1960 میں شہرت کی بلندیوں کو چھونے والے امریکی میوزیکل بینڈ ’’دی بیچ بوائز‘‘ کے شریک بانی اور لیجنڈری موسیقار برائن ولسن 82 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اہل خانہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ہمارا دل یہ اعلان کرتے ہوئے ٹوٹ رہا ہے کہ عزیز والد، برائن ولسن، اب اس دنیا میں نہیں رہے۔

موسیقی کی دنیا کے اس درخشاں ستارنے 1942 میں کیلیفورنیا کے شہر ہارتھورن میں آنکھ کھولی اور اپنے چھوٹے بھائیوں کارل اور ڈینس، کزن مائیک لو اور دوست آل جارڈین کے ساتھ مل کر میوزیکل بینڈ کی بنیاد رکھی۔

اس میوزیکل بینڈ کا نام ’’ دی بیچ بوائز‘‘ رکھا گیا تھا جس نے امریکا ہی نہیں بلکہ دنیا کے سب سے کامیاب راک بینڈ کی حیثیت سے شہرت حاصل کی۔

میوزیکل بینڈ کی آفیشل ویب سائٹ کے مطابق ’’دی بیچ بوائز‘‘ کے 100 ملین سے زائد ریکارڈز دنیا بھر میں فروخت ہوئے۔

برائن ولسن نے "I Get Around"، "Help Me, Rhonda"، اور "Good Vibrations" جیسے شہرۂ آفاق گانے دیے۔

ان کا البم Pet Sounds ریکارڈنگ اسٹوڈیو میں موسیقی کی تخلیق کے منفرد انداز کی وجہ سے کلاسک تسلیم کیا جاتا ہے۔

حیرت انگیز صلاحیتوں اور موسیقی میں جدت کے باعث میگزین رولنگ اسٹون نے برائن ونسن کو 100 عظیم ترین فنکاروں کی فہرست میں 12ویں نمبر پر رکھا تھا۔

برائن ونسن کو 1984 میں شیزوفرینیا کی تشخیص ہوئی تھی جس کی ایک ممکنہ وجہ نفسیاتی ادویہ کا بے دریغ استعمال بتایا گیا تھا۔

گزشتہ برس کے اوائل میں برائن ونسن میں ڈیمینشیا کی علامات بھی ظاہر ہوئی تھیں اور گزشتہ برس ہی برائن ونسن کی دوسری اہلیہ میلنڈا کا انتقال ہوا تھا۔

برائن کی پہلی شادی سے دو بیٹیاں کارنی اور وینڈی ہیں جب کہ دوسری اہلیہ سے کوئی اپنی اولاد نہیں تھی لیکن جوڑے نے پانچ بچوں کو گود لیا تھا۔

برائن ولسن کے انتقال سے موسیقی کے ایک زرخیز عہد کا خاتمہ ہوگیا۔ دنیا بھر سے ان کے مداحوں اور موسیقی کے دلدادہ افراد نے برائن ونسن کی موت پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: میوزیکل بینڈ برائن ولسن

پڑھیں:

ظلم کا لفظ کم پڑ گیا، غزہ، کربلا کی صدا

اسلام ٹائمز: یہ نام نہاد تنظیمیں دہرے معیار رکھتی ہیں، یوکرین پر حملہ ہو تو پورا مغرب چیخ اٹھتا ہے، روس پر پابندیاں لگتی ہیں، میڈیا آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے۔ لیکن فلسطین کے لیے وہی دنیا صرف "تشویش" اور "فکر" ظاہر کرکے چپ ہو جاتی ہے۔ یہ دوہرا معیار انسانیت کے منہ پر طمانچہ ہے۔۔ آخر میں وہی جو امید کی کرن ہیں، ظلم کی سیاہ رات میں روشنی کا چراغ ہیں، غریب اور بے بسوں کی آس ہے، دل کی صدا ہیں۔ مولا آجائیے، مولا آجائیے۔ جب دنیا ظلم سے بھر جائے، جب انصاف سو جائے، جب آنکھیں اشکبار ہوں، تب ایک ہی صدا دل سے نکلتی ہے: "یا صاحبَ الزمان! أدرِکنا!" (اے زمانے کے آقا! ہماری مدد کو پہنچیں!) تحریر: سیدہ زہراء عباس

