پاکستان کی فتح، جنگ بندی دانشمندانہ فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 12th, May 2025 GMT
بھارت کی جانب سے کشیدگی میں کمی کی شدید خواہش کے بعد پاکستان نے جنگ بندی پر اتفاق کیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سب سے پہلے اپنی سوشل میڈیا سائٹ ایکس پر اعلان کیا کہ دونوں جوہری طاقتیں فی الحال جنگ بندی پر متفق ہوگئی ہیں۔ پاکستان اور بھارت کی جنگ بندی کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے قوم سے خطاب کیا۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے جری جوانوں نے بھارت کو چند گھنٹوں میں ایسا سبق سکھایا کہ دنیا اُسے ہمیشہ یاد رکھے گی۔
بلاشبہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی کا اعلان ایک اہم اور حساس موڑ ہے جو جنوبی ایشیا کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ جنگ بندی ایک ایسے وقت میں ہوئی جب دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی اپنی انتہاؤں کو پہنچ چکی تھی۔ اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کا مقابلہ کرنا اپنی جگہ ایک بہت بڑی بات ہے۔ مادر وطن کا ایک ایک انچ ہمارے لیے بہت قیمتی ہے۔
کم بجٹ کے باوجود پاکستان کو دنیا کی ساتویں بڑی اور طاقتور فوج سمجھا جاتا ہے جو ہر محاذ پر لڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ پاکستان کی بری، بحری اور فضائی افواج کا شمار دنیا کی بہترین اور پیشہ ور افواج میں ہوتا ہے۔ محدود وسائل کے باوجود پاکستانی فوج نے بھارت جیسے طاقتور ملک کو زیر کردیا ہے۔ اگر پاکستان 1970 سے قبل ایٹم بم بناچکا ہوتا تو پاکستان کبھی دولخت نہ ہوتا۔
22 اپریل کو پلوامہ میں ہونے والے دہشت گرد حملے میں 26 افراد کی ہلاکت کے بعد، بھارت نے پاکستان پر الزام عائد کیا کہ وہ دہشت گردوں کی حمایت کر رہا ہے۔ اس کے جواب میں بھارت نے پاکستانی سفیروں کو ملک بدر کیا، سرحدیں بند کیں اور سندھ طاس معاہدہ معطل کردیا۔ پاکستان نے بھی جوابی اقدامات کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ تمام تجارتی تعلقات منقطع کر دیے، فضائی حدود بند کردیں اور سفارتی تعلقات ختم کر دیے۔
اس کشیدگی کے دوران، 7 مئی کو بھارت نے ’’آپریشن سندور‘‘ کے تحت پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور پنجاب کے مختلف علاقوں پر فضائی حملے کیے، جن میں جدید ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا۔ پاکستان نے بھی جوابی کارروائی کرتے ہوئے بھارتی فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا اور متعدد بھارتی طیاروں کو مار گرایا۔ اس دوران دونوں ممالک کے درمیان شدید فضائی جھڑپیں ہوئیں، جنھیں نئے دور کی فضائی جنگ کا نام دیا گیا۔
پاکستان کی مسلح افواج کی جانب سے پوری طاقت کے ساتھ آپریشن ’’بنیان مرصوص‘‘ (آہنی دیوار) کا آغاز بھارت کی متعدد بیسز کو ہدف بناتے ہوئے کیا گیا۔ پاک فضائیہ کے جے ایف 17 تھنڈر طیاروں نے ہائپر سونک میزائلوں سے اودھم پور میں بھارت کے ایئر ڈیفنس سسٹم ایس 400 کو تباہ کردیا، ایس 400 سسٹم کی قیمت تقریباً 1.
