عالمی عدالت میں غزہ پر امدادی ناکہ بندی پر اسرائیل کیخلاف سماعت
اشاعت کی تاریخ: 28th, April 2025 GMT
عالمی عدالت انصاف (ICJ) میں اسرائیل کے خلاف غزہ کی پٹی میں انسانی امداد کی ترسیل روکنے پر درجنوں ممالک کی شکایت پر سماعت کا آغاز آج ہوگا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق آج سے شروع ہونے والی ابتدائی سماعت میں فلسطینی نمائندے اپنے دلائل پیش کریں گے۔
اگلے پانچ روز تک جاری رہنے والی ان سماعتوں میں تقریباً 40 ممالک اپنے خیالات کا اظہار کریں گے۔
امریکا بدھ کے روز عدالت میں اپنا مؤقف پیش کرے گا جب کہ اسرائیل خود ان سماعتوں میں شریک نہیں ہوگا۔
درجنوں ممالک نے اسرائیل پر بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی کا الزام عائد کیا ہے کہ صیہونی ریاست نے 2 مارچ 2025 سے غزہ کے 2.
درخواست میں کہا گیا ہے کہ حالانکہ اس سے قبل ہی جنگ بندی کے دوران غزہ کے مظلوم فلسطینیوں کے لیے جمع کیا گیا غذائی ذخیرہ تقریباً ختم ہو چکا تھا اور پھر رسد بند ہوجانے سے بھوک سے ہلاکتوں کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔
خیال رہے کہ دسمبر میں اقوام متحدہ نے عالمی عدالت سے درخواست کی تھی کہ وہ ایک مشاورتی رائے دے کہ اسرائیل کی ریاستوں اور بین الاقوامی اداروں، بشمول اقوام متحدہ کے ذریعہ فلسطینیوں کے لیے فراہم کردہ امداد کی ترسیل میں کیا ذمہ داریاں ہیں۔
جس پر اسرائیل کا مؤقف ہے کہ جب تک حماس تمام باقی یرغمالیوں کو رہا نہیں کرتی، تب تک وہ غزہ میں امداد داخل ہونے کی اجازت نہیں دے گا۔
گزشتہ ہفتے جرمنی، فرانس اور برطانیہ نے اسرائیل پر زور دیا تھا کہ وہ بین الاقوامی قانون کے مطابق انسانی امداد کے بلا تعطل داخلے کی اجازت دے۔
تاہم اسرائیل نے امداد روکنے پر اصرار کرتے ہوئے کہا کہ یہ حماس پر دباؤ ڈالنے کا طریقہ ہے۔
قبل ازیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ انہوں نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ میں خوراک اور ادویات کی فراہمی کی اجازت دیں۔
اسرائیل کا یہ بھی الزام ہے کہ حماس انسانی امداد کو ہتھیا لیتی ہے جبکہ حماس نے ان الزامات کی تردید کی ہے اور غذائی قلت کا ذمہ دار اسرائیل کو ٹھہرایا ہے۔
دسمبر میں ہی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں منظور کی گئی قرارداد میں، جس کے حق میں 193 میں سے 137 ممالک نے ووٹ دیا تھا، اسرائیل پر زور دیا گیا تھا کہ وہ فلسطینی آبادی کے لیے اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔
قرارداد میں غزہ میں انسانی بحران پر "گہری تشویش" کا اظہار بھی کیا گیا تھا۔ اس قرارداد کے خلاف اسرائیل، امریکا اور دیگر 10 ممالک نے ووٹ دیا جبکہ 22 ممالک نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔
عالمی عدالت انصاف کی مشاورتی رائے قانونی اور سیاسی اہمیت رکھتی ہے، تاہم یہ رائے پابند نہیں ہوتی اور عدالت کے پاس اس پر عملدرآمد کروانے کا اختیار نہیں ہوتا۔
اقوام متحدہ غزہ اور مغربی کنارے کو اسرائیلی مقبوضہ علاقے سمجھتی ہے۔ بین الاقوامی انسانی قانون کے مطابق کسی مقبوضہ علاقے کی قابض طاقت پر لازم ہے کہ وہ مقامی آبادی کو امداد فراہم کرنے اور خوراک، طبی سہولیات، صفائی اور صحت کے معیار کو یقینی بنانے میں سہولت فراہم کرے۔
