اسکردو میں آج 50 جوڑوں کی اجتماعی شادی، تیاریاں مکمل
اشاعت کی تاریخ: 18th, May 2025 GMT
گلگت بلتستان کی خوبصورت وادیوں میں واقع سکردو آج ایک انوکھی اور تاریخی تقریب کا گواہ بننے جا رہا ہے، جہاں 50 جوڑوں کی اجتماعی شادی کا اہتمام کیا گیا ہے، یہ صرف ایک شادی کی تقریب نہیں بلکہ سادگی، اخوت اور معاشرتی یکجہتی کا خوبصورت مظاہرہ ہے۔
بلتستان کے مختلف علاقوں سے آئے جوڑوں کے لیے خصوصی روایتی لباس، پگڑیاں اور شیروانیاں تیار کی گئی ہیں، جبکہ مہمانوں کی مقامی کھانوں سے تواضع کی جائے گی۔
مہنگائی کے اس دور میں یہ تقریب ایک اہم پیغام دے رہی ہے کہ خوشی اور رشتوں کی بنیاد دکھاوے پر نہیں، خلوص پر ہوتی ہے۔
منتظمین کے مطابق اس تقریب کا مقصد نہ صرف مالی مشکلات کے شکار خاندانوں کی مدد کرنا ہے بلکہ معاشرے کو ایک مثبت سمت دکھانا بھی ہے۔
سادگی کے ساتھ باندھے جانے والے یہ بندھن شاید ایک دن کی تقریب ہو، مگر اس کا پیغام برسوں یاد رکھا جائےگا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews اجتماعی شادیاں روایتی کھانے روایتی لباس سکردو مالی مشکلات وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اجتماعی شادیاں روایتی کھانے روایتی لباس مالی مشکلات وی نیوز
پڑھیں:
حسین آبادی میوزیم — گلگت بلتستان کا سب سے بڑا نجی میوزیم
سکردو کی حسین وادیوں کے دامن میں، شہر سے محض 3 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع حسین آباد میں ایک ایسا خزانہ چھپا ہوا ہے، جو بلتستان کی تاریخ، ثقافت اور تہذیب کا آئینہ دار ہے۔
یہ ہے یوسف حسین آبادی میوزیم، جسے ایک فرد کی ذاتی محنت، جنون اور محبت نے حقیقت میں بدلا۔ اس میوزیم کو بلتستان کا سب سے بڑا نجی میوزیم قرار دیا جاتا ہے، اور یہ حقیقتاً اس خطے کی ثقافتی بقا کا قلعہ ہے۔
بانی کی لگناس میوزیم کی بنیاد معروف محقق، ادیب اور سابق سرکاری افسر یوسف حسین آبادی نے رکھی۔ انہوں نے پانچ سے چھ برسوں تک دن رات محنت کرکے قدیم اشیاء، مخطوطات، تاریخی دستاویزات، تصاویر، لوک کہانیاں اور نغمات یکجا کیے۔
ابتدا میں تقریباً 1700 نوادرات اور 700 کتابوں پر مشتمل یہ ذخیرہ آج بڑھ کر چھ ہزار سے زائد نوادرات تک پہنچ چکا ہے۔ یہ سب کچھ کسی حکومتی ادارے یا غیر ملکی فنڈنگ کے بغیر، صرف ایک شخص کے عزم اور ذاتی وسائل سے ممکن ہوا۔
نوادرات اور ذخیرہیوسف حسین آبادی میوزیم کا شمار ان چند مقامات میں ہوتا ہے جہاں بلتستان کی صدیوں پرانی جھلک ایک ہی جگہ دیکھی جا سکتی ہے۔ یہاں قدیم گھریلو استعمال کی اشیاء، زرعی آلات اور روایتی برتن محفوظ ہیں۔1947-48 کی جنگ سے متعلق تاریخی یادگاریں اور نایاب دستاویزات موجود ہیں۔
بلتی زبان کے نغمات، لوک داستانیں اور قدیم موسیقی کے آلات محفوظ کیے گئے ہیں۔
