بلوچ شناخت کے نام پر بدامنی پھیلانے والےدراصل بلوچ قوم کی عزت و وقار پر دھبہ ہیں، آرمی چیف
اشاعت کی تاریخ: 5th, May 2025 GMT
آرمی چیف جنرل عاصم منیر چیف نے کہا ہے کہ ایسے دہشت گرد گروہ جو بلوچ شناخت کے نام پر بدامنی پھیلاتے ہیں، دراصل بلوچ قوم کی عزت و وقار پر دھبہ ہیں۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری بیان کے مطابق سپہ سالار نے ان خیالات کا اظہار جی ایچ کیو میں 15ویں نیشنل ورکشاپ بلوچستان کے شرکا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔
ترجمان پاک فوج کے مطابق چیف آف آرمی اسٹاف نے آج جنرل ہیڈکوارٹر میں نیشنل ورکشاپ بلوچستان کے 15ویں سیشن کے شرکا سے ملاقات کی۔
آئی ایس پی آر نے کہا کہ یہ ورکشاپ 2016 سے جاری ہے جس میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمنٹ، بیوروکریٹس، سول سوسائٹی، نوجوانوں، ماہرینِ تعلیم اور میڈیا کے نمائندوں کی بڑی تعداد شامل ہوتی ہے، ورکشاپ میں مختلف سیمینارز، گروپ مباحثے اور ملک کے مختلف علاقوں کے دورے شامل ہوتے ہیں۔
بیان کے مطبق ان کا مقصد بلوچستان کے مستقبل کے قائدین کو قومی اور صوبائی سطح کے اہم امور کی بہتر تفہیم دینا اور مشترکہ قومی ردعمل کی تیاری ہے۔
آئی ایس پی آر کے مطباق آرمی چیف نے بلوچستان کے سماجی و اقتصادی حالات میں بہتری کے لیے حکومت کی مسلسل کوششوں پر روشنی ڈالی اور کہا کہ موجودہ اور مستقبل کے ترقیاتی منصوبوں کی وسعت ان تمام گمراہ کن پروپیگنڈوں کو رد کرنے کے لیے کافی ہے۔
سپہ سالار کا کہنا تھا کہ کئی منصوبے اب نتائج دے رہے ہیں جن سے بلوچستان کے عوام براہ راست مستفید ہو رہے ہیں۔
ترجمان پاک فوج کے مطابق آرمی چیف نے بلوچستان کے نوجوانوں میں شعور بیدار کرنے میں سول سوسائٹی کے کردار کو سراہا اور کہا کہ سول سوسائٹی کی شراکت سے ترقی اور خوشحالی کا عمل مزید مضبوط ہوگا۔
جنرل عاصم منیر نے کہا کہ غیر ملکی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی بلوچستان کی سلامتی اور ترقی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے، شرپسند عناصر جو پرتشدد کارروائیوں، خوف و ہراس اور عدم استحکام کے ذریعے بلوچستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں، ان کے ناپاک عزائم کبھی کامیاب نہیں ہونے دیے جائیں گے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب، مسلک یا قومیت نہیں ہوتی اور اس کا مقابلہ صرف قومی اتحاد اور پختہ عزم سے ممکن ہے۔ ایسے دہشت گرد گروہ جو بلوچ شناخت کے نام پر بدامنی پھیلاتے ہیں، دراصل بلوچ قوم کی عزت و وقار پر دھبہ ہیں۔
آرمی چیف نے کہا کہ پاکستان خطے اور دنیا میں امن کا خواہاں ہے، تاہم اگر پاکستان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کو چیلنج کیا گیا تو قوم کی عزت اور عوام کی سلامتی کے تحفظ کے لیے بھرپور طاقت سے جواب دیا جائے گا۔
جنرل عاصم منیر کا کہنا تھا کہ پاکستان کی مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ کو عوام کی مکمل حمایت کے ساتھ جاری رکھیں گے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق ورکشاپ کا اختتام سوال و جواب کے سیشن کے بعد ہوا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ا ئی ایس پی ا ر بلوچستان کے قوم کی عزت نے کہا کہ کے مطابق کے لیے چیف نے
