بندگی کی سبجیکٹو ضرورتیں کیا ہیں ؟
اشاعت کی تاریخ: 3rd, May 2025 GMT
انسان جب شعور کی منزل پر پہنچتا ہے تو اس کی زندگی دو رخ پر تقسیم ہو جاتی ہے subjective اور objective یعنی غیر معروضی اور معروضی۔غیر معروضی کا مطلب ہے جو ذاتی خیالات و احساسات پر مبنی ہو جبکہ معروضی کے معنی ہیں وہ امر جو مبنی بر حقیقت ہو اور ذاتی جذبات و احساسات یا ذاتی پسند و نا پسند سے ماورا ہو ۔
جب ہم بندگی کی subjective یعنی غیر معروضی ضرورتوں کا ذکر کرتے ہیں تو اس سے مراد داخلی ،نفسیاتی اور روحانی کیفیات ہوتی ہیں جو انسان کو بندگی کی طرف مائل کرتی ہیں۔اس کے لئے انسان کو فطری طورپر کسی ایسی ہستی سے تعلق خاطر کی ضرورت ہوتی ہے جس سے اس کے دل کو تسکین حاصل ہوتی ہے، اور یہ تسکین یاطمانیت انسان کی داخلی ضرورت بن جاتی ہے ۔
بندگی اسی مقصد کی معنویت کی تلاش کی تگ و دو کانام ہے جس کے تقاضوں میں عاجزی اور انکساری ایک ایسا تقاضہ جو انسان کو اپنی ذات کے محیط کا ادراک عطا کرتا ہے اور وہ ایک کامل ہستی کے روبرو جھکنے اور اپنی کمزوریوں کا اعتراف کر کے اپنے نفس کو پاکیزگی سے ہمکنار کرتا ہے۔ ایک مسلمان کے لئے یہ بندگی فقط اور فقط رب العالمین کی ہے جو انسان کی توجہ نیکی کی طرف مبذول کراتے کےلئے ایک اخلاقی نظام عطاکرتا ہے جس میں عدل ،رحم اور سچائی جیسے اصول شامل ہوتے ہیں اور انسان کی فطرت ان اصولوں کی طرف کھنچتی چلی جاتی ہے ۔
یہ بندگی ہی ہے جو انسان کے اندر توکل پیدا کرتی ہے اور دکھ ،پریشانی اور ناکامی و نامرادی کی حالت میں وہ رب پراعتماد کے ذریعے امید اور طاقت حاصل کرتا ہے۔بندگی کا عمل انسان کو خود احتسابی ، اصلاح ذات اور تزکیہ نفس کی طرف مائل کرتا ہے جو اس کی شخصیت سے ضعف کو مٹا دیتا ہےاور انسان کے اندر محبت و اخلاص اور اخوت و ہمدردی کے جذبات عود کرنے لگتے ہیں ۔یہ تزکیہ نفس کی ایک اہم جہت ہے ۔
یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ گو تزکیہ نفس ایک دینی اصطلاح ہے مگر یہ ایک مطلق روحانی تصور نہیں بلکہ اس کا بیرونی دنیا سے گہرا تعلق ہوتا ہے جسے ہم خارجی اور داخلی دونوں کیفیات کا جامع تصور کہہ سکتے ہیں ۔تزکیہ نفس کا دینی یا خارجی پہلو یہ ہے کہ انسان کے نفس ، نیت ، ارادے اور روحانی و جسمانی اصلاح کا فریضہ انجام دیتا ہے ۔اس کے اندر صبر ،شکر کا جذبہ نمو پاتا ہے اور مایوسی کے خوف کا ازالہ کرکے اسے توکل الاللہ کا پیکر بناتا ہے ۔اسی طرح طرح تزکیہ نفس کی خارجی جہت یہ ہے کہ یہ انسان کے اخلاق وکردار،اس کے سماجی رویوں اور معاشرتی تعلقات میں ظہور پذیر ہوتی ہے اور کذب و افترا،خیانت اور ظلم و زیادتی اور دوسروں کے حقوق غصب کرنے میں مانع ہوتی ہے ۔
