Daily Ausaf:
2025-04-26@13:27:16 GMT

عالمی تہذیبی جنگ اور ہمارے محاذ

اشاعت کی تاریخ: 26th, April 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
میں اس کے جواب میں عرض کیا کرتا ہوں کہ اس قسم کے اسلام کا مطالبہ طائف والوں نے کیا تھا جس کا ذکر مولانا سید سلیمان ندویؒ نے ’’سیرت النبی‘‘ میں قبیلہ ثقیف کے قبول اسلام کے تذکرہ میں کیا ہے کہ بنو ثقیف کا وفد جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ منورہ آیا اور گزارش کی کہ ہم طائف والے اسلام قبول کرنا چاہتے ہیں لیکن ہماری چند شرائط ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ ہم شراب نہیں چھوڑ سکیں گے اس لیے کہ ہمارے ہاں انگور کثرت سے پیدا ہوتا ہے اور ہماری معیشت کا زیادہ تر دارومدار اسی پر ہے اس لیے شراب بنانا اور بیچنا ہماری معاشی مجبوری ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم سود سے بھی دست بردار نہیں ہوں گے اس لیے کہ دوسری اقوام اور قبائل کے ساتھ ہماری تجارت سود کی بنیاد پر ہوتی ہے اور سود کو ختم کر دینے سے ہماری تجارت ٹھپ ہو کر رہ جائے گی۔ تیسری بات یہ کہ زنا کو چھوڑنا ہمارے لیے مشکل ہوگا اس لیے کہ ہمارے ہاں شادیاں دیر سے کرنے کا رواج ہے اور زنا کے بغیر ہمارے جوانوں کا گزارہ نہیں ہوتا اور چوتھی بات یہ ہے کہ ہم پانچ وقت نماز کی پابندی بھی نہیں کر سکیں گے۔ ہماری ان شرائط کو منظور کر کے آپ ہمیں مسلمان بنانا چاہیں تو ہم سارے طائف والے کلمہ پڑھنے کے لیے تیار ہیں۔ سیرت النبی میں مذکور ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ چاروں شرائط مسترد کر دیں اور بالآخر اہل طائف نے غیر مشروط طور پر اسی طرح مکمل اسلام قبول کیا جس طرح باقی اقوام نے کیا تھا۔ لیکن آج بھی ہمارے سامنے پھر ’’مشروط اسلام‘‘ کا مطالبہ کھڑا کر دیا گیا ہے اور شرطیں بھی کم وبیش وہی ہیں جو طائف والوں کی تھیں اس لیے علمائے کرام کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عام مسلمانوں کو اس صورت حال سے آگاہ کریں اور انہیں یہ بات دلائل سے اور سیرت نبوی کی روشنی میں سمجھائیں کہ اسلام وہی ہے جو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش فرمایا تھا اور امت چودہ سو سال سے اس پر عمل کرتی آ رہی ہے۔ اس میں کوئی کمی بیشی قبول نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی اسلام کے حصے بخرے کیے جا سکتے ہیں۔ اسلام جب بھی نافذ ہوگا یا جسے بھی اسلام قبول کرنا ہوگا، پورے کا پورا قبول کرنا ہوگا اور اسلام کے کیے ایک صریح حکم کا انکار بھی پورے اسلام کا انکار متصور ہوگا۔
ہمارا تیسرا محاذ میڈیا اور ذرائع ابلاغ کا محاذ ہے جس نے پوری دنیا کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔ ایک طرف اسلامی احکام وعقائد اور قوانین کے خلاف پروپیگنڈا ہوتا ہے اور اسلامی قوانین پر اعتراضات ہوتے ہیں، دوسری طرف دینی قوتوں اور اسلامی تحریکات کی کردار کشی کی مہم جاری ہے اور انہیں دہشت گرد اور بنیاد پرست قرار دے کر ان کے خلاف پوری دنیا میں نفرت کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے اور تیسری طرف بے حیائی، ناچ گانا، عریانی اور سفلی خواہشات کو ابھار کر نئی نسل کو اخلاقی طور پر تباہ کیا جا رہا ہے۔ میڈیا اور ذرائع ابلاغ کی اس یلغار کا سامنا بھی اہل دین نے ہی کرنا ہے اور یہ بھی علماء کرام اور دینی مراکز کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ اسلام پر کیے جانے والے اعتراضات اور مختلف اسلامی احکام وروایات کے بارے میں پھیلائے جانے والے شکوک وشبہات کا آج کی زبان اور اسلوب میں جواب دینا اور لوگوں کو مطمئن کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ اسی طرح اسلامی تحریکات کی کردار کشی کی مہم کا مقابلہ کرنا اور عام مسلمانوں بالخصوص نئی نسل کو قرآن وسنت کی تعلیمات سے آراستہ کرتے ہوئے مغربی تہذیب کے اثرات سے بچانے کی کوشش کرنا بھی ہمارے فرائض میں شامل ہے۔
آج کے ماحول میں ہمیں کون کون سے چیلنج درپیش ہیں اور کن کن محاذوں کا سامنا ہے، اس کے بارے میں بہت کچھ کہنے کی ضرورت اور گنجائش ہے لیکن سردست ان چند امور پر اکتفا کرتے ہوئے آخر میں علمائے کرام اور دینی کارکنوں سے تین گزارشات کرنا چاہتا ہوں:
دینی جدوجہد سے لاتعلق نہ رہیں کیونکہ اس دور میں اس ماحول میں دین کی جدوجہد سے کلیۃً لا تعلق رہنے میں مجھے ایمان کا خطرہ محسوس ہوتا ہے۔ جس شعبے میں آپ آسانی سے کام کر سکتے ہیں، وہاں کام کریں لیکن کچھ نہ کچھ ضرور کریں۔ عملی جہاد میں حصہ لے سکتے ہیں تو بڑی سعادت کی بات ہے ورنہ زبان وقلم کے جہاد میں شریک ہوں، مال خرچ کر سکتے ہیں تو مال خرچ کریں، میڈیا کے محاذ پر کام کی صلاحیت رکھتے ہیں تو اس میں حصہ لیں، لابنگ کر سکتے ہیں تو یہ بھی ایک اہم شعبہ ہے، ذہن سازی اور فکری تربیت میں کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں تو اس میں حصہ ڈالیں۔ جو آپ کر سکتے ہیں، وہی کریں لیکن دینی جدوجہد میں خاموش تماشائی نہ بنیں، لا تعلق نہ رہیں اور کنارہ کشی کسی صورت میں اختیار نہ کریں کیونکہ یہ ایمان کے بھی خلاف ہے اور دینی غیرت کے بھی منافی ہے۔
جو شخص دین کے جس شعبے میں اور دینی جدوجہد کے جس محاذ پر کام کر رہا ہے، اسے کام کرنے دیں، اس کی مخالفت نہ کریں، حوصلہ شکنی نہ کریں اور اس کے کام کی نفی نہ کریں۔ کمزوریاں برداشت کریں اور اچھائیوں کی حوصلہ افزائی کریں۔ اسی سے قوت پیدا ہوگی اور باہمی اعتماد پیدا ہوگا۔
میری تیسری اور آخری گزارش ہے کہ علمائے کرام اور دینی حلقے جہاں جہاں کام کر رہے ہیں، آپس میں رابطہ اور مشاورت کا ماحول بنائیں، ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کریں، باہمی میل جول بڑھائیں اور ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کریں۔ میں ایک کارکن کے طور پر اپنے تجربے کی بنیاد پر عرض کرتا ہوں کہ جتنا کام ہم اپنی اپنی جگہ کر رہے ہیں، وہ بھی کم نہیں ہے۔ اگر ہم باہمی مشاورت اور تقسیم کار کے ساتھ اسی کام کو صحیح طریقے سے منظم اور مربوط کر لیں تو ہمارے موجودہ کام کی افادیت میں دس گنا اضافہ ہو سکتا ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کر سکتے ہیں سکتے ہیں تو اور دینی بات یہ اس لیے کام کر ہے اور اور اس

