Express News:
2025-10-04@23:35:56 GMT

کیا لوگ آپ سے کَترا رہے ہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 20th, May 2025 GMT

خاندان اگر کسی بھی معاشرے کی اکائی ہے، تو خواتین کسی بھی خاندان کی بنیادی یا اہم ترین اکائی کہلائی جا سکتی ہیں۔ ان کی شخصیت، صفائی ستھرائی، رہن سہن اور طور طریقے صرف ان کی ذاتی زندگی تک محدود نہیں رہتے، بلکہ پورے گھرانے اور پھر پورے معاشرے کو کسی نہ کسی طرح متاثر کر رہے ہوتے ہیں، بدقسمتی سے ہمارے اردگرد بہت سی خواتین ایسی ہیں، جو اپنی ظاہری صفائی، چہرے، ہاتھ پاؤں، جلد، بال اور لباس وغیرہ اور شخصیت کو ’’سادگی‘‘ کا نام دے کر بالکل نظر انداز کر دیتی ہیں۔

اسلامی تعلیمات کے مطابق صفائی نصف ایمان ہے، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں خواتین پر بہت زیادہ سجنے سنورنے کا ’الزام‘ عائد کیا جاتا ہے، وہیں بہت سی خواتین مختلف وجوہ کی بنا پر خود سے اتنی بے پروا ہو جاتی ہیں کہ ان کے ناخنوں تک میں میل بھرا ہوا ہوتا ہے! اگر موسم خشک ہو تو ان کی ایڑیاں خشک، کھردری اور نہایت بدنما، گردن اور بازوؤں کا رنگ میلا اور سیاہی مائل ہو رہا ہوتا ہے۔ وہ یہ نہیں سوچتیں کہ انھیں خود کو بہتر رکھنے کے لیے کتنی زیادہ توجہ کی ضرورت ہے، بہت سی خواتین مہینوں تک ’فیشل‘ یا ’اسکن کلینزنگ‘ تک نہیں کرواتیں۔

چلیے اگر نہ بھی کروائیے، لیکن کم از کم اپنے ہاتھوں پاؤں کی ڈھنگ سے صفائی اور بالوں کی دیکھ بھال تو کی جا سکتی ہے، نہ کبھی مہندی نہ کبھی کوئی آئلنگ۔ بس یوں کہہ لیجیے کہ ہر وقت سفید سادہ لٹھے جیسا منہ لیے گھومتی ہیں۔ شاید صاف رنگت کی بنا پر وہ وہ یہ تصور کرلیتی ہیں کہ انھیں کچھ خیال رکھنے کی ضرورت نہیں۔ کچھ خواتین تو نہانے تک میں بہت کنجوسی کرتی ہیں۔ ان کی اس بدترین غفلت کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ  ان سے بات کرنے والا ایک نہایت ناخوش گوار تجربہ لے کر جاتا ہے۔ بے رونق چہرے، خشک جلد اور پسینوں کی ناگوار بو سے ان کی اچھی خاصی شخصیت گہنا کر رہ جاتی ہے۔

ایسی شکایات ان خواتین میں زیادہ ہیں، جو ’’بے چاری‘‘ سستی کی ماری بس ادھر ادھر کی چغلیوں یا ’اسمارٹ فون‘ پر اپنا وقت ضائع کر رہی ہوتی ہیں۔ شاید ان کی یہی خود نمائی اور دوسروں کے لیے پر تجسس مزاج ان کو اپنے بارے میں سوچنے کا موقع ہی نہیں دیتا۔

جب بھی کوئی عورت اپنی ذات کو مکمل طور پر نظر انداز کرتی ہے، تو اس کے نتیجے میں لوگ پھر ان کو اہمیت نہیں دیتے، ان سے گریز کرنے لگتے ہیں یا پھر ناگواری کا اظہار بھی کردیتے ہیں تو پھر بہت سے موقعوں پر ان کی خود اعتمادی کو زبردست ٹھیس پہنچتی ہے۔ انھیں سمجھ میں نہیں آتا کہ ان کے ساتھ ایسا کیوں ہوا ہے؟ وہ خود کو دوسروں سے کم تر محسوس کرنے لگتی ہیں، کسی سے بات چیت سے کتراتی ہیں اور پھر بالآخر محفلوں میں جانا چھوڑ دیتی ہیں۔

ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ روزانہ کی معمولی سی ذاتی دیکھ بھال، جیسے منہ دھونا، بالوں کو اچھی طرح سے سلجھانا اور سنوارنا، اجلے اور صاف ستھرے کپڑے پہننا، دماغ میں خوشی کے ہارمون کو بڑھاتے ہیں، جس سے انسان خود کو ہلکا، مثبت اور توانائی سے بھرپور محسوس کرتا ہے۔

