Daily Ausaf:
2025-04-27@18:18:51 GMT

ٹرمپ کا بے سمت طرز حکمرانی

اشاعت کی تاریخ: 27th, April 2025 GMT

دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے صدر جب اپنے فیصلے کسی اصول، منصوبہ بندی یا عالمی تدبر کے بجائے ذاتی جبلت اور فوری مفادات کی بنیاد پر کرنے لگیں، تو اس کے اثرات صرف قومی نہیں، بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی گہرے اور سنگین ہو جاتے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت کو سمجھنے کے لیے اب مزید کسی قیاس آرائی کی ضرورت نہیں رہی، کیونکہ خود انہوں نے اعتراف کر لیا ہے کہ ان کے فیصلوں کی بنیاد کوئی مدبرانہ حکمت عملی نہیں بلکہ محض انسٹنکٹ یعنی فوری اندرونی جذبہ ہے۔ یہ اعتراف نہ صرف ان کے سابقہ طرز عمل کی تصدیق کرتا ہے بلکہ دنیا کو بھی متنبہ کرتا ہے کہ مستقبل میں بھی ایسے غیر متوقع فیصلوں کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ٹرمپ کی خارجہ پالیسی میں اگر کوئی مستقل عنصر ہے تو وہ ہے بےترتیبی، عدم تسلسل اور ذاتی مفاد کا غلبہ۔ چین کے ساتھ ان کے تعلقات اس رویے کی واضح مثال ہیں۔ ایک طرف وہ بیجنگ پر سخت معاشی پابندیاں لگانے کی دھمکیاں دیتے ہیں، تو دوسری طرف کبھی کبھار مثبت بیانات دے کر ماحول کو نرم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بعض مبصرین نے اسے نکسن کی دور اندیش ’’ریورس نکسن‘‘حکمت عملی کا عکس قرار دیا، مگر نکسن اور کسنجر نے جس منصوبہ بندی اور عالمی فہم کے ساتھ سفارتی چالیں چلی تھیں، ٹرمپ کے اقدامات میں اس کی کوئی جھلک نہیں ملتی۔اسی طرح بعض نے ٹرمپ کے غیر متوقع رویے کو نکسن کی ’’پاگل پن‘‘ حکمت عملی سے تشبیہ دی ہے، مگر وہ حکمت عملی مخصوص اور نازک مواقع پر استعمال کی جاتی تھی، جبکہ ٹرمپ کا رویہ عمومی بےسمتی اور غیر متوقع پن کا شکار ہے۔ درحقیقت ان کے فیصلے زیادہ ترداخلی سیاسی ضروریات ، ذاتی مفاد اورلمحاتی فائدے کے تابع ہوتے ہیں، نہ کہ کسی دیرپا قومی یا عالمی مفاد کے۔ ٹرمپ کو سمجھنے کے لیے ہمیں کسی پیچیدہ نظریے کی ضرورت نہیں۔ سب سے سادہ وضاحت سب سے درست ہوتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ٹرمپ محض ذاتی مفادات اور فوری سیاسی فائدے کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں۔ ان کے گزشتہ تیس سالہ عوامی کیریئر میں بھی کہیں کوئی گہری فکری سوچ یا عالمی وژن نہیں دکھائی دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ صدر بنے تو ان کے فیصلے اسی غیر منظم سوچ کا نتیجہ بنے۔ان کی پالیسیوں میں ایک چیز مستقل رہی ہے، محصولات (ٹیرف) کا استعمال۔ ٹرمپ نے 1980 کی دہائی سے ہی عالمی تجارتی نظام پر تنقید شروع کر دی تھی اور آج بھی وہ محصولات کو ایک دھمکی یا سودے بازی کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں، لیکن جہاں دنیا میں ٹیرف مخصوص قومی صنعتوں کو بچانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں، ٹرمپ کا استعمال زیادہ تر ذاتی سیاسی فائدے کےلیے ہوتا ہے۔ کسی بھی ملک یا کسی بھی مصنوعات پر اچانک محصولات لگا دینا اور پھر کچھ رعایت حاصل ہوتے ہی انہیں واپس لے لینا ان کے طرز عمل کی پہچان بن چکی ہے۔حالیہ برسوں میں، ٹرمپ نے کئی بار بڑے پیمانے پر محصولات عائد کیے اور پھر چند ہی دنوں میں انہیں واپس بھی لے لیا، محض اس لیے کہ وال اسٹریٹ میں شدید مندی یا عوامی ردعمل نے ان پر دباؤ ڈالا۔ چین اور یورپی یونین کی طرف سے جوابی اقدامات نے امریکی معیشت پر دباؤ بڑھایا، لیکن ٹرمپ کی بنیادی سوچ میں کوئی تبدیلی نہ آ سکی۔ ان کے نزدیک عالمی تجارت ایک گیم ہے، اگر کوئی دوسرا ملک فائدہ اٹھا رہا ہے تو لازمی طور پر امریکہ نقصان اٹھا رہا ہے۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ عالمی خوشحالی دراصل امریکہ کے اپنے مفاد میں رہی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے امریکہ نے جس لبرل عالمی تجارتی نظام کی قیادت کی، اس نے نہ صرف عالمی امن کو فروغ دیا بلکہ امریکی معیشت کو بے مثال فوائد پہنچائے۔ امریکی متوسط طبقے کی خوشحالی اور دنیا بھر میں امریکہ کی سافٹ پاور اسی نظام کی مرہون منت رہی ہے، مگر ٹرمپ کی سوچ محدود ہے۔ وہ عالمی معیشت کے پیچیدہ تانے بانے کو نہیں دیکھتے، بلکہ ہر تعلق کو ایک سادہ کاروباری سودا سمجھتے ہیں جس میں جیت یا ہار کا فوری تعین ہونا چاہیے۔ٹرمپ کا انداز، ان کی بے ربط گفتگو اور عالمی امور کی عدم تفہیم شیکسپیئر کے مشہور المیے ’’روزن کرانٹز اور گلڈنسٹرن‘‘ کی یاد دلاتی ہے، جنہیں ٹام اسٹوپارڈ نے اپنی شاہکار تصنیف میں جدید انسان کی بے یقینی اور بے سمتی کی علامت بنا دیا تھا۔ ٹرمپ بھی اسی طرح عالمی سیاست کے طوفانی دریا میں ایک بےخبر ملاح کی مانند بہتے چلے جا رہے ہیں، جنہیں نہ منزل کا پتا ہے اور نہ راستے کا۔اگر دنیا نے ٹرمپ کے طرز حکمرانی سے کوئی سبق سیکھا ہے تو وہ یہی ہے کہ قیادت کے لیے صرف عوامی مقبولیت یا جارحانہ لب و لہجہ کافی نہیں ہوتا۔ قیادت کے لیے طویل مدتی وژن، مستقل مزاجی اور عالمی حقیقتوں کا ادراک ضروری ہے۔ جب سربراہان مملکت صرف ذاتی فائدے، انتخابی سیاست یا وقتی شہرت کے اسیر ہو جائیں، تو پوری دنیا عدم استحکام، اقتصادی بحرانوں اور سفارتی تنازعات کا شکار ہو جاتی ہے۔آج عالمی برادری کو سنجیدگی سے یہ سوچنا ہوگا کہ موجودہ بین الاقوامی نظام کو ایسے غیر سنجیدہ عناصر سے کیسے محفوظ رکھا جائے۔ ٹرمپ جیسے رہنماؤں کی موجودگی میں عالمی تجارت، ماحولیاتی تحفظ، انسانی حقوق اور جمہوری اقدار کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں، لہٰذا آنے والے وقتوں میں یہ عالمی ذمہ داری ہونی چاہیے کہ قیادت میں فکری بلوغت، دور اندیشی اور بین الاقوامی اصولوں کی پاسداری کو اولین ترجیح دی جائے۔اگر ہم نے اب بھی سبق نہ سیکھا تو مستقبل کی دنیا مزید غیر مستحکم، متضاد اور خطرناک ہو سکتی ہے۔ ایک ایسی دنیا جس میں نہ قانون کی حکمرانی ہو گی اور نہ ہی عالمی امن کی کوئی ضمانت۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: حکمت عملی ٹرمپ کی ٹرمپ کا کے لیے

