیں۔

زمین جب زرخیز ہوتی ہے تو اس کی پیداوار سے فیکٹریاں چلتی ہیں اور آج کل صرف انھی فیکٹریوں کا مال ایکسپورٹ ہوتا ہے جو جدید ترین اعلیٰ ترین صنعتی ٹیکنالوجی سے مزید ہوں، جہاں وہ ہاتھ کام کر رہے ہوں جوکہ اعلیٰ ترین ترقی یافتہ صنعتی ممالک سے جدید ٹیکنالوجی اور جدید علوم و فنون سے تربیت پا کر ملک لوٹے ہوں۔

آج کا پاکستان اور اس کے بے شمار مسائل کے حل کے لیے ہمیں انھی باتوں میں حل تلاش کرنا ہوگا کہ ہم فریقین میں نوجوانوں میں ایسی ہم آہنگی پیدا کردیں کہ ایک طرف جدید زرعی علوم سے تربیت یافتہ نوجوان کھیتوں میں ٹیکنالوجی سے ہریالی لے کر آئے اور دوسری طرف جدید صنعتی علوم و فنون و ٹیکنالوجی سے لیس نوجوان اس خام مال کو فیکٹریوں میں سمیٹے تاکہ ان سے روزگار کے دیے سے دیا جلتا رہے۔ ایکسپورٹ کے لیے جہاز بھر بھر کر لادے جا رہے ہوں، ملک میں بیرون ملک سے تاجر آ رہے ہوں، کروڑوں، اربوں روپے کے سودے طے ہو رہے ہوں، کیونکہ زمین کی ہریالی سے جب فیکٹری کا پہیہ تیزی سے گھومتا ہے تو بے روزگاروں کی تمام تر کھیپ برسر روزگار ہو جاتی ہے۔ اسی کو کہتے ہیں ملک شاہراہ ترقی پرگامزن ہو چکا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ٹیکنالوجی سے بے روزگار جائیں گے کے حصول رہے ہوں کے لیے سے لیس

پڑھیں:

کراچی، دو مختلف ٹریفک حادثات میں 2 نوجوان جاں بحق

کراچی:

شہر قائد کے علاقے ملیر میمن گوٹھ اور نیوکراچی ناگن چورنگی کے قریب ٹریفک حادثات میں 2 نوجوان جاں بحق ہوگئے۔

 تفصیلات کے مطابق مین گوٹھ کے علاقے ملیر مین گوٹھ سولنگی اسٹاپ کے قریب تیز رفتار کار دیوار سے ٹکرانے سے کار سوار نوجوان جاں بحق ہوگیا۔

متوفی کی لاش ایدھی ایمبولینس کے ذریعے عباسی شہید اسپتال منتقل کی گئی، پولیس کے مطابق جاں بحق ہونے والے شخص کی شناخت 23 سالہ علی بخش ولد عمر دین کے نام سے کی گئی۔

عینی شاہدین کے مطابق جاں بحق ہونے والا نوجوان کار کا ڈرائیور سے جس نے تیز رفتار کار خور کار سے ٹکرائی ہے۔

علاقہ پولیس واقعے کی تحقیقات کر رہی ہے، نیوکراچی ناگن چورنگی صدیق اکبر مسجد کے قریب نامعلوم گاڑی کی ٹکر موٹرسائیکل سوار 16 سالہ لڑکا جاں بحق ہوگیا۔

جاں بحق ہونے والے نوجوان کی لاش عباسی شہید اسپتال منتقل کی گئی ، پولیس کے مطابق جاں بحق ہونے والے نوجوان کی فوری طور پر شناخت نہیں کی جا سکی ۔

متعلقہ مضامین

  • عالمی تجارت کیلئے پائیدار اور شمولیتی ترقی کا حصول ہمارا نصب العین ہے: وزیر خزانہ
  • چین نے انٹرنیٹ کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا
  • بھارتی فوجیوں نے بارہمولہ میں دو کشمیری نوجوان شہید کر دیے
  •  ٹریفک حادثات: مزید 2 نوجوان جان کی بازی ہار گئے
  • صوبہ پنجاب میں گندم کی خریداری کےلیے جامع پلان تیار
  • کراچی، دو مختلف ٹریفک حادثات میں 2 نوجوان جاں بحق
  • کیک میں کیلے کے چھلکے، ذائقہ اور غذائیت دونوں کا حصول، خود آزما لیجیے؟
  • صارفین کی حقیقی عمر کی تصدیق کیلئے میٹا نے اے آئی کا سہارا لے لیا
  • ینگ انجینئرز نیشنل فورم کے قیام کی منظوری دے دی گئی
  • برآمدات پر مبنی پائیدار نمو کے حصول کیلئے اقدامات کر رہے: وزیر خزانہ