برصغیر کی جنگِ آزادی اور فلسطین کی جنگِ آزادی
اشاعت کی تاریخ: 28th, April 2025 GMT
ابھی چند دن پہلے ہماری دینی قیادت نے یہیں اسلام آباد میں اکٹھے ہو کر ایک فتویٰ دیا ہے جس پر ملک میں باتیں کی جا رہی ہیں کہ علماء کو جہاد کا فتویٰ دینا اب یاد آیا ہے؟ میں نے اس پر گزارش کی ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے، گذشتہ سال بھی اسلام آباد کے کنونشن سنٹر میں اسی نوعیت کی ایک کانفرنس منعقد ہوئی تھی اور انہی قائدین نے یہی باتیں کی تھیں جو اِس کانفرنس میں کی ہیں۔ ہمارے دینی قائدین مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، حضرت مولانا فضل الرحمٰن، حضرت مولانا مفتی منیب الرحمٰن، حضرت مولانا ساجد میر ، حافظ نعیم الرحمٰن مسلسل قوم کو اور امت کو اپنے فرائض کی طرف توجہ دلاتے آ رہے ہیں کہ غزہ کا مسئلہ ہم سے کیا تقاضہ کر رہا ہے اور الحمد للہ قوم کے طبقات نے اس پر توجہ دی ہے لیکن ہمارے حکمرانوں نے اس طرف کوئی توجہ نہیں دی جن کی یہ ذمہ داری بنتی تھی۔ اسلام آباد کی حالیہ کانفرنس دراصل پچھلے سال کی اس کانفرنس کا تسلسل ہے اور یہ دینی قیادتوں کی طرف سے کوئی نیا اعلانِ جہاد نہیں ہے بلکہ یہ فتویٰ حکمرانوں کو توجہ دلانے کے لیے ہے کہ وہ اہلِ فلسطین کے مسلمانوں کو ظلم سے بچانے کے لیے اپنی ذمہ داری ادا کریں، جبکہ یوں لگتا ہے کہ شاید وہ اب بھی اس طرف توجہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا فلسطینی مجاہدین کسی دوسرے ملک پر قبضہ کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں یا اپنے ملک کو غیروں کے قبضہ سے چھڑانے کے لیے غاصب قوتوں سے نبرد آزما ہیں؟ وہ تو اپنے وطن کو صیہونی حملہ آوروں سے بچانے کی جدوجہد میں برسرپیکار ہیں، جسے معروف اور سیاسی معنوں میں جنگِ آزادی کہتے ہیں۔ ہم نے بھی برصغیر میں جنگِ آزادی لڑی ہے، فلسطینیوں کو تو ابھی پچھتر سال ہوئے ہیں، یا اسرائیل کے قیام سے پہلے فلسطین میں یہودی آبادکاری کا دور بھی شامل کر لیں تو ایک صدی کا عرصہ بنتا ہے، جبکہ ہم نے برصغیر میں ۱۷۵۷ء سے لے کر ۱۹۴۷ء تک ایک سو نوے سال تک جنگِ آزادی لڑی ہے جس کے مختلف مراحل ہیں۔ اور یہ بات میں نے اس لیے عرض کی ہے کہ جنگِ آزادی لڑنے والوں کی طرف سے جنگِ آزادی لڑنے والوں کو جو حمایت ملنی چاہیے تھی وہ نہیں مل رہی۔
ایسٹ انڈیا کمپنی برصغیر میں آئی تھی اور اس نے ہماری تجارت اور معیشت پر کنٹرول حاصل کر کے یہاں کے حکومتی نظام میں مداخلت شروع کر دی تھی۔ اس کے خلاف پہلی جنگِ آزادی بنگال کے نواب سراج الدولہؒ نے ۱۷۵۷ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف لڑی تھی جسے جنگِ پلاسی کہتے ہیں۔ دوسری جنگِ آزادی سلطان ٹیپوؒ نے ۱۸۰۱ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی سے لڑی تھی جو جنگِ میسور کہلاتی ہے۔ یہ دونوں جنگیں ملکی نظام میں دخل اندازی کرنے والے بیرونی مداخلت کاروں کے خلاف لڑی گئی تھیں۔ اس کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوجوں نے جب دہلی کا رخ کیا تو مغل حکمرانوں نے سراج الدولہ شہید اور سلطان ٹیپو شہید کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے ایسٹ انڈیا کمپنی سے مصالحت کر لی تھی۔ شاہ عالم ثانی نے مداخلت کار قوتوں کے ساتھ سودے بازی کر کے ان کو اقتدار میں شریک کر لیا تھا۔ اس پر شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ نے جہاد کا فتویٰ دیا تھا جس کا عنوان یہ تھا کہ چونکہ ریاست پیچھے ہٹ گئی ہے اور اس نے مداخلت کاروں کے ساتھ مصالحت کا راستہ اختیار کر لیا ہے اس لیے جہاد فرض ہو گیا ہے، فتاویٰ عزیزی میں یہ فتویٰ موجود ہے۔ چنانچہ اس کے بعد کی جنگیں حضرت شاہ عبد العزیزؒ کے فتوے پر لڑی گئیں۔ بالاکوٹ کی جنگ، بنگال میں فرائضی تحریک کی جنگ، پنجاب میں احمد شاہ کھرلؒ کی جنگ، سندھ میں حروں کی جنگ ، اس لیے کہ جب ریاست نے اپنا کردار ادا کرنے سے گریز کیا تو پھر علماء کو میدان میں آنا پڑا۔یہ تاریخی حقیقت ہمارے سامنے ہونی چاہیے اور یہ میں نے اس لیے عرض کی ہے کہ آج بھی یہی ہوتا نظر آ رہا ہے۔ میں اس سے زیادہ تفصیل میں نہیں جانا چاہتا، صرف اپنے حکمرانوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ ہم شاہ عبد العزیزؒ کے کیمپ کے لوگ ہیں اور ان شاء اللہ العزیز ہم اپنا یہ کردار ادا کرتے رہیں گے۔ دوسری بات یہ کہ کیا غزہ کی جنگ صرف ڈیڑھ سال کی جنگ ہے یا پچھتر سال پرانی جنگ ہے؟ آزادی کے لیے لمبی جنگیں کوئی بڑی بات نہیں ہوتی لیکن اس سے پہلے کے چوہتر سال ہم کیسے بھول سکتے ہیں۔ چلیں اسی غزہ کی جنگ کی بات کریں تو اس کا نتیجہ جنگ بندی کے معاہدہ کی صورت میں سامنے آیا تھا جس پر عملدرآمد کا آغاز ہو گیا تھا اور ساری دنیا دیکھ رہی تھی کہ قیدیوں کا تبادلہ شروع ہو گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس معاہدے کو سبوتاژ کس نے کیا ہے؟ اس وقت غزہ کی جنگ کی کمان امریکی صدر ٹرمپ کے ہاتھ میں ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ صاحب جو کردار ادا کر رہے ہیں اس میں ہمارے ایک موقف کی تائید بھی ہے۔ ہمیں یہ سبق دیا جاتا تھا کہ یہ جنگ فلسطینیوں کی ہے، ہمیں اس میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن امریکی صدر کے طرز عمل نے یہ واضح کر دیا ہے کہ یہ صرف فلسطینیوں کی جنگ نہیں ہے بلکہ یہ امریکہ کی جنگ بھی ہے اور یورپی یونین کی جنگ بھی ہے۔میرا اپنے حکمرانوں سے اور دنیا بھر کے مسلم حکمرانوں سے سوال یہ ہے کہ تم یہ دوٹوک فیصلہ کر لو کہ ٹرمپ کے کیمپ میں ہو یا فلسطینیوں کے کیمپ میں ہو؟ ورنہ یہ وہی شاہ عالم ثانی والی بات ہو گی۔ہم مداخلت کار قوتوں کے ساتھ حکمران قوتوں کی سودے بازی پہلے بھگت چکے ہیں، آئندہ بھی بھگتنے کے لیے تیار ہیں، اور صدر ٹرمپ نے اس کی جنگ کی کمان اپنے ہاتھ میں لے کر جو چیلنج دیا ہے ہم اسے قبول کرتے ہیں، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
تیسری اور آخری بات یہ کہ اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرنا اور عالمِ غیب پر بھروسہ اپنی جگہ درست ہے لیکن ہمیں اسباب پر بھی توجہ دینا ہو گی کہ دنیا کے معاملے اسباب سے چلتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ملاحمِ کبریٰ کا آغاز ہو گیا ہے جس کا ذکر حدیث مبارکہ میں ہے، اور اس کا اختتام تب ہو گا جب لُد کے مقام پر حضرت مسیح ابن مریمؑ کے ہاتھوں مسیح دجال قتل ہو گا۔ اور لُد تل ابیب کا پرانا نام ہے۔ والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اس حوالے سے ایک بات کہا کرتے تھے کہ ہمارے کام کی ذمہ داری اسباب کے دائرے میں ہے۔ فرمایا کرتے تھے کہ دیکھو، حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب تشریف لائیں گے تو آسمانوں سے دمشق کی جامع مسجد کے مینار پر اتریں گے، یہ فجر کی نماز کا وقت ہو گا، حضرت مسیح ابن مریمؑ مینار پر آکر آواز دیں گے کہ سیڑھی لاؤ تاکہ میں نیچے اتر سکوں۔ والد صاحبؒ کہتے تھے کہ آسمان سے آ گئے ہیں تو اب سیڑھی کیوں مانگ رہے ہیں؟ فرماتے تھے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ زمین کا نظام اسباب سے چلتا ہے، اوپر کا نظام عالمِ غیب ہے لیکن زمین کا نظام اللہ تعالیٰ نے اسباب کے تحت رکھا ہے۔
