Daily Ausaf:
2025-06-12@05:43:38 GMT

ٹرمپ کا بے سمت طرز حکمرانی

اشاعت کی تاریخ: 27th, April 2025 GMT

دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے صدر جب اپنے فیصلے کسی اصول، منصوبہ بندی یا عالمی تدبر کے بجائے ذاتی جبلت اور فوری مفادات کی بنیاد پر کرنے لگیں، تو اس کے اثرات صرف قومی نہیں، بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی گہرے اور سنگین ہو جاتے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت کو سمجھنے کے لیے اب مزید کسی قیاس آرائی کی ضرورت نہیں رہی، کیونکہ خود انہوں نے اعتراف کر لیا ہے کہ ان کے فیصلوں کی بنیاد کوئی مدبرانہ حکمت عملی نہیں بلکہ محض انسٹنکٹ یعنی فوری اندرونی جذبہ ہے۔ یہ اعتراف نہ صرف ان کے سابقہ طرز عمل کی تصدیق کرتا ہے بلکہ دنیا کو بھی متنبہ کرتا ہے کہ مستقبل میں بھی ایسے غیر متوقع فیصلوں کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ٹرمپ کی خارجہ پالیسی میں اگر کوئی مستقل عنصر ہے تو وہ ہے بےترتیبی، عدم تسلسل اور ذاتی مفاد کا غلبہ۔ چین کے ساتھ ان کے تعلقات اس رویے کی واضح مثال ہیں۔ ایک طرف وہ بیجنگ پر سخت معاشی پابندیاں لگانے کی دھمکیاں دیتے ہیں، تو دوسری طرف کبھی کبھار مثبت بیانات دے کر ماحول کو نرم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بعض مبصرین نے اسے نکسن کی دور اندیش ’’ریورس نکسن‘‘حکمت عملی کا عکس قرار دیا، مگر نکسن اور کسنجر نے جس منصوبہ بندی اور عالمی فہم کے ساتھ سفارتی چالیں چلی تھیں، ٹرمپ کے اقدامات میں اس کی کوئی جھلک نہیں ملتی۔اسی طرح بعض نے ٹرمپ کے غیر متوقع رویے کو نکسن کی ’’پاگل پن‘‘ حکمت عملی سے تشبیہ دی ہے، مگر وہ حکمت عملی مخصوص اور نازک مواقع پر استعمال کی جاتی تھی، جبکہ ٹرمپ کا رویہ عمومی بےسمتی اور غیر متوقع پن کا شکار ہے۔ درحقیقت ان کے فیصلے زیادہ ترداخلی سیاسی ضروریات ، ذاتی مفاد اورلمحاتی فائدے کے تابع ہوتے ہیں، نہ کہ کسی دیرپا قومی یا عالمی مفاد کے۔ ٹرمپ کو سمجھنے کے لیے ہمیں کسی پیچیدہ نظریے کی ضرورت نہیں۔ سب سے سادہ وضاحت سب سے درست ہوتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ٹرمپ محض ذاتی مفادات اور فوری سیاسی فائدے کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں۔ ان کے گزشتہ تیس سالہ عوامی کیریئر میں بھی کہیں کوئی گہری فکری سوچ یا عالمی وژن نہیں دکھائی دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ صدر بنے تو ان کے فیصلے اسی غیر منظم سوچ کا نتیجہ بنے۔ان کی پالیسیوں میں ایک چیز مستقل رہی ہے، محصولات (ٹیرف) کا استعمال۔ ٹرمپ نے 1980 کی دہائی سے ہی عالمی تجارتی نظام پر تنقید شروع کر دی تھی اور آج بھی وہ محصولات کو ایک دھمکی یا سودے بازی کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں، لیکن جہاں دنیا میں ٹیرف مخصوص قومی صنعتوں کو بچانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں، ٹرمپ کا استعمال زیادہ تر ذاتی سیاسی فائدے کےلیے ہوتا ہے۔ کسی بھی ملک یا کسی بھی مصنوعات پر اچانک محصولات لگا دینا اور پھر کچھ رعایت حاصل ہوتے ہی انہیں واپس لے لینا ان کے طرز عمل کی پہچان بن چکی ہے۔حالیہ برسوں میں، ٹرمپ نے کئی بار بڑے پیمانے پر محصولات عائد کیے اور پھر چند ہی دنوں میں انہیں واپس بھی لے لیا، محض اس لیے کہ وال اسٹریٹ میں شدید مندی یا عوامی ردعمل نے ان پر دباؤ ڈالا۔ چین اور یورپی یونین کی طرف سے جوابی اقدامات نے امریکی معیشت پر دباؤ بڑھایا، لیکن ٹرمپ کی بنیادی سوچ میں کوئی تبدیلی نہ آ سکی۔ ان کے نزدیک عالمی تجارت ایک گیم ہے، اگر کوئی دوسرا ملک فائدہ اٹھا رہا ہے تو لازمی طور پر امریکہ نقصان اٹھا رہا ہے۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ عالمی خوشحالی دراصل امریکہ کے اپنے مفاد میں رہی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے امریکہ نے جس لبرل عالمی تجارتی نظام کی قیادت کی، اس نے نہ صرف عالمی امن کو فروغ دیا بلکہ امریکی معیشت کو بے مثال فوائد پہنچائے۔ امریکی متوسط طبقے کی خوشحالی اور دنیا بھر میں امریکہ کی سافٹ پاور اسی نظام کی مرہون منت رہی ہے، مگر ٹرمپ کی سوچ محدود ہے۔ وہ عالمی معیشت کے پیچیدہ تانے بانے کو نہیں دیکھتے، بلکہ ہر تعلق کو ایک سادہ کاروباری سودا سمجھتے ہیں جس میں جیت یا ہار کا فوری تعین ہونا چاہیے۔ٹرمپ کا انداز، ان کی بے ربط گفتگو اور عالمی امور کی عدم تفہیم شیکسپیئر کے مشہور المیے ’’روزن کرانٹز اور گلڈنسٹرن‘‘ کی یاد دلاتی ہے، جنہیں ٹام اسٹوپارڈ نے اپنی شاہکار تصنیف میں جدید انسان کی بے یقینی اور بے سمتی کی علامت بنا دیا تھا۔ ٹرمپ بھی اسی طرح عالمی سیاست کے طوفانی دریا میں ایک بےخبر ملاح کی مانند بہتے چلے جا رہے ہیں، جنہیں نہ منزل کا پتا ہے اور نہ راستے کا۔اگر دنیا نے ٹرمپ کے طرز حکمرانی سے کوئی سبق سیکھا ہے تو وہ یہی ہے کہ قیادت کے لیے صرف عوامی مقبولیت یا جارحانہ لب و لہجہ کافی نہیں ہوتا۔ قیادت کے لیے طویل مدتی وژن، مستقل مزاجی اور عالمی حقیقتوں کا ادراک ضروری ہے۔ جب سربراہان مملکت صرف ذاتی فائدے، انتخابی سیاست یا وقتی شہرت کے اسیر ہو جائیں، تو پوری دنیا عدم استحکام، اقتصادی بحرانوں اور سفارتی تنازعات کا شکار ہو جاتی ہے۔آج عالمی برادری کو سنجیدگی سے یہ سوچنا ہوگا کہ موجودہ بین الاقوامی نظام کو ایسے غیر سنجیدہ عناصر سے کیسے محفوظ رکھا جائے۔ ٹرمپ جیسے رہنماؤں کی موجودگی میں عالمی تجارت، ماحولیاتی تحفظ، انسانی حقوق اور جمہوری اقدار کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں، لہٰذا آنے والے وقتوں میں یہ عالمی ذمہ داری ہونی چاہیے کہ قیادت میں فکری بلوغت، دور اندیشی اور بین الاقوامی اصولوں کی پاسداری کو اولین ترجیح دی جائے۔اگر ہم نے اب بھی سبق نہ سیکھا تو مستقبل کی دنیا مزید غیر مستحکم، متضاد اور خطرناک ہو سکتی ہے۔ ایک ایسی دنیا جس میں نہ قانون کی حکمرانی ہو گی اور نہ ہی عالمی امن کی کوئی ضمانت۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: حکمت عملی ٹرمپ کی ٹرمپ کا کے لیے

