بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدے کی ’خلاف ورزی شروع‘
اشاعت کی تاریخ: 5th, May 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 05 مئی 2025ء) کشمیر میں پن بجلی منصوبوں کی آبی ذخائر کی گنجائش بڑھانے کا کام دراصل بھارت کی جانب سے 1960 کے انڈس واٹر ٹریٹی کی خلاف ورزی کی پہلی مثال قرار دیا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ دونوں حریف ممالک کے مابین تین جنگوں اور کئی دیگر تنازعات کے باوجود دریاؤں کے پانی کی تقسیم سے متعلق اس معاہدے کی خلاف ورزی اب تک نہیں کی گئی تھی۔
تاہم گزشتہ ماہ بھارتی زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہوئے ایک حملے کے بعد نئی دہلی حکومت نے یہ معاہدہ معطل کر دیا تھا۔ سندھ طاس معاہدہ پاکستانی زرعی زمین کے 80 فیصد حصے کو پانی کی فراہمی یقینی بناتا ہے۔
بائیس اپریل کو پہلگاممیں ہوئے حملے میں چھبیس افراد ہلاک ہوئے تھے۔
(جاری ہے)
بھارت نے اس حملے میں مبینہ طور پر ملوث تین حملہ آوروں میں سے دو کی شناخت پاکستانی شہریوں کے طور پر کی تھی۔
اسلام آباد نے اس حملے میں کسی بھی کردار کی تردید کرتے ہوئے معاہدے کی معطلی پر بین الاقوامی قانونی کارروائی کی دھمکی دی ہے اور خبردار کیا ہے کہ ''پاکستان کے حصے کے پانی کو روکنے یا اس کا رخ موڑنے کی کسی بھی کوشش کو جنگی اقدام سمجھا جائے گا۔‘‘
بھارت کیا کر رہا ہے؟خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق بھارت کی سب سے بڑی سرکاری پن بجلی کمپنی این ایچ پی سی لمیٹڈ اور جموں و کشمیر کی وفاقی حکومت نے جمعرات کے روز ''ریزروائر فلشنگ‘‘ کا عمل شروع کر دیا، جس کا مقصد پانی کے ذخائر میں جمع مٹی اور تلچھٹ کو نکالنا تھا۔
بتایا گیا ہے کہ اس طرح وہاں پانی جمع کرنے کی صلاحیت زیادہ ہو جائے گی۔یہ کام فوری طور پر پاکستان کی پانی کی فراہمی کے لیے خطرہ نہیں بنے گا لیکن اگر دوسرے منصوبوں میں بھی ایسا ہی کیا گیا تو مستقبل میں اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ خطے میں اس نوعیت کے آدھے درجن سے زائد منصوبے موجود ہیں۔
پاکستان اپنی زرعی اور پن بجلی ضروریات کے لیے بھارت سے آنے والے دریاؤں پر انحصار کرتا ہے۔
روئٹرز کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارت نے سلال اور بگلیہار پن بجلی منصوبوں میں اس کام کے بارے میں پاکستان کو مطلع نہیں کیا، حالانکہ 1987ء اور ستمبر 2008 ء میں ان مںصوبوں کے شروع ہونے کے بعد سے ایسا نہیں کیا تھا۔
روئٹرز کے مطابق ذرائع نے یہ معلومات شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتائی ہیں کیونکہ وہ میڈیا سے بات چیت کے مجاز نہیں ہیں۔
روئٹرز نے این ایچ پی سی اور متعلقہ بھارتی حکام کو ان معلومات کی تصدیق کے لیے ای میل کی لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ کیا مقصد بجلی کی پیداوار بڑھانا ہے؟ایک ذریعے نے روئٹرزکو بتایا، ''یہ پہلا موقع ہے کہ ایسا کوئی قدم اٹھایا گیا ہے، جس سے بجلی کی پیدوار زیادہ مؤثر ہو سکے گی اور ٹربائنز کو نقصان سے بچایا جا سکے گا۔
‘‘ہائیڈرو پاور منصوبوں کی ریزروائر فلشنگ کے لیے پانی کے ذخیرے کو تقریباً خالی کرنا پڑتا ہے تاکہ ڈٰیموں کی تہہ میں جمع ہو جانے والی کنکریوں، گارے اور تلچھٹ کو نکالا جا سکے۔ یہ عناصر بجلی کی پیدوار میں کمی کا باعث بنتے ہیں۔
مثال کے طور پر دو ذرائع کے مطابق، سلال منصوبے کی 690 میگاواٹ صلاحیت کی بجلی کی پیداوار بہت کم ہو چکی تھی کیونکہ پاکستان نے فلشنگ کی اجازت نہیں دی تھی جبکہ 900 میگاواٹ پیدا کرنے والا بگلیہار پراجیکٹ بھی اسی وجہ سے متاثر ہو رہا تھا۔
ایک ذریعے نے بتایا: ''فلشنگ عام طور پر نہیں کی جاتی کیونکہ اس میں پانی کا بڑا ضیاع ہوتا ہے۔ اگر اس سے کسی زیریں علاقے میں سیلاب آ سکتا ہو تو اس سے متاثر ہو سکنے والے ملک کو مطلع کرنا ضروری ہوتا ہے۔‘‘
ماضی میں سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت دریاؤں پر ہائیڈروولوجیکل ڈیٹا اور سیلاب کی وارننگ پاکستان کو فراہم کرتا رہا ہے۔