یہ ضروری نہیں کہ مہنگے میک اَپ یا بھاری فاؤنڈیشن ہی استعمال کیے جائیں۔ ایک ہلکا سا بیس، ہونٹوں پر نیچرل لپ کلر، ہلکی آئی برو شیپنگ اور صاف ستھرا لباس ایک عام چہرے کو بھی پُرکشش بنا سکتا ہے۔ میک اَپ سے مراد صرف بہت ذیادہ گلیمر یا مصنوعی تاثر نہیں، بلکہ اپنی جِلد کا خیال رکھنا، اس پر قدرتی چمک بحال رکھنا بھی خوب صورتی کا حصہ ہے۔ بعض خواتین بغیر میک اَپ کر کے اپنے آپ کو آئینے میں دیکھ کر مطمئن ہوتی رہتی ہیں، بعض اوقات وہ حق بہ جانب بھی ہو سکتی ہیں، لیکن ذرا غور کرلینا ہی بھلا ہے کہ اگر کہیں ضرورت محسوس ہو تو تھوڑا سا خیال بھی رکھ لیا جائے، تاکہ آپ کی شخصیت بھی جاذب نظر دکھائی دے سکے۔

ہمارا ایک عام سادہ لباس بھی اگر سلیقے کا، صاف ستھرا، استری شدہ ہو، اور اس کے ساتھ ہلکی سی خوش بو لگا لی جائے، تو شخصیت میں اچھا خاصا نکھار آ جاتا ہے۔ بال اگر بنے ہوئے ہوں، اچھے طریقے سے دھوئے گئے ہوں، تو خود اعتمادی میں خودبخود اضافہ ہوتا ہے۔ صاف جوتے، ہاتھوں کے ناخن صاف اور تراشے ہوئے، ایڑیاں نرم اور صاف  یہ سب چیزیں ایک مکمل شخصیت کا حصہ ہیں۔

بعض خواتین معاشی طور پر مستحکم ہونے کے باوجود وہ اپنی ذات پر خرچ کرنے کو غیرضروری سمجھتی ہیں۔ ان کا خیال ہوتا ہے کہ صرف گھر کے اخراجات یا دیگر ضرورتوں پر ہی خرچ کر دینا کافی ہے، لیکن وہ یہ نہیں جانتیں کہ ایک عورت کی اپنی اچھی شخصیت سے نہ صرف اس کی ذات پر بلکہ اس کے بچوں پر بھی ایک خوش گوار تاثر  پڑتا ہے۔

ایسی خواتین جو دوسروں کو تیار دیکھ کر حسد کرنا شروع کر دیتی ہیں، ان کے دل میں نفرت پنپتی ہے۔ یہ حسد ان کی اپنی زندگی کو بھی خراب کرتا ہے اور دوسروں کی زندگی کی ٹوہ لینا ان کو سوائے ذہنی اذیت پہنچانے کے کچھ نہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ جو عورت خود کو وقت دیتی ہے، صاف ستھری رہتی ہے، اچھا لباس پہنتی ہے،  اپنے کام سے کام رکھتی ہے اور اپنی توانائی خود کو سنوارنے اور تعمیری سوچ میں صرف کرتی ہے، دوسروں کو عزت دیتی ہے، وہی دوسروں کے دل میں جگہ بناتی ہے۔

صفائی صرف جسم کی نہیں، بلکہ دل و دماغ، سوچ، اور اندازِ زندگی کی بھی ہونی چاہیے۔ عورت اگر خود کو اہم سمجھے، تو وہ اپنی شخصیت کو بھی سنوارے گی۔ سادگی میں صفائی، نفاست اور وقار ہو تو وہی حقیقی خوب صورتی ہے۔ اس لیے ضرور دوسروں کا خیال رکھیے، لیکن خود سے محبت کیجیے،  بغض وکینہ حسد جیسی اخلاقی  بیماریوں سے بچیے۔ عدم توجہی، سُستی، اور کاہلی کو چھوڑ کر ایک مثبت، خوش بودار اور پُرکشش زندگی اپنائیے۔ یہی دین ودنیا کا توازن، نفس کا سکون، اور معاشرے کا حُسن ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سی خواتین ہوتا ہے ہیں کہ خود کو

پڑھیں:

ویلیو ایڈیشن پر توجہ مرکوز کئے بغیر برآمدات نہیں بڑھ سکتیں ‘ خادم حسین

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 03 اکتوبر2025ء)فائونڈر ز گروپ کے سرگرم رکن ،پاکستان سٹون ڈویلپمنٹ کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹر کے رکن ، سینئر نائب صدر فیروز پور روڈ بورڈاورسابق ممبر لاہور چیمبر آف کامرس خادم حسین نے کہا ہے کہ جب تک ویلیو ایڈیشن پر توجہ مرکوز نہیں کی جائے گی ہماری برآمدات نہیں بڑھ سکتیں ،بنگلہ دیش کپاس کی درآمد شدہ 80 لاکھ گانٹھوں کو ویلیو ایڈڈ مصنوعات میں تبدیل کر کے سالانہ 50ارب ڈالر سے زائد زرِمبادلہ حاصل کر رہا ہے ۔

اپنے بیان میں انہوںنے کہا کہ پاکستان ہر سال 1.2 سے 1.5کروڑ گانٹھیں، مقامی پیداوار اور درآمدات ملا کر استعمال کرتا ہے مگر گزشتہ کئی برسوں سے ٹیکسٹائل برآمدات 15سے 20ارب ڈالر سالانہ کی سطح پر ہیں،اس فرق کی وجہ محض مقدار نہیں بلکہ معیار اور پروسیسنگ ہے، پاکستان کی کپاس کے معیارات بین الاقوامی سطح پر ناقابل قبول ہیں ،فرسودہ جننگ نظام سے ریشے کی لمبائی، مضبوطی اور صفائی شدید متاثر ہوتی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی 90فیصد سے زائد کپاس ویلیو ایڈڈ مصنوعات کے لیے موزوں نہیں رہتی، عالمی برانڈز کی طلب کے مطابق ہائی اینڈ فیشن اور ٹیکنیکل ٹیکسٹائلز کی بجائے پاکستان کا ٹیکسٹائل شعبہ گھریلو ٹیکسٹائلز تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان واقعی عالمی ٹیکسٹائل سپلائی چین میں اپنی پوزیشن کو مستحکم کرنا چاہتا ہے تو اسے فوری طور پر کپاس کی جینیاتی بہتری، معیاری بیج کی فراہمی اور جدید جننگ ٹیکنالوجی کے نفاذ جیسے بنیادی شعبوں میں اصلاحات کرنا ہوں گی۔ یہ فرق صرف کپاس کی مقدار کا نہیں بلکہ ویلیو ایڈیشن اور پالیسی ترجیحات کا بھی ہے، بنگلہ دیش کے ٹیکسٹائل شعبے نے عالمی مارکیٹ کے تقاضوں کو بروقت سمجھا، اپنی مصنوعات کے لیے برانڈ ویلیو تخلیق کیںاور بین الاقوامی سطح پر ایک مسابقتی مقام حاصل کیا اس کے برعکس پاکستان کی صنعت نے اپنی توجہ سستی توانائی، گیس اور ٹیکس چھوٹ پر مرکوز رکھی جبکہ کپاس کی تحقیق، کسانوں کی معاونت اور بیج و پیداوار کے مسائل حل کرنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے۔

انہوں نے کہا کہ چیلنجز صرف تکنیکی نہیں بلکہ پالیسی سے جڑے ہوئے بھی ہیں جس پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے ۔

متعلقہ مضامین

  • بھیڑیوں کا معاہدہ امن وبقا
  • ماضی کی غلطیاں، آزاد سوچ کی ضرورت اور فکری خودمختاری
  • ایران اچانک حملے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے، سابق صیہونی وزیر جنگ
  • ویلیو ایڈیشن پر توجہ مرکوز کئے بغیر برآمدات نہیں بڑھ سکتیں ‘ خادم حسین
  • ایمریٹس نے اپنی پروازوں میں پاور بینک ساتھ رکھنے کی پابندی کیوں لگائی؟
  • ’جوانی اب نہیں جانی‘، اماراتی خاتون نے سدا جوان رہنے کا راز بتا دیا
  • جب اپنا بوجھ اتار پھینکا جائے
  • سینیٹر مشتاق احمد، اسیرِ راہِ حق
  • اکتوبر کو چھاتی کے کینسر سے آگاہی کے مہینے کے طور پر منایا جائیگا: آصفہ بھٹو 
  • بھارتی میڈیا جھوٹا، معافی مانگی نہ مانگوں گا، محسن نقوی: کوئی گارنٹی نہیں خواتین کھلاڑی ہاتھ ملائیں، سیکرٹری بھارتی بورڈ