اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 مئی 2025ء) دنیا کے بہت سے دیگر بحرانوں کے درمیان، کچھ دنوں سے افغانستان میں انسانی حقوق کی صورتحال بین الاقوامی میڈیا میں نظر انداز ہوتی رہی ہے، تاہم اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ لاکھوں لوگ طالبان کے زیر انتظام حکومت کے تحت منظم حقوق کی خلاف ورزیوں کا شکار ہیں۔

افغانستان کے لوگوں کی مدد کرنے کا کام، کابل میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن (یو این اے ایم اے) کے سپرد ہے، جو ملک میں انسانی حقوق کی صورتحال پر نظر رکھتا ہے اور اس بارے میں اپنی باقاعدہ رپورٹیں بھی جاری کرتا ہے۔

ادارے نے افغانستان میں انسانی حقوق کی صورت حال کے بارے میں اپنی تازہ ترین تازہ رپورٹ میں نہ صرف صنفی بنیاد پر تشدد اور سرعام کوڑے مارنے کے واقعات بلکہ اسماعیلی برادری کے خلاف بڑھتے ہوئے ظلم و ستم کو بھی دستاویزی شکل میں مرتب کیا ہے۔

(جاری ہے)

اسماعیلی فرقہ شیعہ اسلام کی ایک شاخ ہے، جب کہ افغانستان میں سنی اسلام غالب مذہب ہے۔ اسماعیلی برادری کے زیادہ تر افراد ملک کے شمالی صوبوں، جیسے بدخشان یا بغلان میں رہتے ہیں۔

ماضی میں، اسماعیلی برادری کے افراد کو سنی عقیدہ اختیار کرنے پر مجبور کرنے کے کم از کم 50 واقعات سامنے آ چکے ہیں۔ ایسا کرنے سے انکار کرنے والوں پر جسمانی حملوں، زبردستی کرنے اور جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں۔

افغانستان میں طالبان نے شطرنج پر بھی پابندی لگا دی

افغانستان میں اسماعیلی کمیونٹی کے ایک رکن پروفیسر یعقوب یاسنا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "انہیں صرف اسی صورت میں مسلمان تسلیم کیا جاتا ہے، جب طاقت کے ذریعے انہیں سنی عقیدہ اپنانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

"

سن 2021 میں طالبان کے قبضے کے بعد خود یاسنا پر بھی توہین مذہب کا الزام لگایا گیا تھا، کیونکہ انہوں نے معاشرے میں روشن خیالی اور رواداری کی وکالت کی تھی۔ انہیں یونیورسٹی میں اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے پر مجبور کیا گیا اور پھر انتقامی کارروائیوں کے خوف سے انہوں نے جلاوطنی اختیار کر لی۔

'تشدد کی افزائش کا میدان'

یاسنا نے بتایا کہ طالبان کی اقتدار میں واپسی سے پہلے بھی افغانستان میں اسماعیلی اقلیتی فرقے کے لیے رواداری کا ماحول محدود تھا، تاہم سیاسی نظام میں کم از کم ان کے شہری حقوق کو تحفظ حاصل تھا۔

انہوں نے کہا کہ طالبان کے دور میں رواداری میں مسلسل کمی واقع ہوتی رہی ہے۔ "آج جب ان کے حقوق پامال ہوتے ہیں، تو انہیں معلوم ہی نہیں کہ وہ کس سے رجوع کر سکتے ہیں۔ ان کے بچے تو سنی عقیدے کا دعویٰ کرنے پر مجبور ہیں۔"

کرتے اور پگڑیاں: افغان طالب علموں کے لیے نیا لازمی یونیفارم

انہوں نے مزید وضاحت کی، "طالبان کے دور حکومت میں، صرف ایک عقیدے کو جائز سمجھا جاتا ہے۔

اسلام کی ان کی تشریح سے انحراف کرنے والی ہر چیز کو مسترد کر دیا جاتا ہے اور اس طرح یہ موقف مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد کی افزائش کی بنیاد بنتا ہے۔"

