کیا اسرائیل ایک نئی جنگ شروع کرنیوالا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 10th, August 2025 GMT
اسلام ٹائمز: جہاں تک ایران کا تعلق ہے، اگرچہ ایران کے وزیرِ خارجہ نے کہا ہے کہ حزب اللہ کے اسلحے کا معاملہ لبنان کا داخلی مسئلہ ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ براہِ راست ایران کی قومی سلامتی سے جڑا ہوا ہے۔ یقینی طور پر ایران کے سکیورٹی اور فوجی حکام، خاص طور پر قدس فورس اس معاملے سے بخوبی آگاہ ہیں اور ایران کو حزب اللہ کی حمایت میں مضبوط اور واضح فیصلے کرنے ہونگے۔ ان دنوں سعودی عرب، حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے اور لبنان کی صورتحال میں اہم کردار ادا کر رہا ہے اور یہ معاملہ ایران-سعودی تعاون کے برعکس ہے۔ یہ پیشرفت مستقبل میں دونوں ممالک کے تعلقات کو بھی متاثر کرسکتی ہے۔ لبنان کی تبدیلیاں اور حزب اللہ کا مستقبل مشرق وسطیٰ سمیت بالخصوص فلسطین کیلئے ہر پہلو سے نہایت اہم ہیں۔ ماضی کے تجربات اور حالیہ حالات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل سمیت یورپ اور عربی حکومتیں فلسطین میں حماس اور لبنان میں حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے میں ناکام ہو جائیں گی۔ تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
طوفان الاقصیٰ کا معرکہ جاری ہے۔ اس معرکہ نے امریکہ کی عالمی اجارہ داری کو چیلنج کر رکھا ہے۔ ساتھ ساتھ دنیا کے سامنے غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کی ساکھ کو عوامی اور فوجی سطح پر شدید نقصان پہنچایا ہے۔ عوامی سطح پر دنیا بھر میں اسرائیل کو شدید احتجاج کا سامنا ہے۔ اسی طرح فوجی سطح پر بھی غاصب صہیونی حکومت شدید دباؤ اور تناؤ کا شکار ہے۔ فوجی نقصانات کی تفصیل کو اسرائیلی غاصب حکومت چھپا رہی ہے۔ بہرحال ایسے حالات میں کہ جب غاصب صیہونی حکومت کو فلسطینی مزاحمتی محور کے گروہوں حماس، جہاد اسلامی اور لبنان میں حزب اللہ اور یمن کی انصاراللہ کے ساتھ ساتھ براہ راست ایران سے کاری ضرب لگ چکی ہے تو اب غاصب صہیونی حکومت اپنے ان زخموں کو چھپانے کے لئے از سر نو جنگی حربوں کا استعمال کر رہی ہے۔ ان حربوں میں ایک غزہ کے عوام کو بھوک اور پیاس سے مارنا ہے، تاکہ غزہ کے لوگ علاقہ خالی کریں اور نکل جائیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر امریکہ اور اسرائیل کو اپنے مقاصد میں 70 فیصد کامیابی حاصل ہو جائے گی۔ باقی ماندہ کامیابی حماس و جہاد اسلامی کو غیر مسلح کرنے کے ساتھ ساتھ صہیونی فوجی قیدیوں کی رہائی کے معاملہ سے مربوط ہے۔
