گندم کا بحران؟ آرمی چیف سے اپیل
اشاعت کی تاریخ: 23rd, April 2025 GMT
ملک میں گندم کی کٹائی کا موسم ہے، یہ خوشیوں اور موج میلے کا زمانہ ہوتا ہے لیکن اس بار یہ کسان کی خوشیوں کی بجائے ماتم اور دکھ و کرب کے زمانے میں بدل چکا ہے۔ گندم کی موجودہ مارکیٹ قیمت 1800 سے 2200 روپے فی من ہے، جو کاشتکار کی لاگت سے کہیں کم ہے۔ سوال یہ ہے کہ کسان کیوں مجبور ہے، اور ذمہ دار کون ہے؟
ایک اوسط درجے کے کسان کے لیے گندم کی کاشت پر آنے والے اخراجات کچھ یوں ہیں: زمین کا ششماہی کرایہ(ٹھیکہ) تقریباً 50,000 روپے فی ایکڑ، بیج 4,000 تا 5,000 روپے، کھاد (ڈی اے پی، یوریا)16,000 تا 20,000 روپے، زرعی ادویات 3,000 روپے، زمین کی تیاری و مشینری 7,000 روپے، پانی و مزدوری 8,000 روپے۔ کٹائی و گہائی (ہارویسٹر تھریشر کا خرچہ )15,000 روپے فی ایکٹر، اس طرح مجموعی لاگت تقریباً ایک لاکھ سے ایک لاکھ 10 ہزار روپے فی ایکڑ بنتی ہے۔
اگر پیداوار 40 من فی ایکڑ ہو، اور قیمت 2000 روپے فی من ملے تو گندم کی کل آمدن 80,000 روپے بنتی ہے۔ توڑی (بھوسہ) کی قیمت شامل کر لیں تو یہ آمدن 88,000 روپے فی ایکڑ بنتی ہے یوں کسان کو 12,000سے 22,000 روپے فی ایکڑ کا سیدھا نقصان ہو رہا ہے۔ یہ صرف اعداد و شمار نہیں، بلکہ ایک ایسے نظام کی گواہی ہے جو کسان کو زندہ درگور کر رہا ہے۔
اس بار پنجاب حکومت اور وفاقی حکومت (پاسکو) نے گندم کی سرکاری خریداری کا آغاز ہی نہیں کیا اور یہ کام بے رحم پرائیویٹ سیکٹر کے ذمے لگا دیا ہے جس کے سینے میں دل کی بجائے پتھر ہوتا ہے، نتیجہ یہ نکلا ہے کہ کسان کھلے بازار میں مڈل مین کے رحم و کرم پر ہے، جو 1800 سے 2200 روپے فی من گندم خرید رہے ہیں۔ کسان اپنی فصل اس لیے بیچنے پر مجبور ہے کیونکہ اس نے زمین کا کرایہ اور مزدوری دینی ہے، اور قرض واپس کرنا ہے، اور تاخیر کی گنجائش نہیں۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ اربوں روپے کی گندم درآمد کرنے والی حکومت کسان کو اس کی اپنی اگائی گئی فصل کا مناسب نرخ نہیں دے سکتی۔ 2022-23 ء میں یوکرین اور روس سے 35 لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کی گئی، جس سے مقامی مارکیٹ میں گندم کی قیمتیں زمین بوس ہوگئیں۔ کسان کی محنت کی کوئی قدر نہ رہی، جیسے یہ ملک کسی زرعی معیشت پر نہیں بلکہ درآمدی بیساکھیوں پر کھڑا ہو۔
یہ سب صرف معاشی ناکامی نہیں، بلکہ اخلاقی دیوالیہ پن کا بھی اظہار ہے۔ ایک طرف اخراجات کا بوجھ، دوسری طرف قیمتوں کی گراوٹ، اور تیسرے جانب سرکار کی بے حسی ‘ ایک طرف کسان کو دیوالیہ کر دینا اور پھر اسے ہی غفلت کا مورد الزام ٹھہرانا سخت زیادتی ہے۔ اگر یہی حالات رہے تو کسان زمین اور کاشتکاری چھوڑ کر دوسرے دھندوں میں لگ جائے گا، اور ہم خوراک کے لئے دوسروں کے دست نگر ہو کر رہ جائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ کہاں ہے اس وقت مناپلی کنٹرول اتھارٹی؟ یعنی کمپی ٹیشن کمیشن آف پاکستان، سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے ملک کے اس سب سے بڑے مسئلے پر نوٹس کیوں نہیں لیا جاتا، انسانی حقوق کا کوئی ادارہ یا کوئی بار کونسل اس حوالے سے عدالت عظمی میں رٹ پٹیشن دائر کیوں نہیں کرتی؟ کہاں ہے عوام کی منتخب پارلیمنٹ؟ افسوس صد افسوس کہ کوئی بھی کسان کے اس اجتماعی جنازے کو کندھا دینے پر تیار نہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں فوری حرکت میں آئیں اور گندم کی سپورٹ پرائس 3000 روپے فی من فوری مقرر کی جائے۔ پاسکو اور صوبائی حکومتیں فوری خریداری کا شفاف نظام شروع کریں۔ ذخیرہ اندوزوں، فلور ملز اور مڈل مین مافیا کے خلاف کارروائی کی جائے۔ کسانوں کو زرعی قرضوں میں ریلیف اور سبسڈی دی جائے۔ درآمدات و برآمدات کو مقامی پیداوار کی صورتحال سے مشروط کیا جائے۔اس صورتِ حال کی بڑی حد تک ذمے دار ملک کی سیاسی جماعتیں بھی ہیں جو انتخابات کے موسم میں تو ووٹ لینے کیلئے کسانوں کو یاد کرتی ہیں، ان کے کھیتوں میں تصویریں بنواتی ہیں اور ووٹ کو عزت دو کے جھوٹے نعرے لگاتی اور جھوٹے وعدے کرتی ہیں۔ مگر انتخابی کامیابی کے بعد وہ دیہی اکثریت کے مسائل سے لاتعلق ہو جاتی ہیں۔ یہ رویہ صرف بے حسی نہیں بلکہ قومی مفادات سے کھلم کھلا غداری کے مترادف ہے۔
دوسری طرف، کسان خود بھی اس زبوں حالی کا کچھ نہ کچھ ذمے دار ضرور ہے۔ ملک میں کوئی مضبوط، منظم اور موثر کسان تنظیم، ٹریڈ یونین یا فیڈریشن موجود نہیں جو اجتماعی آواز بلند کرے، پالیسی سازی میں کردار ادا کرے اور حکومت کو جوابدہ بنائے۔ جب تک کسان اپنے حقوق کے لیے اجتماعی طور پر خود منظم نہیں ہوتا، استحصال کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ اس وقت مہنگائی کی صورتحال یہ بنی ہوئی ہے کہ کاشتکار ایک من گندم بیچ کر ایک کلو بکرے کا گوشت نہیں خرید سکتا جو 2200 سے 2400 روپے فی کلو ہے، ایک من گندم بیچ کر وہ اپنے بچوں کیلئے ایک دن کے 3 وقت کھانے کا انتظام نہیں کر سکتا، ان حالات میں اس نے اگلی فصل کپاس، چاول یا گنا بھی کاشت کرنی ہے، اور اگلے 6 ماہ اپنے گھریلو اور نئی فصل کے اخراجات بھی برداشت کرنے ہیں، ان نازک ترین حالات میں ملک کی 60 سے 70 فیصد دیہی آبادی تھک ہار کر اب آرمی چیف کی طرف دیکھ رہی ہے، کیونکہ پاکستان میں اب تو یہ روایت ہی پڑ گئی ہے کہ سول حکومتوں کی ناکامی و نااہلی سے پیدا ہونے والے بحرانوں کے حل کیلئے پھر مدد کیلئے پاک فوج کو ہی پکارا جاتا ہے، اس لئے سپہ سالار اعظم سے اپیل ہے کہ اب وہی کاشتکاروں کی خاموش چیخیں اور التجائیں سن کر فوری مداخلت کریں۔
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے؟
منصف ہو تو حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: روپے فی من 000 روپے فی یہ ہے کہ کسان کو گندم کی
پڑھیں:
گندم کے کاشتکاروں کو 5ہزار روپے ایکڑ ملیں گے ‘ مریم نواز : فلورملوں کو 25فیصد خریداری کا حکم
لاہور (نوائے وقت رپورٹ) پاکستان بھر میں گندم کے کاشتکاروں کے لئے پنجاب کا ریکارڈ پیکج دیا ہے۔ پنجاب کے علاوہ کسی صوبے میں گندم کے کاشتکاروں کو سبسڈی یا قابل ذکر امداد نہیں دی جارہی ہے۔ وزیراعلی پنجاب مریم نواز شریف نے صوبے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ گندم کے کاشتکاروں کے لئے 110 ارب روپے کا مجموعی پیکج دیا ہے۔ وزیراعلیٰ مریم نوازشریف کی زیر صدارت خصوصی اجلاس منعقد ہوا جس میں اہم فیصلوں کی منظوری دی گئی۔ وزیراعلیٰ مریم نوازشریف نے گندم کے کاشتکاروں کے لئے 25ارب روپے کی ویٹ فارمر سپورٹ پروگرام کے امدادی پیکج کی منظور ی دے دی ہے۔ وزیراعلیٰ مریم نواز شریف نے گندم کے کاشتکاروں کو 5ہزار فی ایکڑ دینے کی ہدایت کی۔ گندم کے 5 ایکڑ پر کاشتکاروں کو 25 ہزار روپے ملیں گے۔ وزیراعلیٰ مریم نوازشریف نے فلور ملوں کو کم از کم 25 فیصد گندم خریداری کا پابند بنانے کیلئے لاز می ترمیم کا حکم دے دیا۔ وزیراعلیٰ مریم نوازشریف نے ’’الیکٹرو نک ویئر ہاؤسنگ ری سیٹ‘‘ پالیسی کی منظوری دے دی اور نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ مریم نوازشریف نے صوبائی وزیر زراعت کو گندم خریداری مہم کی مانیٹرنگ کرنے کی ہدایت کی۔ پرائس کنٹرول ڈیپارٹمنٹ گندم خریداری مہم میں معاونت کرے گا۔ وزیر اعلیٰ مریم نوازشریف نے بنک آف پنجاب کو 100 ارب روپے کی کریڈٹ لائن قائم کرنے کا حکم دیا ہے۔ اجلاس میں بریفنگ میں بتایا گیا کہ کسان کارڈ کے ذریعے گندم کے کاشتکار وں نے تقریباً 55ارب روپے کے زرعی مداخل خریدے۔ گندم کے کاشتکاروں کو 9500ٹریکٹر پر 10ارب روپے سبسڈی دی گئی۔ گندم کے کاشتکاروں کو 1000ٹریکٹر 2.5ارب روپے کی لاگت سے مفت دیئے گئے۔کاشتکاروں کو 8ارب روپے ٹیوب ویل سولرائزیشن کی مد میں سبسڈی دی گئی۔ کاشتکاروں کو5ہزار سپر سیڈر پر8 - ارب روپے سبسڈی دی جاری ہے۔ گندم کے کاشتکاروں کو فی ایکڑ فارمر سپورٹ پروگرام کے تحت تقریباً 25ارب روپے دیئے جائیں گے۔ صوبے بھر میں سب سے زیادہ گندم اگانے والے کاشتکار کو 45لاکھ روپے کا 85ہارس پاور ٹریکٹر مفت ملے گا۔ صوبے بھر میں گندم اگاؤ مقابلے میں دوسرے نمبر آنے والے کاشتکار کو 40لاکھ روپے کا 75ہارس پاور ٹریکٹر انعام ملے گا۔ صوبے بھر میں تیسرے نمبر گندم اگانے والے کاشتکار کو 35لاکھ روپے کا 60ہارس پاور ٹریکٹر ملے گا۔ ہر ضلع میں سب سے زیادہ گندم اگانے والے کاشتکار کو 10لاکھ روپے، دوسرے نمبر پر 8لاکھ روپے اور سوم کو پانچ لاکھ روپے ملیں گے۔ مجموعی طور پر گندم اگاؤ مہم میں کاشتکاروں کو 10کروڑ 40لاکھ روپے بطور انعام ملیں گے۔ پنجاب میں گندم کے کاشتکار وں کی رہنمائی کے لئے سوا ارب روپے کا ایگریکلچر انٹرنی پروگرام شروع کیا گیا۔ 1000انٹرنی صوبے بھر میں گندم کے کاشتکاروں کی رہنمائی اور معاونت کے لئے فیلڈ میں موجود ہیں۔ اگیتی کپاس کاشت کرنے والے کسانوں کو 25ہزار روپے فی بلاک مجموعی طور پر ساڑھے 37کروڑ روپے ملیں گے۔ سٹیک ہولڈرز اور ہر شہری کی فعال شرکت ضروری ہے۔ وزیراعلیٰ مریم نوازشریف نے کہا کہ ہم سب مل کر اپنے ماحول کی ذمہ داری لیں اور اس حل کا حصہ بنیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نوازشریف نے سعودی عرب میں بس حادثے پانچ زائرین کے جاں بحق ہونے پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ پنجاب پولیس اور سی ٹی ڈی کو مکڑوال میں 10دہشت گردوں کو جہنم واصل کرنے پر خراج تحسین پیش کیا ہے۔ وزیر اعلی مریم نواز شریف نے پوپ فرانسس کے انتقال پر دنیا بھر کی کرسچین کمیونٹی سے ہمدردی و تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ وزیر اعلی مریم نواز شریف نے پوپ فرانسس کی امن کے لئے خدمات کو خراج عقید ت پیش کیا ہے۔ وزیر اعلی مریم نواز شریف نے ایکس پر اپنے پیغام میں کہا کہ پنجاب نے پاکستان کی پہلی SMART ماحولیاتی تحفظ فورس کا باقاعدہ آغاز کر دیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ مریم نوازشریف نے کہا کہ انوائرمنٹ پروٹیکشن فورس کا قیام پنجاب کی ماحولیاتی بہتری کے سفر میں ایک سنگ میل کی مانند ہے۔ پاکستان کی پہلی SMART ماحولیاتی تحفظ فورس کا آغاز ایک صاف اور سبز مستقبل کی طرف ایک جرات مندانہ قدم ہے۔ سمارٹ فورس کو ڈرون نگرانی، رئیل ٹائم (AQI) مانیٹرز،موبائل لیبز مہیا کی گئیں ہیں۔ انڈسٹری، پانی، پلاسٹک، زراعت، ٹرانسپورٹ اور ایندھن کی فیلڈز کے لئے خصوصی سکواڈز قائم کئے گئے۔