افغانستان میں انسانی حقوق کے کارکن عبداللہ احمدی نے تصدیق کی کہ افغانستان میں باقی ماندہ آخری مذہبی اقلیتوں میں سے ایک پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا، "ہمیں ایسی متعدد رپورٹس موصول ہوئی ہیں کہ اسماعیلی کمیونٹی کے بچوں کو سنیوں کے زیر انتظام مذہبی اسکولوں میں جانے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے۔

اگر وہ ایسا کرنے سے انکار کرتے ہیں، یا باقاعدگی سے کلاسوں میں نہیں آتے ہیں، تو ان کے اہل خانہ کو بھاری جرمانے ادا کرنا ہوں گے۔"

احمدی نے یہ شکایت بھی کی کہ بین الاقوامی برادری نے ان کے ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر صرف ہچکچاہٹ کا ہی مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں نے طالبان اہلکاروں کے خلاف ہدفی پابندیوں کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ انہیں "جوابدہ بنانا ضروری ہے۔

"

افغان طالبان کو اب ماسکو میں اپنے سفیر کی تعیناتی کی اجازت

نوروز کی چھٹی غیر اسلامی قرار

افغانستان تاریخی طور پر مذہبی تنوع کا ایک اہم مرکز تھا، لیکن آج کے افغانستان میں غیر مسلم کمیونٹیز کے بہت کم افراد رہ گئے ہیں۔

یہودی برادری کے آخری ارکان ستمبر 2021 میں ملک چھوڑ کر گئے تھے اور ہزارہ، افغانستان میں ایک اور نسلی اقلیت جو کہ زیادہ تر شیعہ ہیں، مسلسل ظلم و ستم کا شکار ہیں۔

طالبان مذہب کی صرف ایک تشریح کو ہی قبول کرتے ہیں اور بعض رسومات اور تہواروں پر پابندی لگاتے ہیں، جن میں نوروز بھی شامل ہے۔ نو روز موسم بہار اور نئے سال کا آغاز ہوتا ہے، تاہم طالبان نے اس تعطیل کو "غیر اسلامی" قرار دیا ہے اور کہا کہ افغانستان میں کسی کو بھی یہ جشن نہیں منانا چاہیے۔

پاکستان سے بےدخلی کے بعد ہزارہا افغان طالبات تعلیم سے محروم

خواتین کے حقوق بدستور تنزلی کا شکار

ملک کی سبھی طبقے کی خواتین کی حالت بھی ابتر ہوتی جا رہی ہے، جس کا مطلب ہے کہ نصف معاشرہ منظم جبر کا شکار ہے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق، لڑکیوں کو "گریڈ چھ سے آگے کی تعلیم میں حصہ لینے سے روکا جا رہا ہے" اور "لڑکیوں اور خواتین کے لیے ہائی اسکولوں اور یونیورسٹیوں کو دوبارہ کھولنے کے بارے میں ڈی فیکٹو حکام کی جانب سے کوئی اعلان نہیں کیا گیا ہے۔"

مغربی شہر ہرات میں، طالبان نے کئی رکشوں کو ضبط کیا ہے اور ڈرائیوروں کو متنبہ کیا ہے کہ وہ ایسی خواتین کو نہ لے جائیں جن کے ساتھ کوئی "محرم" قریبی مرد رشتہ دار نہ ہو۔

پاکستان سے افغان مہاجرین کی ملک بدری پر تشویش ہے، افغان وزیر خارجہ

پاکستان اور ایران سے افغان باشندوں کی ملک بدری

اس تباہ کن صورتحال کے باوجود پڑوسی ممالک میں پناہ لینے والے افغانوں کو اجتماعی طور پر بے دخل کیا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اپریل میں خواتین اور بچوں سمیت تقریباً 110,000 ایسے افغان پاکستان سے واپس جانے پر مجبور ہوئے۔

ایران سے بھی بڑی تعداد میں لوگوں کو ڈی پورٹ کیا جا رہا ہے۔

افغان صحافی مرضیہ رحیمی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "ہم ہر روز افغانستان ڈی پورٹ کیے جانے کے خوف میں رہتے ہیں۔ میں وہاں اپنے بچوں کے ساتھ کیا کروں گی؟"

رحیمی نے کہا کہ اگر وہ افغانستان واپس جاتی ہیں، تو ان کے لیے وہاں صرف مصائب اور دہشت منتظر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ چونکہ طالبان کے دور حکومت میں صحافی کے طور پر کام جاری رکھنے سے وہ قاصر تھیں اور اپنی بیٹی کو تعلیم فراہم کرنے کے قابل نہیں تھیں، اس لیے ملک چھوڑ کر یہاں پناہ لی تھی۔

افغانستان میں زیادہ تر آزاد میڈیا اداروں پر پابندی لگا دی گئی ہے یا ریاست کے کنٹرول میں کر دیے گئے ہیں۔ حکومت پر تنقید کرنے والے صحافیوں کو گرفتاری اور تشدد کا خطرہ ہے۔

طالبان کے دور میں ملک ایک اور بھی زیادہ تباہ کن سماجی اقتصادی بحران میں ڈوبا ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق 41.

5 ملین کی مجموعی آبادی میں سے تقریباً 64 فیصد غربت کی زندگی گزار رہے ہیں، جن میں تقریبا 50 فیصد اپنی بقا کے لیے انسانی امداد پر منحصر ہیں اور 14 فیصد شدید بھوک کا شکار ہیں۔

صلاح الدین زین (شبنم فان ہین/ احمد وحید احمد)

ادارت: جاوید اختر

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے میں انسانی حقوق کی افغانستان میں طالبان کے دور اقوام متحدہ برادری کے جا رہا ہے سے افغان انہوں نے جاتا ہے کا شکار کہا کہ کیا ہے کے لیے کیا جا ہے اور

پڑھیں:

سعودی عرب کی غزہ کے نہتے شہریوں پراسرائیلی حملوں کی مذمت

سعودی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ عالمی برادری فلسطین سے متعلق قانونی، انسانی اور اخلاقی ذمہ داری پوری کرے۔

عرب میڈیا کے مطابق سعودی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ غزہ کے علاقے خان یونس نہتے شہریوں پر اسرائیلی حملے تشویش ناک ہیں۔

فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیلی فوجی کارروائیاں قابل مذمت ہیں۔

Post Views: 2

متعلقہ مضامین

  •   حملوں سے پہلے پاکستان کو اطلاع کرنے کے بیان پر راہول گاندھی  کی مودی حکومت پر کڑی تنقید  
  • ایم ڈبلیو ایم کوئٹہ کا اجلاس منعقد، پارٹی فعالیت و دیگر امور پر گفتگو
  • ایم ڈبلیو ایم کوئٹہ کے اجلاس کا انعقاد، پارٹی فعالیت و دیگر امور پر گفتگو
  • سانحہ 9 مئی اور جی ایچ کیو حملوں کے سنگین مقدمات کی سماعت118 روز بعد آج اڈیالہ جیل میں ہوگی۔
  • انسانی اسمگلنگ میں ملوث اہم ایجنٹ گرفتار، جعلی سفری دستاویزات پر سفر کرنے والے 2 مسافر آف لوڈ
  • مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کا نیا سلسلہ: جعلی اِنکاؤنٹرز اور بے گناہ شہریوں کی گرفتاریاں
  • سعودی عرب کی غزہ کے نہتے شہریوں پراسرائیلی حملوں کی مذمت
  •  حالیہ بحران کے دوران افغان حکمرانوں اور میاں نواز شریف کی خاموشی لمحہ فکریہ اور معمہ ہے، لیاقت بلوچ 
  • مختلف جنسی رحجان رکھنے والوں کے حقوق پر قدغنیں تشویشناک