کینسر کی جلد تشخیص کیلئے ماہرین کی اہم تجویز!
اشاعت کی تاریخ: 12th, May 2025 GMT
ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ کینسر کی ابتدائی علامات کے لیے سالانہ کی بنیاد پر خون کا ٹیسٹ کرایا جانا نصف مریضوں کی بیماری اگلی اسٹیج پر پہنچنے سے روک سکتا ہے۔
فی الوقت سائنس دان یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ آیا سادہ سے خون کے ٹیسٹ علامات ظاہر ہونے سے قبل کینسر کی تشخیص کرسکتے ہیں یا نہیں اور کیا اس سے بقا کی کوششوں میں بہتری آ سکتی ہے۔
برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) اس وقت کچھ ٹیسٹ آزما رہی ہے جن میں گیلیری ٹیسٹ اور miONCO-Dx ٹیسٹ شامل ہیں۔
حال ہی میں جرنل بی ایم جی اوپن میں محققین کا کہنا تھا کہ لوگوں سالانہ (یا ہر دو سال میں) اسکریننگ بیماری کی جلد تشخیص کرنے اور کینسر کو اس اسٹیج تک پہنچنے سے روک سکتی ہے جہاں پر علاج فیل ہوجائیں۔
تحقیق میں ماہرین نے تیزی سے بڑھنے والے ٹیومر (جو دو سے چار برس تک پہلی اسٹیج پر رہتے ہیں) اور تیز جارح ٹیومرز (جو پہلی اسٹیج پر ایک سے دو برس تک رہتے ہیں) کا استعمال کیا۔
مطالعے میں مثانے، چھاتی، سروائیکل، باول، گردے، جگر اور بائل ڈکٹ، پھیپھڑے، اوویرین، لبلبے، پروسٹیٹ، جِلد اور خون کے کینسر جیسی کینسر کی اقسام کا جائزہ لیا گیا۔
تجزیے میں معلوم ہوا کہ خون ٹیسٹ کے ذریعے یونیورسل کینسر اسکریننگ سے کینسر کی جلد تشخیص میں عام صورت کے مقابلے میں بہتری آئی تھی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کینسر کی
پڑھیں:
سندھ بجٹ: کم از کم تنخواہ 42 ہزار کرنے کی تجویز پر صنعتکاروں کے تحفظات
کراچی:صنعتی شعبے نے سندھ حکومت کی جانب سے کم از کم اجرت 42 ہزار روپے ماہانہ مقرر کرنے کی تجویز پر تحفظات کا اظہار کردیا۔
کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری (کاٹی) کے صدر جنید نقی نے کہا ہے کہ یہ تجویز سندھ کی معیشت، روزگار کی فراہمی اور صنعتی ترقی کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگی۔ حکومت کو معیشت کی اصل صورتحال اور زمینی حقائق کے مطابق فیصلے کرنے چاہئیں۔
انہوں نے کہا کہ جب ملک میں مہنگائی کی شرح 6 فیصد سے زیادہ نہیں تو کم از کم اجرت میں اتنا زیادہ اضافہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں کم از کم اجرت 37 سے 40 ہزار روپے کے درمیان ہے اور اگر سندھ نے 42 ہزار روپے کی حد مقرر کی تو یہ پورے ملک میں سب سے زیادہ ہوگی، اس صورتحال میں سرمایہ کاری سندھ سے دیگر صوبوں کی طرف منتقل ہونے کا خدشہ ہے اور روزگار کے مواقع بھی متاثر ہوں گے۔
جنید نقی نے واضح کیا کہ آج بھی جب کم از کم اجرت 37 ہزار روپے ہے تو ایک مزدور پر مجموعی خرچ 61 ہزار روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ اس تفصیل میں 37 ہزار روپے بنیادی تنخواہ کے علاوہ 4,500 روپے ای او بی آئی اور سیسی کی ادائیگیاں شامل ہیں۔ اسی طرح سالانہ ایک ماہ کی تنخواہ کے برابر 3,100 روپے بونس، ایک ماہ کی گریجویٹی کی مد میں 3,100 روپے، سالانہ چھٹیوں کی ادائیگی کے طور پر 1,500 روپے، اوور ٹائم کی مد میں (25 گھنٹے ماہانہ کے حساب سے) 8,000 روپے اور دیگر مراعات کی مد میں 3,800 روپے ادا کیے جاتے ہیں۔ یوں ایک مزدور پر ماہانہ مجموعی خرچ تقریباً 61,000 روپے بنتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر اوور ٹائم بڑھا کر 48 گھنٹے کر دیا جائے تو یہ خرچ 69 ہزار روپے سے تجاوز کر جاتا ہے جو سندھ میں صنعتوں کو دیگر صوبوں کے مقابلے میں غیر مسابقتی بنا دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ صورتحال سندھ کے صنعتکاروں کو نہ صرف مالی نقصان پہنچا رہی ہے بلکہ انہیں شدید کاروباری دباؤ کا بھی سامنا ہے۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کم از کم اجرت کے قانون پر عملدرآمد کی صورتحال انتہائی خراب ہے۔ سیسی اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی رپورٹس کے مطابق سندھ میں 80 فیصد صنعتیں اس قانون پر عمل نہیں کر رہیں۔ مزدوروں کی ایک بڑی تعداد غیر رسمی شعبے میں کام کر رہی ہے جہاں انہیں اوور ٹائم، چھٹیاں یا دیگر مراعات حاصل نہیں۔ اکثر مزدوروں کو 10 گھنٹے روزانہ کام کے باوجود 30 ہزار روپے سے بھی کم تنخواہ دی جاتی ہے۔ یہ فرق نہ صرف غیر منصفانہ ہے بلکہ شہری علاقوں میں بے چینی اور بدامنی کا سبب بھی بن رہا ہے۔
جنید نقی نے کہا کہ رپورٹس کے مطابق غیر رسمی طور پر جو ادارے مزدوروں کو کم اجرت دے رہے ہیں ان کی وجہ سے قانونی طور پر پوری تنخواہ ادا کرنے والے اداروں کے درمیان مسابقت میں واضح فرق پیدا ہو رہا ہے اسی طرح اجرت میں کمی سے مزدوروں میں بھی احساس محرومی کا احساس جنم لے رہا ہے جس سے بد امنی اور غیر متوقع صورتحال کا خدشہ ہے۔ دوسری جانب جو ادارے قانونی طور پر تنخواہیں ادا کر رہے ہیں ان کی حوصلہ شکنی ہو رہی ہے۔
کاٹی کے صدر نے کہا کہ یونینز کو منظم طور پر کمزور کیے جانے کی وجہ سے 90 فیصد مزدور اب بھی اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ جب تک لیبر قوانین پر مؤثر عملدرآمد نہیں ہوتا، اجرت بڑھانے کا فیصلہ محض کاغذی کارروائی ہی رہے گا جس کا فائدہ صرف چند غیر رسمی اداروں کو ہوگا جو پہلے ہی قانون سے بچ کر کام کر رہے ہیں۔
انہوں نے خبردار کیا کہ سندھ میں لیبر لاگت میں بے تحاشا اضافے کے سبب صنعتیں دیگر صوبوں کا رخ کرسکتی ہیں جہاں مزدوری کے اخراجات کم اور بنیادی سہولیات بہتر ہیں۔ اس عمل سے سندھ کی معیشت کمزور ہو گی، روزگار کے مواقع کم ہوں گے اور صوبے کے مالی وسائل پر دباؤ بڑھے گا۔