خیبر پختونخوا کے 12 اضلاع میں زیر زمین پانی کی سطح میں تیزی سے کمی
اشاعت کی تاریخ: 5th, May 2025 GMT
خیبر پختونخوا کے 12 مختلف اضلاع میں زیر زمین پانی کی سطح تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ شہری علاقوں کے مقابلے میں دیہی علاقوں میں پانی کی سطح کم ہونے کی رفتار زیادہ ہے۔
وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے ضلع ڈی آئی خان میں گزشتہ 10 سال کے دوران زیر زمین پانی کی سطح 8 فٹ تک گری ہے۔ حکومت نے زیر زمین پانی کی گرتی سطح کو کنٹرول کرنے کے لیے سوات اور پشاور سمیت صوبے کے مختلف اضلاع میں زمینی ذرائع سے پانی حاصل کرنے والے منصوبوں پر کام شروع کردیا ہے۔
خیبر پختونخوا میں زیر زمین پانی کی سطح تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ حکومتی رپورٹ کے مطابق پشاور کے شہری علاقوں میں زیر زمین پانی کی سطح میں کمی آئی ہے جبکہ دیہی علاقوں میں سالانہ ایک فٹ کمی ہوئی ہے۔
ضلع خیبر میں صورتحال انتہائی تشویشناک ہے جہاں سالانہ زیر زمین پانی کی سطح سات اعشاریہ چار فیصد گر رہی ہے۔ ہری پور میں 6 اشاریہ4 ، مہمند میں 5 اعشاریہ 7 جبکہ باجوڑ میں سالانہ زیرزمین پانی تین اعشاریہ تین فٹ کم ہورہا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی، شہری علاقوں میں تیزی سے بڑھتی آبادی اور ضروریات کے لیے زیرزمین پانی پر زیادہ انحصار پانی کی مسلسل کمی کی بڑی وجوہات ہیں۔ جنوبی وزیرستان سمیت صوبہ کے 20 اضلاع میں سالانہ زیر زمین پانی کی سطح صفر اعشاریہ 1 سے تک گر رہی ہے۔ جس کے پیش نظر اب قدرتی وسائل سے حاصل ہونے والے پانی کو ڈیمز میں محفوظ کرنا ناگزیر ہوگیا ہے۔
گندے پانی کو قابل استعمال بنانے، زیر زمین پانی کو نکالنے کے نظام کی نگرانی اور مینجمنٹ جبکہ عوام میں پانی کے مناسب استعمال کے حوالے سے آگاہی پیدا کرکے نہ صرف اس کے ضیاع کو روکا بلکہ آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے بھی پانی کو محفوظ بنایا جاسکتا ہے۔
خیبرپختونخوا کے متعدد اضلاع میں زیر زمین پانی کی سطح میں کمی ہوئی ہے تاہم چترال، شمالی وزیرستان اور اپر دیر سمیت صوبہ کے 8 اضلاع ایسے ہیں جہاں شہریوں کا زیادہ انحصار زمین پر موجود پانی کے استعمال پر ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ ان اضلاع میں زیر زمین پانی کی سطح مستحکم ہے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: اضلاع میں زیر زمین پانی کی سطح علاقوں میں پانی کو تیزی سے رہی ہے
پڑھیں:
بارشوں اور سیلاب سے بھارتی پنجاب میں فصلوں کو بڑے پیمانے پر نقصان
امرتسر(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔17 ستمبر ۔2025 )ریکارڈ مون سون بارشوں میں بھارتی پنجاب میں فصلوں کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا ہے بھارتی ریاست پنجاب میں مرجھائی ہوئی فصلوں سے بھرے کھیت، ہوا میں سڑتی ہوئی فصلوں اور مویشیوں کی بدبو بھری ہوئی ہے برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق ریاست پنجاب کو بھارت کا ”غلہ گھر“ کہا جاتا ہے تاہم رواں سال طوفانی بارشوں اور سیلاب نے کھیتوں کو نگل لیا ہے ، متاثرہ کھیتوں کا رقبہ لندن اور نیویارک سٹی کے برابر بنتا ہے.(جاری ہے)
بھارت کے وزیر زراعت نے حالیہ دورہ پنجاب میں کہا کہ فصلیں تباہ اور برباد ہو گئی ہیں جب کہ بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ نے اس تباہی کو دہائیوں میں بدترین سیلابی آفت قرار دیا ہے امرتسر سے 30 کلومیٹر شمال میں واقع شہزادہ گاﺅں کے رہائشی 70 سالہ بلبیر سنگھ نے کہا کہ پرانی نسل کے لوگ بھی اتفاق کرتے ہیں کہ آخری بار ایسا سب کچھ تباہ کرنے والا سیلاب ہم نے 1988 میں دیکھا تھا ابلتے پانی نے بلبیر سنگھ کے دھان کے کھیت کو دلدل میں بدل دیا اور ان کے مکان کی دیواروں میں خطرناک دراڑیں ڈال دی ہیں. جون سے ستمبر کے دوران برسات کے موسم میں سیلاب عام ہیں لیکن ماہرین کہتے ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلی اور غیر منصوبہ بند ترقی ان کی تعداد، شدت اور اثرات کو بڑھا رہی ہے. محکمہ موسمیات کے مطابق اگست میں پنجاب میں اوسط کے مقابلے میں بارش تقریباً دو تہائی بڑھ گئی جس سے کم از کم 52 افراد ہلاک اور 4 لاکھ سے زیادہ متاثر ہوئے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے پنجاب کے لیے تقریباً 18 کروڑ ڈالر کے امدادی پیکیج کا اعلان کیا ہے تور گاﺅں تباہ حال ہے، جہاں اجڑے کھیت، مویشیوں کی لاشیں اور گرے ہوئے مکانات کا ملبہ ہر طرف بکھرا ہے، کھیت کے مزدور سرجن لال نے بتایا کہ 26 اگست کو نصف شب کے بعد پانی آیا یہ چند منٹوں میں کم از کم 10 فٹ تک پہنچ گیا. سرجن لال نے کہا کہ پنجاب کے سب سے زیادہ متاثرہ ضلع گرداس پور کا یہ گاﺅں تقریباً ایک ہفتے تک پانی میں گھرا رہا ہم سب چھتوں پر تھے ہم کچھ نہیں کر سکتے تھے کیونکہ پانی سب کچھ بہا لے گیا ہم جانور اور بستر تک سے محروم ہوگئے ان کے قریبی سرحد کے آخری بھارتی گاﺅں لَسیا کا کسان راکیش کمار اپنے نقصان گن رہا تھا اپنی زمین کے علاوہ میں نے اس سال کچھ زمین لیز پر بھی لی تھی میری ساری سرمایہ کاری برباد ہو گئی. راکیش کمار کو مستقبل دھندلا لگ رہا ہے، اسے خدشہ ہے کہ اس کے کھیت وقت پر گندم بونے کے لیے تیار نہیں ہوں گے، جو پنجاب کی پسندیدہ ربیع کی فصل ہے، انہوں نے کہا کہ پہلے یہ سارا کیچڑ سوکھے گا اور پھر ہی بڑی مشینیں آ کر مٹی کو صاف کر سکیں گی عام حالات میں بھی، یہاں بھاری مشینری لانا ایک مشکل کام ہے کیونکہ یہ علاقہ مرکزی زمین سے ایک عارضی پل (پونٹون برج) کے ذریعے جڑتا ہے جو صرف خشک مہینوں میں چلتا ہے. زمین سے محروم مزدور 50 سالہ مندیپ کور کی غیر یقینی اور بھی زیادہ ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہم بڑے زمینداروں کے کھیتوں میں مزدوری کر کے روزی کماتے تھے مگر اب وہ سب ختم ہو گئے اس کا مکان پانی میں بہہ گیا اور اسے صحن میں ترپال کے نیچے سونا پڑ رہا ہے یہ خطرناک صورت حال ہے کیوں کہ سانپ ہر طرف نم زمین پر رینگتے ہیں پنجاب بھارت کے غذائی تحفظ پروگرام کے لیے چاول اور گندم کا سب سے بڑا سپلائر ہے جو 80 کروڑ سے زائد لوگوں کو رعایتی اناج فراہم کرتا ہے. ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سال کے نقصانات سے اندرونِ ملک سپلائی کو خطرہ نہیں ہوگا کیونکہ بڑے ذخائر موجود ہیں، مگر اعلیٰ درجے کے باسمتی چاول کی برآمدات متاثر ہونے کا امکان ہے نئی دہلی میں انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے اویناش کشور نے کہا کہ اصل اثر باسمتی چاول کی پیداوار، قیمتوں اور برآمدات پر ہوگا کیونکہ بھارتی اور پاکستانی پنجاب دونوں میں پیداوار کم ہوگی.