Express News:
2025-11-07@22:00:16 GMT

جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے

اشاعت کی تاریخ: 10th, May 2025 GMT

عبدالوحید بھٹ سری نگر کے مضافاتی علاقے ستھار میں پیدا ہوئے تھے، یوں وہ پیدائشی کشمیری تھے۔ وحید بھٹ کشمیر کی تقسیم کے بعد ہی اپنے آبائی علاقے میں مقیم رہے مگر ان کی والدہ اور خاندان کے دیگر افراد کنٹرول لائن کے دوسری طرف پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر چلے گئے۔

جب 1962میں ان کی والدہ کا انتقال ہوا تو وحید اپنی خالہ سے ملنے پاکستان آزاد کشمیر چلے گئے جہاں 1980تک مقیم رہے۔ وہ پھر اپنے آبائی شہر سری نگر آگئے مگر اب ان کے پاس پاکستانی پاسپورٹ تھا۔ وحید بھٹ اس دوران بیمار ہوئے، ان پر کئی دفعہ فالج کا حملہ ہوا۔ وحید سری نگر میں ہی مقیم رہے۔ انھوں نے کئی دفعہ کوشش کی کہ انھیں بھارت کی شہریت مل جائے مگر حالات بدلتے گئے۔ اب ان کے پاکستانی پاسپورٹ کی میعاد بھی ختم ہوگئی تھی۔

 گزشتہ ماہ کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگرام میں دہشت گردوں نے بھارت کی مختلف ریاستوں سے آئے ہوئے سیاحوں پر حملہ کیا۔ اس دہشت گردی میں 26 سیاح مارے گئے۔ بھارتی حکومت نے تمام پاکستانیوں کو ملک سے نکل جانے کا حکم دیا۔ سری نگر پولیس نے بیمار وحید بھٹ کو اپنی تحویل میں لیا۔ اس کو اٹاری کی چیک پوسٹ پر پہنچا دیا گیا۔ وحید بھٹ کی بس اٹاری چیک پوسٹ پر پہنچی ہی تھی کہ ان پر دل کا شدید دورہ پڑا۔ 80 سالہ وحید اس بس میں ہی اپنی زندگی کی بازی ہار گئے۔

ان کی میت کو بھارتی پنجاب کے دارالحکومت امرتسر پہنچایا گیا جہاں وحید کی لاش کا پوسٹ مارٹم ہوا۔ بھارتی حکومت کا وحید کو بھارت سے نکلنے کا حکم ان کی زندگی تک محدود تھا۔ اس حکم کا وحید کی میت پر اطلاق نہ ہوا اور وحید کی سری نگر کے قبرستان میں تدفین ہوگئی۔ وحید تو زندگی کی جنگ ہار کر جیت گیا مگر بہت سے بھارتی اور پاکستانی شہری ایسے ہیں جنھیں اپنے پیاروں سے علیحدہ ہو کر اپنے اپنے ملکوں میں جانا پڑا۔

منساء اور عبداﷲ پیدائشی طور پر دل کے خطرناک مرض میں مبتلا ہیں۔ ان کے والدین عنبرین اور شاہد علی 7 سال سے کوشش کررہے تھے کہ ان کو انڈیا کا ویزا مل جائے۔ گزشتہ ماہ شاہد ان کی اہلیہ اور دونوں بچوں کو طبی بنیادوں پر علاج کے لیے بھارت کا ویزا مل گیا۔ یہ خاندان 21 اپریل کو اپنی سات برس کی بیٹی منساء اور نو برس کے بیٹے عبداﷲ کو لے کر ہریانہ کے علاقے فرید آباد میں واقع اسپتال پہنچا۔

