آپریشن بنیان مرصوص نے پوری دنیا میں پاک فوج کی دھاک بٹھا دی، حمزہ شہباز
اشاعت کی تاریخ: 11th, May 2025 GMT
لاہور:سابق وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز شریف نے کہا ہے کہ آپریشن بنیان مرصوص نے پوری دنیا میں پاک فوج کی دھاک بٹھا دی ہے۔
حمزہ شہباز نے پاک بھارت جنگ بندی پر بیان دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی عظیم کامیابی پر خدائے بزرگ و برتر کے حضور سجدہ شکر بجا لاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آپریشن بنیان مرصوص نے پاکستانی مسلح افواج کی پوری دنیا میں دھاک بٹھا دی، اس جنگ میں پاکستانی فوج کی قابلیت اور فضائیہ کی پیشہ ورانہ مہارت کی پوری دنیا میں مثالیں دی جا رہی ہیں۔
حمزہ شہباز نے کہا کہ ملک کا تاریخی دفاع اور دلیرانہ کمان کرنے پر آرمی چیف جنرل عاصم منیر خصوصی تحسین کے مستحق ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی زیرک اور بردبار قیادت نے اس مشکل وقت میں ملک کو سرخرو کیا، اس کامیابی میں وزیراعظم پاکستان کی موثر خارجہ پالیسی کا ہاتھ ہے، پاکستان کی فتح نے ثابت کیا کہ یہ قوم ہر مشکل سے نبرد آزما ہونے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔
Post Views: 5.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: پوری دنیا میں نے کہا کہا کہ
پڑھیں:
حزب اللہ لبنان کسی نئی جنگ کے لیے پوری طرح تیار
اسلام ٹائمز: حزب اللہ لبنان کی جانب سے اہل غزہ کی حمایت میں فوجی کاروائیوں کا سلسلہ تقریباً ایک سال تک جاری رہا جس کے نتیجے میں 1 لاکھ 50 ہزار یہودی آبادکار شمالی مقبوضہ فلسطین سے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو گئے تھے اور وہ اب تک جنوبی علاقوں میں جلاوطنی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ مزید برآں، غاصب صیہونی رژیم کو ان کاروائیوں کے باعث اربوں ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا تھا۔ اب اگر حزب اللہ لبنان کے نئے میزائل تل ابیب، حیفا، عکا ور تمام ساحلی شہروں کے مرکز میں گرنا شروع ہو گئے تو اسرائیل کا کیا بنے گا؟ سینکڑوں بلکہ لاکھوں مزید یہودی آبادکار نقل مکانی کر کے جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ صرف یہی نہیں بلکہ صیہونی حکمرانوں کو حزب اللہ کے خلاف نئی جنگ شروع کرنے سے پہلے یمن کے حوثی مجاہدین کے ڈرون اور میزائل حملوں کے بارے میں بھی سوچنا ہو گا۔ تحریر: عبدالباری عطوان (چیف ایڈیٹر اخبار رای الیوم)
لبنان کی صورتحال واضح ہے۔ سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم کے بقول حزب اللہ لبنان اپنی طاقت پوری طرح بحال کر چکی ہے اور فوجی، سیاسی اور قیادت کے لحاظ سے اپنی تعمیر نو کر چکی ہے۔ یوں وہ اس وقت ایک ایسے شدید خطرے میں تبدیل ہو چکی ہے جو ہر وقت سے زیادہ اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کی موجودیت کو للکار رہا ہے۔ غاصب صیہونی رژیم کی فوجی انٹیلی جنس رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حزب اللہ لبنان نے اپنی میزائل طاقت بھی مکمل بحال کر لی ہے اور ایران سے شام کے راستے حزب اللہ لبنان کو پہنچنے والی فوجی رسد کے راستے بھی دوبارہ کھل گئے ہیں جو شام میں برسراقتدار آنے والی نئی حکومت کی آنکھوں سے اوجھل ہیں۔ لبنان کے خلاف غاصب صیہونی رژیم کے حالیہ دھمکی آمیز بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ لبنان پر اس کی سابقہ فوجی جارحیت بری طرح ناکامی کا شکار رہی ہے۔
اب تک صیہونی حکمران، خاص طور پر بنجمن نیتن یاہو یہ دعوے کرتے آئے ہیں کہ انہوں نے گذشتہ جنگ کے دوران حزب اللہ لبنان کی کمر توڑ ڈالی ہے اور اس کے میزائلوں کے تمام ذخیرے تباہ ہو چکے ہیں اور اس کی اسلحہ ساز فیکٹریاں بھی تباہ کر دی گئی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اب یہ حقیقت پوری دنیا پر عیاں ہو چکی ہے کہ صیہونی حکمرانوں کے یہ تمام دعوے جھوٹے تھے۔ اس بات کا واضح ثبوت خود انہی کے حالیہ بیانات ہیں جن میں وہ حزب اللہ لبنان سے درپیش خطرے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ حزب اللہ لبنان اس وقت اپنی نئی قیادت اور فوجی سیٹ اپ کے ساتھ اسرائیل کے خلاف سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑی ہے۔ اس کی طاقت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ اور مغربی طاقتوں کے بھرپور دباو کے باوجود لبنان حکومت حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔
حزب اللہ کے ایک قریبی آگاہ ذریعے نے بتایا: "حزب اللہ کے جدید قائدین جن کی اکثریت جوان اور عرب اور انٹرنیشنل یونیورسٹیوں سے پڑھ چکے ہیں ایسے دیگر فوجی کمانڈرز کے ہمراہ سرگرم عمل ہو چکے ہیں جو ایران، روس اور شمالی کوریا جیسے ممالک کے ملٹری کالجز سے تعلیم حاصل کر کے آئے ہیں۔ ان افراد نے نہ صرف حزب اللہ اور اس کے فوجی ڈھانچے اور لیڈرشپ کو ترقی بخشی ہے بلکہ اس وقت کمان ان کے ہاتھوں میں ہے اور وہ اسلامی مزاحمت کے راستے پر ہی عمل پیرا ہیں۔ حزب اللہ لبنان کا نیا ورژن اتوار کے روز انجام پائی بڑی فوجی کاروائی کی بنیاد پر استوار ہے، وہی فوجی کاروائی جس نے تل ابیب اور حیفا کے مرکز کو نشانہ بنایا تھا اور خاص طور پر دنیا کے سب سے بڑے جاسوسی مرکز (یونٹ 8200) پر حملہ کیا تھا۔"
اس ذریعے نے مزید بتایا: "اسی طرح اس کاروائی میں قیساریہ میں واقع نیتن یاہو کے گھر کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا اور غاصب صیہونی رژیم فوری جنگ بندی کے لیے منتیں کرنے پر مجبور ہو گئی تھی۔" حزب اللہ لبنان نے حال ہی میں صدر جوزف عون، وزیراعظم نواف سلام، قومی اسمبلی کے اسپیکر نبیہ بری اور قوم کے نام ایک کھلا خط لکھا جو دراصل اس تنظیم کی نئی قیادت کی جانب سے اسلامی مزاحمت جاری رکھنے اور لبنان اور خطے کے خلاف امریکہ اور غاصب صیہونی رژیم کی سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے اصرار پر مبنی دو ٹوک موقف کا اظہار تھا۔ حزب اللہ لبنان کے اس کھلے خط میں چار اصلی اور نئے نکات قابل غور ہیں:
1)۔ اسرائیل نے جنگ بندی معاہدے کی پابندی نہیں کی اور 5 ہزار سے زیادہ بار لبنان کی سرزمین پر جارحیت کی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اب حزب اللہ لبنان بھی اس معاہدے کی پابند نہیں رہے گی۔
2)۔ لبنان غاصب صیہونی رژیم کے جارحانہ اقدامات کا خاتمہ چاہتا ہے اور امریکہ اور صیہونی دشمن کی پیش کردہ شرائط کی بنیاد پر بچھائے جانے والے سیاسی مذاکرات کے جال میں پھنسنا نہیں چاہتا۔
3)۔ حزب اللہ لبنان، لبنان کو گھٹنے ٹیک دینے پر مجبور کر دینے اور اس کی سرزمین پر غاصبانہ قبضہ جمانے کی غرض سے سرگرم جارح قوتوں اور غاصب صیہونی رژیم کے جارحانہ اقدامات کے مقابلے میں اپنے دفاع کے جائز حق پر زور دیتی ہے۔
4)۔ حزب اللہ ہر اس حربے اور طریقہ کار کا مقابلہ کرے گی جس کا مقصد اسے غیر مسلح کرنا ہو گا اور جب تک غاصبانہ قبضہ برقرار ہے اس وقت تک مسلح جدوجہد بھی جاری رہے گی۔
یہ کھلا خط لبنانی صدر جوزف عون کے اس بیانیے کا واضح جواب ہے جس میں اس نے کہا تھا کہ اسرائیل سے مذاکرات ہی لبنان کے سامنے واحد آپشن ہے۔
حزب اللہ لبنان کی جانب سے اہل غزہ کی حمایت میں فوجی کاروائیوں کا سلسلہ تقریباً ایک سال تک جاری رہا جس کے نتیجے میں 1 لاکھ 50 ہزار یہودی آبادکار شمالی مقبوضہ فلسطین سے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو گئے تھے اور وہ اب تک جنوبی علاقوں میں جلاوطنی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ مزید برآں، غاصب صیہونی رژیم کو ان کاروائیوں کے باعث اربوں ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا تھا۔ اب اگر حزب اللہ لبنان کے نئے میزائل تل ابیب، حیفا، عکا ور تمام ساحلی شہروں کے مرکز میں گرنا شروع ہو گئے تو اسرائیل کا کیا بنے گا؟ سینکڑوں بلکہ لاکھوں مزید یہودی آبادکار نقل مکانی کر کے جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ صرف یہی نہیں بلکہ صیہونی حکمرانوں کو حزب اللہ کے خلاف نئی جنگ شروع کرنے سے پہلے یمن کے حوثی مجاہدین کے ڈرون اور میزائل حملوں کے بارے میں بھی سوچنا ہو گا۔