مظالم اجاگر کرنے پر برطانیہ میں مقیم کشمیری پروفیسر کی بھارتی شہریت منسوخ
اشاعت کی تاریخ: 19th, May 2025 GMT
بھارتی حکومت نے برطانیہ میں مقیم کشمیری پروفیسر نتاشا کول کی شہریت منسوخ کر دی ، جس کو انہوں نے حکومت کی پالیسیوں کے خلاف بات کرنے کی ’سزا‘ قرار دیا ہے۔
انہوں نے ایکس پر پوسٹ میں حکومت کی جانب بھجوائے سے گئے نوٹس کی تصویر بھی شیئر کی۔
انہوں نے لکھا کہ آج گھر پہنچے پر مجھے بطور تارک وطن شہریت کی منسوخی کا لیٹر ملا ہے، جو انتقام اور جبر کی مثال ہے اور یہ سزا مودی حکومت کی اقلیتوں کے خلاف اور غیرجمہوری پالیسیوں کو اجاگر کرنے پر دی گئی ہے۔
نتاشا کول کے ایکس اکاؤنٹ پر دی گئی معلومات کے مطابق انہوں نے پی ایچ ڈی کر رکھی ہے اور ان کے خاندان کا تعلق مقبوضہ کشمیر کے شہر سری نگر سے ہے اور وہ اتر پردیش کے علاقے گورکھپور میں پیدا ہوئیں وہ ویسٹ منسٹر کے ایک تعلیمی ادارے میں پڑھاتی ہیں۔
ان کی جانب سے شیئر کیے تحریری آرڈر میں کہا گیا کہ حکومت نے ان کی ’انڈیا مخالف سرگرمیوں‘ کا نوٹس لیا ہے جو کہ بدنیتی پر مبنی ہیں اور حقائق سے دور ہیں۔
لیٹر میں مزید کہا گیا کہ آپ کی جانب سے مختلف بین الاقوامی فورمز اور سوشل میڈٰیا پر تحاریر اور تقاریر کے ذریعے انڈیا کی خودمختاری اور یہاں کے اداروں کو باقاعدگی سے نشانہ بنایا جاتا ہے۔
بھارتی سپریم کورٹ نے آپریشن سندور سے متعلق پوسٹ پر پروفیسر کی گرفتاری کے معاملے پر ہنگامی سماعت کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے، دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں نے حکومت پر ’امتیازی رویہ‘ اپنانے کا الزام لگایا ہے۔
ہندوستان ٹائمز کے مطابق اتوار کو گرفتار کیے گئے اشوکا یونیورسٹی کے پروفیسر علی خان نے اپنی گرفتاری کو چیلنج کیا تھا۔ عدالت کا کہنا ہے کہ سماعت اسی ہفتے ہو گی۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کانگریس اور سماج وادی پارٹی نے حکومت پر شدید کرتے ہوئے کہا کہ جب ایسی بات مدھیہ پردیش کے وزیر نے کی تھی تو ان کو گرفتار کیوں نہیں کیا گیا۔
سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ کی جس میں پروفیسر علی خان کی گرفتاری اور مدھیہ پردیش کے وزیر کے معاملے کا موازنہ کیا گیا ہے۔
انہوں نے لکھا کہ ’حکمرانوں کی بدزبانی پر بھی آزادی اور کسی کے سچ کہنے پر بھی گرفتاری‘
خیال رہے کہ بھارتیہ جتنا پارٹی (بی جے پی) کے رہنما یووا مورچا نے ان کے خلاف درخواست دی تھی جس پر ایکشن لیا گیا۔
ایکس پر شیئر کیے گئے بیان میں انہوں نے کہا کہ ’نوٹس کے ساتھ لگائے گئے سکرین شاٹس سے ظاہر ہے کہ میری بات کو غلط سمجھا گیا جب کہ کمیشن اس معاملے پر دائرہ اختیار بھی نہیں رکھتا اس کی جانب سے طلبی کا نوٹس یہ بتانے میں ناکام ہے کہ میری پوسٹ کس قانون یا خواتین کے حقوق کے خلاف ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: انہوں نے کے خلاف کی جانب
پڑھیں:
جماعت اسلامی ہند کا بھارت میں خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے جنسی جرائم پر اظہار تشویش
