اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 مئی 2025ء) خبر رساں ادارے اے ایف پی نے انقرہ میں شام اور اردن کے اپنے ہم منصبوں کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ترک وزیر خارجہ نے کہا، ''ہم فریقین کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ جلد از جلد اکٹھے ہوں اور جنگ بندی کا آغاز کریں۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، ''اس وقت ایک مسئلہ ہے، جسے حل کرنے کی ضرورت ہے: یوکرین پہلے جنگ بندی چاہتا ہے اور پھر مذاکرات، جبکہ روس پہلے مذاکرات چاہتا ہے اور پھر جنگ بندی۔

لہٰذا صورتحال ڈیڈ لاک کا شکار ہو گئی ہے۔‘‘ تاہم انہوں نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ فریقین ''آئندہ دنوں میں سمجھوتے کے لیے اکٹھے ہوں گے۔‘‘

اختتام ہفتہ پر یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی اور فرانس، برطانیہ، جرمنی اور پولینڈ کے رہنماؤں نے روس پر زور دیا تھا کہ وہ براہ راست مذاکرات کے لیے پیشگی شرط کے طور پر پیر کے روز سے 30 روزہ غیر مشروط جنگ بندی کو قبول کرے۔

(جاری ہے)

لیکن روس نے کوئی جواب نہیں دیا اور اس کے بجائے صدر ولادیمیر پیوٹن نے فریقین کے درمیان 15 مئی کو استنبول میں براہ راست بات چیت کی تجویز پیش کی، جسے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی منظوری مل گئی۔

اتوار 11 مئی کو زیلنسکی نے کہا کہ وہ ترکی میں پوٹن سے 'ذاتی طور پر‘ ملاقات کے لیے تیار ہیں لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ اگر روسی رہنما 30 روزہ جنگ بندی کو مسترد کرتے ہیں تو وہ اس میں شرکت کریں گے یا نہیں۔

دونوں فریقوں نے فروری 2024ء میں روس کے یوکرین پر حملے کے بعد ابتدائی ہفتوں میں استنبول میں براہ راست بات چیت کی تھی، لیکن اس بات پر اتفاق کرنے میں ناکام رہے کہ لڑائی کو کس طرح روکا جائے، جو اس وقت سے جاری ہے۔

پوٹن کو امن مذاکرات میں 'سنجیدہ‘ ہونا چاہیے، برطانوی وزیر خارجہ

برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے کہا ہے کہ روس کے صدر ولادیمیر پوٹن کو امن مذاکرات میں شامل ہونے کے لیے سنجیدہ ہونا چاہیے۔

برطانوی وزیر خارجہ نے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کی جانب سے مذاکرات پر آمادگی کا خیر مقدم کیا۔ انہوں نے یہ بات یورپی وزرائے خارجہ کی لندن میں ہونے والی ملاقات کے موقع پر کہی جس کا مقصد اس براعظم کی سلامتی کے بارے میں غور و خوض ہے۔

زیلنسکی نے اپنے روسی ہم منصب ولادیمیر پوٹن کو چیلنج کیا ہے کہ وہ جمعرات کو ترکی میں اپنے ملک میں جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات کے لیے ان سے آمنے سامنے ملاقات کریں۔

لیمی نے روسی رہنما پر زور دیا کہ وہ مذاکرات کی میز پر آگے بڑھیں، ''یہ وقت ہے کہ ولادیمیر پوٹن یورپ میں امن کے بارے میں سنجیدہ ہوں، جنگ بندی کے بارے میں سنجیدہ ہوں اور بات چیت کے بارے میں سنجیدہ ہوں۔‘‘

ان کا مزید کہا تھا کہ اگر پوٹن کی جانب سے اس معاملے میں سنجیدگی نہیں دکھائی جاتی تو یورپ کے رہنما اس کے لیے تیار ہیں۔

برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی آج پیر 12 مئی کو فرانس، اٹلی، جرمنی، اسپین، پولینڈ اور یورپی یونین کے اپنے ہم منصبوں کی میزبانی کر رہے ہیں۔

ادارت: عاطف بلوچ

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے برطانوی وزیر خارجہ کے بارے میں انہوں نے کے لیے

پڑھیں:

ٹرمپ کی جنگ بندی کے سنسنی خیز 48 گھنٹے

صرف 48 گھنٹے میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ انتہائی جذباتی مراحل سے گزرتے ہوئے ایران اور اسرائیل کے مابین جنگ بندی معاہدے کو تشکیل دینے، خطرے سے دوچار ہونے اور بالآخر یقینی بنانے میں کامیاب رہے۔

 ابتدائی دباؤ اور جذبات کی کشمکش

معاہدے کے دوران ٹرمپ نے اسرائیل اور ایران دونوں کو کھلے الفاظ میں تنبیہ کی، قطر کے تعاون اور عراقی بلکہ قطری مددگاروں کی شرکت نے بھی دباؤ کو فائدہ مند موقع میں بدلا ۔

نیتن یاہو سے رابطہ

اتوار کی صبح، امریکی فضائی حملوں کے فوری بعد، ٹرمپ نے اپنی ٹیم سے کہا کہ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو سے فوری رابطہ کریں۔ نیتن یاہو کو واضح طور پر بتایا گیا کہ امریکا مزید فوجی کارروائی کا ارادہ نہیں رکھتا۔