اس لیے ہمیں جنگ و جہاد اور جدوجہد کے تمام اسباب اختیار کرنے ہوں گے، معاشی بائیکاٹ بھی کرنا ہو گا، میڈیا کی جنگ بھی لڑنی ہو گی، سٹریٹ پاور کا مظاہرہ بھی کرنا ہو گا، سیاسی اور اخلاقی جدوجہد بھی کرنا ہو گی۔ یہ بات درست ہے کہ جنگ کا مطالبہ ہم انہی سے کریں گے جن کی ذمہ داری ہے۔ جہاد کا فتویٰ بھی انہی کے لیے آیا ہے اور ان شاء اللہ ہم ان سے اس وقت تک اس کا مطالبہ کرتے رہیں گے جب تک وہ میدان میں نہیں آتے۔ البتہ اس کے علاوہ جنگ کے جو باقی شعبے ہیں، میڈیا کی جنگ ہے، معاشی جنگ ہے، سیاسی جنگ ہے، ان کے لیے ہم نے اسباب اختیار کرنے ہیں اور میری ہر فرد اور ہر طبقے سے درخواست ہے کہ اپنے دل کو ٹٹولیں اور اپنے دائرہ کار کو دیکھیں کہ وہ اس سلسلہ میں کیا کر سکتے ہیں، اور جو کچھ ممکن ہو اس سے گریز نہ کریں، ورنہ قیامت کے دن پیشی ہو جائے گی، اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائیں اور اپنا کردار صحیح ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائیں، وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: ایسٹ انڈیا کمپنی حضرت مولانا اللہ تعالی اختیار کر رہے ہیں نہیں ہے جنگ ہے تھے کہ ہے اور اس لیے کی جنگ کے لیے ہو گیا
پڑھیں:
برطانیہ میں فلسطین کے لیے اب تک کا سب سے بڑا فنڈ ریزنگ ایونٹ
برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں فلسطین کے عوام کے لیے اب تک کا سب سے بڑا فنڈ ریزنگ ایونٹ منعقد ہوا، جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی اور فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کیا۔
یہ بھی پڑھیں:غزہ کی صورتحال اخلاقی، سیاسی اور قانونی طور پر ناقابلِ برداشت ہے، سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ
اوو اریـنا ویمبلی میں ہونے والے اس کنسرٹ کو ’ٹوگیدر فار فلسطین(T4P)‘ کا عنوان دیا گیا تھا۔ 12 ہزار 5 سو نشستوں کی گنجائش رکھنے والا ہال مکمل طور پر بھر گیا۔
British actor Benedict Cumberbatch recited lines from the poem “On This Land There Are Reasons to Live” by renowned Palestinian poet Mahmoud Darwish during the Together for Palestine event.
An unprecedented benefit concert in support of Palestinian civil society organisations… pic.twitter.com/EtaobkGypT
— Middle East Eye (@MiddleEastEye) September 17, 2025
اس موقع پر برطانوی اور بین الاقوامی فنکاروں، اداکاروں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں نے شرکت کی، جن میں اداکار بینیڈکٹ کمبر بیچ، فلورنس پیو اور دستاویزی فلم ساز لوئس تھرو شامل تھے۔
ایونٹ کے منتظم اور برطانوی موسیقار و سیاسی کارکن برائن اینو نے کہا کہ ایک سال پہلے کوئی بھی مقام فلسطین کے نام سے ایونٹ کرانے پر آمادہ نہیں تھا، لیکن اب حالات بدل گئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ غزہ میں بھوک اور انسانی بحران نے دنیا بھر کے لوگوں کو سوچنے پر مجبور کیا ہے۔
تقریب کے دوران فلسطینی فنکارہ ملک مطر کے فن پارے بھی پیش کیے گئے، جو غزہ کی صورتحال کی عکاسی کر رہے تھے۔
یہ بھی پڑھیں:غزہ سٹی میں اسرائیل کی زمینی کارروائی کا آغاز، 91 فلسطینی شہید، ہزاروں افراد نقل مکانی پر مجبور
اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ برائے انسانی حقوق فرانسسکا البانیسی نے تقریب سے خطاب میں کہا کہ غزہ میں نسل کشی ہماری دنیا کے لیے ایک فیصلہ کن لمحہ ہے۔ ہر بااثر شخص کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مسئلے پر خاموش نہ رہے۔
شرکا نے فلسطینی پرچم اٹھا کر یکجہتی کا اظہار کیا اور انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کرنے پر زور دیا۔ ایونٹ سے حاصل ہونے والی تمام آمدنی غزہ میں کام کرنے والی فلاحی تنظیموں کو دی جائے گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اریـنا ویمبلی اقوام متحدہ برطانیہ غزہ فلسطین فنڈ ریزنگ