پڑھیں:

بھارت پہلگام واقعہ کا بے بنیاد الزام پاکستان پر لگا رہا ہے، انوارالحق کاکڑ

بھارت پہلگام واقعہ کا بے بنیاد الزام پاکستان پر لگا رہا ہے، انوارالحق کاکڑ WhatsAppFacebookTwitter 0 26 April, 2025 سب نیوز

اسلام آباد (سب نیوز )سابق نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہیکہ پاک بھارت حالات کشیدہ چل رہے ہیں، بھارت ایک ایجنڈے کے تحت پاکستان پر الزام تراشی کرتا رہا ہے، جو واقع پیش آیا پاکستان کبھی کسی دہشتگردی کے واقعے کو سپورٹ نہیں کرتا، اگر کہیں تخریب کاری ہوئی ہیتو بھارت خود پر اور آپ اپنے رونے پر غور کریں، پاکستانی اپنے فوج کے پیچھے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئیسابق نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ جنگ کے متعلق کیسی باتیں کر رہے ہیں، کیا بتاتے ہیں کہ ہم نے دو ہتھیار بنا لیے تو دنیا کو دکھائیں، آپ اس سب سے منہ چھپاتے پھریں گے، بھارت کی جانب سے جو الزام لگایا جا رہا ہے جلد حقیقت سامنے آ جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے کبھی بھارت سے پہلے دراندازی نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کو بھارت کا حصہ ہی نہیں سمجھتا۔انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ 70 سالا تاریخ میں کبھی ثبوت نہیں ملے کہ پاکستان دہشتگردی کی ہو ، ہمیشہ سے ہی دہشتگردی بھارت نے ہی کی جس کے ثبوت موجود ہیں، ہمیشہ ہندوستان دہشتگردی کر کے کھلم کھلا کریڈٹ لیتا ہے، بلوچستان میں دہشتگردی میں بھارت ملوث ہے۔انہوں نے کہا کہ ساتھ ایشیا میں جنگی اور ہجانی سی کیفیت چل رہی ہے، لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، بھارت کی مہم جوئی کی سی کیفیت لگ رہی ہے، ایسی بیحودگی جس کا الزام پاکستان پر لگ رہا ہے ہم مسترد کرتے ہیں۔

انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ پاکستان کی پوزیشن کشمیر پر پرنسپل پوزیشن ہے، کشمیر کو پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہیے، یہ مسئلہ شروع سے کلیئر ہے، یہ ایک disputed ٹیرٹری ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں اور پاکستان کی پوری قوم کلئیر ہے کہ یہ ہم پر الزام ہے، بھارت کے ارادے نیک نہیں ہیں، بنگلادیش میں بھارت کو شدید ناکامی ہوئی ہے۔

سابق نگراں وزیر اعظم نے مزید کہا کہ ہمارے دو صوبوں میں دہشتگرد کے جو حالات تھے اس سے لگتا ہے انڈیا نے کچھ سوچا ہو ، یہ انکا خواب ہے جسکی کوئی تعبیر نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کبھی بھی بھارت کا حصہ نہیں تھا اور نہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت نے پاکستان کو دولخت کرنے میں کھلم کھلا کردار ادا کیا گیا، میرے صوبہ بلوچستان میں بھی شواہد موجود ہیں، انکی تخریب کاری کے شواہد موجود ہیں، انکے وزیر اعظم کہتے ہیں بلوچستان سے اور گلگت سے لوگ مجھے آوازیں دے رہے ہیں، پاکستان کی ترقی روز اول سے ان سے برداشت نہیں ہو رہی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی ریاست دوسروں کے معاملات میں بولنے کی عادت نہیں رکھتی ، ہمسائے کے طور پر ہم خوش ہیں کہ کوئی ترقی کرتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پوری دنیا کہے کہ کینیڈا اور امریکہ کا الزام غلط ہے کہ انڈیا نے مداخلت کی، دنیا کہے کہ کینیڈا اتھارٹی نے جھوٹ بولا،امریکی اتھارٹی نے جھوٹ بولا۔ کل فلور آف دی ہاس پر سب نے دیکھا سب یک زبان تھے، انوارالحق کاکر نے کہا کہ بھارتی میڈیا پراپگنڈا کرتا ہے ، پہلگام کا واقع کتنے فاصلے پر ہوا ،آپ مسلمانوں کو ہندوستانی بنانے چلے ہیں، اگر کہیں تخریب کاری ہوئی ہے تو خود پر غور کریں، آپ اپنے رونے پر غور کریں ،پوری دنیا میں یہ منفی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں ،اتنی منفی کردار سے یہ ایکسپوز ہو جائیں گے ،ہندوتوا براہمن فلاسفی سے پوری دنیا متاثر ہو رہی ہے ،پوری دنیا کے معاشروں پر انکی حقیقت عیاں ہوگی۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبروزیرخزانہ کی امریکی سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے ایگزم بینک کی معاونت بڑھانے پر زور وزیرخزانہ کی امریکی سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے ایگزم بینک کی معاونت بڑھانے پر زور ایران کی پاک بھارت کشیدگی میں کمی کیلئے ثالثی کی پیشکش مسلم لیگ(ن) کی صوبائی حکومت پھر اوچھے ہتھکنڈوں پر اترا آئی ہے، رہنما پی پی پی چیئرمین سی ڈی اے محمد علی رندھاوا کا مختلف ہفتہ وار بازاروں کا دورہ جعفرآباد اور پہلگام واقعے کی تحقیقات ضروری،مشترکہ کمیشن تشکیل دیا جائے،وزیر داخلہ عمران خان پر حملہ کرنے والے ملزم کو عمر قید کی سزا سنادی گئی TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • عالمی میڈیا نے پہلگام فالس فلیگ آپریشن کو کوئی خاص کوریج نہیں دی
  • معرکۂ فلسطین کی معروضی صورتحال پر ایک نظر
  • ڈونلڈ ٹرمپ کاپاک بھارت کشیدگی پرمحتاط تبصرہ
  • قوم کو وژن چاہیے
  • بھارت پہلگام واقعہ کا بے بنیاد الزام پاکستان پر لگا رہا ہے، انوارالحق کاکڑ
  • کوئی ہمارے گھر پر حملہ آور ہوگا تو ہم سب یک جان یک زبان ہیں؛ انوار الحق کاکڑ
  • پوپ فرانسس کی آخری رسومات جاری، عالمی رہنماؤں سمیت ہزاروں افراد کی شرکت
  • عالمی تہذیبی جنگ اور ہمارے محاذ
  • کیا ٹرمپ 2028 میں بھی صدارتی الیکشن لڑیں گے؟ اشارے واضح ہونے لگے