ٹرمپ کا بے سمت طرز حکمرانی
اشاعت کی تاریخ: 27th, April 2025 GMT
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے صدر جب اپنے فیصلے کسی اصول، منصوبہ بندی یا عالمی تدبر کے بجائے ذاتی جبلت اور فوری مفادات کی بنیاد پر کرنے لگیں، تو اس کے اثرات صرف قومی نہیں، بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی گہرے اور سنگین ہو جاتے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت کو سمجھنے کے لیے اب مزید کسی قیاس آرائی کی ضرورت نہیں رہی، کیونکہ خود انہوں نے اعتراف کر لیا ہے کہ ان کے فیصلوں کی بنیاد کوئی مدبرانہ حکمت عملی نہیں بلکہ محض انسٹنکٹ یعنی فوری اندرونی جذبہ ہے۔ یہ اعتراف نہ صرف ان کے سابقہ طرز عمل کی تصدیق کرتا ہے بلکہ دنیا کو بھی متنبہ کرتا ہے کہ مستقبل میں بھی ایسے غیر متوقع فیصلوں کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ٹرمپ کی خارجہ پالیسی میں اگر کوئی مستقل عنصر ہے تو وہ ہے بےترتیبی، عدم تسلسل اور ذاتی مفاد کا غلبہ۔ چین کے ساتھ ان کے تعلقات اس رویے کی واضح مثال ہیں۔ ایک طرف وہ بیجنگ پر سخت معاشی پابندیاں لگانے کی دھمکیاں دیتے ہیں، تو دوسری طرف کبھی کبھار مثبت بیانات دے کر ماحول کو نرم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بعض مبصرین نے اسے نکسن کی دور اندیش ’’ریورس نکسن‘‘حکمت عملی کا عکس قرار دیا، مگر نکسن اور کسنجر نے جس منصوبہ بندی اور عالمی فہم کے ساتھ سفارتی چالیں چلی تھیں، ٹرمپ کے اقدامات میں اس کی کوئی جھلک نہیں ملتی۔اسی طرح بعض نے ٹرمپ کے غیر متوقع رویے کو نکسن کی ’’پاگل پن‘‘ حکمت عملی سے تشبیہ دی ہے، مگر وہ حکمت عملی مخصوص اور نازک مواقع پر استعمال کی جاتی تھی، جبکہ ٹرمپ کا رویہ عمومی بےسمتی اور غیر متوقع پن کا شکار ہے۔ درحقیقت ان کے فیصلے زیادہ ترداخلی سیاسی ضروریات ، ذاتی مفاد اورلمحاتی فائدے کے تابع ہوتے ہیں، نہ کہ کسی دیرپا قومی یا عالمی مفاد کے۔ ٹرمپ کو سمجھنے کے لیے ہمیں کسی پیچیدہ نظریے کی ضرورت نہیں۔ سب سے سادہ وضاحت سب سے درست ہوتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ٹرمپ محض ذاتی مفادات اور فوری سیاسی فائدے کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں۔ ان کے گزشتہ تیس سالہ عوامی کیریئر میں بھی کہیں کوئی گہری فکری سوچ یا عالمی وژن نہیں دکھائی دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ صدر بنے تو ان کے فیصلے اسی غیر منظم سوچ کا نتیجہ بنے۔ان کی پالیسیوں میں ایک چیز مستقل رہی ہے، محصولات (ٹیرف) کا استعمال۔ ٹرمپ نے 1980 کی دہائی سے ہی عالمی تجارتی نظام پر تنقید شروع کر دی تھی اور آج بھی وہ محصولات کو ایک دھمکی یا سودے بازی کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں، لیکن جہاں دنیا میں ٹیرف مخصوص قومی صنعتوں کو بچانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں، ٹرمپ کا استعمال زیادہ تر ذاتی سیاسی فائدے کےلیے ہوتا ہے۔ کسی بھی ملک یا کسی بھی مصنوعات پر اچانک محصولات لگا دینا اور پھر کچھ رعایت حاصل ہوتے ہی انہیں واپس لے لینا ان کے طرز عمل کی پہچان بن چکی ہے۔حالیہ برسوں میں، ٹرمپ نے کئی بار بڑے پیمانے پر محصولات عائد کیے اور پھر چند ہی دنوں میں انہیں واپس بھی لے لیا، محض اس لیے کہ وال اسٹریٹ میں شدید مندی یا عوامی ردعمل نے ان پر دباؤ ڈالا۔ چین اور یورپی یونین کی طرف سے جوابی اقدامات نے امریکی معیشت پر دباؤ بڑھایا، لیکن ٹرمپ کی بنیادی سوچ میں کوئی تبدیلی نہ آ سکی۔ ان کے نزدیک عالمی تجارت ایک گیم ہے، اگر کوئی دوسرا ملک فائدہ اٹھا رہا ہے تو لازمی طور پر امریکہ نقصان اٹھا رہا ہے۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ عالمی خوشحالی دراصل امریکہ کے اپنے مفاد میں رہی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے امریکہ نے جس لبرل عالمی تجارتی نظام کی قیادت کی، اس نے نہ صرف عالمی امن کو فروغ دیا بلکہ امریکی معیشت کو بے مثال فوائد پہنچائے۔ امریکی متوسط طبقے کی خوشحالی اور دنیا بھر میں امریکہ کی سافٹ پاور اسی نظام کی مرہون منت رہی ہے، مگر ٹرمپ کی سوچ محدود ہے۔ وہ عالمی معیشت کے پیچیدہ تانے بانے کو نہیں دیکھتے، بلکہ ہر تعلق کو ایک سادہ کاروباری سودا سمجھتے ہیں جس میں جیت یا ہار کا فوری تعین ہونا چاہیے۔ٹرمپ کا انداز، ان کی بے ربط گفتگو اور عالمی امور کی عدم تفہیم شیکسپیئر کے مشہور المیے ’’روزن کرانٹز اور گلڈنسٹرن‘‘ کی یاد دلاتی ہے، جنہیں ٹام اسٹوپارڈ نے اپنی شاہکار تصنیف میں جدید انسان کی بے یقینی اور بے سمتی کی علامت بنا دیا تھا۔ ٹرمپ بھی اسی طرح عالمی سیاست کے طوفانی دریا میں ایک بےخبر ملاح کی مانند بہتے چلے جا رہے ہیں، جنہیں نہ منزل کا پتا ہے اور نہ راستے کا۔اگر دنیا نے ٹرمپ کے طرز حکمرانی سے کوئی سبق سیکھا ہے تو وہ یہی ہے کہ قیادت کے لیے صرف عوامی مقبولیت یا جارحانہ لب و لہجہ کافی نہیں ہوتا۔ قیادت کے لیے طویل مدتی وژن، مستقل مزاجی اور عالمی حقیقتوں کا ادراک ضروری ہے۔ جب سربراہان مملکت صرف ذاتی فائدے، انتخابی سیاست یا وقتی شہرت کے اسیر ہو جائیں، تو پوری دنیا عدم استحکام، اقتصادی بحرانوں اور سفارتی تنازعات کا شکار ہو جاتی ہے۔آج عالمی برادری کو سنجیدگی سے یہ سوچنا ہوگا کہ موجودہ بین الاقوامی نظام کو ایسے غیر سنجیدہ عناصر سے کیسے محفوظ رکھا جائے۔ ٹرمپ جیسے رہنماؤں کی موجودگی میں عالمی تجارت، ماحولیاتی تحفظ، انسانی حقوق اور جمہوری اقدار کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں، لہٰذا آنے والے وقتوں میں یہ عالمی ذمہ داری ہونی چاہیے کہ قیادت میں فکری بلوغت، دور اندیشی اور بین الاقوامی اصولوں کی پاسداری کو اولین ترجیح دی جائے۔اگر ہم نے اب بھی سبق نہ سیکھا تو مستقبل کی دنیا مزید غیر مستحکم، متضاد اور خطرناک ہو سکتی ہے۔ ایک ایسی دنیا جس میں نہ قانون کی حکمرانی ہو گی اور نہ ہی عالمی امن کی کوئی ضمانت۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: حکمت عملی ٹرمپ کی ٹرمپ کا کے لیے