ڈاکٹروں نے پہلگام کے حملہ کے بعد دونوں بچوں کی سرجری 27 اپریل کی طے شدہ تاریخ کے بجائے 26 اپریل کو آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا مگر بھارتی ڈاکٹروں کی مسلسل کوششوں کے باوجود بھارت کی حکومت نے اس خاندان کو بھارت چھوڑنے پر مجبورکیا اور یہ خاندان بچوں کے علاج کے بغیر پاکستان پہنچ گیا۔ وفاقی وزیر صحت مصطفیٰ کمال نے اعلان کیا کہ ان بچوں کا علاج پاکستان میں ہوگا۔ ان بچوں کو کراچی کے ایک اسپتال میں داخل کیا گیا۔ پاکستانی ڈاکٹروں نے ان بچوں کے معائنے کے بعد کہا کہ وہ بچوں کی انجو پلاسٹی کرسکتے ہیں مگر بچوں کے والد شاہد کا کہنا ہے کہ ان بچوں کی کئی دفعہ انجو پلاسٹی ہوئی ہے جو ناکام ثابت ہوئی۔ یہ بچے اسلام آباد کے ایک اسپتال میں داخل ہوئے مگر ان بچوں کا آپریشن انتہائی پیچیدہ ہے۔

پاکستان اور بھارت 1947ء میں آزاد ہوئے مگر قیامِ پاکستان کے بعد دونوں ممالک کے درمیان دو بڑی جنگیں اور تین غیر علانیہ جنگیں ہوچکی ہیں، اگر اقوام عالم مداخلت نہ کرتی تو یہ چھوٹی جنگیں بڑی جنگوں میں تبدیل ہو جاتیں مگر ان تمام جنگوں کا کوئی نتیجہ صرف اس صورت میں نکلا کہ دونوں ممالک کی معیشتیں بحران کا شکار ہوئیں۔ ہزاروں فوجی اور سویلین شہری جاں بحق ہوئے۔

پہلگام میں دہشت گردی کے بعد بھارتی حکومت نے اپنی فوج کو اپنے اہداف مقررکرنے کا اختیار دیا اور سندھ طاس منصوبہ منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان نے اپنے دفاع کا حق استعمال کرنے کا اعادہ کیا، یوں کنٹرول لائن کے دونوں اطراف کشیدگی پیدا ہوگئی۔

وادئ نیلم کا شمار دنیا کی خوبصورت ترین وادیوں میں ہوتا ہے، جو لوگ سوئٹزرلینڈ اور یورپ کی خوبصورت وادیوں میں دن گزار چکے ہیں وہ کہتے ہیں کہ وادئ نیلم کے فطری نظارے سوئٹزر لینڈ کی وادیوں سے بہت زیادہ حسین اور دلکش ہوتے ہیں۔ وادئ نیلم کے مکینوں کا گزارا سیاحت، محدود کاشت کاری اور مویشی بانی پر ہوتا ہے، مگر اس کشیدگی کی صورتحال میں وادئ نیلم میں ہنگامی صورتحال سے سردیوں میں برفباری اور بارشوں کی بناء پر سیاح اس وادی کا رخ نہیں کرتے، مگرگرمیوں میں ملک بھر سے بھی سیاح وادئ نیلم آتے ہیں مگر اسلام آباد سے وادئ نیلم جانے والے ایک صحافی نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ علاقے میں دکانیں اور ہوٹل ویران پڑے ہیں۔

سیاحوں کی آمد شروع نہیں ہوئی، اگر دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کم نہ ہوئی تو سیاحت کا یہ سیزن مایوس کن ہوگا۔ ایک ماہر معاشیات نے اپنے ایک آرٹیکل میں بھارت اور پاکستان میں جنگ یا جنگ جیسی صورتحال کے نقصانات کا حوالہ دیا ہے اور لکھا ہے کہ اس صورتحال میں بھارت اور پاکستان کی معیشتیں سخت متاثر ہونگی۔

 ایک بین الاقوامی جریدہ ’’ فارن افیئرز فورم‘‘ کی شایع ہونے والی ایک رپورٹ میں ایک ماہر نے لکھا ہے کہ صرف بھارت کو جنگ کی صورت میں روزانہ 670 ملین ڈالر کا نقصان ہوسکتا ہے جو بڑھ کر 17.