اسی طرح لبنان میں حزب اللہ کے ساتھ ہونے والا معرکہ بھی ایک نئے دور میں داخل ہوچکا ہے۔ کیونکہ اس معرکہ میں غاصب صیہونی حکومت کو سات اکتوبر کے بعد جو سب سے بڑا نقصان اٹھانا پڑا تھا، وہ شمال فلسطین سے دو لاکھ صیہونی آبادکاروں کی نقل مکانی تھی، جو تاحال واپس نہیں آئے ہیں اور اب یہ صہیونی آبادکار شمال فلسطین کو اپنے لئے مکمل غیر محفوظ سمجھ رہے ہیں۔ ایسے ہی حالات کچھ حیفا اور تل ابیب میں ایران کے براہ راست میزائل گرنے سے بھی پیدا ہوچکے ہیں کہ جہاں سے دسیوں ہزار صہیونی آبادکار سمندری راستوں سے قبرص اور یونان جا چکے ہیں اور اب واپس آنے کو تیار نہیں ہیں۔ یمن کی مسلح افواج کی کارروائیوں کے نتیجہ میں بحیرہ احمر میں اسرائیل کے بحری جہازوں کا مکمل راستہ بند ہونے کے ساتھ ساتھ ایلات کی بندرگاہ مفلوج ہوچکی ہے۔
اس تمام تر صورتحال میں امریکہ اور اسرائیل نے فلسطین اور لبنان میں مزاحمت کی بڑی شخصیات کو نشانہ بنایا اور یہ تاثر دیا کہ اب مزاحمت ختم ہوچکی ہے، لیکن شہید یحییٰ سنوار اور شہید حسن نصراللہ سمیت متعدد رہنماؤں کی شہادت کے بعد فلسطین میں حماس اور لبنان میں حزب اللہ کی طاقت میں خاطر خواہ کمی نہیں آئی ہے۔ اس کے بر عکس مزاحمت کی کارروائیوں میں تیزی نظر آ رہی ہے۔ لبنان میں بھی حزب اللہ نے لبنان کو اسرائیل کے خانہ جنگی کے منصوبہ سے بچانے کے لئے جنگ بندی کا معاہدہ کیا تھا، تاہم جنوبی لبنان میں اسرائیلی فوج کے داخلہ کے معاملہ پر حزب اللہ نے باقاعدہ غاصب صہیونی فوج کو روک رکھا ہے۔ یعنی یہ کہا جاسکتا ہے کہ رہنماؤں اور شخصیات کی شہادت کے بعد فلسطین اور لبنان میں مزاحمت بالکل کمزور نہیں ہوئی۔ اس محاذ پر اور اس طرح کے جنگی حربوں میں بھی اسرائیل کو شکست کا سامنا ہے۔
اب موجودہ صورتحال میں کہ جب تمام تر حربے ناکارہ ہوچکے ہیں، امریکہ اور اسرائیل ہزاروں انسانوں کو غزہ و لبنان میں قتل کرچکے ہیں، غزہ کو ملبہ کا ڈھیر بنا چکے ہیں، بیروت میں تباہی پھیلا چکے ہیں۔ اس کے باوجود اپنے طے کردہ اہداف کو حاصل کرنے میں ناکام ہیں۔ ایسے حالات میں امریکی صدر ٹرمپ نے ایک پرانا کارڈ کھیلنے کا فیصلہ کر لیا ہے، یعنی نیا مشرق وسطیٰ کی تعمیر کرنا۔ یہ خواب امریکہ نے سنہ 2001ء میں دیکھا تھا اور گذشتہ 25 سالوں میں اس خواب کو خطے میں موجود مزاحمت نے شرمندہ تعبیر نہیں ہونے دیا ہے۔ شام کی تبدیل ہونے والی صورتحال کے بعد امریکہ کو ترکی اور کچھ عرب حکومتوں کی مدد سے اب نیا مشرق وسطیٰ بنانے کا موقع دستیاب ہوا ہے۔ اس عنوان سے امریکی حکومت چاہتی ہے کہ وہ خطے میں مزاحمتی قوتوں بالخصوص حماس اور حزب اللہ کو غیر مسلح کرے۔ لہذا فلسطین میں امریکی ایلچی ویٹکوف اور لبنان میں تھامس براک اس کام کو انجام دینے کے لیے لبنانی حکومت کے ساتھ ساتھ فلسطینی اتھارٹی کو استعمال کر رہے ہیں۔