پڑھیں:
نومبر، انقلاب کا مہینہ
نومبر کی شامیں جب دھیرے دھیرے اُترتی ہیں تو یورپ کے شمال میں سرد ہوا کے جھونکے صرف پتوں کو ہی نہیں، تاریخ کے اوراق کو بھی ہلا دیتے ہیں۔ 1917 نومبر میں جب پیٹرو گراڈ کی سڑکوں پر مزدوروں، کسانوں سپاہیوں اور طلبہ کے نعرے گونج رہے تھے۔
یہ وہ وقت تھا جب دنیا کی تاریخ ایک نئے موڑ پر آ کر ٹھہری۔ روس کے عوام نے صدیوں پر محیط ظلم جاگیرداری اور سامراجی جکڑ سے نکلنے کے لیے ہاتھوں میں سرخ پرچم تھام لیا۔ دنیا نے پہلی بار دیکھا کہ اقتدار محلات سے نکل کر کارخانوں اورکھیتوں کے بیٹے، بیٹیوں کے ہاتھ میں آیا۔
اکتوبر انقلاب جو ہمارے کیلنڈر میں نومبر میں آیا، صرف ایک سیاسی تبدیلی نہیں تھی، یہ انسان کی برابری، آزادی اور عزتِ نفس کے خواب کی تعبیر تھی۔
لینن اور ان کے رفقا نے جو راہ دکھائی وہ صرف روس کے لیے نہیں تھی۔ وہ ایک ایسی چنگاری تھی جس نے ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا تک کے محکوم دلوں میں اُمیدکے چراغ روشن کیے۔
اس انقلاب نے بتایا کہ تاریخ کے پہیے کو صرف طاقتور نہیں گھماتے، کبھی کبھی محروم مزدور اور مفلس بھی اُٹھ کر دنیا کا نقشہ بدل دیتے ہیں۔ اکتوبر انقلاب نے دنیا کو یہ سکھایا کہ کوئی سماج اس وقت تک آزاد نہیں ہو سکتا جب تک اس کے مزدور اورکسان زنجیروں میں جکڑے ہوں۔ مگر ہر انقلاب کے بعد وقت کی گرد بیٹھتی ہے۔
خوابوں کی روشنی مدھم پڑ جاتی ہے اور نئے تضادات جنم لیتے ہیں۔ سوویت یونین کے انہدام کے ساتھ یہ سوال بھی ابھرا کہ کیا انقلاب محض ایک رومانی تصور تھا یا تاریخ کا ایسا موڑ جس نے انسان کو وقتی طور پر یقین دلایا کہ وہ اپنی تقدیر خود لکھ سکتا ہے؟
نومبرکی یاد ہمیں یہ سوچنے پر مجبورکرتی ہے کہ انقلاب محض بندوقوں یا قلعوں کی فتح نہیں ہوتا بلکہ ذہنوں اور دلوں کی آزادی کا نام ہے۔ وہ سماج جو اپنے فکری اور اخلاقی سانچوں کو بدلنے سے گریزکرے، وہ انقلاب کے قابل نہیں ہوتا۔
روس نے یہ جرات کی اس نے بتوں کو توڑا، بادشاہت کو ختم کیا اور محنت کش انسان کو تاریخ کے مرکز میں لا کھڑا کیا۔ مگر جب ہم اس روشنی کو اپنے وطن پاکستان کے تناظر میں دیکھتے ہیں تو دل کسی اداس شام کی طرح بھاری ہو جاتا ہے۔
یہاں مزدور اب بھی اپنی مزدوری کے لیے ترستا ہے، کسان اب بھی زمین کا بوجھ اُٹھائے فاقہ کرتا ہے اور تعلیم یافتہ نوجوان بے روزگاری کے اندھیروں میں بھٹکتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی انقلاب کے نعرے گونجے۔ ہماری زمین پر جنم لینے والی ترقی پسند تحریکیں چاہے، وہ مزدور تحریک ہو، کسان کمیٹی ہو یا طلبہ کی جدوجہد سب کسی نہ کسی موڑ پر ریاستی جبر، نظریاتی تقسیم اور مایوسی کا شکار ہوئیں۔