ظلم کا لفظ کم پڑ گیا ہے۔ غزہ اور فلسطین میں ایسے مظالم کی داستانیں رقم ہو رہی ہیں کہ رہتی دنیا تک انسانیت ان کو سن کر شرمائے گی۔ ظالم صہیونی اپنی درندگی کی تمام حدیں پار کرچکے ہیں، لیکن۔۔۔۔ نہ کوئی روکنے والا ہے، نہ پوچھنے والا۔ خالی باتیں، جلوس، ریلیاں، کانفرنسیں۔۔۔۔ اور عمل؟ آہ! کیسا ظلم ہے یہ کہ روحیں کانپ جاتی ہیں، دل دہل جاتے ہیں۔ قاہرہ کے ایک اسکول میں موجود بےگھر فلسطینی خاندانوں پر جب اسرائیلی فضائی حملہ ہوا، تو ایک بچے کا بازو اس کے جسم سے الگ ہوگیا۔۔۔۔ وہ بچہ اذیت میں تڑپتا رہا، بلکتا رہا، لیکن انصاف ساکت و صامت رہا۔

مسلمانوں! کیا تمہیں ان معصوموں کی آہ و بکا سنائی نہیں دیتی۔؟ کیا بچوں کی کٹی ہوئی لاشیں، ان کی سسکیاں، ان کی رُکتی سانسیں تمہارے دل پر دستک نہیں دیتیں۔؟ (رونے کی بھی ہمت ختم ہوچکی ہے) ظلم پر ظلم۔۔۔۔ دھماکے۔۔۔ تباہی۔۔۔ بھوک، پیاس، قحط۔۔۔۔ کون سی ایسی اذیت باقی رہ گئی ہے، جس سے وہ نہیں گزرے۔؟ الفاظ بے بس ہیں۔ کبھی کسی ماں کو گولی لگی، کہیں کوئی بچہ دم توڑتا رہا۔۔۔۔ اور غزہ کے بچے سوال کرتے ہیں: "امتِ مسلمہ کہاں ہے۔؟" معصوم لاشیں ہم سے پوچھتی ہیں: "مسلمانوں، تم کب جاگو گے۔؟" اوہ مجالس و ماتم برپا کرنے والو! یہ ظلم تمہیں نظر نہیں آرہا۔؟ کیا یہی درسِ کربلا ہے۔؟ کیا یہی پیغامِ مولا حسینؑ ہے۔؟

کربلا تو ہمیں ظلم کے خلاف ڈٹ جانے کا پیغام دیتی ہے، مگر ہم کیا کر رہے ہیں۔؟ مجالس میں رو دھو کر، ماتم کرکے، چند لوگوں میں نذر و نیاز بانٹ کر یہ سمجھ لیتے ہیں کہ حق ادا ہوگیا؟ کہ ہم نے مولا کو راضی کر لیا۔ نہیں! کربلا کو سمجھو۔۔۔ اگر مقصدِ کربلا سمجھ آ جاتا، تو ہم آج ہر ظالم کے خلاف اور ہر مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوتے۔ "ظالم کے آگے خاموش رہنا، ظلم سے بھی بڑا ظلم ہے!" امام حسینؑ کا کردار ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ظلم کے خلاف خاموشی بھی گناہ کے زمرے میں آتی ہے۔ آج ظلم کی سیاہ چادر غزہ کے افق پر چھا چکی ہے۔ غزہ میں تقریباً 2.1 ملین انسان رہ رہے ہیں۔ ان میں سے 96%، یعنی 2.13 ملین افراد شدید قحط اور خوراک کے بحران کا شکار ہیں۔