8 بلین ڈالر تک پہنچ سکتا ہے جو بھارت کی جی ڈی پی کا 20 فیصد ہوگا۔ پاکستان کی معیشت پہلے ہی کمزور حالت میں ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت کی بہت بڑی معیشت ضرور ہے مگر کسی قسم کی جنگ کی صورتحال میں بیرونی سرمایہ کار ی رک جاتی ہے اورکئی سرمایہ کار بھارت چھوڑنے پر مجبور ہونگے اور اسٹاک ایکسچینج میں بحران پیدا ہوگا۔

اس رپورٹ کے مطابق دونوں ممالک کی کرنسی ڈی ویلیو ہوگی، اگر بین الاقوامی مارکیٹ میں پٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتیں بڑھ گئیں تو پھر دونوں ممالک کی معیشت پر مزید بوجھ بڑھ جائے گا۔ سندھ طاس معاہدے کی معطلی سے پاکستان میں پانی کا بحران مزید شدت اختیارکرجائے گا۔ دونوں ممالک کے درمیان فضائی حدود کی بندش کا نقصان دونوں ممالک کو ہوگا۔ ایک طرف بھارت کی ایئر لائنزکو طویل فاصلہ طے کرنے کے لیے زیادہ پٹرول استعمال کرنا پڑتا ہے تو دوسری طرف پاکستان بھی اپنی فضائی حدود خالی ہونے کی بناء پر کروڑوں ڈالر سے محروم ہوجائے گا۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق یورپ کی بڑی ایئرلائنز نے فضائی حدود پر پابندی کی بناء پر پاکستان کا روٹ ختم کردیا ہے۔ دونوں ممالک نے اپنی اپنی بندرگاہوں کو دونوں ممالک کے جہازوں کے لیے ممنوع قرار دیا ہے۔

اس فیصلے سے بھارت کو زیادہ نقصان ہوگا۔ دونوں ممالک کے درمیان تجارت بند ہونے سے بھارت پاکستان کی منڈی سے محروم ہوگیا تو دوسری طرف پاکستان کی فارما سوٹیکل انڈسٹری بھارت کے ادویات کی تیاری کے سستے خام مال سے بھی محروم ہوگی۔ 2019کے بعد بھارت سے تجارت یو اے ای کے راستہ ہو رہی ہے۔ پاکستان میں کتے کے کاٹنے کی ویکسین اب نایاب ہوگئی ہے۔ چین اور یورپی ممالک سے مہنگی ویکسین مہیا ہوگی۔

بھارت کی کتے کے مرض کے خاتمے کی ویکسین سستی اور پر اثر ہے۔ پاکستان میں 42 فیصد کے قریب افراد غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ بھارت میں غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد کم ہوئی ہے مگر اب بھی بھارت میں 200 ملین اور پاکستان میں 40 ملین بچے کم غذائیت کے امراض کا شکار ہیں۔

خارجہ امور کے ایک ماہر کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کو یوکرائن اور روس کی جنگ سے سبق سیکھنا چاہیے۔ جب یہ جنگ شروع ہوئی تھی تو یہ تصور تھا کہ یہ جنگ جلد ختم ہوجائے گی مگر یہ جنگ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ اس خطے کے ڈیڑھ ارب کے قریب لوگوں کی زندگیوں کے لیے ضروری ہے کہ دونوں ممالک جنگ کے بجائے عملی تعاون اور بات چیت کے ذریعے دہشت گردی کی جڑوں کو ختم کریں۔ عظیم شاعر ساحر لدھیانوی کے یہ اشعار حقیقت بیان کررہے ہیں:

جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے

جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: دونوں ممالک کے درمیان اور پاکستان پاکستان میں پاکستان کی وادئ نیلم بھارت کی وحید بھٹ کرنے کا ان بچوں یہ جنگ کے لیے کے بعد

پڑھیں:

ماس ٹرانزٹ پروگرام، مسئلہ کا حل

نئے نظام کے نفاذ کے پہلے دن تک ای چالان کی رقم سوا کروڑ روپے تک پہنچ گئی۔ اس بات کا امکان ہے کہ کراچی میں ٹریفک قوانین پر عمل درآمد کا تصور ختم ہوجائے، اس بناء پرکہا جاسکتا ہے کہ ایک مہینے میں ٹریفک خلاف ورزیوں پر چالان کی رقم پچاس کروڑ روپے سے زیادہ ہوجائے گی۔

ٹریفک پولیس کے جاری کردہ اعداد وشمارکے مطابق سب سے زیادہ چالان سیٹ بیلٹ نہ باندھنے، ہیلمٹ نہ پہننے، اوور اسپیڈنگ، سگنل توڑنے، ڈرائیونگ کے دوران موبائل فون پر بات چیت کرتے اورکار میں ٹنٹد گلاس لگانے کے الزامات کی بناء پر ہوئے۔ کراچی میں ایکسپریس نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق اس سال کے 8 مہینوں کے دوران 697 افراد زندگی سے محروم ہوئے۔ اسی طرح 10 ہزار 400 سے زائد شہری حادثات میں زخمی ہوئے۔