حماس نے امریکہ کو واضح جواب دیا ہے کہ حماس غیر مسلح نہیں ہوگی۔ اسی طرح لبنان میں بھی یہ دباؤ جاری ہے اور لبنانی وزیراعظم نواف سلام کے ذریعے حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا معاملہ پارلیمنٹ میں لایا گیا ہے۔ اصل میں امریکی حکومت اور غاصب صہیونی حکومت سمجھتی ہے کہ مزاحمتی کمانڈروں کی شہادت اور بالخصوص اب سید حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد اس کام کو تیزی سے انجام دیا جائے۔ بہرحال یہ معاملہ پارلیمنٹ میں آنے کے بعد بغیر کسی فیصلہ کے ملتوی ہوچکا ہے۔ لیکن حزب اللہ واضح کرچکی ہے کہ حزب اللہ لبنان کے دفاع سے دستبردار نہیں ہوگی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ فلسطین میں حماس سے غیر مسلح ہونے کا مطالبہ کرنے والوں میں یورپی ممالک کے ساتھ ساتھ عرب ممالک جن میں سعودی عرب، قطر، بحرین، امارات اور مصر سمیت متعدد شامل ہیں۔ اسی طرح لبنان کی حکومت پر امریکہ اور سعودی عرب کی حکومتوں کے ساتھ ساتھ فرانس اور دیگر یورپی ممالک کا دباؤ ہے۔
بہرحال حماس اور حزب اللہ کا اعلان ہے کہ وہ غیر مسلح نہیں ہوں گے، بلکہ جو لوگ مزاحمت کے اسلحہ کے بارے میں فکر مند ہیں، ان کو غزہ و لبنان پر جاری صہیونی حملوں کے بارے میں فکر مند ہونا چاہیئے۔ انسانوں کی نسل کشی پر خاموش مجرم حکومتیں مزاحمت کے اسلحہ کے بارے میں بیانات دے رہی ہیں۔ خطے کی اس تازہ ترین صورتحال پر عالمی سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے اب امریکہ و اسرائیل حماس و حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں، تاہم آئندہ چند ماہ میں غاصب صہیونی گینگ اسرائیل لبنان پر ایک بڑی جنگ مسلط کرسکتی ہے، تاکہ حزب اللہ کی طاقت کو ختم کیا جائے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ یقینی طور پر امریکہ اور اسرائیل کی ایک اور بڑی غلطی ہوگی۔
حقیقت یہ ہے کہ اب بین الاقوامی حالات میں شدت اور تیزی آچکی ہے، خصوصاً مشرقِ وسطیٰ میں یہ رفتار اور بھی زیادہ ہے۔ لہذا امریکی صدر نے غاصب صہیونی حکومت کو گرین سگنل دے رکھا ہے کہ وہ امریکہ کے "نیا مشرقِ وسطیٰ" کے منصوبے کو عملی جامہ پہنائے اور نقشہ کو مکمل کرے۔ اس نقشہ کو مکمل کرنے کے لئے امریکہ کو عرب حکومتوں اور صہیونی حکومت کے ساتھ ساتھ ترک حکومت کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ امریکی صدر کے بقول، وقت آگیا ہے کہ لبنان میں حزب اللہ اور فلسطین میں حماس کے مسئلے کو حل کیا جائے، یعنی غیر مسلح کیا جائے، تاکہ نیا مشرق وسطیٰ تشکیل پاسکے۔ جہاں تک لبنان کی بات ہے تو لبنان کا مسئلہ اس وقت سے ایک نئے مرحلے میں داخل ہوچکا ہے کہ جب سے شام کا نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا، کیونکہ لبنان کی تاریخ ہمیشہ براہِ راست دمشق کی تبدیلیوں سے جڑی رہی ہے۔
حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا منصوبہ، جسے یہ کہہ کر پیش کیا جا رہا ہے کہ اسلحہ لبنان کی فوج کے حوالے کیا جائے، سیاسی اور اقتصادی دباؤ کے ساتھ اور اسلحہ چھوڑنے کے الٹی میٹم سے شروع ہوا۔ امریکہ کے خصوصی نمائندے تھامس باراک نے یہاں تک دھمکی دی ہے کہ اگر داخلی مذاکرات میں حزب اللہ کے اسلحہ چھوڑنے پر اتفاق نہ ہوا تو لبنان کے کچھ حصے اس سے الگ کر دیئے جائیں گے۔ یعنی امریکہ خود مختار ممالک کو توڑنے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ یقینی طور پر امریکہ اس کام کے لئے شام کے دہشتگرد گروہوں اور جولانی کے ساتھ غاصب صہیونی حکومت اسرائیل کا سہارا لے گا۔ تاریخی طور پر شام کی حکومت لبنان کی زمین پر نظر رکھتی آئی ہے، خصوصاً شمالی علاقوں جیسے طرابلس اور حتیٰ کہ بیروت کو بھی اپنی سرزمین سمجھتی رہی ہے۔ اب جبکہ تکفیری گروہ الجولانی کی شام میں حکومت آچکی ہے، جو مسلسل فرقہ وارانہ بنیادوں پر مصرورف فعالیت ہے۔ لہذا یہ خطرہ موجود ہے کہ امریکی منصوبوں کی تکمیل کے لئے جولانی اس بہانے اپنے ناراض اور مایوس کارندوں کو لبنان کے شیعہ مسلمانوں سے لڑنے پر اکسا سکتا ہے۔
یعنی اب ایک نیا اتحاد منظر عام پر آرہا ہے، جسے غربی، عبری اور عربی اتحاد کہا جاسکتا ہے اور شاید یہئ نئے مشرق وسطیٰ کے منصوبے کا نیا نام ہے۔ یعنی یہ مغربی-عبری-عربی اتحاد پہلے یہ کوشش کرے گا کہ لبنان اور اسرائیل کے درمیان جنگی تنازعہ کو لبنان کی خانہ جنگی میں بدل دے، تاکہ اصل دشمن کے خلاف اتحاد ٹوٹ جائے۔ دوسری طرف تکفیریوں کو لبنان میں گھسیٹ لایا جائے، تاکہ حزب اللہ سرحد پر اسرائیل کے بجائے تکفیریوں سے لڑے۔ اس دوران لبنان کی حکومت، خاص طور پر مغرب نواز وزیرِاعظم نواف سلام مختلف وجوہات سے حزب اللہ کے ساتھ ٹکر لے رہے ہیں، تاکہ تناؤ کی صورتحال میں اضافہ ہو۔ لبنان کے وزیرِاعظم نواف سلام کے اس بیان کہ سال کے آخر تک فوج حزب اللہ کو غیر مسلح کر دے گی، نے ملک میں بڑے ردعمل کو جنم دیا۔ عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ عوامی احتجاج شروع ہوچکے ہیں۔
لبنان کی حکومت یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ حزب اللہ کو غیر مسلح نہیں کیا جا سکتا۔ حکومتی حلقوں سمیت لبنان کی فوج میں بھی حزب اللہ کی بڑی حمایت موجود ہے۔ چونکہ موجودہ لبنانی حکومت جو باقاعدہ امریکی و سعودی اشاروں پر ناچ رہی ہے، یہ بات بھی اچھی طرح جانتی ہے کہ حزب اللہ اسلحہ نہیں چھوڑے گی، اس لیے شاید یہ تجزیہ زیادہ درست ہو کہ نواف سلام کا اصل مقصد مغربی-عربی-عبری اتحاد کے دباؤ سے لبنان کو وقتی طور پر نکالنا ہے۔ کیونکہ امریکہ نے 60 دن کی مہلت دی ہے، مگر وزیرِاعظم پانچ مہینے کا وقت بتا رہے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ سال کے اختتام تک ہمیں حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان براہِ راست تصادم دیکھنے کو مل سکتا ہے۔ حزب اللہ اس منظرنامے کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔ لبنان کے عوام کی اکثریت اور کم از کم فوج کے 30 فیصد اہلکار بھی حزب اللہ کی حمایت کریں گے۔ لبنان کو بلا شبہ بڑی جنگ کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ ایک طرف مغرب، امریکہ، اسرائیل اور شام کے تکفیری گروہ، دوسری طرف حزب اللہ اور اکثریت لبنانی عوام جو اپنے وطن کی حفاظت چاہتے ہیں اور اسرائیل کو اصل دشمن سمجھتے ہیں۔