4700,000 ہزار افراد ایسے ہیں، جو مکمل فاقے اور موت کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ 71,000 بچے اور 17,000 مائیں شدید غذائی قلت کا شکار ہیں اور موت کے خطرے میں ہیں۔ غزہ ہمیں پکار رہا ہے۔ اس مظلوم خطے میں لوگ درد، ظلم، تباہی، بھوک، افلاس، قحط میں گھرے ہیں بچے، عورتیں، بوڑھے بزرگ سب اپنے بنیادی حقوق کے لیے ترس رہے ہیں اور ان کی چیخ و پکار عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ رہی ہے۔ آج جب پوری دنیا میں آزادی اور حقوق انسانی اور جمہوریت کی بات ہوتی ہے، کسی کو غزہ اور فلسطین کے مظلوم نظر نہیں آرہے، کہاں ہیں وہ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے علمبردار؟ جس کا قیام اور مقصد انسانی حقوق کا تحفظ تھا۔

یہ نام نہاد تنظیمیں دہرے معیار رکھتی ہیں، یوکرین پر حملہ ہو تو پورا مغرب چیخ اٹھتا ہے، روس پر پابندیاں لگتی ہیں، میڈیا آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے۔ لیکن فلسطین کے لیے وہی دنیا صرف "تشویش" اور "فکر" ظاہر کرکے چپ ہو جاتی ہے۔ یہ دوہرا معیار انسانیت کے منہ پر طمانچہ ہے۔۔ آخر میں وہی جو امید کی کرن ہیں، ظلم کی سیاہ رات میں روشنی کا چراغ ہیں، غریب اور بے بسوں کی آس ہے، دل کی صدا ہیں۔ مولا آجائیے، مولا آجائیے۔ جب دنیا ظلم سے بھر جائے، جب انصاف سو جائے، جب آنکھیں اشکبار ہوں، تب ایک ہی صدا دل سے نکلتی ہے: "یا صاحبَ الزمان! أدرِکنا!" (اے زمانے کے آقا! ہماری مدد کو پہنچیں!)

متعلقہ مضامین

  • اسلام آباد میں پہلی بار پُلٹزر انعام یافتہ اسٹیج ڈرامے کی اردو پیشکش ’وسوسہ: ایک کہانی‘ اسٹیج پر پیش
  • پشاور کے نوجوانوں میں آرٹ اور موسیقی کا شعور بیدار کرتا ادارہ
  • چین کی دنیا بھر کے لیے اے آئی تعاون کی نئی عالمی تنظیم کی تجویز
  • وزیر اعظم شہباز شریف کی ڈیجیٹل ایکو سسٹم کیلئے عالمی شہرت یافتہ ماہرین کی خدمات لینے کی ہدایت
  • چین عالمی مصنوعی ذہانت کے میدان میں اہم کردار ادا کر رہا ہے، ٹورنگ ایوارڈ یافتہ اسکالر
  • ایم ڈبلیو ایم وحدت امت اور مظلومین کی حمایت کی علامت بن چکی ہے، علامہ مقصود ڈومکی
  • ظلم کا لفظ کم پڑ گیا، غزہ، کربلا کی صدا
  • افغان گلوکاروں کے لیے پاکستان امن، محبت اور موسیقی کی پناہ گاہ
  • امریکا کا عالمی امن میں پاکستان کے مثبت کردار اور دہشتگردی کیخلاف جنگ میں لازوال  قربانیوں کا ایک بار پھر اعتراف
  • اسحاق ڈار کی امریکی ہم منصب سے ملاقات،امریکا کا عالمی امن میں پاکستان کے مثبت کردار اور دہشتگردی کیخلاف جنگ میں لازوال قربانیوں کا ایک بار پھر اعتراف