ٹریفک حادثات کے اعداد و شمار کے تجزیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ سب سے زیادہ ہلاکتیں ٹرالرکی ٹکر سے ہوئیں، پھر واٹر ٹینکر سے زیادہ حادثات ہوئے۔ مرنے والوں میں اکثریت موٹر سائیکل سوار اور ان کے ساتھ سفر کرنے والے افراد تھے۔ کراچی میں ہمیشہ سے یہ ریت رہی ہے کہ کسی گنجان علاقے میں ٹرالر یا ٹینکر نے کسی موٹر سائیکل والے کوکچل دیا تو ہجوم اس ٹرالر اور ٹینکر ہی کو نذر آتش نہیں کرتا بلکہ قریب میں جتنی بھی گاڑیاں موجود ہوتی ہیں وہ ہجوم کی زد میں آجاتی ہیں۔

سندھ کی حکومت نے ٹرالر اور ٹینکرز کو بچانے کے لیے ان گاڑیوں کو نذر آتش کرنے کے الزام میں گرفتار ہونے والے افراد کے خلاف انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت مقدمات درج کرنے کی پالیسی اختیارکی ہوئی ہے۔ جب کسی گاڑی کو ہجوم آگ لگاتا ہے تو عمومی طور پر حقیقی ملزمان تو فرار ہوجاتے ہیں پولیس بھی جائے حادثہ کے قریب نوجوانوں کو گرفتارکر لیتی ہے۔ جو افراد پولیس والو ں کو ’چمک‘ کا نذرانہ پیش کرتے ہیں انھیں خاموشی سے گھر جانے کا موقع مل جاتا ہے۔

سندھ حکومت نے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے بھاری جرمانے عائد کرنے کا قانون نافذ کیا ہے۔ اس قانون کے تحت 5 ہزار سے 50 ہزار روپے تک جرمانہ ہوسکے گا۔ اس قانون کے مطابق ٹریفک چالان کا ٹکٹ ملنے پر شہری ہیلپ لائن 1915 پر رابطہ کرسکتا ہے۔ بعدازاں ڈیوٹی افسر اس کے بارے میں حتمی فیصلہ کرسکتا ہے۔ اس قانون کے تحت ہیلمٹ نہ پہننے پر 10 ہزار، سگنل توڑنے پر 5 ہزار یا 50 ہزار، غلط سمت میں موٹر سائیکل چلانے پر 25 ہزار روپے جرمانہ ہوگا۔ پاکستان بھر میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر اتنے بڑے جرمانوں کی روایت نہیں رہی، اس بناء پر پورے شہر میں ایک شوروغوغا مچ گیا ہے۔

تمام سیاسی جماعتوں نے اس قانون کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کا تقریباً ایک جیسا مؤقف ہے کہ شہر میں سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں اور ہر بڑی چھوٹی سڑک پر سیوریج کا پانی بہنا عام سی بات بن گئی ہے ، پھر سندھ حکومت نے سڑکوں اور انڈر پاس کی تعمیر کے جتنے منصوبہ شروع کیے ہیں ان میں سے بیشتر وقت پر مکمل ہی نہیں ہوسکے۔ گھگھر پھاٹک سے لے کر حب چوکی، سہراب گوٹھ سے لے کر سی ویو تک ایک جیسے حالات ہیں ۔ پھر یہ کہا گیا کہ شہر کی بیشتر شاہراہوں پر سگنل کام نہیں کرتے۔ شاہراہ فیصل جیسے اہم شاہراہ پر رات کو اسٹریٹ لائٹس بند رہتی ہیں۔

