پاکستان اور افغانستان کے درمیان سفارتی تعلقات اس وقت بہت اچھے اور مثبت ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ پاکستان کو تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے کئی بڑی دہشت گرد کاروائیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ تحریکِ طالبان پاکستان جو افغانستان میں موجود ہے اور وہیں سے آپریٹ کرتے ہوئے پاکستان کے اندر کاروائیاں کرتی ہے، پاک افغان تعلقات کے مستقبل کے حوالے سے ایک بڑا چیلنج ہے۔

گزشتہ ماہ جون 2025 میں ٹی ٹی پی کی جانب سے تین بڑے دہشت گرد حملے کیے گئے جن میں سب سے خوفناک حملہ 28 جون کو ایک خودکُش بمبار نے شمالی وزیرستان میں کیا جس میں پاک فوج کے 14 جوان شہید ہوئے اور 29 لوگ زخمی ہوئے۔ 25 جون کو پاک فوج کے 2 اہلکاروں نے جنوبی وزیرستان میں جامِ شہادت نوش کیا، اس کے علاوہ سیکیورٹی اہلکاروں اور سرکاری افسران پر بھی حملے کیے جا رہے ہیں، آج 02 جولائی کو ایک خود کش حملے میں ضلع خیبر کے اسسٹنٹ کمشنر اور اُن کے ساتھ 3 دیگر سرکاری اہلکار شہید ہو گئے۔

اگر دیکھا جائے تو مئی کے مہینے میں جب پاکستان اور بھارت کے درمیان فوجی ٹکراؤ جاری تھا اُس وقت بھی ٹی ٹی پی اپنی کاروائیوں میں مشغول تھی اور سیز فائز کے دن 10 مئی کو بھی ٹی ٹی پی نے جنوبی وزیرستان میں بڑا دہشت گرد حملہ کیا اور اُس سے اگلے دن 11 مئی کو پشاور میں پولیس گاڑی پر بم حملہ کیا گیا۔

پاکستانی نائب وزیراعظم و وزیرخارجہ اسحاق ڈار اور افغانستان کے قائم مقام وزیرخارجہ امیر خان متقی کے درمیان 21 مئی کو بیجنگ میں ملاقات ہوئی اور اُس سے قبل 19 اپریل کو اسحاق ڈار نے افغانستان کا دورہ کیا۔ 21 مئی کے بعد پاکستان اور افغانستان کے درمیان سفارتی تعلقات میں بہت بہتری نظر آئی، 27 جون کو اسحاق ڈار نے میڈیا بریفنگ کے دوران بتایا کہ ازبکستان اور پاکستان کے درمیان ریل رابطے کے لیے فریم ورک معاہدہ حتمی مرحلے میں ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان ریل براستہ افغانستان چلے گی۔

اِن خوشگوار ہوتے تعلقات کی موجودگی میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان ٹی ٹی پی کی کاروائیاں ایک بڑی رکاوٹ بن سکتی ہیں۔

گزشتہ ماہ جون میں جب امریکی ہوم لینڈ سکیورٹی نے جب امریکا میں موجود افغان شہریوں کا عارضی پروٹیکٹڈ اسٹیٹس ختم کرنے کا فیصلہ کیا تو 101 اراکین کانگریس نے ایک خط کے ذریعے سے افغانستان کی سیکیورٹی صورتحال کے بارے میں اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا۔

دہشت گردی کا سارا الزام افغان طالبان کو نہیں دیا جا سکتا: آصف درانی

افغانستان کے لیے پاکستان کے سابق نمائندہ خصوصی آصف درانی نے وی نیوز کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت پاکستان اور افغانستان کے درمیان سفارتی تعلقات بہت اچھے ہیں، دونوں اطراف ایک مثبت ماحول ہے لیکن تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے پاکستان میں کی گئی کاروائیوں کے لیے آپ سارا الزام افغان طالبان پر نہیں ڈال سکتے۔

ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان کی بیخ کُنی ریاست کے لئے چیلنج ہے جس میں بالآخر فتح ریاست ہی کی ہو گی۔ جو یہ بات کہی جا رہی ہے کہ ٹی ٹی پی کو سرحد سے دور آباد کیے جانے کا کوئی منصوبہ ہے تو آپ کو دیکھنا پڑے گا کہ وہ سرحد پار کیسے کرتے ہیں، کیسے لوگوں میں گُھل مِل جاتے ہیں اور وہ کیا وجوہات ہیں جن کی وجہ سے لوگ اُنہیں پناہ دیتے ہیں۔ ٹی ٹی پی کے جو عناصر پاکستان کے اندر موجود ہیں اُن سے مقابلہ کرنا تو پاکستان کی ذمّہ داری ہے اور پاکستانی فورسز یہ کر رہی ہیں۔

پاکستانی سیاسی و عسکری قیادت ایک بار پھر دہشتگردی کا مسئلہ افغان طالبان کے ساتھ اُٹھا سکتی ہے: سینیئر صحافی متین حیدر

خارجہ اُمور سے متعلق پاکستان کے سینیئر صحافی متین حیدر نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کی سکیورٹی صورتحال ایک بار پھر سے بگڑ رہی ہے اور حالیہ دنوں میں خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروہوں کی کاروائیوں میں اضافہ ہوا ہے جن کا تعلق افغانستان کے ساتھ ہے۔ پاکستان میں ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کو فتنہ الخوارج اور فتنہ ہندوستان اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کیونکہ ان گروہوں کو بھارتی فنڈنگ اور بھارتی حمایت میسر ہے۔

انہوں نے کہا کہ بھارت جو جنگ میں پاکستان سے بری طرح ہزیمت اُٹھا کر ان پراکسی گروہوں کے ذریعے سے بدامنی اور دہشت گردی کی کاروائیاں کر رہا ہے۔ ان حملوں میں افغان سرزمین استعمال ہو رہی ہے۔ فی الوقت پاکستان اور افغانستان کے درمیان بہترین سفارتی تعلقات ہیں لیکن اگر یہ حملے نہیں رُکتے تو پاکستان کی سویلین اور فوجی قیادت کو ایک بار پھر افغان طالبان سے بات کرنا پڑے گی اور سخت اقدامات اُٹھانے پڑیں گے۔ اور افغانستان اگر ان گروہوں کو قابو نہیں کرتا تو وہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ توسیعی پروگرام سے فائدہ نہیں اُٹھا سکے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پاکستان اور افغانستان کے درمیان طالبان پاکستان سفارتی تعلقات افغان طالبان پاکستان کے پاکستان کی ٹی ٹی پی کے ساتھ ہے اور کے لیے

پڑھیں:

افغان طالبان کو اب نان سٹیٹ ایکٹرز کی بجائے ریاست کی حیثیت سے سوچنا چاہئے, جنرل احمد شریف چوہدری

ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے کہا ہے کہ افغان طالبان کو اب نان سٹیٹ ایکٹرز کی بجائے ریاست کی حیثیت سے سوچنا چاہئے۔

 پاکستان کا مسئلہ افغانستان کی ریاستی پالیسیوں سے ہے، وہاں کے عوام سے نہیں۔

  منگل کے روز سینئر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے  لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے واضح کیا کہ پاکستان جب بھی افغان سرزمین پر موجود دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کرتا ہے تو اس کا باضابطہ اعلان کرتا ہے، پاکستان کبھی سویلین پر حملے نہیں کرتا۔

  راکھ کا بادل پاکستان آ گیا، پروازوں کو خطرہ لاحق، سرکاری الرٹ آگیا

پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ پاکستان جب بھی حملہ کرتا ہے تو اعلانیہ کرتا ہے اور کبھی سویلین پر حملہ نہیں کرتا۔ ہماری نظرمیں کوئی گڈ  طالبان اور بیڈ طالبان نہیں ہیں،ہم دہشت گردوں میں کوئی تفریق نہیں کرتے۔ایکشن بتاتا ہے کہ تحریک طالبان افغانستان اورٹی ٹی پی میں کوئی فرق نہیں،ہم حق پر ہیں اور حق غالب آئے گا۔

   جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا،  پاکستان جب بھی حملہ کرتا ہے تو اعلانیہ کرتا ہے اور کبھی سویلین پر حملہ نہیں کرتا، ہم ریاست ہیں، ریاست کے طور پر ہی ردعمل دیتے ہیں، خون اورتجارت ایک ساتھ نہیں چل سکتے، یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم پرحملے بھی ہوں اور ہم تجارت بھی کریں، ہم افغان عوام کے خلاف نہیں ہیں بلکہ دہشت گردی کے خلاف ہیں۔

گلگت بلتستان اسمبلی تحلیل

انہوں نے کہاکہ طالبان حکومت ریاست کی طرح فیصلہ کرے، طالبان حکومت نان اسٹیٹ ایکٹرز کی طرح فیصلہ نہ کرے، طالبان حکومت کب تک عبوری رہے گی؟

ڈی جی آئی ایس پی آر  نے مطالبہ کیاکہ دہشت گردی کے بہت سے واقعات میں نان کسٹم پیڈ گاڑیاں استعمال ہوئیں لہٰذا نان کسٹم پیڈ گاڑیوں پرفوری پابندی عائد کی جائے۔

ترجمان پاک فوج کا کہنا تھاکہ فیض حمید کا ٹرائل قانونی معاملہ ہے اس پر قیاس آرائی نہ کی جائے، جب یہ معاملہ حتمی نتیجے پر پہنچے گا فوری طور پر اعلان کردیا جائے گا۔

پاکستانی ٹینس سٹار اعصام الحق نے بین الاقوامی ٹینس کو الوداع کہہ دیا

انہوں نے کہا، افغان طالبان  طالبان حکومت   ریاست کی طرح فیصلہ کرے ،نان اسٹیٹ ایکٹر کی طرح فیصلہ نہ کرے،طالبان حکومت کب تک عبوری رہے گی،پاکستان اپنے شہریوں اور سرحدوں کے تحفظ کے لیے کسی بھی حد تک جائے گا۔دہشتگردوں کا آخری دم تک پیچھا کیا جائے گا، اور ان کے خلاف کارروائیاں بھرپور انداز میں جاری رہیں گی۔

 ڈی جی آئی ایس پی آر نے مزید کہا کہ خطے میں امن و استحکام کے لیے پاکستان اپنی ذمہ داریاں پوری کرتا رہے گا اور دہشتگردی کے خلاف جنگ قومی سلامتی کی اولین ترجیح ہے۔

ملائیشیا کا 16 سال سےکم عمر بچوں کیلئے سوشل میڈیا کے استعمال پرپابندی کا فیصلہ

 انہوں نے کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم پر حملے ہوں اور ہم تجارت بھی کریں۔

 ترجمان پاک فوج نے کہاکہ ایک سیاسی جماعت اوردیگرعناصر کے سوشل میڈیا اکاونٹس بیرون  ممالک سے آپریٹ ہورہے،یہ سوشل میڈیا اکاونٹس ریاست پاکستان کے  مخالف مہم چلا رہے ہیں،ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہاکہ 4 نومبر سے ابتک 4910 انسداد دہشتگردی آپریشن ہوئے ہیں ،ہر روز 232 آپریشن ہوئے ہیں ،336 دہشتگردی کے واقعات ہوئے ہیں ۔

بھارت کے وزیر دفاع کی ہرزہ سرائی پر شیری رحمان کا منہ توڑ جواب

Waseem Azmet

متعلقہ مضامین

  • افغانستان میں کارروائی سے متعلق خواجہ آصف کا مؤقف سامنے آ گیا
  • طالبان دور میں بدترین انسانی بحران — سرد موسم نے افغان عوام کی تکلیفیں مزید بڑھا دیں
  • افغان طالبان کو اب نان سٹیٹ ایکٹرز کی بجائے ریاست کی حیثیت سے سوچنا چاہئے, جنرل احمد شریف چوہدری
  • افغانستان میں فضائی حملوں سے ہلاکتیں،طالبان نے پاکستان پر الزام عائد کردیا
  • افغانستان، فضائی حملوں میں ہلاکتیں؛ پاکستان پر الزام عائد کردیا
  • ہم جب حملہ کرتے ہیں تو اعلانیہ کرتے ہیں چھپ کر نہیں، پاک فوج، افغان طالبان کا الزام مسترد
  • پاکستان کے افغانستان میں فضائی حملوں میں ہلاکتیں؛ طالبان کا بے بنیاد الزام
  • افغان طالبان کا پاکستان پر ’فضائی کارروائیوں‘ کا الزام، 10 اموات ہوئیں، افغان حکومت
  • وزیراعظم سے سعودی چیف آف جنرل اسٹاف کی ملاقات، برادرانہ تعلقات کا اعادہ
  • کابل پر پاکستانی حملوں سے افغان طالبان میں خوف، سرحد پار دہشت گردی میں قابل ذکر کمی