اسی طرح ایک اور بڑے حملے میں راجوڑی میں ایک اہم بھارتی ملٹری انٹیلی جنس ٹریننگ سینٹر کو بھی تباہ کیا گیا، یہ سینٹر پاکستان میں دہشت گردانہ سرگرمیوں کی منصوبہ بندی میں ملوث تھا۔ بھارت کی وزارت دفاع کے حکام نے کہا کہ پاکستان نے انڈیا کے 26 مقامات پر مربوط ڈرون حملے کیے۔ پاکستان نے لگا تار کارروائیاں کیں، لانگ رینج ہتھیار، گولے بارود اور جنگی طیاروں کا استعمال کر کے انڈین فوجی انفرا اسٹرکچر کو نشانہ بنا کر بھارت کا غرور خاک میں ملا دیا اور بھارت کو جھکنے پر مجبورکردیا۔
اعداد و شمار کا غیر جانب دارانہ جائزہ لیا جائے تو پاکستان کا دفاعی بجٹ دنیا کے دیگر ممالک خاص کر بھارت کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ بھارت کا فوجی بجٹ ہم سے سات گنا زیادہ ہے، اس فرق کے باوجود پاکستانی فوج کو تربیت اور مہارت کے حوالے سے بھارت سے بہتر قرار دیا جاتا ہے۔ دوسری جانب پاک فوج، پاکستانی قوم دنیا کو دہشت گردی سے بچانے کے لیے جان و مال کی قربانی پیش کررہی ہے۔ جواب میں عالمی برادری پاکستان کی اس طرح مدد نہیں کررہی جس طرح کرنی چاہیے۔
اس وقت پاک فوج کئی محاذوں پر برسر پیکار ہے۔ قدرتی آفات میں بھی قوم کی نگاہیں اپنی فوج پر ہوتی ہیں، سیلاب ہو یا زلزلہ یا آفت، فوج نے ہمیشہ دو قدم آگے بڑھ کر قوم کی مدد کی ہے۔ یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کا مضبوط دفاع اور طاقتور فوج پاکستان کی معاشی مشکلات کی وجہ نہیں، ہمیں جن معاشی مشکلات کا سامنا ہے، اس کی وجہ ہماری معاشی پالیسیوں کی ناکامی ہے۔ ملک کو معاشی مشکلات سے نکالنے کے لیے معاشی اصلاحات کی ضرورت ہے۔
ڈیفنس بجٹ یا دفاعی صلاحیت میں کمی ہماری مشکلات کا حل یا ترقی کا زینہ نہیں۔ وہ لوگ جو مسلسل یہ راگ الاپ رہے ہیں کہ ڈیفنس بجٹ کم کر کے ہم کوئی معاشی سپر پاور بن جائیں گے، بہت بڑی غلطی پر ہیں۔ وطن عزیز پاکستان اگر آج بھی دنیا بھر میں ممتاز ہے اور مسلم امہ پاکستان کی طرف دیکھتی ہے تو اس کی بنیادی وجہ پاکستان کی دفاعی صلاحیت ہے۔
سیاسی غلطیوں اور معاشی ناکامیوں سے گھبرا کر ایسے فیصلے کرنا جو ہمیں مزید ناکامیوں سے دوچار کردیں، دانشمندانہ نہیں ہوگا۔ ہم اپنی معاشی مشکلات پر قابو پالیں تو دنیا کے طاقتور ممالک کی فہرست کے ساتھ ساتھ بڑی معیشتوں میں بھی شامل ہوسکتے ہیں۔ ترقی کا سفر جاری رہے تو جی ایٹ میں شامل ہونا بھی کوئی خواب نہیں۔ بہت سے عرب سیاستدان اور دانشور اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان اور سعودی عرب میں دفاعی تعاون اور پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں کے باعث ہی اسرائیل کو عرب ممالک کے خلاف جارحیت کی جرات نہیں ہوئی۔
اس وقت سقوط ڈھاکہ کے دنوں کے وہ بیانات یاد آرہے ہیں جب پاکستانی قوم کو یہ یقین دہانی کرائی جارہی تھی کہ امریکا کا ساتواں جنگی بحری بیڑا پاکستان کی مدد کے لیے آرہا ہے، لیکن ہم انتظار ہی کرتے رہ گئے نہ وہ امریکی جنگی بیڑا آیا اور نہ امریکا نے پاکستان بچانے کے لیے کوئی مثبت کردار ادا کیا۔ امریکا نے سیٹو اور سینٹو معاہدے کے وقت جو اسلحہ فراہم کیا، افغان جنگ کے دوران جو ایف سولہ طیارے دیے اس کے ساتھ یہ شرط بھی لگائی جاتی رہی کہ یہ اسلحہ یا ایف سولہ طیارے بھارت کے خلاف استعمال نہیں ہوں گے۔
