اسلام ٹائمز: اب دنیا کی پارلیمنٹ کے کئی سو اراکین نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک خط بھیجا ہے، جس میں غزہ میں جنگ روکنے کیلئے ان سے مداخلت کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ جنگ میں اسرائیل کے اہم حمایتی کے طور پر امریکہ کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، خاص طور پر اسلحہ اور سیاسی مدد فراہم کرنے کے معاملے میں امریکی کردار اب ایک متنازعہ مسئلہ بن چکا ہے۔ بہرحال اس خط کو تشدد کے خاتمے اور خطے میں امن قائم کرنے کی بین الاقوامی کوششوں میں ایک اہم موڑ کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ تحریر: رضا میر طاہر
دنیا کی مختلف پارلیمانوں کے 500 سے زائد ارکان نے ڈونلڈ ٹرمپ کو خط لکھ کر غزہ میں نسل کشی اور قحط کو روکنے کے لیے فوری مداخلت کرنے کی اپیل کی ہے۔ یہ خط غزہ کی انسانی صورتحال کے بارے میں عالمی تشویش اور اسرائیل کے اہم حمایتی امریکہ پر دباؤ کی نشاندہی کرتا ہے۔ خطے کی نازک صورتحال کے پیش نظر، یہ کارروائی بین الاقوامی سطح پر سیاسی اور فوجی نقطہ نظر میں تبدیلی کا باعث بن سکتی ہے۔ اس خط پر دستخط کرنے والوں نے، جن میں مختلف ممالک کی اہم سیاسی شخصیات بھی شامل ہیں، جنہوں نے اسرائیل کے لیے فوجی امداد بند کرنے اور غزہ میں انسانی امداد بھیجنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ انہوں نے اسرائیل مخالف قرارداد جاری کرنے کے لیے سلامتی کونسل کا غیر معمولی اجلاس بلانے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
اس خط پر دستخط کرنے والی اہم ترین شخصیات میں عراقی پارلیمنٹ کے سابق اسپیکر اسامہ النجیفی، مراکش کے سابق وزیراعظم عبدللہ بنکران، مصر کے سابق صدارتی امیدوار ایمن نور، انڈونیشیا کی پارلیمنٹ کے ڈپٹی اسپیکر محمد ہدایہ نور واحد اور نیلسن منڈیلا کے پوتے منڈیلا منڈیلا اور جنوبی افریقہ کے سابق رکن پارلیمنٹ بھی شامل ہیں۔ اس خط کے اہم نکات کچھ اس طرح ہیں۔ انسانیت کے خلاف جرائم اور بین الاقوامی مداخلت کی ضرورت پر تاکید۔ انسانی امداد کو بحال کرنے کا مطالبہ اور کراسنگ کو دوبارہ کھولنے کی اپیل۔ اسرائیل کے جرائم میں امریکی ملوث ہونے کے بارے میں انتباہ۔ امریکا کی طرف سے گذشتہ چار ماہ میں اسرائیل کو بڑی مقدار میں دہئے جانے والے اسلحہ کے بارے میں انتباہ۔
درحقیقت امریکہ نے صیہونی حکومت کے اسٹریٹجک اتحادی کے طور پر غزہ پٹی پر حالیہ جارحیت میں اہم کردار ادا کیا ہے اور غزہ کے مظلوم عوام کے خلاف صیہونی حکومت کے جرائم کے بارے میں جان بوجھ کر اور پوری جانکاری کے باوجود ہزاروں درست رہنمائی والے اور بنکر تباہ کرنے والے بم بھیجے۔ واشنگٹن کی طرف سے بھیجے گئے ان بموں سے غزہ کے ہزاروں باشندوں خصوصاً بچوں اور خواتین کو شہید کیا گیا۔ امریکہ کو غزہ کے فلسطینیوں کے خلاف اس کے بے مثال جرائم میں اسرائیل کا براہ راست شراکت دار تصور کیا جانا چاہیئے اور اس کی تل ابیب کے لئے جامع سیاسی، سفارتی، فوجی اور سکیورٹی حمایت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیئے۔
امریکہ کے اندر صیہونی مخالف مظاہروں کو دبانے کے لئے بھی وائٹ ہاؤس کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، نیز جبکہ صیہونی حکومت کے جرائم بالخصوص غزہ کے عوام کی نسل کشی اور اس علاقے میں قحط سالی کے ہتھیاروں کے استعمال کے پیچھے بھی یقینی طور پر امریکا کا ہاتھ ہے اور اس کے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں۔ امریکہ بین الاقوامی عدالتی اداروں جیسے بین الاقوامی عدالتی انصاف اور بین الاقوامی فوجداری عدالت کے اسرائیل مخالف فیصلوں کی مخالفت کرتا چلا آرہا ہے۔ امریکہ غزہ میں جنگ جاری رکھنے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اپنے ویٹو پاور کا بھی بارہا استعمال کرچکا ہے۔