جہاں تک ایران کا تعلق ہے، اگرچہ ایران کے وزیرِ خارجہ نے کہا ہے کہ حزب اللہ کے اسلحے کا معاملہ لبنان کا داخلی مسئلہ ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ براہِ راست ایران کی قومی سلامتی سے جڑا ہوا ہے۔ یقینی طور پر ایران کے سکیورٹی اور فوجی حکام، خاص طور پر قدس فورس اس معاملے سے بخوبی آگاہ ہیں اور ایران کو حزب اللہ کی حمایت میں مضبوط اور واضح فیصلے کرنے ہوں گے۔ ان دنوں سعودی عرب، حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے اور لبنان کی صورتحال میں اہم کردار ادا کر رہا ہے اور یہ معاملہ ایران-سعودی تعاون کے برعکس ہے۔ یہ پیش رفت مستقبل میں دونوں ممالک کے تعلقات کو بھی متاثر کرسکتی ہے۔ لبنان کی تبدیلیاں اور حزب اللہ کا مستقبل مشرق وسطیٰ سمیت بالخصوص فلسطین کے لیے ہر پہلو سے نہایت اہم ہیں۔ ماضی کے تجربات اور حالیہ حالات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل سمیت یورپ اور عربی حکومتیں فلسطین میں حماس اور لبنان میں حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے میں ناکام ہو جائیں گی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے حزب اللہ کو غیر مسلح کر اور لبنان میں حزب اللہ امریکہ اور اسرائیل غاصب صہیونی حکومت فلسطین میں حماس کرنے میں ناکام ہے کہ حزب اللہ حزب اللہ اور کے ساتھ ساتھ اور حزب اللہ صورتحال میں حزب اللہ کی حزب اللہ کے اسرائیل کے اسرائیل کو ہوچکے ہیں نواف سلام کی حکومت لبنان کے ایران کے نیا مشرق کی شہادت حماس اور لبنان کی کیا جائے یہ ہے کہ رہے ہیں میں بھی ہیں اور سکتا ہے کہا جا رہی ہے میں کہ ہے اور کے بعد کے لئے کیا جا رہا ہے
پڑھیں:
حزب اللہ کی سعودی عرب کو رابطوں اور تعلقات کی اعلانیہ دعوت
اسلام ٹائمز: شیخ نعیم قاسم نے جمعہ کے روز ایک تقریر میں کہا کہ عرب خلیجی ملک قطر پر صیہونی دشمن کے حملے کے بعد کا مرحلہ اب پہلے کے مقابلے مختلف ہے، اس حملے کے بعد مزاحمت، حکومتیں، قومیں اور ہر وہ جغرافیائی اور سیاسی رکاوٹ جو "گریٹر اسرائیل" نامی منصوبے کی راہ میں حائل ہے، اب صیہونی حکومت کے ہدف بن چکا ہے اور اب اسرائیلی اھداف میں فلسطین، لبنان، اردن، مصر، شام، عراق، سعودی عرب، یمن اور ایران سب شامل ہیں۔ اسرائیلی حکومت مرحلہ بہ مرحلہ پر قدم بڑھا رہی ہے۔ عرب میڈیا کی رپورٹ:
لندن سے اپ ڈیٹ ہونے والے الیکٹرانک عربی زبان اخبار رائے الیووم نے پیر کے روز خالد الجیوسی کی ایک تجزیاتی رپورٹ شائع کی ہے، جس میں وہ کہتے ہیں کہ شاید وقت ہی کلیدی عامل ہے جس کی وجہ سے حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم نے سعودی عرب کو اپنے ایک عمومی خطاب میں آشکار طور پر "مفاہمت" کی دعوت دی، کیونکہ سعودی عرب اسرائیل کے خلاف نئے اتحاد بنانے کی کوشش کر رہا ہے، اور اسرائیل کے حماس کے رہنماؤں کو قتل کرنے کی کوشش کے طور پر دوحہ پر ہونیوالے حالیہ حملوں کے بعد اسلام آباد اور ریاض کے درمیان دفاعی معاہدہ اس کا ثبوت ہے۔
شیخ نعیم قاسم نے جمعہ کے روز ایک تقریر میں کہا کہ عرب خلیجی ملک قطر پر صیہونی دشمن کے حملے کے بعد کا مرحلہ اب پہلے کے مقابلے مختلف ہے، اس حملے کے بعد مزاحمت، حکومتیں، قومیں اور ہر وہ جغرافیائی اور سیاسی رکاوٹ جو "گریٹر اسرائیل" نامی منصوبے کی راہ میں حائل ہے، اب صیہونی حکومت کے ہدف بن چکا ہے اور اب اسرائیلی اھداف میں فلسطین، لبنان، اردن، مصر، شام، عراق، سعودی عرب، یمن اور ایران سب شامل ہیں۔ اسرائیلی حکومت مرحلہ بہ مرحلہ پر قدم بڑھا رہی ہے۔
شیخ نعیم قاسم نے پس پردہ چینلز کے بجائے اپنی تقریر میں سعودی عرب سے حزب اللہ کے ساتھ تعلقات میں ایک نئے باب کا آغاز کرنے کو ترجیح دی۔ انہوں نے سعودی عرب کے ساتھ بات چیت پر زور دیا جس سے مسائل حل ہوں، خدشات رفع ہونگے اور باہمی مفادات بھی ملحوظ رہیں۔ حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے واضح طور پر کہا کہ یہ عوامی سطح پر دی گئی دعوت اور بیانیہ ایک ایسی تجویز ہے، جس کی ماضی میں مثال موجود نہیں۔ شیخ نعیم قاسم نے اس بات پر زور دیا کہ اس کا مقصد امت اسلامیہ کے روشن مستقبل کے لیے جدوجہد کرنا اور خطے میں تقسیم اور تسلط کے صیہونی منصوبوں کا مقابلے کرنے کے لئے اپنی آزادی اور وقار کا تحفظ کرنا ہے۔
شیخ نعیم قاسم نے سعودی عرب سے اختلافات کو پس پشت ڈالنے کے لیے نہیں کہا، بلکہ اس غیر معمولی مرحلے پر "اسرائیل" کا مقابلہ کرنے اور اس چیلنج پر قابو پانے کے لیے ان اختلافات کو "منجمد" کرنے کا کہا۔ حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کے لیے اسرائیلی دباؤ کے درمیان شیخ نعیم قاسم کی یقین دہانی قابل ذکر تھی کیونکہ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ مزاحمت کے ہتھیار اسرائیلی دشمن کے خلاف ہیں اور ان کا ہدف صیہونی حکومت ہے، نہ کہ لبنان، سعودی عرب یا دنیا کا کوئی ادارہ یا ملک۔
سعودی عرب فلسطینی ریاست کو بین الاقوامی طور پر تسلیم کرنے کی مہم کی قیادت کر رہا ہے اور اسے اپنے ایجنڈے میں شامل کر رہا ہے، لیکن ساتھ ہی وہ غزہ کی پٹی میں مزاحمت کو غیر مسلح کرنے اور اقتدار سویلین اتھارٹی کو منتقل کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ اسی دوران شیخ نعیم قاسم نے اپنی تقریر میں یاد دلایا کہ مزاحمت پر دباؤ مکمل طور پر اسرائیل کے مفاد میں ہے اور مزاحمت کی عدم موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ باری دوسرے ممالک کی ہوگی جنہیں اسرائیلی حکومت کی طرف سے حملوں کا نشانہ بنایا جائیگا۔