کمزور ممالک کی نہ اپنی کوئی خارجہ پالیسی ہوتی ہے اور نہ معاشی، نہ ہی ان کا دفاع مضبوط ہوتا ہے، وہ طاقتور ممالک کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ بلاشبہ پاکستان نے خطے میں امن و استحکام کی خاطر جنگ بندی قبول کی ہے۔ بھارت کی جنگجویانہ سوچ اور جنگی جنون پر دنیا کو شدید تشویش ہونی چاہیے۔ جنوبی ایشیا دنیا کی ایک بڑی آبادی کا مسکن ہے، جو ایسے غیر ذمے دارانہ اقدامات کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے۔
یہ جنگ بندی پاکستان اور بھارت دونوں کے لیے ایک آزمائش بھی ہے اور ایک موقع بھی۔ اگر اس معاہدے پر خلوص نیت سے عمل کیا جائے، تو یہ خطے میں ایک نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ دونوں ممالک صرف الفاظ پر نہیں بلکہ عمل پر یقین رکھیں۔ دونوں کو چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کی خودمختاری کا احترام کریں، اور مسئلہ کشمیر سمیت تمام تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی سنجیدہ کوشش کریں۔
عوام کی اکثریت جنگ نہیں چاہتی۔ چاہے وہ لاہور میں ہو یا دہلی میں، سرینگر میں ہو یا کراچی میں، ہر فرد امن، خوشحالی، روزگار، تعلیم، اور صحت جیسی بنیادی سہولیات چاہتا ہے۔ جنگ بندی سے حاصل ہونے والا وقفہ دونوں حکومتوں کو یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ اپنی ترجیحات کا از سر نو تعین کریں اور عوام کی فلاح و بہبود کو اولین ترجیح دیں۔
ماضی کی تلخ یادیں، خونریز جنگیں، اور سیاسی مفادات کا جال اس راہ کو مشکل ضرور بناتے ہیں، مگر ناممکن نہیں۔ اگر یورپ کی قومیں دوسری عالمی جنگ کے بعد باہمی نفرت کو ختم کر کے یورپی یونین بنا سکتی ہیں، تو برصغیر کی یہ دو عظیم قومیں بھی مل کر ایک پرامن، ترقی یافتہ اور خوشحال مستقبل کی بنیاد رکھ سکتی ہیں۔ دونوں حکومتیں جنگ بندی کو محض وقتی ریلیف نہ سمجھیں بلکہ اسے مستقل امن کے قیام کا نقطہ آغاز بنائیں۔ تاریخ نے ہمیں بار بار موقع دیا ہے، مگر ہم نے اکثر اسے گنوا دیا۔ شاید یہ موقع ان چند مواقع میں سے ایک ہو جسے ہم اگر صحیح طریقے سے استعمال کریں تو آیندہ نسلوں کے لیے ایک بہتر کل کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔ امن ہی اصل فتح ہے۔ اس سچ کو جتنی جلدی مان لیا جائے، اتنا ہی بہتر ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: معاشی مشکلات پاکستان اور پاکستان نے پاکستان کی اور بھارت بھارت کے ممالک کے بھارت کی نہیں ہو کے ساتھ میں ہو کے بعد ہے اور
پڑھیں:
سندھ طاس معاہدہ کی معطلی؛ جنگ بندی کے باوجود بھارت اپنی روایتی ڈھٹائی پر قائم
امریکی ثالثی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی پر اتفاق ہوگیا ہے لیکن مودی سرکار اب بھی اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے۔
برطانوی خبر ایجنسی کے مطابق بھارت کے 4 عہدیداروں نے تصدیق کی کہ جنگ بندی کے باوجود سندھ طاس معاہدہ معطل رہے گا۔
بھارتی حکام نے غیرملکی خبر ایجنسی کو مزید بتایا کہ پہلگام حملے کے بعد پاکستان کے خلاف فیصلوں اور پابندیوں پر جنگ بندی کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
انھوں نے کہا کہ پہلگام حملے کے فوری بعد پاکستان پر لگائے گئے تجارتی اور ویزا پابندیاں بھی جنگ بندی کے باوجود عائد رہیں گی۔
بھارتی حکام کا کہنا تھا کہ جنگ بندی سے پہلے لگائی گئی پابندیوں اور فیصلوں پر سیزفائر سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ وہ جوں کی توں برقرار رہیں گی۔
یاد رہے کہ سندھ طاس معاہدے کی معطلی کو پاکستان نے وار ایکٹ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا ہے۔