اسرائیل کے خلاف غزہ ناکہ بندی اور امدادی سامان کی ترسیل کی بندش پر سماعت چھ روز میں مکمل ہوجائیں گی لیکن عالمی عدالت کا اس پر مشاورتی رائے سامنے آنے میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بین الاقوامی عالمی عدالت اقوام متحدہ ممالک نے کے لیے
پڑھیں:
جنگ بندی کی کھلی خلاف ورزی، اسرائیلی فضائی حملے میں جنوبی لبنان میں 4 افراد ہلاک، 3 زخمی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
بیروت: اسرائیل نے جنوبی لبنان کے علاقے نبطیہ میں ڈرون حملہ کر کے چار افراد کو ہلاک اور تین کو زخمی کر دیا، جسے لبنانی حکام نے نومبر 2024 کی جنگ بندی معاہدے کی واضح خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
لبنان کی وزارتِ صحت کے مطابق یہ حملہ ہفتے کی رات دوحا۔کفرمان روڈ پر اس وقت کیا گیا جب ایک گاڑی گزر رہی تھی۔ اسرائیلی ڈرون نے براہِ راست گاڑی کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں وہ مکمل طور پر تباہ ہوگئی اور اس میں سوار چار افراد موقع پر جاں بحق ہوگئے۔ حملے کے دوران ایک موٹر سائیکل پر سوار دو شہری بھی زخمی ہوئے جبکہ اطراف کی متعدد رہائشی عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔
عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق متاثرہ علاقہ دوحا زیادہ تر رہائشی آبادی پر مشتمل ہے، جہاں اچانک حملے نے خوف و ہراس پھیلا دیا۔
دوسری جانب اسرائیلی فوج نے حملے کی تصدیق کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ نشانہ بنائی گئی گاڑی میں حزب اللہ کے افسران سوار تھے۔
تاہم لبنان یا حزب اللہ کی جانب سے اس دعوے پر تاحال کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا۔
یاد رہے کہ اگست میں لبنانی حکومت نے ایک منصوبہ منظور کیا تھا جس کے تحت ملک میں تمام اسلحہ صرف ریاستی کنٹرول میں رکھنے کا فیصلہ کیا گیا، حزب اللہ نے اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اپنے ہتھیار اس وقت تک نہیں ڈالے گی جب تک اسرائیل جنوبی لبنان کے پانچ زیرِ قبضہ سرحدی علاقوں سے مکمل انخلا نہیں کرتا۔
اقوامِ متحدہ کی رپورٹس کے مطابق اکتوبر 2023 سے اب تک اسرائیلی حملوں میں 4 ہزار سے زائد لبنانی شہری ہلاک اور 17 ہزار کے قریب زخمی ہوچکے ہیں۔
جنگ بندی کے تحت اسرائیلی فوج کو جنوری 2025 تک جنوبی لبنان سے مکمل انخلا کرنا تھا، تاہم اسرائیل نے صرف جزوی طور پر انخلا کیا اور اب بھی پانچ سرحدی چوکیوں پر فوجی موجودگی برقرار رکھے ہوئے ہے۔
خیال رہےکہ حماس کی جانب سے تو جنگ بندی کی مکمل پاسداری کی جارہی ہے لیکن اسرائیل نے اپنی دوغلی پالیسی اپناتے ہوئے 22 سال سے قید فلسطین کے معروف سیاسی رہنما مروان البرغوثی کو رہا کرنے سے انکاری ظاہر کی ہے اور اسرائیل کے متعدد وزیر اپنی انتہا پسندانہ سوچ کے سبب صبح و شام فلسطینی عوام کو دھمکیاں دے رہے ہیں جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی جارحانہ انداز اپناتے ہوئے مسلسل دھمکیاں دے رہے ہیں۔