تاہم نئی کشیدگی کے بعد بھارتی وزیر آبی وسائل یہ اعلان کر چکے ہیں کہ ''دریائے سندھ کا ایک قطرہ بھی پاکستان نہیں جانے دیا جائے گا۔‘‘
حکام اور ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت فی الفور پانی کے بہاؤ کو نہیں روک سکتا کیونکہ معاہدے کے تحت اسے صرف پن بجلی منصوبے بنانے کی اجازت ہے، بڑے ذخیرے والے ڈیم بنانے کی نہیں۔
ادارت: کشور مصطفیٰ
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے بھارت کی کے مطابق پن بجلی بجلی کی نہیں کی کے لیے
پڑھیں:
روشن معیشت رعایتی بجلی پیکج کا اعلان قابل تحسین ہے،حیدرآباد چیمبر
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-2-16
حیدرآباد (اسٹاف رپورٹر ) حیدرآباد چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹری کے صدر محمد سلیم میمن نے وزیرِاعظم پاکستان میاں شہباز شریف کی جانب سے صنعت و زراعت کے شعبوں کے لیے ’’روشن معیشت رعایتی بجلی پیکج‘‘ کے اعلان کو قابلِ تحسین اور خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام ملک کی صنعتی بحالی کی سمت ایک مثبت پیش رفت ہے۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ صنعتوں کی حقیقی بقا، روزگار کے تحفظ اور پاکستان میں کاسٹ آف پروڈکشن کو یقینی بنانے کے لیے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بنیادی سطح پر کمی ناگزیر ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے صنعتی و زرعی صارفین کے لیے اضافی بجلی کے استعمال پر 22.98 روپے فی یونٹ کا رعایتی نرخ ایک اچھا آغاز ہے، مگر ان ریٹوں پر بھی صنعتی طبقہ اپنی لاگتِ پیداوار کو کم نہیں کر پا رہا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مہنگی بجلی کی اصل وجوہات ’’کپیسٹی چارجز‘‘ اور سابق معاہدے ہیں، جب تک ان پر نظرِثانی نہیں کی جاتی، بجلی کی حقیقی لاگت کم نہیں ہو سکتی اور کاروبار کرنا دن بہ دن مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔صدر چیمبر سلیم میمن نے کہا کہ کاسٹ آف پروڈکشن مسلسل بڑھنے سے نہ صرف ملکی صنعت متاثر ہو رہی ہے بلکہ برآمدی مسابقت بھی کم ہو رہی ہے۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ صنعتی صارفین کے لیے بجلی اور گیس دونوں کے نرخ کم از کم ممکنہ سطح تک لائے اور ان تجاویز پر عمل کرے جو حیدرآباد چیمبر اور دیگر کاروباری تنظیموں نے پہلے بھی حکومت کو پیش کی تھیں۔انہوں نے کہا کہ جب تک کپیسٹی چارجز اور غیر ضروری معاہداتی بوجھ ختم نہیں کیے جاتے، بجلی سستی نہیں ہو سکتی۔ اس صورتحال میں پاکستان میں کاروبار چلانا دن بدن ناممکن ہوتا جا رہا ہے، لہٰذا حکومت کو ترجیحی بنیادوں پر صنعتی شعبے کے لیے ریلیف فراہم کرنا چاہیے تاکہ روزگار کے مواقع برقرار رہیں اور چھوٹی و درمیانی صنعتیں بند ہونے سے بچ سکیں۔صدر حیدرآباد چیمبر نے مزید کہا کہ حکومت اگر صنعتی علاقوں میں (جہاں بجلی چوری کا تناسب انتہائی کم ہے) سب سے پہلے رعایتی نرخوں کا نفاذ کرے، تو یہ زیادہ مؤثر ثابت ہوگا۔ اس سے نہ صرف بجلی کی طلب بڑھے گی بلکہ وہ صارفین جو متبادل ذرائعِ توانائی کی طرف جا رہے ہیں، دوبارہ قومی گرڈ سے منسلک ہو جائیں گے۔ اس طرح حکومت کا ریونیو بھی بڑھے گا اور اضافی 7000 میگاواٹ پیداواری گنجائش کو بہتر طریقے سے استعمال میں لایا جا سکے گا۔انہوں نے باورکروایا کہ اگر بجلی اور گیس کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی نہ کی گئی تو کاروباری طبقہ مجبورا سستے متبادل توانائی ذرائع کی طرف منتقل ہوتا جائے گا، جس سے حکومت کے لیے کپیسٹی چارجز کا بوجھ مزید بڑھ جائے گا۔ یہ ضروری ہے کہ حکومت ان پالیسیوں پر عمل کرے جو ماضی میں کیے گئے غیر متوازن معاہدوں کی اصلاح کی طرف جائیں تاکہ توانائی کا شعبہ ایک پائیدار صنعتی ماڈل میں تبدیل ہو سکے۔انہوں نے وزیرِاعظم پاکستان، وفاقی وزیرِتوانائی اور اقتصادی ٹیم کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کا یہ اقدام یقیناً ایک مثبت آغاز ہے۔