ایک زمانہ تھا جب کراچی کی فیکٹریوں سے لے کر پنجاب کے کھیتوں تک سرخ جھنڈا ہوا میں لہرا کرکہتا تھا کہ ’’ دنیا بھر کے مزدور ایک ہو جاؤ‘‘ مگرآج وہ آواز مدھم ہے، نہ وہ جلسے رہے نہ وہ عزم، شاید اس لیے کہ ہماری سیاست نے نظریے کو نکال پھینکا اور موقع پرستی کو گلے لگا لیا۔
جو لوگ مزدوروں کے حق کی بات کرتے تھے، وہ خود سرمایہ داروں کے دربار میں جا بیٹھے، جو قلم عوام کی جدوجہد کا ہتھیار تھا، وہ اب اشتہار کا آلہ بن گیا ہے۔ پاکستان میں انقلابی جدوجہد کی کمزوری دراصل ہمارے اجتماعی احساسِ زیاں کی علامت ہے۔
ہم نے خواب دیکھنے چھوڑ دیے ہیں، وہ نسلیں جو کبھی لینن چی گویرا یا فیض کے الفاظ سے آگ پاتی تھیں، آج کسی موبائل اسکرین پر عارضی غم اور مصنوعی خوشی کی پناہ ڈھونڈتی ہیں۔ یہ وہ خلا ہے جو صرف فکر سے یقین سے اور اجتماعی جدوجہد سے پُر ہو سکتا ہے۔
نومبرکا مہینہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ انقلاب ایک دن میں نہیں آتا۔ وہ برسوں کے صبر، قربانی اور شعور سے جنم لیتا ہے۔ روس کے مزدور اگر محض اپنی بھوک کے خلاف اُٹھتے تو شاید تاریخ نہ بدلتی۔ مگر انھوں نے صرف روٹی نہیں، عزت، علم اور انصاف کا مطالبہ کیا۔
یہی مطالبہ آج بھی زندہ ہے ماسکو سے کراچی تک انسان کے دل میں۔ ہمیں یہ مان لینا چاہیے کہ انقلاب کا خواب اگر دھندلا بھی جائے تو اس کی چنگاری باقی رہتی ہے۔ وہ چنگاری جو کسی طالب علم کے ذہن میں سوال بن کر جنم لیتی ہے، کسی مزدورکے نعرے میں صدا بن کر گونجتی ہے یا کسی ادیب کے قلم میں احتجاج بن کر ڈھلتی ہے، یہی چنگاری آنے والے کل کی روشنی ہے۔
یہ مہینہ ہمیں یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ ہر وہ سماج جو ظلم اور نابرابری کو معمول سمجھ لے وہ اپنے زوال کی طرف بڑھ رہا ہوتا ہے، اگر روس کے عوام اپنی خاموشی توڑ سکتے تھے تو ہم کیوں نہیں؟ ہم کیوں اپنی تقدیر کے فیصلے چند طاقتور ہاتھوں میں چھوڑ دیتے ہیں؟
شاید اس لیے کہ ہم نے انقلاب کو صرف کتابوں میں پڑھا زندگی میں نہیں جیا۔وقت گزر چکا مگر تاریخ کے اوراق کبھی بند نہیں ہوتے۔ شاید کسی اور نومبر میں کسی اور زمین پر نئی نسل پھر سے وہی سرخ پرچم اُٹھائے اورکہے ہم اس دنیا کو بدلیں گے اور جب وہ دن آئے گا تو ماسکو سے کراچی تک ہر انقلابی روح ایک لمحے کے لیے مسکرائے گی۔
آج کے عہد میں جب دنیا ایک بار پھر معاشی ناہمواری، ماحولیاتی تباہی اور جنگوں کی لپیٹ میں ہے تو اکتوبر انقلاب کی گونج نئے سوال اٹھاتی ہے۔ کیا انسان پھر سے وہی جرات کرسکتا ہے کیا طاقتورکے خلاف کھڑے ہوکر نظام کو بدلنے کا خواب دیکھا جاسکتا ہے؟
شاید یہی سوال نومبر کی ہوا میں بسا ہوا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ سرمایہ داری کے بت پہلے سے زیادہ مضبوط ہیں مگر ساتھ ہی دنیا کے ہر گوشے میں کوئی نہ کوئی مزدور طالب علم یا ادیب اب بھی انصاف اور برابری کے خواب کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔
وہ شاید تھکے ہوئے ہیں مگر ہارے نہیں۔ شاید آنے والے برسوں میں یہ بکھری ہوئی چنگاریاں مل کر پھر سے ایک روشنی بن جائے۔