آرگینک خوراک ، مصنوعات ،جڑی بوٹیوں کو سی پیک کے زرعی منصوبوںمیں شامل کیا جائے، نجم مزاری
اشاعت کی تاریخ: 10th, May 2025 GMT
لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 10 مئی2025ء) آرگینک خوراک اور مصنوعات پر ریسرچ کرنے والے ادارے کے سربراہ نجم مزاری نے چین سے جوائنٹ ونچر کی تجویز پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت آرگینک خوراک ، مصنوعات اور جڑی بوٹیوں کو برآمدی تناظر میں غیر معمولی اہمیت دیتے ہوئے سی پیک کے تحت زرعی منصوبوںمیں شامل کرنے کیلئے بھی پیشرفت کرے ،چینی ماہرین کے ساتھ معلومات کے تبادلے کے لیے دونوں ممالک کے زرعی ماہرین کی مشترکہ ورکنگ گروپس تشکیل دئیے جائیں۔
اپنے بیان میں انہوںنے کہا کہ دنیا میں آرگینک خورا ک اور مصنوعات کا رجحان تیزی سے فروغ پارہا ہے ،ہمیں عالمی منڈیوں میں برآمدات کے ذریعے اپناحصہ لینے کیلئے منصوبہ بندی کرنی چاہیے ،عالمی منڈیوں میں مسابقت کے لیے ہمیں بین الاقوامی معیار کی لیبارٹریاں قائم کرنا ہوں گی جو تجزیہ کر کے برآمدی سرٹیفکیٹ جاری کریں،یہ منصوبہ پاکستان کی برآمدات کے لیے سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے ۔(جاری ہے)
انہوںنے کہاکہ تمام صوبوں میں آرگینک زراعت کی کاشتکاری کی تربیت کے لیے کسان دوست پروگرام شروع کئے جائیں،زرعی یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں کو کسانوں سے جوڑنے کے لیے مقامی سطح پر تربیتی ورکشاپس منعقد کی جائیں،ہر صوبے میں کم از کم ایک ریسرچ مرکز قائم کیا جائے جو مقامی حالات کے مطابق تحقیق کرکے اسے کسانوں سے شیئر کرے ۔انہوںنے کہا کہ حکومت چھوٹے کسانوں کے لیے خصوصی قرضہ اسکیمیں متعارف کرائے،اگر مذکورہ تجاویز پر سنجیدگی سے عمل کیا جائے تو پاکستان نہ صرف آرگینک خوراک کی پیداوار میں خود کفیل ہو سکتا ہے بلکہ برآمدات کے ذریعے قیمتی زرِ مبادلہ بھی حاصل کر سکتا ہے۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے آرگینک خوراک کے لیے
پڑھیں:
کیلیفورنیا کے ساحلوں پر نیلی وہیلز کی خاموشی، نئی تحقیق نے خطرے کی گھنٹی بجادی
بحرالکاہل کی گہرائیوں میں نیلی وہیلز کی خاموشی نے ماہرین کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ ایک تازہ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے جانور سمجھے جانے والی نیلی وہیلز کی آوازوں میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے، جس کا تعلق ماحولیاتی تبدیلیوں، شدید گرمی کی سمندری لہروں اور خوراک کی کمی سے جوڑا جارہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: جھیل سی گہری یہ آنکھیں ایک سمندری مخلوق کی جنہیں جلد ہی نظر لگ گئی
مونٹیری بے ایکویریم ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ماہرین کی تحقیق، جس میں 2015 سے 2021 کے درمیان وہیلز کی آوازوں کو آدھے میل گہرے پانی میں خصوصی آلات (ہائیڈروفونز)کے ذریعے سنا گیا۔ تحقیق کے سربراہ جان ریان، جو سمندری ماحولیاتی ماہر ہیں، نے بتایا کہ ’یہ آلہ انسانی سماعت کی حد سے باہر کی آوازیں بھی ریکارڈ کرتا ہے۔‘
تحقیق کے دوران ماہرین نے مشین لرننگ کی مدد سے مختلف وہیلز کی مخصوص آوازوں کو شناخت کیا۔ ہمپ بیک وہیلز کی آوازیں، جو 9 آکٹووز تک پھیلتی ہیں، مسلسل بڑھتی گئیں، لیکن نیلی وہیلز کی آوازوں میں پہلے اضافہ ہوا، پھر تیسرے سال کے بعد تیزی سے کمی دیکھنے میں آئی۔
2015 کا سال ان مخلوقات کے لیے شدید آزمائشوں کا وقت تھا۔ تحقیق میں انکشاف ہوا کہ اسی سال ایک شدید سمندری گرمی کی لہر “دی بلب” نے پورے نظام کو متاثر کیا، اس گرمی کی لہر نے نیلی وہیلز کی خوراک کرِل (چھوٹی جھینگا نما جاندار) اور مچھلیوں کو ختم کر دیا،مزید یہ کہ اسی سال دنیا کی سب سے بڑی زہریلی ایلجی کی افزائش بھی دیکھی گئی، جس نے سیکڑوں سمندری جانوروں، بالخصوص سی لائنز اور ڈولفنز کو بیمار کر دیا۔
اسی کمی کی وجہ سے نیلی وہیلز کو خوراک کی تلاش میں زیادہ وقت گزارنا پڑا، جس سے ان کے گانے (آوازیں نکالنے) کا وقت کم ہو گیا۔
یہ بھی پڑھیں: جاپانی دریافت آبی مخلوق کا پانڈا سے کیا تعلق ہے؟
مطالعے کے مطابقہمپ بیک وہیلز چونکہ خوراک کے معاملے میں زیادہ لچکدار ہیں، وہ مچھلیاں جیسے انچووی اور سارڈین بھی کھا لیتی ہیں، اس لیے وہ متاثر نہیں ہوئیں، دوسری طرف نیلی وہیلز صرف کرِل پر انحصار کرتی ہیں، اور انہیں خوراک کے لیے لمبے فاصلے طے کرنے پڑے۔
سائنسدانوں نے وہیلز کی آوازوں میں تبدیلی کے دیگر اسباب جیسے آبادی میں کمی یا دیگر سماجی عوامل پر بھی غور کیا، مگر خوراک کی کمی سب سے نمایاں اور مسلسل وجہ ثابت ہوئی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تحقیق اس بات کا ثبوت ہے کہ نیلی وہیلز ماحولیاتی تبدیلیوں کے مقابلے میں ہمپ بیک وہیلز کے مقابلے میں زیادہ حساس اور کمزور ہیں۔
مستقبل میں سمندری گرمی کی لہروں کے زیادہ بار، زیادہ شدت اور لمبے دورانیے کے ساتھ آنے کی پیش گوئیاں کی جارہی ہیں، جو نیلی وہیلز سمیت دیگر سمندری حیات کے لیے بڑا خطرہ ثابت ہوسکتی ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news ایلجی بحرالکاہل بلیو وہیلز سائنسدان موسیقی مونٹیری بے ایکویریم ریسرچ انسٹیٹیوٹ ہائیڈروفونز