پاک بنگلہ دیش سفارتی تعلقات کی بحالی اہم پیشرفت
اشاعت کی تاریخ: 19th, April 2025 GMT
اسلام آباد(طارق محمودسمیر) پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان 15سال کے تعطل کے بعد سفارتی مذاکرات بحال ہوگئے، ڈھاکہ خارجہ سیکرٹریزکی سطح پر مشاورت
کے چھٹے دور میں سیاسی ،معاشی، تجارتی روابط، زراعت، ماحولیات، تعلیم، ثقافتی تبادلے، دفاعی تعاون اور عوامی رابطوں پر باہمی تعاون کے نئے امکانات زیر غور آئے جبکہ باہمی دلچسپی کے امور، علاقائی صورت حال اور دو طرفہ تعاون کے فروغ پر بات چیت کی گئی ، بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد حکومت کے خاتمے کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات بدستوربہتری کی جانب گامزن ہیں اور دونوں ملکوں کے درمیان عوامی اور قیادت کی سطح پر قربتیں بڑھ رہی ہیں، وزیراعظم شہباز شریف اوربنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر ڈاکٹر محمد یونس کے درمیان قاہرہ میں ترقی پذیرملکوں کی تنظیم ڈی ایٹ کے سربراہی اجلاس اوراس سے پہلے ستمبر میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر ملاقاتیں ہوئیں جن میں دوطرفہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے پر اتفاق کیا گیا۔ پاکستان اوربنگلہ دیش کے مذاکرات کی بحالی نہ صرف دوطرفہ تعلقات میں بہتری لانے کا ذریعہ بنے گی بلکہ جنوبی ایشیاء میں مجموعی امن اور ترقی کی راہ بھی ہموار ہونے کی بھی امیدہے،اسی طرح تجارت، تعلیم، سیاحت، اور ثقافتی تبادلے جیسے شعبے دونوں ممالک کے عوام کو قریب لانے میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں، پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان خوشگوارتعلقات صرف دونوں ملکوں کے ہی نہیں بلکہ پورے خطے کے مفاد میںہیں ،خاص طور پر اس سے سارک جیسی اہم علاقائی تنظیم کو بحال کیا اور موثربنایا جا سکتا ہے۔ ادھر افغان طالبان نے امریکہ کی جانب سے چھوڑے گئے تقریباً 5 لاکھ فوجی ہتھیاروں کو دہشت گرد تنظیموں کو فروخت یاسمگل ہونے سے متعلق برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ سامنے آئی ہے جب کہ اس سے پہلے امریکی سیکرٹ سروس کے ایک سابق عہدیداربھی انخلاء کے وقت افغانستان میں اسلحہ چھوڑے جانے کو سنگین غلطی قراردے چکے ہیں،اس میںکوئی شک نہیںکہ افغانستان میں چھوڑاگیاامریکہ اسلحہ پاکستان میں دہشت گردی کے لئے استعمال ہورہاہے اوریہ سب کچھ افغان طالبان کی پشت پناہی سے ہورہاہے لہذاامریکہ سمیت عالمی برادری کی ذمہ داری ہے وہ کہ اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری پوری کرے اورافغان طالبان کو دوحہ معاہدے کاپابندبنائے جس میں انہوں نے اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کی یقین دہانی کرائی تھی ۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: بنگلہ دیش کے کے درمیان
پڑھیں:
افغان طالبان کو اب ماسکو میں اپنے سفیر کی تعیناتی کی اجازت
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 اپریل 2025ء) روسی دارالحکومت سے جمعرات 24 اپریل کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ماسکو حکومت نے کہا ہے کہ وہ افغانستان میں طالبان انتظامیہ کو یہ باقاعدہ اجازت دے رہی ہے کہ وہ روس میں اپنا سفیر تعینات کر سکتے ہیں۔