ٹرمپ نے جنگ بندی اور ایران کے ساتھ دوبارہ مذاکرات کی اہمیت زور دیا ۔

ایران کے ساتھ سفارتی گفتگو

اسی دوران ٹرمپ کے مشرقِ وسطیٰ کے خصوصی نمائندے اسٹیو وٹکوف نے ایرانی وزیرِ خارجہ عباس عراقچی سے بات کی۔ انہوں کہا کہ ہم پہلے سے ہی گفتگو کر رہے ہیں، میں سمجھتا ہوں یہ مذاکرات حوصلہ افزا ہیں۔

ٹرمپ کا جنگ بندی کا اعلان

تقریباً 48 گھنٹوں کے اندر ہی ٹرمپ نے ٹویٹر پر اعلان کیا:

’ Complete and Total CEASEFIRE has been achieved ‘ ۔ یعنی مکمل جنگ بندی طے ہا گئی ہے۔

یہ اعلان جوہری یا معاشی شرائط کے برخلاف صرف فوجی کارروائیوں کی بندش پر مبنی تھا۔

ایران و اسرائیل کی محتاط خاموشی

اگرچہ ٹرمپ نے اعتماد سے اعلان کیا، لیکن ایران اور اسرائیل نے فوری طور اس پر ردعمل نہیں دیا۔ عراقچی نے ایک مختصر پیغام میں کہا:

’ابھی کوئی جنگ بندی کا مکمل معاہدہ نہیں ہوا۔ اگر اسرائیل غیر قانونی آپریشنز رات 4 بجے تک بند رکھے تو ہم مزید جواب نہیں دیں گے‘۔

ایران کے سپریم لیڈر آیت‌الله خامنہ‌ای نے بھی جنگ بندی پر آمادگی ظاہر کی، اور نیتن یاہو نے تقریباً 8 گھنٹے بعد ہی جنگ بندی قبول کی ۔

قطر کی ثالثی

قطری وزیرِ اعظم نے بتایا کہ جنگ بندی کی کوشش میں سہولت اس وقت ملی جب ایران نے امریکی اڈے پر میزائل حملہ کیا۔ 14 میزائل داغے گئے، جن میں 13 کو امریکی و قطری دفاعی نظام نے روکا ۔ شیخ تمیم بن حمد نے طویل گفتگو کے بعد جنگ بندی کے لیے آمادگی کا اظہار بھی کیا ۔

ٹرمپ کا غصہ اور فوری ردِعمل

ٹرمپ جب نیٹو سمٹ کے لیے روانہ ہوئے، انہیں اس وقت شدید غصہ آیا جب ایران یا اسرائیل کی طرف سے جنگ بندی کے باوجود حملے ہوئے۔ انہوں نے ہنگامی طور پر نیتن یاہو کو ’ڈانٹا‘:

’اسرائیل! یہ بمباری مت کرو… ابھی اپنے پائلٹس واپس بلاؤ!‘۔

ٹرمپ کے اس پیغام کے بعد اسرائیل نے مزید حملے روک دیے اور جنگ بندی اعلان کی گئی ۔

جنگ بندی کی فتح کا جشن

اپنے جہاز پر ٹرمپ نے جشن منایا اور کہا کہ:

’یہ میری عزت کی بات تھی کہ میں نے تمام جوہری تنصیبات تباہ کیں، پھر جنگ بندی کرائی‘۔

طاقت، فوج، مذاکرات، دباؤ کا امتزاج

یہ 48 گھنٹے طاقت، سفارتکاری، دباؤ اور مذاکرات کا مرکب تھے۔ ٹرمپ نے جارحیت کے ساتھ مذاکرات کو جوڑا، قطر نے ثالثی کی، ایران و اسرائیل نے محتاط طور پر جنگ بندی قبول کی، اور ٹرمپ نے اسے ایک ’تاریخی فتح‘ کے طور پر پیش کیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • ایرانی وزیر خارجہ سید محمد عباس عراقچی کا اہم انٹرویو
  • خطے کے استحکام کیلیے پاکستان کے ساتھ ملکر کام کریں گے، امریکی سیکریٹری خارجہ کی وزیر اعظم سے گفتگو
  • میں نے امریکی صدر سے درخواست کی کہ وہ غزہ جنگ روکنے کیلئے اقدامات کریں، رجب طیب اردگان
  • پوٹن برکس سربراہ اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے ،روس
  • جنگ بندی؛ حماس نے مذاکرات میں تیزی کی تصدیق کردی
  • ماسکو ایران کیخلاف جارحیت کے خاتمے کا خواہاں ہے، روس
  • حماس نے جنگ بندی مذاکرات میں تیزی کی تصدیق کر دی
  • حماس کی حالیہ گھنٹوں میں غزہ جنگ بندی پر مذاکرات تیز ہونے کی تصدیق
  • ٹرمپ کی جنگ بندی کے سنسنی خیز 48 گھنٹے
  • ایران پر امریکی بمباری کا کوئی جواز نہیں، ایرانی عوام کی مدد کی کوشش کریں گے: روسی صدر