پڑھیں:

جنگ مسلط کی گئی تو پوری قوم پاک فوج کیساتھ ہوگی، طاہر اشرفی

چیئرمین پاکستان علماء کونسل کا میڈیا سے گفتگو میں کہنا تھا کہ ہم امن چاہتے ہیں مگر امن کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنا دفاع نہیں کر سکتے، ہم پاکستان کیلئے ایک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی عظمت ہمیں اپنی جان سے زیادہ عزیز ہے، ہمارے فوجی ہمارے ماتھے کا جھومر ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ بحریہ ٹاون لاہور کی گرینڈ مسجد میں نماز جمعہ کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین پاکستان علماء کونسل حافظ طاہر اشرفی نے کہا ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ انصاف اور امن کی بات کی ہے، کسی بیگناہ انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلگام میں ہونیوالا واقعہ افسوسناک ہے، انڈیا نے بغیر کسی ثبوت پاکستان پر الزام لگانا شروع کر دیا، خدا نہ کرے ایسا ہو، لیکن اگر جنگ کی ضرورت پڑ گئی تو پورا پاکستان پاک افواج کیساتھ ہے۔ طاہر اشرفی نے کہا کہ ہم امن چاہتے ہیں مگر امن کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنا دفاع نہیں کر سکتے، ہم پاکستان کیلئے ایک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی عظمت ہمیں اپنی جان سے زیادہ عزیز ہے، ہمارے فوجی ہمارے ماتھے کا جھومر ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ہمارے 100 اندرونی معاملات ہوں گے مگر پاکستان کی سلامتی کے لیے پوری قوم ایک ہے:شیخ رشید
  • پاکستان لائف اسٹائل فرنیچر ایکسپو اسلام آباد میں میں جاری
  • جنگ مسلط کی گئی تو پوری قوم پاک فوج کیساتھ ہوگی، طاہر اشرفی
  • ‎اسلام آباد میں سفارتی محاذ گرم ، دفتر خارجہ میں ہنگامی بیٹھک‎ ،پاکستان نے بھارتی پروپیگنڈے کا پول غیر ملکی سفیروں کے سامنے کھول دیا
  • اب20 سال سے پرانی گاڑیاں موٹروے پر نہیں چلیں گی،ہمیں جانوں کی حفاظت کے لیے سخت فیصلے کرنا ہوں گے:عبدالعلیم خان
  • ’’ملیریا کو ختم کرنا ہے‘‘ قابلِ علاج بیماری کیخلاف جنگ کیلیے وزیراعظم کا پیغام
  • ملیریا کے عالمی دن پر وزیراعظم محمد شہباز شریف کا پیغام
  • پاکستان کے جواب سے بہت زیادہ مطمئن ہوں، مشاہد حسین
  • بھارت پاکستان کیساتھ روایتی جنگ کر سکتا ہے، فیصل محمد