اب دنیا کی پارلیمنٹ کے کئی سو اراکین نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک خط بھیجا ہے، جس میں غزہ میں جنگ روکنے کے لیے ان سے مداخلت کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ جنگ میں اسرائیل کے اہم حمایتی کے طور پر امریکہ کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، خاص طور پر اسلحہ اور سیاسی مدد فراہم کرنے کے معاملے میں امریکی کردار اب ایک متنازعہ مسئلہ بن چکا ہے۔ بہرحال اس خط کو تشدد کے خاتمے اور خطے میں امن قائم کرنے کی بین الاقوامی کوششوں میں ایک اہم موڑ کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: بین الاقوامی میں اسرائیل پارلیمنٹ کے کے بارے میں اسرائیل کے کے طور پر کے سابق اور اس کے اہم کے لیے غزہ کے
پڑھیں:
اسرائیل کو مغربی کنارے کو ضم کرنے کی اجازت نہیں دوں گا، صدر ٹرمپ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ اسرائیل کو مغربی کنارے کو ضم کرنے کی اجازت نہیں دوں گا، یہ سلسلہ اب رکنا چاہیے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے کے مطابق اوول آفس میں غیر ملکی پالیسی سے غیر متعلقہ ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کرتے ہوئے جب صدر ٹرمپ سے حالیہ دنوں میں اسرائیلی حکام کی جانب سے مغربی کنارے کے چند حصوں پر کنٹرول حاصل کرنے کے ارادوں سے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے دو ٹوک جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ ”میں اسرائیل کو مغربی کنارہ ضم کرنے کی اجازت نہیں دوں گا۔ میں اجازت نہیں دوں گا۔ ایسا نہیں ہوگا۔“
ٹرمپ نے تصدیق کی کہ انہوں نے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو سے بات کی ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ ”اب بہت ہو چکا، اب رکنے کا وقت ہے۔“
میڈیا سے گفتگو میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ آج غزہ پر بات چیت بہت اچھی رہی ہے۔ یرغمالیوں کی رہائی کا معاہدہ جلد ممکن ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ غزہ میں خراب حالات پر قابو اور جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔
اگرچہ ٹرمپ اسرائیل کے مضبوط حامی سمجھے جاتے ہیں، وہ غزہ میں حماس کے ساتھ جاری جنگ کے خاتمے کے لیے بھی ثالثی کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ ان کا یہ بیان اسرائیلی قیادت کے لیے غیر متوقع پیغام تھا، خاص طور پر ایسے وقت میں جب وہ حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے افراد کی رہائی کے لیے زور دے رہے ہیں۔
یہ بیان ایک اہم موقع پر سامنے آیا ہے کیونکہ اسرائیل اس وقت قحط زدہ غزہ سٹی پر بھرپور حملہ کر رہا ہے، ساتھ ہی مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کی توسیع بھی جاری ہے۔ نیتن یاہو پیر کے روز وائٹ ہاؤس کا دورہ کرنے والے ہیں، جو ٹرمپ کے دوسرے دورِ صدارت کے آغاز کے بعد ان کا چوتھا دورہ ہوگا۔
دوسری جانب امریکی صدر کا گفتگو میں کہنا تھا کہ ترکیے کے صدر طیب اردوان سے بھی شاندار ملاقات ہوئی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹک ٹاک سے متعلق ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کررتے ہوئے کہا کہ چینی صدر سے ٹک ٹاک اور دیگر معاملات پر اچھی بات چیت ہوئی ہے، ٹک ٹاک کو اب پروپیگنڈے کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔
Post Views: 1