پڑھیں:
عرصہ دراز سے بدامنی اور پسماندگی کے شکار تحصیل حلیمزئی اپر مہمند میں پہلی بار لڑکیوں کے لیے اعلیٰ تعلیم کا آغاز
تقریباً 2 دہائیوں تک، پاکستان کے قبائلی اضلاع (سابقہ فاٹا) دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے عسکریت پسندی اور فوجی آپریشنز کا گڑھ رہے۔ اس دوران، تعلیمی اداروں کو نہ صرف نقصان پہنچا بلکہ انہیں جان بوجھ کر نشانہ بنایا گیا۔
ہیومن رائٹس واچ اور گلوبل کولیشن ٹو پروٹیکٹ ایجوکیشن فرام اٹیک (GCPEA) کی رپورٹس کے مطابق، 2006 سے 2015 کے دوران فاٹا میں 1,100 سے زیادہ سکول، جن میں زیادہ تر لڑکیوں کے ادارے تھے، دہشتگردی کی وجہ سے مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہوئے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق، صرف ضلع مہمند میں کم از کم 94 سکولوں کو عسکریت پسندوں نے مکمل یا جزوی طور پر تباہ کیا۔ خوف، نقل مکانی اور بنیادی ڈھانچے کی کمی کی وجہ سے ہزاروں بچے، خاص طور پر لڑکیاں، کئی سال تک تعلیم کے حق سے محروم رہے۔
یہ ایک ایسا خطہ ہے جہاں روایتی پابندیوں کی وجہ سے پہلے ہی لڑکیوں کی تعلیم مشکل تھی، لیکن جنگ نے ترقی کو مزید دہائیوں پیچھے دھکیل دیا تھا۔
اب جب قبائلی اضلاع میں آہستہ آہستہ امن لوٹ رہا ہے، تو مہمند کے لوگوں کے خواب بھی پورے ہو رہے ہیں۔ اچھی خبر یہ ہے کہ اپر مہمند میں لڑکیوں کے لیے پہلی بار بی ایس پروگرام (بیچلر آف سٹڈیز) شروع کر دیا گیا ہے۔
چاندہ گرلز ڈگری کالج میں بی ایس پروگرام کا آغاز اپر مہمند کی تاریخ کا ایک تاریخی سنگ میل ہے۔ یہ ان لڑکیوں کے لیے ایک بہت بڑا موقع ہے جن کے لیے برسوں کی عسکریت پسندی، نقل مکانی اور وسائل کی کمی کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم تک رسائی ایک دور کا خواب تھا۔
ماضی میں، اپر مہمند کی زیادہ تر لڑکیوں کو میٹرک یا انٹرمیڈیٹ کے بعد آگے پڑھنے کے لیے ضلع سے باہر جانا پڑتا تھا۔ معاشی کمزوری، ثقافتی رکاوٹوں، اور سکیورٹی کے خدشات کی وجہ سے بہت سی لڑکیاں اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ پاتی تھیں۔ زیادہ تر خاندانوں کے لیے بیٹیوں کو ضلع سے باہر بھیجنا ویسے بھی ناقابلِ تصور تھا۔
اب، چاندہ گرلز ڈگری کالج میں بی ایس پروگرام شروع ہونے سے مقامی طالبات اپنے ہی علاقے میں رہتے ہوئے اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکیں گی۔ والدین اور طالبات نے اس ترقی پر بہت خوشی کا اظہار کیا ہے، جو طویل انتظار کے بعد اس پسماندہ قبائلی علاقے کی بیٹیوں کے تعلیمی مستقبل کی از سر نو تعمیر کی نوید لایا ہے۔
تبدیلی کی آوازیںکالج کی پرنسپل پروفیسر ماہ رخ ظاہر نے بتایا کہ 2022 میں جب کالج کا افتتاح ہوا تو صرف 6 طالبات تھیں۔ ’اب ہمارے پاس 100 سے زیادہ لڑکیاں پری میڈیکل، پری انجینئرنگ اور کمپیوٹر سائنس میں زیر تعلیم ہیں۔ اور اپر مہمند کی تاریخ میں پہلی بار، ہم نے بی ایس پروگرام شروع کیا ہے۔ یہ کالج صرف تعلیمی ادارہ نہیں بلکہ ایک مکمل درسگاہ بنے گا، جو لڑکیوں کو تعلیم، سیاست، معیشت اور ترقیاتی شعبوں میں حصہ لینے کے لیے تیار کرے گا‘۔