ایک بھرپور لائبریری موجود ہے جس میں پرانے مخطوطات اور نایاب کتابیں شامل ہیں۔ یہ میوزیم صرف نوادرات کا گودام نہیں، بلکہ ایک تحقیقی مرکز بھی ہے، جہاں تاریخ کو پڑھنے، سننے اور محسوس کرنے کا موقع ملتا ہے۔
اہمیت اور کرداراس نجی میوزیم کی سب سے بڑی اہمیت یہ ہے کہ اس نے بلتستان کی ثقافت کو زوال سے بچایا ہے۔ مقامی طلبہ، محققین اور سیاح یہاں سے نہ صرف علم حاصل کرتے ہیں، بلکہ بلتی تہذیب کی خوبصورتی اور وسعت کو قریب سے دیکھتے ہیں۔
سکردو آنے والے ملکی و غیر ملکی سیاحوں کے لیے یہ میوزیم ایک لازمی منزل بن چکا ہے، جو قدرتی مناظر کے ساتھ ساتھ اس خطے کی تاریخی اور ثقافتی شان سے بھی روشناس کراتا ہے۔
شریف صاحب کہتے ہیں۔ ’میں نے ان نوادرات کو گلگت بلتستان کے کونے کونے سے اکٹھا کرنے کے لیے بہت جدوجہد کی۔ میں نے حکومت سے یہ بھی درخواست کی کہ ان نوادرات کی گلگت بلتستان سے منتقلی پر پابندی لگائی جائے، کیونکہ کچھ دکانداروں نے ان چیزوں کو اسمگل کرنے میں سچائی کی۔ حکومت نے کیا لیکن بعد میں اپنے کمزور ہاتھوں کی وجہ سے کئی سمگل ہو گئے‘۔
مسٹر شریف جو بلتی زبان میں قرآن لکھنے والے دوسرے شخص ہیں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ ان سے حکومت سے بین الاقوامی نمائش کے لئے کہا گیا تھا لیکن انہوں نے انکار کردیا۔
درپیش مسائلیوسف حسین آبادی میوزیم کی وسعت اور اہمیت کے باوجود یہ کئی چیلنجز کا شکار ہے:
1. فنڈز کی کمی: یہ مکمل طور پر ذاتی وسائل پر چل رہا ہے، جس کی وجہ سے دیکھ بھال اور توسیع مشکل ہے۔ 2. تحفظ کے مسائل: پرانی دستاویزات اور تصاویر کے لیے جدید سائنسی تحفظ کی ضرورت ہے۔ 3. حکومتی عدم توجہی: ابھی تک کوئی بڑا سرکاری ادارہ اس میوزیم کی سرپرستی یا مدد نہیں کر سکا۔مستقبل کے امکانات: اگر حکومت، فلاحی ادارے اور تعلیمی ادارے مل کر اس میوزیم کو سہارا دیں تو یہ خطہ نہ صرف ایک شاندار ثقافتی مرکز بن سکتا ہے بلکہ عالمی سیاحت کا محور بھی۔
ڈیجیٹل آرکائیونگ اور کیٹلاگنگ سے نوادرات کو عالمی تحقیق سے جوڑا جا سکتا ہے۔
تعلیمی ورکشاپس، نمائشوں اور لوک میلے منعقد کیے جا سکتے ہیں۔
مناسب تشہیر اور سہولیات فراہم کر کے یہ میوزیم سیاحتی نقشے پر ایک نمایاں مقام حاصل کر سکتا ہے۔
یوسف حسین آبادی میوزیم اس بات کی زندہ مثال ہے کہ اگر جذبہ اور خلوص ہو تو ایک فرد بھی تاریخ کو محفوظ کر سکتا ہے۔ یہ میوزیم نہ صرف بلتستان بلکہ پورے پاکستان کے لیے ایک قیمتی اثاثہ ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اور سماجی ادارے آگے بڑھ کر اس عظیم کاوش کی سرپرستی کریں تاکہ آنے والی نسلیں اپنی تاریخ اور ثقافت سے جڑی رہیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
مصنف سابق سینئر ایڈیشنل ڈائریکٹر لاء پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی اور اسلام آباد میں مقیم ایوی ایشن اینڈ انٹرنیشنل لاء کنسلٹنٹ ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