بلدیہ عظمیٰ کراچی کی کونسل نے ایک قرارداد میں متفقہ طور پر مطالبہ کیا ہے کہ ای چالان بھاری جرمانوں کا نوٹیفکیشن واپس لیا جائے۔ اس قرارداد میں کہا گیا ہے کہ لاہور میں جرمانوں کی رقم کراچی کے مقابلے میں بہت کم ہے ،سندھ حکومت کراچی کے شہریوں کے ساتھ اس سلوک پر نظر ثانی کرے۔ ڈپٹی میئر سلمان عبد اللہ مراد کی زیر صدارت کونسل کے اس اجلاس میں اس قرارداد کی منظوری سے کراچی کے عوام کے موڈ کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ قرارداد حکومت سندھ کے فیصلے پر عوام کے عدم اعتماد کا اظہار ہے مگر میئر صاحب اس قرارداد کی منظوری کو غلط فہمی قرار دے کر کونسل کو مذاق بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔

ایک وقت تھا جب کراچی کا ٹریفک نظام ملک میں سب سے بہتر تھا۔گاڑیوں کا سگنل پر رکنا، ون وے کی خلاف ورزی نہ کرنا، موٹر سائیکل سواروں کا فاسٹ ٹریک پرگاڑی دوڑانے کے بجائے سڑک کے بائیں جانب چلنا، ایک معمول سی بات تھی۔ اس وقت جرمانے کی رقم کم ہوتی تھی مگر ٹریفک پولیس کے اہلکار چوکس ہوتے تھے۔ پھر شہر میں سگنل فری کاریڈور کا تصور آیا۔ پٹرول اورگیس کی قیمتیں بڑھنے لگیں۔ ٹریفک پولیس کے اہلکار غفلت کا مظاہرہ کرنے لگے، یوں ٹریفک قوانین کی پابندی کا تصور ختم ہوتا چلا گیا۔ پھر اس کے ساتھ بسوں کے کم ہونے، سرکلر ریلوے کے بند ہونے سے متوسط اور نچلے طبقے کے لیے سستی سواری موٹر سائیکل بن گئی۔ اب میاں بیوی چار بچوں کا موٹر سائیکل پر سفر کرنا معمول بن گیا۔

پیپلز پارٹی کی حکومت یوں تو 71سے 77 تک ، پھر 1988سے 1991تک، 1993 سے 1996 تک برسر اقتدار رہی۔ 2008 سے پیپلز پارٹی سندھ میں مسلسل برسر اقتدار ہے۔ آئین میں کی گئی 18ویں ترمیم کے بعد نئے قومی مالیاتی ایوارڈ کے نفاذ سے صوبے کی آمدنی میں اربوں روپے کا فائدہ ہوا ہے مگر پیپلز پارٹی نے کراچی شہر کو اپنایا (Ownership) نہیں۔ پیپلز پارٹی کے دور میں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام مکمل طور پر تباہ ہوگیا۔ کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کی صورتحال اتنی خراب ہے کہ آبادی کا بڑا حصہ چین کی مال برداری کے لیے تیار کردہ چنگ چی پر سوار ہونے پر مجبور ہے۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کراچی کے عوام کو گرین لائن کا تحفہ دیا جو سفرکا جدید اور آرام دہ ذریعہ ہے۔

وفاقی حکومت نے اس منصوبے کو اگلے مرحلے میں سعید منزل تک بڑھانے کے لیے کام شروع کیا تو سندھ حکومت نے رکاوٹیں کھڑی کرنا شروع کردیں، اب بہرحال سندھ حکومت کو احساس ہوا ہے کہ اس منصوبے کو جاری رہنا چاہیے۔ ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ این ایف سی ایوارڈ کے تحت سندھ حکومت کو ہر سال کھربوں روپے کی رقم ملتی ہے،آخر یہ رقم کہاں خرچ ہوتی ہے؟ پیپلز پارٹی کی حکومت نے 7سال قبل ریڈ لائن کے منصوبہ کی تعمیر کا اعلان کیا، مگر یہ منصوبہ شہریوں کے لیے وبالِ جان بن گیا۔ بلاول بھٹو زرداری اپنے وزیراعلیٰ کے ہمراہ بغیر پروٹوکول خاص طور پر شام کے اوقات میں ریڈ لائن کا دورہ کریں تو انھیں اندازہ ہوکہ عوام کس اذیت سے گزرتے ہیں۔