پڑھیں:

سابق اسرائیلی وزیرِاعظم کی نیتن یاہو پر شدید تنقید، ٹرمپ سے سمجھانے کی اپیل

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

غزہ میں جاری اسرائیلی فوجی جارحیت کے نتیجے میں بڑھتے ہوئے انسانی بحران اور عالمی سطح پر اسرائیل کو درپیش تنہائی کے پیش نظر صہیونی ریاست کے سابق وزیراعظم ایہود اولمرٹ نے موجودہ وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو اور ان کی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

ایہود اولمرٹ نے عالمی برادری کو درپیش سنگین مسئلے کے حل کے لیے دو ریاستی حل پر زور دیا اور غزہ میں جنگ کو جاری رکھنے کو ایک ’جرم‘ قرار دیا۔ ان کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب نیتن یاہو کی حکومت اندرونی و بیرونی سطح پر شدید دباؤ کا شکار ہے۔

عالمی خبر رساں اداروں کے مطابق ایہود اولمرٹ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے براہ راست اپیل کی کہ وہ نیتن یاہو کو اپنے آفس بلائیں اور میڈیا کے سامنے انہیں واضح الفاظ میں کہیں کہ اب بہت ہو چکا ہے، ختم کرو یہ سب۔

یہ مطالبہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اسرائیل کے اندر بھی جنگ کے جاری رہنے پر گہری تشویش پائی جاتی ہے۔اولمرٹ کا یہ بیان جو ایک سابق سربراہ حکومت کی حیثیت سے سامنے آیا ہے، نیتن یاہو کے لیے ایک بڑا سیاسی دھچکا سمجھا جا رہا ہے۔

سابق وزیراعظم ایہود اولمرٹ نے نیتن یاہو کو 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے کو روکنے میں ناکامی کا ذمے دار ٹھہرایا۔ انہوں نے زور دیا کہ ایک وزیرِاعظم کی حیثیت سے نیتن یاہو کی بنیادی ذمہ داری اپنے شہریوں کا تحفظ یقینی بنانا تھی، جس میں وہ ناکام رہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس حملے کے بعد عالمی برادری نے ابتدا میں اسرائیل کے حقِ دفاع کو تسلیم کیا اور اس کی حمایت کی، لیکن صورتحال اس وقت پلٹ گئی جب نیتن یاہو نے جنگ بندی ختم کر کے فوجی کارروائیوں میں بے پناہ اضافہ کر دیا۔ اس اقدام کے نتیجے میں غزہ میں بڑے پیمانے پر تباہی اور انسانی جانوں کا ضیاع ہوا، جس سے عالمی رائے عامہ اسرائیل کے خلاف ہو گئی اور اب دنیا کے بیشتر ممالک اسرائیل کے اس اقدام پر تنقید کر رہے ہیں۔

اولمرٹ کے مطابق نیتن یاہو نے اپنی ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دی، جس کا خمیازہ اسرائیل کو دنیا میں تنہا ہو کر بھگتنا پڑ رہا ہے۔ یہ ایک سنگین الزام ہے جو نیتن یاہو کے سیاسی مستقبل پر مزید سوالات کھڑے کرتا ہے۔ نیتن یاہو پر یہ بھی الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں کے دباؤ میں ہیں اور انہیں خدشہ ہے کہ اگر جنگ روک دی گئی تو ان کے اتحادی حکومت سے نکل جائیں گے، جس کے نتیجے میں دوبارہ الیکشن کرانا پڑیں گے۔

سابق وزیراعظم نے پیش گوئی کی کہ ایسے کسی بھی الیکشن میں نیتن یاہو کی شکست واضح ہو گی۔ یہ سیاسی تجزیہ اسرائیل کی موجودہ حکومت کے اندرونی ڈھانچے اور نیتن یاہو کی قیادت کو درپیش چیلنجز کو واضح کرتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • 60 کی دہائی کے عالمی شہرت یافتہ امریکی بینڈ کے بانی چل بسے
  • ٹرمپ کے صدر بننے کے بعدامریکا کی عالمی سطح پر ساخت متاثر
  • امریکاچین تجارتی معاہدہ، عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت 2ماہ کی بلندترین سطح پر پہنچ گئی
  • اسلام دنیا کا تیزی سے پھیلتا مذہب، عیسائیت پیچھے، امریکی تھنک ٹینک
  •  بھارتی اقدامات خطے، عالمی امن، سلامتی کیلئے خطرناک، دنیا جوابدہی کرے: بلاول
  • سمندر سے معدنیا ت نکالنے کیلیے عالمی قوانین بنانے کا مطالبہ
  • سابق اسرائیلی وزیرِاعظم کی نیتن یاہو پر شدید تنقید، ٹرمپ سے سمجھانے کی اپیل
  • غزہ کیلئے سویڈن کی امدادی کشتی انسانیت کا روشن استعارہ ہے، علامہ مقصود ڈومکی
  • مقبول ترین اسمارٹ فونز کی فہرست میں سام سنگ کی حکمرانی برقرار
  • ٹرمپ سے جھگڑا: ایلون مسک کو صرف ایک دن میں 27 ارب ڈالر کا جھٹکا