روس نے ابھی چند روز پہلے ہی ایک عسکریت پسند گروپ کے طور پر افغان طالبان کا نام 'دہشت گرد‘ قرار دی گئی تنظیموں کی روسی فہرست سے خارج کر دیا تھا۔
ماسکو کے یہ دونوں نئے اقدامات اس کی ان کوششوں کا حصہ ہیں، جن کے ذریعے وہ ہندوکش کی اس ریاست پر حکومت کرنے والی سخت گیر مذہبی سیاسی تحریک کے ساتھ اپنے روابط اب معمول پر لانا چاہتا ہے۔ افغان طالبان کے لیے ایک سفارتی کامیابیافغانستان میں طالبان 2021ء میں کابل پر قبضے کے ساتھ اس وقت دوبارہ اقتدار میں آ گئے تھے، جب کئی سالہ موجودگی کے بعد اس ملک سے آخری امریکی فوجی بھی واپس جا رہے تھے۔
(جاری ہے)
ازبکستان نے طالبان حکومت کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرلیے
کئی ماہرین ماسکو کی طرف سے طالبان تحریک کا نام دہشت گرد تنظیموں کی روسی فہرست سے خارج کیے جانے اور افغان طالبان کو ماسکو میں اپنا سفیر تعینات کرنے کی اجازت دیے جانے کو کابل میں موجودہ حکمرانوں کے لیے ایک سفارتی کامیابی کا نام دے رہے ہیں۔
ماسکو میں اس بارے میں بدھ کی رات کیے گئے اعلان کے ساتھ ہی روسی وزارت خارجہ نے بتایا کہ روسی حکام نے افغانستان میں طالبان انتظامیہ کے وزیر خارجہ اور وزیر داخلہ سے مذاکرات بھی کیے ہیں۔
روسی حکومت کے مطابق ماسکو میں طالبان کے سفیر کی تعیناتی کی اجازت دیے جانے پر افغان فریق کی طرف سے ''گہرے تشکر کا اظہار بھی کیا گیا۔‘‘
افغانستان: تین افراد کی سزائے موت پر سر عام عمل درآمد
روسی وزارت خارجہ کا بیاناس پیش رفت کے بارے میں روسی وزارت خارجہ کی طرف سے ماسکو میں جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا، ''افغان قیادت کے نمائندوں کو بتا دیا گیا ہے کہ روسی سپریم کورٹ کے طالبان تحریک پر لگائی گئی پابندی کو معطل کرنے کے حالیہ فیصلے کے بعدروس نے فیصلہ کیا ہے کہ ماسکو میں افغان سفارتی نمائندگی کا درجہ بڑھا کر سفیر کی تعیناتی کی سطح تک کر دیا جائے۔
‘‘روس افغانستان میں طالبان حکام کو اپنے لیے ممکنہ اقتصادی شراکت داروں کے طور پر دیکھتا ہے۔ خاص طور پر اس لیے بھی کہ گزشتہ ہفتے جب روسی سپریم کورٹ نے طالبان تحریک کی 'دہشت گرد‘ تنظیم کی حیثیت ختم کی تھی، تو کابل میں طالبان انتظامیہ نے اس کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے سراہا تھا۔
حالیہ برسوں میں کئی اعلیٰ طالبان نمائندے اور حکومتی عہدیدار مختلف مواقع پر روس کے دورے کر چکے ہیں۔
طالبان حکومت کو ابھی تک باقاعدہ تسلیم نہیں کیا، لاوروفروس کا کہنا ہے کہ طالبان تحریک کے نام کے 'دہشت گرد‘ تنظیموں کی روسی فہرست سے اخراج کا مطلب یہ نہیں کہ ماسکو نے کابل میں طالبان کی حکومت کو باقاعدہ تسلیم کر لیا ہے، جس کی یہ خواہش اپنی جگہ ہے کہ بین الاقوامی برادری اسے باضابطہ طور پر تسلیم کرے۔
اس بارے میں روسی نقطہ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف نے بدھ کے روز کہا، ''کابل میں متقدر انتظامیہ ایک حقیقت ہے۔
‘‘ لاوروف نے صحافیوں کو بتایا، ''ہمیں اس حقیقت کو اپنی عملیت پسندی کی پالیسی پر عمل درآمد کے لیے لازمی طور پر پیش نظر رکھنا ہو گا۔‘‘کابل میں طالبان کی حکومت کو ابھی تک دنیا کے کسی بھی ملک نے باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا جبکہ اقوام متحدہ کی طرف سے بھی کابل میں طالبان انتظامیہ کا ذکر کرتے ہوئے اس کے لیے ''طالبان کے ڈی فیکٹو حکام‘‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔
ادارت: امتیاز احمد