پیپلز پارٹی کی حکومت نے ملازمتوں میں میرٹ کے تصور کو ختم کیا۔ سندھ پبلک سروس کمیشن کی افادیت ختم ہوچکی ہے۔ ایک صحافی کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کے دور میں پبلک سروس کمیشن سے کامیاب ہوکر ملازمت حاصل کرنے والے اسسٹنٹ کمشنر اور ڈی ایس پیزکی فہرست کی چھان بین کی جائے تو اکثر کا تعلق کسی نہ کسی طرح حکمراں وزراء یا اراکینِ اسمبلی یا پارٹی کے عہدیداروں سے نکلے گا۔ یوں ان وجوہات کی بناء پر کراچی کے عوام کا پیپلز پارٹی کی حکومت پر سے اعتماد ختم ہوگیا۔ اگرچہ غیبی قوتوں کی سربراہی میں پیپلز پارٹی نے اس شہر سے قومی اسمبلی کی کئی نشستیں جیتیں ہیں اور میئر بھی ان کے ہیں مگر حقائق کچھ اور ہیں۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ ٹریفک کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے جرمانہ ہونا چاہیے مگر جرمانے کی رقم کا تعین حقیقت پسندانہ ہونا چاہیے۔ حکومت کو غور کرنا چاہیے کہ کم ازکم جرمانہ 50 روپے ہوتا اور متعدد بار چالان ہونے پر جرمانے کی شرح بڑھتی جائے اور اگر 9 ماہ تک کوئی فرد ٹریفک کی مسلسل خلاف ورزیوں کا مرتکب ہو تو اس کا شناختی کارڈ بلاک ہوجانا چاہیے مگر اس کے ساتھ ہی ٹریفک قوانین کے نفاذ کے لیے تشریحی مہم ضروری ہے۔ یہ مہم مساجد، اسکولوں،کالجوں، یونیورسٹیوں اورکمیونٹی سینٹرز میں ہونی چاہیے۔ اس کام میں سول سوسائٹی کو شریک کرنا چاہیے۔

مساجد کے پیش امام بھی اس مہم میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ایک اہم معاملہ پولیس کا شہریوں کے ساتھ بیہمانے سلوک ہے، یہی وجہ ہے کہ پولیس اگر کوئی صحیح کام بھی کرتی ہے تو عوام اسے قبول نہیں کرتی۔ مگر ٹریفک چالان قوانین کے نفاذ کا مسئلہ حقیقی حل نہیں ۔ حکومت نے 500 جدید بسیں چلانے کے اعلان کیے لیکن کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا۔

کراچی میں فوری طور پر 15 سے 20 ہزار بسوں کی ضرورت ہے۔ پھر دنیا کے جدید شہروں کی طرح اب کراچی میں بھی جدید ماس ٹرانزٹ منصوبہ کا آغاز ہونا چاہیے۔ شہر میں انڈر گراؤنڈ ٹریک، الیکٹرک ٹرام اور Elevated Railwayکے نظام کی فوری ضرورت ہے۔ پیپلز پارٹی دہلی، ممبئی اور کلکتہ کی طرح ماس ٹرانزٹ کے جدید نظام کو قائم کر کے عوام کے دل جیت سکتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاک افغان مذاکرات کا تیسرا دور
  • پاک ترکیہ مشترکہ ورکنگ گروپ کا قیام
  • ماس ٹرانزٹ پروگرام، مسئلہ کا حل
  • وزیراعظم شہباز شریف آذربائیجان کے یومِ فتح کی تقریبات میں شرکت کے لیے باکو روانہ
  • بھارت میں ’پاکستان زندہ باد‘ کے نعروں نے ہلچل مچادی، ویڈیو وائرل
  • پاکستان اور ترکیہ کی وزارت داخلہ کے مابین تعاون کو مزید فعال کرنے کیلئے جوائنٹ ورکنگ گروپ کے قیام پر اتفاق
  • پاک بھارت جنگ میں آٹھ طیارے تباہ ہوئے، ڈونلڈ ٹرمپ کا نیا دعویٰ
  • پاک بھارت فضائی جھڑپ میں 8 طیارے گرائے گئے، ٹرمپ نے ایک مرتبہ پھر اپنا دعویٰ دہرادیا
  • پاک بھارت جنگ کے دوران آٹھ طیارے مار گرائے گئے، امریکی صدر ٹرمپ کا دعویٰ
  • بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے، سرفراز بگٹی