اس زمرے میں قرآن کریم میں صاف الفاظ میں بیان کیا گیا ہے ۔(سورہ الشمس 92۔9۔10 ) بے شک وہی کامیاب ہوا جس نے اپنے نفس کو پاک کیا اور وہ نامراد ہوا جس نے اسے آلودہ کیا۔
تزکیہ نفس کے دیگر عملی مظاہر وہ خارجی علامات اور رویئے ہیں جو انسان کی ’’باطنی پاکیزگی اور روحانی تربیت‘‘ عملی اظہار سے متعلق ہوتے ہیں یعنی جب دل ،نیت اور ارادے پیکر خلوص کا روپ دھارلیتےہیں تو انسان کے اعمال و کردارسے سب ہویدہ ہوجاتا ہے ۔ اخلاق،عفو و درگزر، نرمی و تحمل،صلہ رحمی،عدل و قسط اور حقوق و فرائض کا احساس، رشتوں کی اور دوست دشمن کی پہچان۔ سماجی طور پر انسان میں ایسی مثبت تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں کہ وہ دوسروں کی امن و سلامتی کا خود کو ضامن تصور کرنے لگتا ہے ۔خود حلال رزق کا خوگر ہوتا ہے تو معاشرے کے نادار اور بے بس افراد کی خدمت اپنا اولین فرض گردانتا ہے ۔
بلا احسان و ریا کاری ضرورت مندوں کی مدد کو شعار بناتا ہے ۔ضبط نفس کا یہ عالم کہ لالچ غصہ ،حسد ،نخوت ،تکبر ،شہوت اورطمع پر قابو پالینے کا طریقہ آجاتا ہے ۔علم و بصیرت کے درجات سے آگہی اور خیر کے فروغ اور شر سے دامن بچالینے کے عمل کی آگہی اور شعور سے مالا مال ہوجاتا ہے ۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: تزکیہ نفس انسان کو انسان کی انسان کے ہوتی ہے کرتا ہے ہے اور
پڑھیں:
اسرائیل کو پہلی بار پتہ چل رہا ہے کہ بمباری کیا ہوتی ہے، مفتی تقی عثمانی
سوشل میڈیا پر جاری بیان میں ممتاز عالم دین نے کہا کہ ایران اسرائیلی جارحیت سے بھاری نقصان اٹھانے کے باوجود اسرائیل کو مضبوط جواب دے رہا ہے، عالمِ اسلام کے خلاف اسرائیل کے عزائم ڈھکے چھپے نہیں اور قدرت کی طرف سے یہ ایک اور موقع ہے کہ تمام مسلمان ممالک متحد ہو کر اسرائیلی خطرے کا مکمل سد باب کریں۔ اسلام ٹائمز۔ جامعہ دارالعلوم کراچی کے سربراہ ممتاز عالم دین مفتی تقی عثمانی نے کہا ہے کہ اسرائیل کو پہلی بار پتہ چل رہا ہے کہ بمباری کیا ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا پر جاری بیان میں مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ ایران اسرائیلی جارحیت سے بھاری نقصان اٹھانے کے باوجود اسرائیل کو مضبوط جواب دے رہا ہے۔ مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ قدرت کی طرف سے یہ ایک اور موقع ہے کہ تمام مسلمان ممالک متحد ہو کر اسرائیلی خطرے کا مکمل سدباب کریں۔ انہوں نے کہا کہ عالمِ اسلام کے خلاف اسرائیل کے عزائم ڈھکے چھپے نہیں اور قدرت کی طرف سے یہ ایک اور موقع ہے کہ تمام مسلمان ممالک متحد ہو کر اسرائیلی خطرے کا مکمل سد باب کریں۔