ذرائع کے مطابق جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر پروفیسر سلیم انجینئر نے نئی دلی میں پارٹی کے مرکزی دفتر میں ماہانہ پریس کانفرنس کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی شہری اور دیہی دونوں علاقوں میں خواتین عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ جماعت اسلامی ہند نے بھارت بھر میں خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے جنسی جرائم پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر پروفیسر سلیم انجینئر نے نئی دلی میں پارٹی کے مرکزی دفتر میں ماہانہ پریس کانفرنس کے دوران گفتگو کرتے ہوئے تین حالیہ واقعات کا ذکر کیا، مہاراشٹر میں ایک خاتوں ڈاکٹر کی خودکشی جس نے ایک پولیس افسر پر زیادتی کا الزام لگایا تھا، دلی میں ایک ہسپتال کی ملازمہ جسے ایک جعلی فوجی افسر نے پھنسایا تھا اور ایک ایم بی بی ایس طالبہ جسے نشہ دیکر بلیک میل کیا گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ یہ تمام واقعات بھارتی معاشرے میں بڑے پیمانے پر اخلاقی گراوٹ کی نشاندہی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی شہری اور دیہی دونوں علاقوں میں خواتین عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ انہوں نے بہار اسمبلی انتخابات میں نفرت انگیز مہم، اشتعال انگیزی اور طاقت کے بیجا استعمال پر بھی شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ انتخابات کا موضوع ریاست کی ترقی، صحت، امن و قانون اور تعلیم ہونا چاہے، الیکشن کمیشن کو اس ضمن میں اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے۔
پروفیسر سلیم انجینئر نے کہا کہ ووٹ دینا صرف ایک حق نہیں بلکہ ایک ذمہ داری بھی ہے، یہ جمہوریت کی مضبوطی اور منصفانہ معاشرے کے قیام کا ذریعہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہریوں کو چاہیے کہ وہ سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کا انتخاب ان کی کارکردگی، دیانت داری اور عوام مسائل جیسے غربت، بے روزگاری، تعلیم، صحت اور انصاف کی بنیاد پر کریں نہ کہ جذباتی، تفرقہ انگیز یا فرقہ وارانہ اپیلوں کی بنیاد پر۔ نائب امیر جماعت اسلامی نے بھارتی الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا کہ وہ انتخابات کو آزادانہ اور منصفانہ بنانے کیلئے ضابطہ اخلاق پر سختی سے عملدرآمد کرائے۔ بہار میں اسمبلی انتخابات 6 اور 11نومبر کو ہو رہے ہیں۔
پریس کانفرنس سے ایسوسی ایشن آف پروٹیکشن آف سوال رائٹس (اے پی سی آر) کے سیکرٹری ندیم خان نے خطاب میں کہا کہ دلی مسلم کشن فسادات کے سلسلے میں عمر خالد، شرجیل امام اور دیگر بے گناہ طلباء کو پانچ برس سے زائد عرصے سے قید کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ دراصل عدالتی عمل کے ذریعے سزا دینے کے مترادف ہے۔ ندیم خان نے کہا کہ وٹس ایپ چیٹس، احتجاجی تقریروں اور اختلاف رائے کو دہشت گردی قرار دینا آئین کے بنیادی ڈھانچے کیلئے سنگین خطرہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ کالے قانون ”یو اے پی اے“ کے غلط استعمال سے ایک جمہوری احتجاج کو مجرمانہ فعل بنا دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اختلاف رائے کی آزادی جمہوریت کی روح ہے، اس کا گلا گھونٹنا ہمارے جمہوری ڈھانچے کیلئے تباہ کن ہے۔