پرنسپل نے اعتراف کیا کہ یہ تبدیلی آسان نہیں تھی۔ ’شروع میں ہمیں روایات، غیر یقینی حالات، اور خوف کی وجہ سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن ہمارے لوگوں کو جلد ہی یہ احساس ہو گیا کہ اگر ان کی بیٹیاں تعلیم یافتہ نہیں ہوں گی، تو پورا معاشرہ مصیبت میں رہے گا۔ آج وہی خاندان فخر کے ساتھ اپنی بیٹیوں کو یہاں بھیجتے ہیں‘۔
لیکچرر گیگانی نے بتایا کہ شروع میں انہیں گھر گھر جا کر خاندانوں کو اپنی لڑکیوں کو کالج بھیجنے پر قائل کرنا پڑتا تھا۔ ’ہم نے انہیں یقین دلایا کہ ان کی بیٹیاں محفوظ ہوں گی اور صحیح رہنمائی کی جائے گی۔ اب ہمارے پاس اہل عملہ، معاون انتظامیہ اور کمیونٹی کا بڑھتا ہوا اعتماد ہے۔ اس تبدیلی کا مشاہدہ کرنا ہمارے حوصلے کو بڑھاتا ہے‘۔
لیکچرر مریم ظاہر نے کہا کہ کم داخلے، وسائل کی کمی اور سماجی ہچکچاہٹ جیسے کئی چیلنجز تھے، لیکن ضلعی انتظامیہ اور عوامی نمائندوں کے تعاون سے ہم نے قابو پا لیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا ’ماحول بدل چکا ہے۔ لوگ اب تعلیم کو اختیار کاری (Empowerment) سمجھتے ہیں، یہ ثقافت کے لیے خطرہ نہیں ہے‘۔
طالبہ شمائلہ ملک نے اس پروگرام کو تعلیمی انقلاب قرار دیتے ہوئے کہا، ’یہ پروگرام مواقع کے بند دروازے کھولے گا۔ اس علاقے میں لڑکیوں کی تعلیم بہت ضروری ہے۔ یہاں ملازمت کے بہت سے مواقع آتے ہیں، لیکن تعلیم یافتہ مقامی خواتین کی کمی کی وجہ سے باہر کے لوگوں کو نوکریاں ملتی ہیں۔ اگر یہاں کی لڑکیاں پڑھ لکھ جائیں تو مقامی لوگوں میں محرومی کا احساس کم ہو گا‘۔
کالج کی طالبہ سفینہ جابر نے خوشی کے ساتھ کچھ تشویش کا بھی اظہار کیا۔ ’یہ نعمت ہے کہ ہمارے پاس بی ایس پروگرام آ گیا ہے، لیکن ٹرانسپورٹ کا مسئلہ ابھی بھی ہے۔ بہت سی طالبات دور دراز علاقوں سے آتی ہیں اور غربت کی وجہ سے انہیں تعلیم جاری رکھنا مشکل ہوتا ہے۔ ہمیں اب بھی بہتر سہولیات، سکالرشپس، اور مستحق طالبات کے لیے مدد کی ضرورت ہے‘۔
مہمند جو پسماندہ اور سخت روایات کے حوالے سے جانا جاتا تھا، اب علاقہ چاندہ میں ہر صبح درجنوں نوجوان لڑکیاں یونیفارم میں ملبوس اور کتابیں اٹھائے کالج کی طرف جاتی نظر آتی ہیں، جو ایک خاموش مگر طاقتور انقلاب کی علامت ہے۔
مقامی عمائدین نے بھی لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت کو تسلیم کرنا شروع کر دیا ہے۔ علاقے کے ایک بزرگ نے تبصرہ کیا، ’جب ہمارے بیٹے کمانے کے لیے باہر جاتے ہیں، تو ہماری بیٹیوں کو بھی حصہ ڈالنے کے قابل ہونا چاہیے۔ تعلیم لڑکوں اور لڑکیوں کی برابر ضرورت ہے‘۔
نوجوان وکیل ایڈوکیٹ افضل مہمند نے کہا کہ قبائلی اضلاع کے لڑکے اعلیٰ تعلیم سے کامیاب انسان بنے ہیں، اب قبائلی لڑکیاں بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے ایک تعلیم یافتہ معاشرہ تعمیر کریں گی۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں