پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کی موجودہ صورتحال کیا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 2nd, July 2025 GMT
پاکستان اور افغانستان کے درمیان سفارتی تعلقات اس وقت بہت اچھے اور مثبت ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ پاکستان کو تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے کئی بڑی دہشت گرد کاروائیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ تحریکِ طالبان پاکستان جو افغانستان میں موجود ہے اور وہیں سے آپریٹ کرتے ہوئے پاکستان کے اندر کاروائیاں کرتی ہے، پاک افغان تعلقات کے مستقبل کے حوالے سے ایک بڑا چیلنج ہے۔
گزشتہ ماہ جون 2025 میں ٹی ٹی پی کی جانب سے تین بڑے دہشت گرد حملے کیے گئے جن میں سب سے خوفناک حملہ 28 جون کو ایک خودکُش بمبار نے شمالی وزیرستان میں کیا جس میں پاک فوج کے 14 جوان شہید ہوئے اور 29 لوگ زخمی ہوئے۔ 25 جون کو پاک فوج کے 2 اہلکاروں نے جنوبی وزیرستان میں جامِ شہادت نوش کیا، اس کے علاوہ سیکیورٹی اہلکاروں اور سرکاری افسران پر بھی حملے کیے جا رہے ہیں، آج 02 جولائی کو ایک خود کش حملے میں ضلع خیبر کے اسسٹنٹ کمشنر اور اُن کے ساتھ 3 دیگر سرکاری اہلکار شہید ہو گئے۔
اگر دیکھا جائے تو مئی کے مہینے میں جب پاکستان اور بھارت کے درمیان فوجی ٹکراؤ جاری تھا اُس وقت بھی ٹی ٹی پی اپنی کاروائیوں میں مشغول تھی اور سیز فائز کے دن 10 مئی کو بھی ٹی ٹی پی نے جنوبی وزیرستان میں بڑا دہشت گرد حملہ کیا اور اُس سے اگلے دن 11 مئی کو پشاور میں پولیس گاڑی پر بم حملہ کیا گیا۔
پاکستانی نائب وزیراعظم و وزیرخارجہ اسحاق ڈار اور افغانستان کے قائم مقام وزیرخارجہ امیر خان متقی کے درمیان 21 مئی کو بیجنگ میں ملاقات ہوئی اور اُس سے قبل 19 اپریل کو اسحاق ڈار نے افغانستان کا دورہ کیا۔ 21 مئی کے بعد پاکستان اور افغانستان کے درمیان سفارتی تعلقات میں بہت بہتری نظر آئی، 27 جون کو اسحاق ڈار نے میڈیا بریفنگ کے دوران بتایا کہ ازبکستان اور پاکستان کے درمیان ریل رابطے کے لیے فریم ورک معاہدہ حتمی مرحلے میں ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان ریل براستہ افغانستان چلے گی۔
اِن خوشگوار ہوتے تعلقات کی موجودگی میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان ٹی ٹی پی کی کاروائیاں ایک بڑی رکاوٹ بن سکتی ہیں۔
گزشتہ ماہ جون میں جب امریکی ہوم لینڈ سکیورٹی نے جب امریکا میں موجود افغان شہریوں کا عارضی پروٹیکٹڈ اسٹیٹس ختم کرنے کا فیصلہ کیا تو 101 اراکین کانگریس نے ایک خط کے ذریعے سے افغانستان کی سیکیورٹی صورتحال کے بارے میں اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا۔
دہشت گردی کا سارا الزام افغان طالبان کو نہیں دیا جا سکتا: آصف درانیافغانستان کے لیے پاکستان کے سابق نمائندہ خصوصی آصف درانی نے وی نیوز کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت پاکستان اور افغانستان کے درمیان سفارتی تعلقات بہت اچھے ہیں، دونوں اطراف ایک مثبت ماحول ہے لیکن تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے پاکستان میں کی گئی کاروائیوں کے لیے آپ سارا الزام افغان طالبان پر نہیں ڈال سکتے۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان کی بیخ کُنی ریاست کے لئے چیلنج ہے جس میں بالآخر فتح ریاست ہی کی ہو گی۔ جو یہ بات کہی جا رہی ہے کہ ٹی ٹی پی کو سرحد سے دور آباد کیے جانے کا کوئی منصوبہ ہے تو آپ کو دیکھنا پڑے گا کہ وہ سرحد پار کیسے کرتے ہیں، کیسے لوگوں میں گُھل مِل جاتے ہیں اور وہ کیا وجوہات ہیں جن کی وجہ سے لوگ اُنہیں پناہ دیتے ہیں۔ ٹی ٹی پی کے جو عناصر پاکستان کے اندر موجود ہیں اُن سے مقابلہ کرنا تو پاکستان کی ذمّہ داری ہے اور پاکستانی فورسز یہ کر رہی ہیں۔
پاکستانی سیاسی و عسکری قیادت ایک بار پھر دہشتگردی کا مسئلہ افغان طالبان کے ساتھ اُٹھا سکتی ہے: سینیئر صحافی متین حیدرخارجہ اُمور سے متعلق پاکستان کے سینیئر صحافی متین حیدر نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کی سکیورٹی صورتحال ایک بار پھر سے بگڑ رہی ہے اور حالیہ دنوں میں خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروہوں کی کاروائیوں میں اضافہ ہوا ہے جن کا تعلق افغانستان کے ساتھ ہے۔ پاکستان میں ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کو فتنہ الخوارج اور فتنہ ہندوستان اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کیونکہ ان گروہوں کو بھارتی فنڈنگ اور بھارتی حمایت میسر ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت جو جنگ میں پاکستان سے بری طرح ہزیمت اُٹھا کر ان پراکسی گروہوں کے ذریعے سے بدامنی اور دہشت گردی کی کاروائیاں کر رہا ہے۔ ان حملوں میں افغان سرزمین استعمال ہو رہی ہے۔ فی الوقت پاکستان اور افغانستان کے درمیان بہترین سفارتی تعلقات ہیں لیکن اگر یہ حملے نہیں رُکتے تو پاکستان کی سویلین اور فوجی قیادت کو ایک بار پھر افغان طالبان سے بات کرنا پڑے گی اور سخت اقدامات اُٹھانے پڑیں گے۔ اور افغانستان اگر ان گروہوں کو قابو نہیں کرتا تو وہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ توسیعی پروگرام سے فائدہ نہیں اُٹھا سکے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاکستان اور افغانستان کے درمیان طالبان پاکستان سفارتی تعلقات افغان طالبان پاکستان کے پاکستان کی ٹی ٹی پی کے ساتھ ہے اور کے لیے
پڑھیں:
ابراہم اکارڈز سے متعلق دباؤ آیا تو اپنے مفادات دیکھیں گے
اسلام آباد ( اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین ۔ 30 جون 2025ء ) وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ ابراہم اکارڈز سے متعلق دباؤ آیا تو اپنے مفادات دیکھیں گے، اگر ہم تماشائی بنے اور کھلاڑی نہ بنے تو اس کا نقصان ہوگا۔ تفصیلات کے مطابق وزیردفاع خواجہ آصف نے نجی ٹی وی چینل سماء نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ابراہم اکارڈزسے متعلق دباؤ آیا تو اپنے مفادات دیکھیں گے، موجودہ صورتحال میں اگر ہم تماشائی بنے اور کھلاڑی نہ بنے تو اس کا نقصان ہوگا، عالمی سطح پر موجودہ صورتحال میں ہم کھیل کا حصہ ہیں۔ ایک اور بیان میں وزیر دفاع نے کہا کہ مودی کا تکبر خاک میں مل ہے۔بھارت کی جانب سے دوبارہ پاکستان پر حملے کا امکان موجود ہے، بھارت نے اگر پاکستان کا پانی روکا تو اس کو جنگ تصور کیا جائے گا۔(جاری ہے)
پاک بھارت جنگ میں پاکستانی میڈیا نے مثبت کردارادا کیا، جبکہ بھارتی میڈیا میں سرکس اور نوٹنکی ہورہی تھی، پاکستان نے بھارت کے طیارے گرائے جو فخر کی بات ہے، پاکستان اس وقت سراٹھا کر دنیا میں چل رہا ہے۔
بھارت بلوچستان میں اسپانسرڈ دہشتگردی میں ملوث ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ بھارت مانے یا نہ مانے، عالمی برادری پاکستان کے موقف کو تسلیم کر رہی ،پاکستان کے اس وقت امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں لیکن ماضی کے برعکس یہ تعلقات مشترکہ فوجی مصروفیات پر مبنی نہیں، افغان شہری پاکستان میں غیر قانونی کاروبار اور زمینوں پر قبضہ کر رہے ہیں، افغان اپنے وطن واپس لوٹے تو پاکستانی شہریوں کے لیے ملازمت کے مواقع کھلیں گے. ایک انٹرویو میں وزیر دفاع نے کہاکہ جس نہر میں وہ اکثر تیراکی کرتے ہیں، وہاں کناروں کے ساتھ ڈمپر کھڑے ہیں، جو افغان باشندوں کی ملکیت ہیں جو عارضی پناہ گاہوں میں رہتے ہیں لیکن انہوں نے آبپاشی کی زمین پر غیر قانونی قبضہ کر رکھا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ یہ افغان ڈمپر مالکان شاید محکمہ آبپاشی کو رشوت دیتے ہیں، پاکستان میں جتنے ناجائز کاروبار ہیں سب افغان کرتے ہیں، ہماری تمام نہروں کے کنارے افغان شہریوں نے تجاوزات کر رکھی ہیں. وزیر دفاع نے دعوی کیا کہ تقریبا 6 سے 7 ملین غیر دستاویزی افراد پاکستان میں ہیں، اور تجویز دی کہ اگر افغان اپنے وطن واپس لوٹے تو پاکستانی شہریوں کے لیے ملازمت کے مواقع کھلیں گے خارجہ تعلقات کے حوالے سے خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ پاکستان کے اس وقت امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں لیکن ماضی کے برعکس یہ تعلقات مشترکہ فوجی مصروفیات پر مبنی نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت مانے یا نہ مانے، عالمی برادری پاکستان کے موقف کو تسلیم کر رہی ہے، بین الاقوامی اداروں نے کہا ہے کہ سندھ طاس معاہدہ یکطرفہ طور پر معطل نہیں کیا جا سکتا۔ اسرائیل اور بھارت کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ امریکا اور یورپ کی پشت پناہی کی وجہ سے اسرائیل بے دریغ کام کر رہا ہے، اگر بھارت بھی ایسا ہی کررہا ہے تو اس کے پیچھے کون ہے؟ وزیر دفاع نے زور دے کر کہا کہ پاکستان امن چاہتا ہے لیکن تنازعات کا حل ضروری ہے انہوں نے کہا کہ اگر اندرونی مسائل حل ہو جائیں تو پاکستان نمایاں طور پر ترقی کر سکتا ہے پاکستان تحریک انصاف سے متعلق گفتگو میں انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی سمجھ رہی تھی قانون کی پروا نہیں، شخصیت پرستی کام آئے گی، جیل کاٹنا مشکل ہے لیکن اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