حزب اللہ کے سکریٹری جنرل نے سعودی عرب کے ساتھ مذاکرات کی دعوت کے دوران اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا کہ مذاکرات کی بنیاد مشترکہ دشمن "اسرائیل" کیخلاف مزاحمت ہے۔
شیخ نعیم قاسم نے یاد دلایا کہ فلسطین میں مزاحمت اس (خطے میں) مزاحمت کا حصہ ہے اور اسرائیلی توسیع پسندی کے خلاف ایک اعلیٰ رکاوٹ ہے۔ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں حماس کے رہنماؤں پر اسرائیلی حملے کے حوالے سے حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ قطر پر صیہونی حملے کے بعد کا مرحلہ اس سے مختلف ہے جو صورتحال پہلے تھی۔ شاید شیخ نعیم قاسم کا اندازہ کسی حد تک سعودی عرب کے وژن سے متصادم ہو، کیونکہ سعودی عرب نئے اسلامی اتحاد کے ذریعے اپنی پوزیشن بہتر بنانا چاہتا ہے۔
سعودی عرب کے ساتھ بات چیت کے لیے شیخ نعیم قاسم کی کال سعودیہ ایران تعلقات میں ہونے والی مثبت پیش رفت سے جدا نہیں ، جس میں ایرانی صدر مسعود پیزشکیان اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے درمیان ملاقات اور اس کے بعد ایران کی سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کے سیکریٹری علی لاریجانی کا دورہ ریاض شامل ہے۔ قابل ذکر ہے کہ لاریجانی نے کہا ہے کہ ریاض کے دورے کے دوران ایران اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی تعاون پر تبادلہ خیال کیا گیا اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ ان سرگرمیوں کو پہلے مرحلے میں وفود اور گروہوں کی سطح پر اور بعد میں انشاء اللہ اداروں اور محکموں کی سطح پر جاری رکھا جائیگا۔
اس سوال کے جواب میں کہ آیا قطر پر اسرائیل کے حملے کے بعد عرب ممالک اور ان کے حکام کے نقطہ نظر اور حکمت عملی میں کوئی تبدیلی آئی ہے، لاریجانی نے کہا کہ ہاں، یقیناً ہمارے سعودی دوست پہلے ہی اس پیش رفت کے بارے میں نسبتاً واضح نظریہ رکھتے تھے، اور اب یہ مزید واضح ہو گیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ خطے کے مختلف ممالک محسوس کرتے ہیں کہ ایران جس راستے پر پہلے یقین کیساتھ گامزن تھا، اب ایک زیادہ ٹھوس شکل میں خطے میں یہ راستہ طے ہوگا اور کسی کو عدم استحکام پیدا کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
ہر صورت میں یہ عرب اور اسلامی ممالک کے درمیان اتحاد کی تشکیل میں ایک غیر معمولی پیش رفت ہے، جن میں سے سبھی مشترکہ طور پر "گریٹر اسرائیل" کے خطرے کو محسوس کرتے ہیں۔ یہ اتحاد اور معاہدے، عرب اور اسلامی ممالک کے درمیان سیاسی اور فرقہ وارانہ تنازعات سے فائدہ اٹھانے والے اسرائیل کے لئے مایوسی کا باعث ہیں۔ تاہم، جب عملی طور پر ان اتحادوں اور معاہدوں کی کامیابی اور انکے نتیجے میں ڈیٹرنس کےاندازے لگانے کیساتھ یہ ذہن میں رہنا چاہیے کہ ابھی تو آغاز ہے، اور ایک مشہور چینی کہاوت ہے کہ ہزار میل کا سفر ایک قدم سے شروع ہوتا ہے۔